ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ آر ایس ایس کے ایک شخص کو سکھ کسانوں نے حلقے میں لے رکھا ہے ۔ ایک نوجوان سکھ غصّے میں ہے ، اس نے آر ایس ایس کے نمائندے کو کہا ، تم کسان مخالف بھی ہو ، اور ہندو مسلم دنگے کروانا چاہتے ہو ۔تمہاری پوسٹ میرے پاس ہے جس میں تم نے گرو گووند سنگھ کے حوالے سے مسلمانوں کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔ جب تک تم معافی نہیں مانگتے ، تم کو چھوڑا نہیں جائیگا ۔
وہی حکومت ۔وہی تیر مسلمانوں کی طرف ۔ سات برس گزر گئے ۔ ملک پر کارپوریٹ کی حکومت ہو گیی ، حکومت نے کارپوریٹ کے بادشاہوں کے سامنے سر جھکایا ۔ امبانی اور ادانی نے فصلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے شاہی اسٹور کروڑوں کی لاگت سے بنایا اور اب امبانی ادانی کو کسان اور فصلوں پر حکومت کرنے کا انتظار ہے ۔ دلچسپ یہ ہے کہ سکھ کسانوں نے حکومت کو اس طرح بے نقاب کر دیا ہے کہ اب عالمی سیاست کے نقشے میں بھی ہندوستان کی تصویر پوری طرح مسخ ہو چکی ہے
ریلوے بیچا – مسلمان کو ٹارگیٹ بناؤ ۔موب لنچنگ کرو
ایس بی این ایل ، ایئر کرافٹ ، طیارے فروخت کیے ۔۔مسلمانوں کے چار پانچ گھر جلا دو ۔
کسان تحریک میں مسلمانوں کو دھر دبوچو ۔ انکیں کسانوں کا حمایتی نہ بننے دو ۔
مسجد شہید کرو ، وہاں زعفرانی پرچم لہراؤ ۔
یہ کیسی حکومت ہے کہ آپ نے ملک کو فروخت کر دیا اور صرف مسلمان مسلمان کیے جا رہے ہیں ۔ کیا سات برسوں میں بھی مسلمان بولنا نہیں سیکھے گا ، یہ آپ نے کیسے سوچ لیا مسٹر حکمران ؟ الیکشن کمیشن آپ کا ۔ ووٹنگ مشین آپ کی ۔ ریاستیں ساری آپ کی ۔ اور مشن ایک ۔۔مسلمان ۔۔مسلمان ۔۔۔مسلمان ۔
اب تک ہم ایک خوبصورت یوٹوپیا میں جی رہے تھے ۔ لاک داؤن کے بعد پوری دنیا تبدیل ہو گئی ہے ۔ ۔ہندوستان جیسے ممالک خوفناک اندھیرے میں گم کر دیےگئے ہیں ۔اس وقت قیامت کا سماں ہے ۔افراتفری کا بازار گرم ۔
ملک معاشی اور اقتصادی طور پر کہاں کھڑا ہوگا ۔ ہم نہیں سوچ رہے ۔ ہم خوش ہیں کہ بحر ظلمات میں اب بھی گھوڑے دوڑاے جا سکتے ہیں ۔مگر وقت تبدیل ہو چکا ہے ۔ ایک شخص گوولکر کے راستے پر چلتا ہوا پریوگ کر رہا ہے ۔۔ برہمن واد کا قیام ۔۔ مسلمانوں کو ہٹاؤ پھر دلتوں کو یا تو ہٹاؤ یا پاؤں کے نیچے رکھو ۔ کچھ دانشوروں نے اس پریوگ کو سمجھا تو دلتوں اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلے ۔ ہندو بھائیوں نے بھی دیکھا کہ فسطائی طاقتیں مسلمانوں کو بھی کھوکھلا کریں گی ،دلتوں کو بھی ۔ جمہوریت اور آیین کا خاتمہ ہوا تو زندگی مشکل ہو جائے گی ۔وہ بھی کسانوں کے احتجاج میں کود پڑے ۔
گاندھی نے مثال پیش کی تھی ۔ملک بدلو ڈرامہ کا پریوگ شر پسند طاقتوں نے کیا ۔ اور یہ کویی سنجوگ نہیں ۔ اس ڈرامہ کی ریہرسل یہ لوگ ٢٠٠٢ میں کر چکے تھے ۔ ٢٠٠٢ میں میڈیا گجرات حکومت کے خلاف تھی ۔ پریوگ تو کامیاب رہا لیکن ان دو سیاست دانوں کے ذہن میں یہ بات آ گیی کہ یہ پریوگ ہندوستان میں کرنا ہے تو پہلے تخت پر بیٹھنا ہوگا ۔پھر میڈیا کو ہاتھ میں لینا ہوگا ۔ تخت کیسے حاصل ہو ، یہ حساب صاف تھا ۔ پچیس کروڑ مسلمانوں کو الگ کرو اور سو کروڑ کا ووٹ حاصل کرو ۔ مودی نے ٹوپی نہیں پہنی ۔یہ علامت کام کر گیی ۔ ہندو راشٹر کی تعمیر کے لئے مودی کا سکہ چل گیا ۔ لیکن پانچ برسوں میں گجرات جیسا پریوگ آسان نہیں تھا ۔ اسکے لئے سیاست کی دوسری اننگ کی ضرورت تھی ۔ دوسری اننگ کی شروعات ہوتے ہی گجرات ماڈل پوری طرح سامنے آ گیا ۔میڈیا کو خرید لیا گیا ۔ زہر کی کھیتی ہونے لگی ۔ہندوستان سلگنے لگا ۔ فسادات بڑھنے لگے۔ پھر کورونا آ گیا ۔ یہ واقف ہی نہیں تھے کہ کورونا کیا کر سکتا ہے ۔ مسلم مخالفت کو ٹارگیٹ کیا ۔ یہ کھیل چل رہا ہے ۔ مگر اب اس کھیل میں حکومت الجھ گیی بھیانک مندی ۔ پیسا اسدانی امبانی سے لاؤ ۔ورلڈ بینک اب قرض نہیں دیگا ۔ پی ایم کیر کی دولت انتخابات پر خرچ ہوگی ۔پھر کسان سامنے آ گئے ۔ حکمرانوں نے سوچا تھا کہ کسانوں کو خواب دیکھا کر بہلا لیا جاےگا ۔امبانی ادانی کے گودام بھر گئے تو دولت کی کمی نہیں رہے گی ۔ مگر ہائے رے کسان ۔ کسان مورچے پر ڈٹے ہیں اور حکمران مغربی بنگال جا کر کہہ رہے ہیں کہ بہت جلد شہریت قانون نافذ کیا جاےگا ۔یعنی کسان تحریک کو کنارے کرنے کے لئے پھر وہی ہندو مسلمان ۔
ایک آر ٹی آئی کے جواب میں پی ایم او کے سکریٹری پروین کمار نے لکھا،وزیر اعظم شری نریندر مودی شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 3 کے تحت پیدائشی طور پر ہندوستان کے شہری ہیں اور اس طرح کہ ان کے شہریت ہونے کے سوال کے طور پر جو سرٹیفیکیشن رجسٹریشن کے ذریعہ شہریت کے لئے ہے وہ موجود نہیں ہیں۔یعنی پی ایم کے پاس شہری ہونے کے کاغذات موجود نہیں ۔ غیر مسلموں کو بھی ، کسی دستاویز کو دکھانے کی ضرورت نہیں ۔ اور پچیس کروڑ اقلیت اپنے موت کے فرمان پر دستخط کردے ؟
الگزنڈر سولسنٹین کا ناول، گلاگ آرکپلا گو کا ایک منظر ہے۔ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جارہا ہو تا ہے۔ ایک دوسرا شخص آواز دیتا ہے۔ اور اس سے کہتا ہے کہ اسے بس دو منٹ چاہیے۔ بیوی کے ساتھ جو شخص ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہ دومنٹ، 20برس بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی کہ دو منٹ کے بعد اسے اس دنیا سے دور کسی موت کے سیارے میں بھیج دیا جائے— کیونکہ اسے حکومت کے خلاف بولنے کے جرم میں سزا سنائی جاچکی ہے۔ پا کستان میں جب ضیاءالحق کی حکومت تھی تو پاکستانی افسانہ نگار نعیم آروی نے اپنے افسانہ" ہجرتوں کی مسافت" میں کچھ اسی طرح کی وحشت اور کرب کا اظہار کیا تھا۔ سچ پر پابندی تھی۔ بولنا منع تھا۔راگنی ، ساکشی ، کپیل مشرا ، جیسے لوگ گرفتار نہیں ہوتے ، شرجیل اور عمر گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ کنال کامرا اور کتنے ہی کومڈین دل کی بات کرتے ہیں مگر فاروقی گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔ دو قانون ۔ دو انصاف ۔۔ اب ہماری یہ جنگ کسان لڑ رہے ہیں اور کسان حکومت کے خلاف ہر محاز کھول چکے ہیں ۔
ہندستان میں اندرا گاندھی نے١میں ایمرجنسی لگائی تو خوف کا ماحول تھا لیکن احتجاج کرنے والے بھی تھے اور احتجاج کرنے والوں میں میڈیا کا بڑا رول تھا۔ اب میڈیا مر چکی ہے ۔ شاطر سیاست نے تعلیم کے دروازے بند کر دیے اور جہالت کا ہر دروازہ کھول دیا ۔ زعفرانی طاقتوں کے سامنے چیلنج بن کر ابھرنا ہوگا ۔ ایک تصویر اس شخص کی تھی جو گجرات دنگوں میں بھیڑ کو دیکھ کر خوفزدہ تھا ۔ ایک تصویر دلی کی ہے جہاں ایک شخص سجدے میں گرا ہے اور شیطانی طاقتیں اسے روند رہی ہیں ۔ گجرات اور دلی میں فرق اتنا ہے کہ دلی کو ہندوستان کہا جاتا ہے ۔ اور اسی لئے کسانوں نے تحریک کے لئے دلی کو مرکز بنایا ۔ دلی ایک علامت ہے کہ باغی بھیڑ ایک دن ہندوستان کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے ۔ مرگ انبوہ ، مردہ خانے میں عورت ، صحرائے لا یعنی لکھتے ہوئے میں ان مناظر کو نہیں بھول سکتا ۔ ڈراؤنا خواب کانچ کے برتن جیسا ہے ۔ کسانوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے ۔ اب کانچ کے اس برتن کو توڑنے کی باری ہے ۔