(Last Updated On: )
سائنس آپ کو ہمیشہ تو زندہ نہیں رکھ سکتی لیکن یہ آپ کو مرنے کے بعد قیمتی ضرور بنا سکتی ہے۔
قدرتی ہیرے ایک سو پچاس میل زمینی تہ کے نیچے کم از کم ایک مہینے تک شدید دباؤ اور ٹمپریچر میں بنتے ہیں اور پھر ہزاروں سالوں بعد کوئی آتش فشاں انکو زمین سے باہر لا پھینکتا ہے جہاں انسان ان کو تلاش کر کے اور قیمتی جانتے ہوئے محبت کی نشانی کے طور پر ہمیشہ کے لئے امر کر دیتے ہیں۔
جنرل الیکٹرک نامی کمپنی نے 1954ء میں پہلی مرتبہ لیبارٹری میں شدید ٹمپریچر اور دباؤ کی مصنوعی کیفیت پیدا کر کے کاربن کو ہیرے کی شکل میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ۔ انسان کے تیار کردہ یہ ہیرے 1980ء میں خرید و فروخت کے لئے مارکیٹ میں موجود تھے ۔
انسان میں خوب سے خوب تر کی جستجو اور جدید سائنس کے استعمال سے کچھ کمپنیوں نے مردہ انسانوں کی راکھ سے کاربن کو ہیروں کی شکل میں ڈھالنے کا کام شروع کر دیا ہے اور مرنے والوں کے لواحقین نہ صرف اپنے پیاروں کو قیمتی ہیرے کی شکل میں اپنے سینے سے لگا سکتے ہیں بلکہ انگوٹھی بنا کر پہن بھی سکتے ہیں۔
ذرا سوچئے کہ کوئی شخص اپنی نانی یا دادی کی خاندانی انگوٹھی کی بجائے اپنی محبوبہ کو محبت کی نشانی سیدھا نانی یا دادی کی صورت میں ہی پکڑا دے ۔ جی ہاں یہ اتنا ہی عجیب ہے لیکن انسان بذات خود بھی تو عجیب تر ہے ۔
انسانی جسم آکسیجن، ہائیڈروجن ، نائٹروجن اور کاربن کے چار مرکبات سے مل کر بنا ہے جس میں سے تین گیسیں ہیں جن کو جلا کر کاربن کی بھاری مقدار پیدا کی جا سکتی ہے اور مزید اسکو کسی قیمتی ہیرے کی شکل دینا بالکل ممکن ہے ۔ مردہ جسم کی راکھ کو لیب میں دو بھاری پلیٹوں کے درمیان ہائی ٹمپریچر پر ایک کرسٹل کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے اور یہ ہیرا بالکل کسی سمندری سیپ میں موجود موتی کی طرح ہوتا ہے ۔
ایسی بہت سی کمپنیوں میں سے ایک آسٹن ٹیکساس میں موجود Eterneva نامی کمپنی ہے جو کہ اپنے کسٹمرز کو ان کے پیاروں کی موت کے بعد ایک قیمتی ہیرے کی شکل میں پیش کر دیتی ہے ۔ یہ کمپنی اپنے کسٹمرز کو ہیرے کے سائز ، رنگ اور شیپ تک میں انکی مرضی کی سروس مہیا کرتی ہے ۔ پیلے رنگ کا ہیرا کچھ مزید نائٹروجن شامل کر کے بنایا جاتا ہے اور اگر اسکو بے رنگ رکھنا ہو تو لیب میں اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ ہوا سے کوئی بھی اضافی نائٹروجن مرکب اس کرسٹل میں شامل نہ ہونے پائے ۔ اسی طرح ترکیب میں بورون شامل کر کے قیمتی ہیرے کو نیلے رنگ کا کر دیا جاتا ہے اور اسی طرح کسٹمرز کی ڈیمانڈ کے مطابق سرخ ، سبز اور سیاہ رنگ کا پتھر بھی بنا کر دیا جاتا ہے ۔ سرخ ہیرے کو مہیا کرنے میں کمپنی تین ہفتے جبکہ ایک سیاہ قیمتی ہیرے کے لئے دو مہینے کا وقت لیتی ہے اس دوران شعائیں گزار کر اس پتھر کو ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ وہ مطلوبہ رنگ منعکس کرنے لگتا ہے اور کسٹمرز کی پسند اور خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے ۔
