اسرار اور نامعلوم ۔ یہ ہمارے لئے کشش رکھتے ہیں۔ ان پر کہانیاں بنتی ہیں۔ اہرامِ مصر کسی قدیم جدید تہذیب نے بنائے ہیں۔ قبرستان میں سنائی دینے والی آواز آسیب ہے۔ آسمان پر کسی خلائی مخلوق کی اڑن طشتری دیکھی ہے۔ سمندر میں کسی پرسرار وجہ سے جہاز گم ہوتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی بہت سے اور کہانیاں ہماری نفسیات کا حصہ ہیں۔ ہمیشہ سے رہی ہیں، ہر معاشرے میں رہی ہیں اور عالمی کلچر کا حصہ ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی موت کی وادی کے پرسرار پتھروں کی۔
ڈیتھ ویلی امریکی ریاست کیلی فورنیا کی صحرائی وادی ہے۔ اس میں ریس ٹریک پلایا وہ علاقہ ہے جو ایک پرانی اور خشک ہو جانے والی جھیل کی تہہ ہے۔ اس کے درجنوں پتھر اسی قسم کا اسرار رکھتے تھے۔ ان پتھروں کے چلنے پھرنے کے نشان یہاں موجود ہیں اور ڈیڑھ ہزار فٹ تک کے نشان بھی موجود ہیں لیکن کبھی بھی کسی نے ان کو چلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ ہمیشہ ساکن رہتے تھے، پھر یہ نشان کہاں سے آئے۔ لمبے نشان جو کبھی سیدھی لکیر کی صورت میں تھے، کبھی خم کھائے ہوئے، کبھی ایسے جیسے چلتے وقت کسی نے موڑ کاٹ لیا ہو۔ جو پرسرار ہو جاتا ہے، اس پر کہانیاں بن جاتی ہیں۔ چلتے پھرتے پتھروں کی بھی داستانیں بنیں۔ سائنسدان اس کا جواب دینے سے قاصر رہے۔
توانائی کے پرسرار اور انجانے فیلڈ یا پرسرار مخلوق جیسی کہانیوں سے آگے بڑھ کر وضاحت کرنے کی پہلی کوشش 1948 کے دو جیولوجسٹس نے کی۔ مک ایلسٹر اور ایلن ایگنیو نے تجویز کیا کہ یہاں پر بارش کا پانی کھڑا ہو جاتا ہے، اس وقت چلنے والے طوفان ان کو ہلا سکتے ہیں۔ چار سال بعد اس پر کیا گیا تجربہ جو جہاز کے پنکھوں کی مدد سے کیا گیا تھا، مثبت یا منفی نتائج نہ دے سکا۔ طوفانوں کی ایک اور تجویز بھی وضاحت نہیں کرتی تھی۔ کئی پتھر تین سو کلوگرام تک وزنی تھے۔
ستر کی دہائی میں رابرٹ شارپ اور کیری نے کئی برسوں کا وقت اور محنت لگائی اور ان پر تجربات کئے۔ یہ برف پر کئے گئے تھے۔ انہوں نے کئی سالوں میں تیس پتھروں کی حرکت نوٹ کی۔ کیا ان کو برف ہلاتی ہے؟ اس کا تجربہ کرنے کے لئے انہوں نے پھر پتھروں کے گرد لکڑی گاڑی۔ کچھ پتھر پھر بھی حرکت کر گئے۔ آئس شیٹ تھیوری غلط ثابت ہو گئی۔
پھر اس کا جواب ڈھونڈنے میں ہمیں زمین سے باہر سے مدد لینا پڑی۔
ناسا کے سائنسدان رالف لورینز کو اس وادی پر تحقیق میں دلچسپی تھی کیونکہ اس کی سطح زحل کے چاند ٹائٹن سے مشابہہ ہے۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے ان پتھروں کے راز سے پردہ اٹھانے کی ٹھانی۔ پہلا تجربہ انہوں نے اپنی لیبارٹری میں سیٹ کیا۔ دوسری طرف کچھ پتھروں پر جی پی ایس ٹریکر نصب کیا اور ان کا راز پا لیا۔
سرد رات میں پتھروں کے گرد نمی جم جاتی ہے۔ برف کی بہت پتلی سی تہہ زمین پر اور پتھروں میں آپسی فرکشن کو بہت ہی کم کر دیتی ہے۔ اس دوران چلنے والی ہوا بآسانی پتھروں کو سرکا دیتی ہے اور تیز ہوا بڑے فاصلے تک ایسا کر سکتی ہے۔ چونکہ تہہ باریک ہے، اس لئے یہ حرکت خشک کیجڑ پر نشان چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ اس تجربے نے آئس رافٹ تھیوری کو ٹھیک ثابت کر کے بڑی حد تک اس کے اسرار کی وضاحت کر دی۔ لورینز اور ان کی ٹیم نے ۲۰۱۱ میں اپنا پیپر شائع کیا۔ ہوا، پانی، برف اور وقت۔ ان کا ٹھیک ملاپ ان نشانوں کا راز تھا۔
اس وادی میں آنے والے کچھ سیاح ابھی بھی ان سے منسلک پرسرار کہانیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں کے گائیڈ وان والکن برگ کے الفاظ میں، “لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ ہلتے کیوں ہیں۔ جب آپ جواب کی کوشش کریں تو ہر کوئی جواب نہیں سننا چاہتا۔ کئی لوگ اسرار پسند کرتے ہیں۔ ایسے سوال چاہتے ہیں کہ جن کے جواب نہ ہوں۔”
موت کے وادی کے ان پتھروں کے راز کا تو ہمیں بڑی حد تک علم ہو گیا۔ اس دنیا میں ابھی بہت، بہت کچھ جاننا باقی ہے۔
شاید جو بات پرسرار رہے، وہ یہ کہ ایک غیرآباد صحرائی وادی میں کچھ نشان دیکھ کر ہم ان کے راز سے پردہ اٹھانے کے لئے اتنی محنت کیوں کرتے ہیں۔ اپنی زندگیاں کیوں صرف کر دیتے ہیں۔ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے؟ باز کیوں نہیں رہتے؟ دوسرا یہ ہم میں سے اکثر کو پرسرار چیزیں اور پرسرار وضاحتیں اس قدر پسند کیوں ہیں؟ یہ عالمی کلچر کا حصہ کیوں ہے:
موت کی وادی کے پرسرار پتھروں کی یہ کہانی ان پتھروں سے زیادہ ہمارے اپنے اسرار کی کہانی ہے۔