بارشوں کے شروع ہوتے ہی موسم انتہائی خوشگوار اور دلکش ہوگیا، خدا کی قدرت ہے کہ جیسے ہی اس تپتی گرمی میں آسمان پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں سے کچھ بوندیں ٹپکیں تو ہر طرف خوشگواری کا احساس پیدا ہوا، بے شک بارش اللہ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے ہمیں اس پر شکرگزار ہونا چاہیے، اس طوفانی گرمی کے بعد مون سون کی بارشیں جہاں ایک خوبصورت احساس پیدا کررہی ہیں وہیں پرطوفانی بارشوں نے ملک بھر میں اور خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا نظام درہم برہم کردیا ہے، جہاں پر سیلاب، نکاسی آب کا ناقص سسٹم اور گندے نالوں کے بہنے سے دیگر مسائل سرفہرست ہیں، وہیں پراس کی وجہ سے مختلف قسم کی وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ بھی اس موسم میں زیادہ ہوتا ہے، پانی میں پیدا ہونے والے مختلف بیکٹیریا موسم برسات میں بہترین نشوونما پاتے ہیں، جو کہ مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں اور یہ بیماریاں بہت سارے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ وبائی شکل اختیار کرسکتی ہیں، عموماًموسم برسات کی بیماریوں کے بارے میں عوام الناس کو آگاہی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ کوئی احتیاطی تدابیر نہیں اپناتے اور اس طرح کی وبائی امراض کی تشخیص میں دیر ہونے کی وجہ سے پیچیدگیاں بنتی ہیں ہمیں چاہیے کہ اس کے بارے میں عوام تک آگاہی پہنچانے کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر پر بھی عمل کرنے کی تلقین کریں۔تاکہ وبائی امراض کی زد سے بچا جاسکے۔ان بیماریوں میں وبائی نزلہ زکام، ملیریا، ٹائیفائیڈ، ڈینگی بخار،ہیضہ ، ہیپاٹائٹس اے،جلدی امراض اور آنکھوں کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔
وبائی نزلہ مون سون کی ایک عام بیماری ہے جو کہ ایک وائرس “انفلوئنزہ”کی وجہ سے ہوتا ہے،اس لیے یہ کھلی ہوا میں باآسانی ایک فرد سے دوسرے میں منتقل ہوجاتا ہے،اور ناک،گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے۔اچھی غذاء کے ساتھ ساتھ منہ اور ناک کو ڈانپ کر رکھنا چاہیے۔
ملیریا بخار بھی اس موسم کی بیماری ہے اور بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے، ملیریا گندے پانی میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر ‘انوفیلیس’کی وجہ سے ہوتا ہے، مون سون کی بارشوں کی وجہ سے چونکہ اس مچھر کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے آس پاس گندے پانی کا ذخیرہ نہ ہونے دیں ملیریا کی علامات میں تیز بخار، جسم کا ٹھنڈا رہنا، جسم اور سر درد، پسینہ آنا شامل ہیں اگر اس کا علاج بروقت نہ کیا جائے تو جگر اور گردوں کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، لہٰذا احتیاطی تدابیر کے طور پر مچھر دانی کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ جسم کو ڈھانپنا چاہیے۔
ٹائیفائیڈ بخار ٹائیفائیڈ بھی اسی طرح آلودہ پانی اور خوراک میں پائے جانے والے بیکٹیریا “سلمونیلا ٹائفی”کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کی علامات میں تیز بخار، جسم درد، پیٹ کا خراب ہونا، سردرد اور قے شامل ہیں۔ اس بیماری کی خطرناک بات یہ ہے کہ علاج ہونے کے باوجود یہ جراثیم پتے میں رہ جاتا ہے، اور اکثر ایسے مریض ہمیشہ جسم کے تھکاوٹ وکمزوری کی شکایت کرتے رہتے ہیں، ایسے میں انہیں انٹی بائیوٹیکس کی بجائے، متبادل ادویات یعنی اس کیلئے ہومیوپیتھک ادویات استعمال کرنی چاہیے جو کہ نہایت مفید اور اس بیمار ی کے ساتھ ساتھ اس کی وجہ سے لاحق دیگر مسائل کو بھی ختم کردیتی ہے،احتیاطی تدابیر نہایت ہی ضروری ہے کہ ہم صفائی کا خاص خیال رکھیں، صاف پانی یعنی ابال کر استعمال کرنا چاہیے، ہاتھوں کو صابن سے دھونے چاہئے، باہر کے مضر صحت خوراک کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔
ڈینگی بخار ڈینگی بخارایک وائرس کے وجہ سے ہوتا ہے جسے پھیلانے میں “ایڈیس ایگیپٹی” مچھر اہم کردار ادا کرتا ہے، یہ مچھر صبح اور شام کے وقت انسان کو کاٹتا ہے،ڈینگی بخار کو ریڑھ کی ہڈی کا بخار بھی کہا جاتا ہے اس کیعلامات میں جسم کا ٹوٹنا،ہڈیوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد،اور بخار کے ساتھ جسم پر سرخ نشانات ظاہر ہونا شامل ہیں، اس کے علاج کیلئے ابھی تک کوئی انٹی وائرل دواء نہ بن سکی، اسی لئے پین کلر ادویات جن میں پیراسیٹامول کا استعمال شامل ہیں، دوسری طرف متبادل ادویات کے طور پر ہومیوپیتھک ادویات میں ڈینگی بخار کیلئے بہترین ادویات موجود ہیں جس سے نہ صرف اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس بیماری کی خطرناک سٹیج جس میں پلیٹلیٹس کی کمی ہوجاتی ہے، وہ بھی بڑھائے جاسکتے ہیں، ادویات میں، یوپیٹوریم پرپ، رسٹاکس،کروٹیلیس جیسی بہترین ادویات شامل ہیں۔ اس کی احتیاتی تدابیر میں مچھروں سے بچاؤ کی ممکنہ کوشش کرنی چاہیے، مچھر دانی کا استعمال،اور پانی کو کسی بھی جگہ کھڑا نہیں ہونے دینا چاہیے، تاکہ مچھروں کی پیداوار کو روکا جاسکے۔
ہیضہ ہیضہ بھی اس موسم کے خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے، یہ بھی کچھ بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے جو کہ خراب گلے سڑے کھانوں، گندے پانی اور صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پھیلتے ہیں، علامات میں درد کے ساتھ پتلا پاخانہ اور بار بار قے آنا شامل ہیں جس کی وجہ سے انسانی جسم میں (نمکیات) کی بہت کمی ہوجاتی ہے اس لیے ہیضے کے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ کمزوری غالب نہ آسکے اس کے علاوہ مریض کو بار بار او. آر. ایس،(ORS) پانی میں گھول کر پلانا چاہیے جو جسم میں پانی کے ساتھ ساتھ نمکیات کا توازن برقرار رکھتا ہے ہیضے سے بچاؤ کے لئے صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے،صاف پانی،صاف اور تازہ خوراک کا استعمال کرنا چاہیے۔
ہیپاٹائٹس اے یعنی پیلا یرقان، بھی خطرناک وبائی بیماریوں کے گروپ سے ہے جو جگر میں انفیکشن پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے آلودہ پانی،خوراک،پھلوں اور سبزیوں پر بیٹھنے والی مکھیاں نہ اس بیماری کی وجہ بنتی ہیں بلکہ اس بیماری کو پھیلانے میں بھی اہم کردار اداکرتی ہے علامات میں، آنکھوں، جلد اور پیشاب کا پیلا ہونا (جسے جوانڈس یا پیلا یرقان بھی کہا جاتا ہے)، معدے میں درد، بھوک کا ختم ہونا، متلی ہونا، بخار اور پتلے پاخانے آنا شامل ہیں۔اکثر یہ بیماری چند دنوں کے پرہیز سے ہی بہتر ہوجاتی ہے لیکن خطرے کی صورت میں ہیپاٹائٹس اے کے حفاظتی ٹیکے لگوائے جاتے ہیں جبکہ ہومیوپیتھک ادویات میں بھی اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے بہت ساری ادویات استعمال کروائی جاتی ہیں جو کہ نہایت ہی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ہیپاٹائٹس اے سے بچاؤ کے لئے صفائی،تازہ اور صاف خوراک کا استعمال کرنا چاہیئے۔
جلدی امراض سیلاب اور بارش زدہ علاقوں میں پھوڑے پھنسیاں اور خارش کے امراض پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے،۔ جسم پر خارش ہونے کی صورت میں کھجانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہاس سے زخموں میں جراثیم منتقل ہو کر پھوڑوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خارش کی بیماری ہونے کی صورت میں گھر میں دوسرے صحت مند افراد کی چیزیں استعمال نہ کی جائیں۔
آنکھوں کی بیماریاں اسی طرح مون سون کی بارشوں کی وجہ سے مختلف قسم کے آنکھوں کی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔جیسے آنکھوں کی سوجن، خارش،جلن اور ان سے پانی بہنے کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو بارش اور تالابوں کے گندے پانی میں نہانے سے سختی سے منع کیا جائے۔ آنکھوں کو دن میں کئی مرتبہ صاف پانی سے دھونا چاہیے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...