کمپنی کی سی ای او ایڈیلے آرکر کا کہنا ہے کہ ہیرے کی بناوٹ اور تشکیل کو دیکھنے کے دوران مرنے والے کے خاندان کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر پروسیس کے دوران خاندان والوں کو ورچوئل ٹریکنگ اور فائنل پروڈکٹ گھر پہنچانے کی سروس بھی مہیا کرتے ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ اس سارے عمل کے دوران صرف مرنے والے کی یاد نہیں بلکہ وہ خود بھی گھر والوں کے ساتھ رہ جاتا ہے اور اس سے لواحقین کے لئے اپنے پیاروں کے غم سے نکلنا آسان ہو جاتا ہے ۔
کمپنی کی مالک کے اس دعوی کے بعد ماہر تھیراپسٹ کینڈی کین ایٹرنیوا کمپنی کے کسٹمرز کے دکھ کو نارمل ہونے کے تجربات کے ثبوت اکٹھے کر رہی ہیں ۔ اس ریسرچ کے نتائج کے بعد مرنے والے کو ایک ہیرا بنا کر پہن لینے سے اس کے لواحقین پر اس صدمے کا نفسیاتی اور جذباتی اثر واضح ہو جائے گا ۔
ہمیشہ سے ہی مرنے والوں کے زیورات انکے ساتھ جذباتی وابستگی کا ثبوت بن کر رہ جاتے ہیں۔ Eterneva کمپنی زیادہ تر ہیرے ان لوگوں کو بنا کر دیتی ہے جن کے پیاروں کے جانے سے انکی زندگی خالی ہو کر رہ جاتی ہے ان میں کمپنی کے کسٹمرز کے محبوب بیٹے ، بیٹی ، خاوند یا بیوی شامل ہوتے ہیں جن کی جسمانی راکھ کو ہیروں کی شکل میں انکے محبت کرنے والوں کو تحفہ دے دیا جاتا ہے اور یقینا کمپنی اس کے بدلے میں ایک بھاری رقم اپنی فیس کے طور پر بھی وصولتی ہے ۔ ایک لڑکی جو کہ اپنے والد کے ساتھ اپنی شادی کے سٹیج پر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی اسکے والد کی اچانک موت کے بعد کمپنی نے جب اسکو ہیرے کی شکل میں اس لڑکی کو پیش کیا تو لڑکی نے اس ہیرے کو اپنی شادی کی انگوٹھی میں سجا کر ہمیشہ کے لئے اپنے والد کو اپنی اس یادگار تقریب کا حصہ بنا لیا ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک راکھ دان کی صورت میں اپنے پیاروں کو کسی شیلف پر سجانے یا الماریوں میں رکھنے سے بہتر ہے کہ انکو اپنے دل کے قریب ہمیشہ کے لئے سینے پر سجا لیا جائے ۔
کچھ روایتی جیولرز نے اس آئیڈیا کی شدید مخالفت کی ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ تمام پروسیس صرف ایک دھوکا ہے اور اس طرح حاصل ہونے والے ہیرے میں صرف دس فیصد کاربن انسانی راکھ سے نکالا جاتا ہے اور باقی کا نوے فیصد کاربن کے عام سٹاک میں سے شامل کر لیا جاتا ہے ۔
باربرا میکلسٹر یونیورسٹی آف ٹیکساس کی گریجویٹ اپنے ساتھی کو ایک ہیرا بنا لینے کے لئے فورا رضامند ہو گئی اس کا خیال تھا کہ دکھی صورتحال سے کچھ دلکش نکل آئے تو یقینا یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے لیکن جب اسکو پتہ چلا کہ ہیرے میں اس کے ساتھی کا صرف دس فیصد شامل ہو گا تو اس نے فورا اپنا ارادہ بدل لیا اور ہیرے کا آرڈر کرنے کی بجائے اپنے ساتھی کی شرٹ کو اسکی یاد کے طور پر سنبھال رکھنا زیادہ بہتر تصور کیا اسکا کہنا تھا کہ اگر پچاس فیصد ہیرا انسانی کاربن سے بنا ہوتا تو وہ اس کے لئے رقم ادا کرنے کو تیار تھی لیکن صرف دس فیصد کے لئے بالکل نہیں۔
