لاہور سے اسلام آباد فاصلہ 270 کلومیٹر ہے۔ لیکن لاہور اسلام آباد موٹر وے 375 کلومیٹر ہے۔ موٹر وے 105 کلومیٹر چھوٹی ہوسکتی تھی اور ظاہر ہے کہ سفر کا وقت بھی کافی کم ہوجاتا۔
لیکن موٹروے سے فاصلہ جی ٹی روڈ سے بھی چار کلومیٹر زیادہ کیوں ہے؟
محض سیاسی کرپشن کی وجہ سے۔۔۔۔
موٹر وے بنانے کیلئے نقشے پر ایک سیدھی لکیر کھینچی جاسکتی تھی۔ راستے میں کوئی سلسلہ کوہ نہیں آتا۔ چھوٹی موٹی پہاڑی ہے بھی تو کاٹ کے رستہ بن سکتا تھا۔ زمین ایکوائر کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ لاہور میں سیکڑوں مکان دکانیں، بیسیوں مسجدیں، امام بارگاہ، مزار گرادئیے گئے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
لیکن کسی پیارے نے کہا میری زمین سے نہ گزرے، زمین دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ کسی چہیتے نے کہا میری زمین کے ساتھ گزرنی چاہئیے، ویلیو بڑھ جائے گی۔ کسی نے فرمائش کی انٹر چینج میرے علاقے میں بنے۔ سو اس طرح 270 کلومیٹر فاصلہ 375 کلو میٹر ہوگیا۔
کہا گیا تھا کہ موٹر وے کے ساتھ سات صنعتی علاقے بنیں گے، ان کی پیداوار لے کر کنٹینر بردار ٹرکوں کے کارواں چلیں گے۔ کھربوں کمائی ہوگی، لہریں بحریں ہوجائیں گی۔
23 سال ہوگئے،کسی کو معلوم ہو تو بتائے کتنے صنعتی علاقے بنے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کہتی ہے 92 ارب روپے دیکھ بھال پر خرچ کرتے ہیں۔
طعنہ دیا جاتا ہے کہ موٹر وے استعمال تو آپ بھی کرتے ہیں۔
اگر کسی ادارے کا مالک ملازموں کے ناپ لے کر اعلی' قسم کے سوٹ سلوادے اور کہے کہ یہ پہن کر آئیں تو وہ ضرور پہنیں گے۔ لیکن پہلی تاریخ کو تنخواہ بیس بیس ہزار کم ملے اور کہا جائے کہ سوٹ کے پیسے کاٹ لیے۔ تو سوچیں جب گھر کی آدھی ضروریات پوری نہیں ہوں گی تو وہ سوٹ کس دل سے پہنیں گے؟
ہمیں ترقی پر جدید سہولتوں پر اعتراض نہیں، لیکن ترجیحات، حکمت عملی اور طریق کار درست ہونا چاہئیے۔ مثلا" اسلام آباد پنڈی میٹرو میں کرپشن جتنی بھی ہوئی ہو، اس کی افادیت سے انکار نہیں۔
سوچیں وہ بھی آئین و قانون کے مطابق پاکستان کے برابر کے شہری ہیں جنہیں پینے کیلئے صاف پانی بھی نہیں ملتا۔ وہ ، ان کے مویشی اور جنگلی جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں۔
“