موت کیا چیز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کو اس لیے خوفناک رکھاگیاہے کہ اگر اِس کی دلکشی حیاتِ ارضی پر عیاں ہوتی تو حیات کا بقا ناممکن تھا۔ ہرکوئی خوشی سے مرنا چاہتا اور یوں سب ہی مرجاتے۔ میں اکثر کہا کرتاہوں کہ خودکشی کو بھی اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ اگر بفرضِ محال اِس کے برعکس کہہ دیا جاتا کہ ’’خودکشی ثواب ہے یا اس کا اجر ہے یا یہی کہ یہ بہادری ہے اور اچھی چیز ہے‘‘ تو کون جینا چاہتا؟
موت کا نام ہی برا ہے۔ جیسے کالی بلا۔ جیتا جاگتا انسان سیکنڈوں میں خاک ہوجاتا ہے۔ اس کا جسم جو عناصر کا ظہور ترتیب تھا گلنے سڑنے لگتاہے۔ اس سے بدبُو اُٹھنے لگتی ہے اور وہ دنوں میں ڈی کمپوز ہوکر مٹی میں مل جاتاہے۔ جانور ہو یا انسان یہ سب کے ساتھ ہوتاہے اور یوں سب ہی اِس موذی قسم کے فنا سے گھبرائے گھبرائے سے رہتے ہیں۔
مذہب نے البتہ یہ دعویٰ کررکھاہے کہ جسم کی موت واقع ہوجانے سے دراصل موت واقع نہیں ہوتی۔ اس دعویٰ کے حق میں مذہب نے کبھی کوئی حسّی ثبوت پیش نہیں کیا۔ مذہب کے اس دعویٰ کے حق میں سائنس کو بھی کبھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا اس لیے سائنس یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا تسلسل ہوسکتاہے۔
ہرمذہب نے اپنے اپنے رنگ میں مرنے کے بعد کی زندگی کا ذکرکیاہے جو کہ جزیات میں ایک دوسرے سے بہت مختلف لیکن بنیادیات میں تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ ان میں اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ موت کو بھی حیات کی طرح سے تخلیق کیا گیاہے اور یوں گویا موت خود ایک مخلوق ہے جیسے حیات مخلوق ہے۔ موت، زندگی سے اور زندگی موت سے برآمد ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ موت زندگی میں بدل سکتی ہے اور وہی زندگی پھر موت میں بدل سکتی ہے، اور وہی موت پھر زندگی میں بدل سکتی ہے اور زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھی باقی رہ سکتی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر اٹھائیس عجب ہے،
كَيۡفَ تَكۡفُرُونَ بِٱللَّهِ وَڪُنتُمۡ أَمۡوَٲتً۬ا فَأَحۡيَـٰڪُمۡۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيكُمۡ ثُمَّ إِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (٢٨)
ترجمہ: تم خدا سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے (۲۸)
یہ تمام دعاوی حسّی اعتبار سے ناقابلِ تصدیق ہیں۔ فی زمانہ انسان کی آنکھ ’’خُوگرِ پیکرِ محسوس‘‘ ہے بایں ہمہ دورحاضر کا انسان اِن دعاوی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ہوسکتاہے۔ لیکن قران مرنے کے بعد کی زندگی کے یقین کو تقویٰ کے ساتھ جوڑتاہے اور تقویٰ کو ہدایت کی اوّلین شرط قراردیتاہے نہ کہ آخری۔ سورہ بقرہ کی ابتدائی چند آیات میں قران کو متقین کے لیے ہدایت بتایا گیاہے اور متقین ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو غیب پر ایمان رکھتے، صلاۃ قائم کرتے، اپنے حصّے کے رزق میں سے خرچ کرتے، قران پر ایمان لاتے، قران سے پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ سب سے اہم یہ آخری شرط ہے۔ ’’آخرت پر یقین‘‘۔ تو یہ چھ شرائط پوری کرنے والے متقین ہیں اور متقین کے لیے قران ہدایت کی کتاب ہے۔ اب پہلی پانچ شرائط تو ایمان رکھنے کی ہیں لیکن چھٹی شرط یقین رکھنے کی ہے۔ ایمان و یقین میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ایمان لانا یقین کی نسبت اس لیے آسان ہے کہ ایمان اے پری آری علم ہے اور یقین اے پوسٹیری آری یعنی ایمان ماقبل تجربی علم کو کہا جاتاہے اور یقین مابعد تجربی ہوتاہے۔ ایمان ڈیڈکٹِو طریقے سے بھی حاصل کیا جاسکتاہے لیکن یقین کے لیے انڈکٹو طریقہ درکار ہے۔ ڈی ڈکٹِو یعنی استخراجی طریقہ اور انڈکٹِو یعنی استقرائی طریقہ جو کہ نمونے جمع کرنے کا طریقہ ہے اور اِس لیے ممکن نہیں کہ کوئی بھی ذی شعور آخرت کے نمونے جمع کرسکے تاکہ اسے پچاس فیصد سے زائد نمونوں کی موجودگی میں آخرت کا یقین ِ کامل حاصل ہوسکے۔ جیسے ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ہم صبح ضرور بیدار ہونگے اور آفس جائیں گے۔ اسی بات میں ایمان کا فقط اتنا حصہ ہے کہ ’’ہوسکتاہے میں فوت ہوجاؤں اور صبح بیدار نہ ہوسکوں‘‘ کیونکہ یہ میرا ماقبل تجربی علم ہے جس نے مجھے بتایا کہ سقراط اس لیے فانی ہے کیونکہ تمام انسان فانی ہیں۔ اور یہ میرا مابعد تجربی علم ہے کہ میں روزانہ صبح ٹھیک ٹھاک بیدار ہوتا ہوں اور آفس جاتاہوں۔
