(Last Updated On: )
کچھ برس اُدھرکا ذکر ہے۔ لندن میں ہرسال گیارہ نومبرکو وکٹوریہ پارک میں منعقد ہونے والی ریمیمبرینس ڈے کی تقریب میں شرکت کے بعد میں اپنے کوٹ کے کالرکا پوپی دان کرنے میں ماؤنٹ پلیزینٹ کے گورستان پہنچا لندن انٹاریوکےڈاؤن ٹاؤن سےکوئینز ایونیوپکڑیں تو دریائےٹیمزکراس کرتی ریورسائیڈڈرائیو سیدھاقبرستان لا اتارتی ہے
ماؤنٹ پلیزینٹ کےگورستان میں ایک نسبتاً گنجان قطعےمیں مانوس یکساں کتبوں کی قطار آپکااستقبال کرتی ہے
یوں جیسےفوجیوں کا ایک دستہ ہوشیارحالت میں ملٹری فارمیشن میں ایستادہ ہو پتھرمیں کندہ ایک نمایاں صلیب یا پھر رجمنٹ کریسٹ
نیچےچند سطروں میں نمبر، نام، یونٹ اور تاریخ اور کہیں مقام وفات
وہ راولپنڈی کی ہارلےسٹریٹ کےعقب میں سی ایم ایچ کا پڑوس ہو یا لندن میں ریورسائیڈڈرائیو پرماؤنٹ پلیزینٹ کاگورستان دولت مشترکہ کےجنگی قبرستان ہو بہو ایک جیسا نقشہ رکھتے ہیں اب چونکہ لندن انٹاریواورراولپنڈی میں جنگ عظیم نہیں لڑی گئی تو ان گورستانوں میں دفن وہ حاضرسروس یا ریٹائرڈ فوجی ہیں جو محاذ سےدورطبعی یا غیرطبعی موت کا شکاربنے
صاحبو جوانمردی کےقصیدےاپنی جگہ مگرکہہ لینےدیجیےکہ محاذ پرکام آنےوالےاپنے ساتھیوں کےمقابلےمیں یہ ایک آسان اور سہل موت تھی نومبرکی اس منجمد سویر ان نفیس کتبوں پرلکھے اتنے ہی نفیس ناموں کوپڑھتےہوئےیکبارگی فرانس کےخوبانی کےپھولوں سےلدے ایک گورستان میں نعیم اورمہندرسنگھ کامکالمہ یادداشت کےپردے پرطلوع ہوا
اپنےپڑھنےوالوں کی یاددہانی کوبتاتےچلیں کہ یہ دونوں عبداللہ حسین کےلافانی ناول اداس نسلیں کےکردار ہیں جنگ عظیم اول کےمحاذ پر بہت ساراخون اور بہت ساری موت دیکھ لینے کے بعد فرانس میں اچانک ملتےہیں تو مہندرسنگھ نعیم سےنفیس کتبوں اورانکے نفیس ناموں کو مخاطب کرکے کہتا ہے
[یہ جگہ مجھے پسندہے۔ یہاں شریف اور دیانت دارلوگ دفن ہیں۔ ان کے کتبے، ان کے نام،ان کی تاریخیں … یہ چوہوں کی طرح ، بددیانتی کی موت نہیں مرے۔ وہ موت میں نے دیکھی ہے۔ اپنا اپنا مقدرہے۔]
عبداللہ حسین کی اداس نسلیں کا مرکزی کردارنعیم فی الوقت نمبر۱۲۹ بلوچی ڈیوک آف کناٹس اون کا سپاہی ہے
اوائل اکتوبرکی ٹھنڈ ہے اور بیلجیم کے قصبے ہولی بیک کی قربت میں مورچوں کا شہر آباد ہے عبداللہ حسین کوجاننےوالےجانتے ہیں کہ اپنے ناول کےفیلڈ ورک کے لیےان کی صوبیدارخداداد خان، وکٹوریہ کراس سے ملاقاتیں رہیں تھیں
خداداد خان کو بہادری کا سب سے اعلیٰ تمغہ ہولی بیک کے محاذ پر ملاتھا
تو صاحبو عبداللہ حسین کا قلم جب مورچوں میں جنگ کی تصویر کھینچتا ہے تو ہم جانتےہیں کہ بیلجیم سےنعیم کےلفظوں کی چادر اوڑھےخداداد خان ہم سےہمکلام ہے
[ساری کی ساری کمپنی منہ کےبل زمین پر آرہی
گولیوں کی دوسری بوچھاڑآئی۔ تیسری ان کےجسموں سےدوانچ اوپرسیٹیاں بجاتی ہوئی گزری
انتہائی دہشت کےمارےپہلےانہوں نےچھوٹےچھوٹےپتھروں کےپیچھےسرچھپانےکی سعی کی پھرزمین میں سرگاڑے، لیکن دشمن کےصحیح اوربھاری فائرکے سامنےانہیں پسپاہوناپڑا
مٹی اورکنکران کےنتھنوں میں گھس رہےتھےاوروہ زخمی سانپوں کی طرح لیٹےالٹے پاؤں رینگ رہےتھے
نعیم کا ایک آدمی گولی کےزبردست دھکےسےکمانی کی طرح سیدھا پاؤں پرکھڑاہوگیااورلٹوکی طرح تیزی سےگھومتاہواخندق میں جاگرا خندق میں پہنچ کر انہوں نے مشین گنیں نصب کیں اور پیٹیاں چڑھا کر کیپٹن ڈل کی تیزغصیلی آواز کےمطابق فائرکھول دیا
زخمی سپاہی دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو پکڑے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ ’پانی‘ اس نے خوفناک غیرانسانی آواز میں کہااور جھک گیا]
صاحب عبداللہ حسین کےقلم کو منظرنگاری ودیعت ہوئی ہے ان چند لفظوں میں محاذ کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھ لینے کے بعد ہم ماؤنٹ پلیزینٹ اور ہارلے سٹریٹ کے نفیس کتبوں کی طرف پلٹتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ واقعتاً شاید یہ ایک سہل اوردیانت دارموت تھی
عبداللہ حسین کے ملٹری کراس والانعیم اور ہمارا خداداد خان ہولی بیک بیلجیئم سےزندہ پلٹ آئے تھے خداداد خان ان پہلے دو ہندوستانیوں میں سے ایک ہیں جنہیں بہادری کا سب سے بڑااعزاز وکٹوریہ کراس دیا گیا۔ منڈی بہاؤالدین سے جو روڈ سرگودھا کونکلتی ہے وہاں چک نمبر۲۵ کے قبرستان میں ایک نفیس کتبہ خداداد خان کی کہانی سناتاہے۔
ہمارے پڑھنے والے خداداد خان وکٹوریہ کراس کی کہانی مانی جنکشن کے صفحوں پر پڑھ سکتے ہیں
https://t.co/7j1vLWvZ2x?amp=1