چونکہ لیب میں پہلے سے موجود کاربن کے ساتھ ملا کر ہیروں کی تشکیل کی جاتی ہے اسلئے Eterneva میں آٹھ مختلف ہیرے بنانے کے لئے صرف آدھا کپ انسانی راکھ کی ضرورت پڑتی ہے جن کی قیمت تین ہزار ڈالر سے اوپر ہوتی ہے ۔ دوسری کمپنیاں جن میں اٹلانٹا میں موجود سینٹ ڈائمنڈز اور سویس کمپنی لونیتے شامل ہیں بھی ایسی سروسز دیتی ہیں اور اس کے لئے صرف بالوں کے چند گچھوں سے ہی دس فیصد کاربن حاصل کر لیتے ہیں۔ سوشیالوجی اور مذہبی امور کے ماہر پروفیسر ٹم کیوپری کا کہنا ہے کہ یہ ان مذاہب کے لئے ممکن نہیں جن میں مردوں کو جلانے کہ رسم نہیں ہوتی جیسا کہ کیتھولک چرچ نے 1963ء تک میت کو جلانے والوں کو مذہب سے خارج کر دیا تھا ۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ ذاتی طور پر اس کو یہ آئیڈیا بالکل بھی پسند نہیں آیا اور کبھی بھی اپنے ساتھی کو جلا کر اسکی راکھ سے ہیرا نہیں بنانا چاہے گا کیونکہ اسکا خیال ہے کہ چیزوں سے نہیں انسیت تو انسانوں سے ہوتی ہے اسکی بیوی نے اپنی شادی کی انگوٹھی کھو دی جس سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔
زیادہ حساس کسٹمرز کے لئے چونکہ وبا کے دنوں میں میت سوزی کے طریقوں میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں اور ہیرے میں انسانی کاربن کی مقدار میں کمی اور ایکو فرینڈلی میت سوزی میں تابوت اور اسکو خوشبو لگانے کے لیے کیمیکلز کے استعمال کی مخالفت کے ساتھ ساتھ میت کو جلا کر کاربن بنانے کی طرف بھی سوچ کا انداز بدل گیا ہے اور کمپنی کا تو یہ خیال ہے کہ جب تک آپ اپنے پیارے کی میت کو ہیرے کی شکل میں تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کر لیتے یا اتنی رقم نہیں جمع کر پاتے تو اس وقت تک کسی گلدان میں راکھ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور یہ میت کو کیمیکلز لگا کر پھر زمین میں دفن کرنے سے بہتر ہے کیونکہ ہیرا بنا دینے میں ایک گھریلو ائیر کنڈیشنز جتنے یونٹ انرجی کا استعمال ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کے لئے میت کو جلانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس میں ہوا میں آلودگی بھی شامل ہوتی ہے اور پھر انرجی کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔ اگرچہ یہ ایک لمبی بحث ہے اور لوگوں کے لئے اپنے پیاروں کو ہیروں کی شکل میں محفوظ کرنے کا فیصلہ کرنا اتنا جلدی ممکن نہیں ہوا کرتا لیکن سائنس نے تو موت کی تاریکی کو ہیروں کی چمک سے ضرور بدل
دیا ہے جو یقینا حیران کن ہے ۔۔