اب تمام کڑیاں اس طرح ملتی ہیں کہ اسلامی نظریہ کے مطابق موت بھی مخلوق ہے اور اسے بھی باقاعدہ تخلیق کیا گیاہے (سورہ مُلک)۔ دونوں مخلوقات ایک دوسرے سے بھی پیدا ہوسکتی ہیں اور ایک دوسرے میں تبدیل بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ دو الگ الگ آیات ہیں۔ جن میں ایک یُخرِج ُ الحیّ من المیّت والی مشہور آیت ہے اور دوسری میں نے اوپر درج کی ہے، کُنتم امواتاً والی۔ یہ واضح طورپر اِکوئلنس پرنسپل ہے۔ اِکوئلنس پرنسپل کیا ہے؟ مادہ توانائی میں بدل سکتاہے اور توانائی مادے میں بدل سکتی ہے۔ اِسی طرح آئن سٹائن کا جنرل تھیوری میں کام کرنے والا اِکوئلنس پرنسپل بھی ہے کہ کششِ ثقل رفتار(اسراع=ایکسیلیریشن) میں بدل سکتی ہے اور رفتار کششِ ثقل میں بدل سکتی ہے۔ ایسا ہی اِکوئلنس پرنسپل یہاں بھی کام کررہاہے۔ جب کسی ایک ہی شئے کے دو مختلف روپ بیان کیے جارہے ہوں توکہا جاتا ہے ان کے درمیان برابری کا قانون یعنی اِکوئیلنس پرنسپل کام کررہاہے۔
قران ِ پاک میں ہی ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ ’’رُوح‘‘ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ہی رسول ِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا ہے کہ ’’آپ فرمائیں کہ مجھے اس کا علم عطا کیا گیا ہے مگر تھوڑا سا‘‘ کسی چیز کا پورا علم حاصل ہونا استخراجی طریقے سے ممکن ہوتاہے اور کسی چیز کا تھوڑا علم حاصل ہونے کی بات صرف استقرائی طریقۂ کار کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رُوح کا تھوڑا سا علم عطا ہوا تھا وہ استقرائی علم تھا۔ یہ بات نہایت حیران کن ہے۔ استقرائی علم نمونوں کی بنا پر وجود پذیر ہوتاہے۔ یوں گویا رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کو آخرت پر یقین تھا کیونکہ آپ کے پاس رُوح کا قلیل علم موجود تھا۔ اب یہ قلیل کتنا ہوتاہے؟ قلیل کا لفظ یہاں یہ بتانے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے کہ رُوح کے بارے میں جو علم تھا وہ کم تھا۔ لیکن یہ بتانے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے کہ وہ استقرائی تھا۔ نناوے فیصد ہوکر بھی مکمل نہ ہوسکنے والا علم ہی استقرائی علم کہلاتاہے۔ اور اگر قلیل اتنا قلیل ہوکہ پچاس فیصد سے بھی کم تو اسے علم نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو قلیل علم تھا وہ بھی پچاس فیصد استقرائی نمونوں سے زائد نمونوں کی وجہ سے استقرائی اور بایں ہمہ علم تھا۔
غالباً ایسے ہی استدلال کی بنا پر اقبال موت کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے،
فرشتہ موت کا چھُوتاہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتاہے
یا
زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خُودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کرنہ سکے
ہو اگر خود نگرو خود گرو خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مرنہ سکے
خیر! اقبال تو اِس معمہ کو حل کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اس کے لیے باقاعدہ ایک تفصیلی طریقۂ کار وضع کرتے ہیں جسے اقبال کا استحکامِ خودی کا نظریہ کہا جاتاہے۔ اگر ہم اس طرف نکل گئے تو موضوع بدل جائے گا۔ موت کے بعد کی زندگی کے حصول کا طریقہ بتانا گویا کسی سائنسدان کی طرح مفروضہ قائم کرنا ہے۔ اس مضمون میں ہمارا مدعا فقط یہ ہے کہ موت ممکنہ طور پر آخر چیز کیا ہوسکتی ہے؟
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب حساب کتاب مکمل ہوجائے گا تو آخر میں موت کو ایک بھیڑ کی شکل میں لایا جائےگا اور اسے ذبح کردیا جائےگا۔ اس طرح آئندہ موت نہ ہوگی۔ ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے اور خلق الموت والحیاۃ سے بھی یعنی موت بھی مخلوق ہے۔ جبکہ اس تمام بحث میں دلچسپ ترین پہلُو یہ ہے کہ موت یا موت کے بعد کی زندگی کا علم فی الاصل استقرائی سائنس ہے، لیکن اس کا علم بہت ہی اعلیٰ پائے کے صاف ستھرے ذہنوں میں داخل ہوسکتاہے۔ جیسے کسی تجربہ کے لیے برتن کا صاف ہونا ضروری ہوتاہے بالکل ویسے۔ البتہ فزکس کے دونوں مشہور اِکوئیلنس پرنسپلز بھی ایک حد تک اِسی کا استقرائی علم ہی ہیں۔ بطور ِ خاص مادے کا توانائی میں تبدیل ہوجانا اور توانائی کا مادے میں تبدیل ہوجانے کا اِکوئیلنس پرنسپل ایک حد تک یُخرج الحیّ من المیّت ویخرج المیت من الحیّ کے اِکوئیلنس پرنسپل کی ہی ابتدائی شکل ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