فلمی صنعت کے معروف شاعر و نغمہ نگار موج لکھنوی ڈیلس، ٹیکساس امریکہ کے ہسپتال میں 10 روز زیر علاج رہنے کے بعد 24 اکتوبر 2018، بروز بدھ انتقال کرگئے ۔ان کی عمر 80 برس تھی ۔
موج لکھنوی کا اصل نام سید انتظار حسین زیدی تھا۔ وہ لکھنو { یوپی} بھارت پیدا ہوئے۔ وہ 1948 میں اپنے کنبے کے ہمراہ نقل مکانی کرکے کراچی آگئے۔ جب ان کو ۔شاعری کا شوق ہوا تو مجروح سلطان پوری کے گیتوں نے انھیں بڑا متاثر کیا اور شاعری میں یہ مجروح سلطان پوری کو ہی اپنا روحانی استاد کہتے تھے۔
موج لکھنوی کے والدین کی بھی یہ خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک انجینئر بنے ۔ موج لکھنوی بڑے محفل باز تھے۔ بہترین لطیفہ گو تھے۔ ان کے پاس کوئی بور ہوتا تھا۔ ان کت فقرے بازی بھی بڑی نفیس اور ادبی مزاج کی ہوتی تھی۔
اور اسی غرض سے انھوں نے میڈیکل ڈرافٹس مین کا ڈپلومہ بھی حاصل کرلیا مگر یہ اپنے ڈپلومے سے مطمئن نہیں تھے۔ پاکستان میں میں انھون نے صحافت کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ اور ہفت روزہ " شاھجان" اور، " نورجہاں" اور ماہنامہ " فلمستان" میں بھی لکھتےتھے۔ انھوں نے حبیب سرحدی کی ہدایت کاری میں بنت والی فلم " تم نہ مانو" مکالمہ نویسی سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ مرحوم نے لاتعداد فلموں کے لئے کئی شہرہ آفاق گیت لکھے ۔ موج لکھنوی کو پہلی بار فلم ’’مسٹر ایکس‘‘ میں گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اور ان کا لکھا ہوا پہلا گیت ریڈیو کی اس وقت کی مشہور گلوکارہ نسیمہ شاہین کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔
جس کی موسیقی ریڈیو ہی کے ایک موسیقار جوڑی لال محمد اقبال نے مرتب کی تھی۔ گیت کے بول تھے: ’’میں دل کے تار چھیڑوں اور جھوم جھوم گاؤں‘‘ فلم کے دیگر گیت بھی لکھے جوش، ہیڈ کانسٹیبل، وقت کی پکار، مانگ میری بھردو، پیار کا موسم مگر ’’ہیرا اور پتھر‘‘ جو وحید مراد نے بنائی تھی۔ ان کی مشہور فلمیں ہیں۔ ۔ان کو سید کمال ، نسیمہ شاہین، مقصود ملک { گولہ والا} اور لہری کی سپُر ہٹ فلم ’’روڈ ٹو سوات‘‘کے گیتوں سے ملی اس فلم کا ایک گیت ’’چلے ہیں دل والے روڈ ٹو سوات‘‘آج بھی زبان زد عام ہے ۔ان کا ایک جملہ ’’چائے چاہیے کون سی جناب لپٹن عمدہ ہے ‘‘آج بھی لوگوں کو یاد ہے" روڈ ٹو سوات" ۔ منوررشید نے بنائی تھی جو ۔ سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید کے والد تھے۔۔ موج صاحب فلم میں مستقبل بنانے کے لیے لاہور بھی گئے مگر وہ وہاں اپنے آپ کو " مس فٹ" تصور کرتے تھے۔ لہذا وہ جلد ہی واپس کراچی آگئے۔ موج لکھنوی فلمی صنعت کے بحرانی دور میں فلمی شاعری ترک کرچکے تھے اور نعتیہ شاعری اور سوز و سلام کو زندگی کا حصہ بنا چکے تھے ۔ فلمی صنعت کے زوال کے بعد مرحوم عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے اور چند سال قبل موج لکھنوی اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ نقل مکانی کرگئے تھے ۔موج لکھنوی کی تدفین امریکہ میں ہی کی جائے گی انہوں نے پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...