موٹے زیدی، پتلے زیدی
آج اپنے بچپن کو یاد کیا جائے۔ بچپن اور لڑکپن جوانی کے برعکس یعنی بے انتہاء چلبلا اور شرارتوں سے بھرپور گزرا۔ میٹرک پاس کرتے ہی محنت مزدوری شروع کردی تھی، اس لیے شرارتیں، بے باکی، بے خوفی اور حاضرجوابی نجانے کہاں اُڑن چھو ہوگئی۔ سنجیدگی اور بردباری نے جگہ لے لی۔ پے درپے پریشانیوں اور حالات کی سختیوں نے حساس بنادیا تھا، جن سے آج تک جان نہیں چھوٹ سکی ہے۔
لیکن آج بھی جب بچپن کی شرارتیں اور حاضرجوابیاں یاد آتی ہیں تو معلوم نہیں کیوں اپنا آپ نہایت ہلکا پھلکا محسوس ہوتا ہے۔
ان دنوں ہم حیدرآباد سے نئے نئے کراچی کے علاقے سادات کالونی میں شفٹ ہوئے تھے۔ جہاں شیعہ اور سنی گھرانے ساتھ ساتھ مقیم تھے۔
حیدرآباد میں کراچی کے برعکس جنوب مغربی ہندوستان کی ریاستوں سے نقل مکانی کرکے آئے گھرانے آباد تھے۔ کراچی میں شمالی ہندوستان یعنی یوپی کے لوگوں کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی۔
یہ بات ہم بارہا تحریر کرچکے ہیں کہ یوپی کے بیشتر مسلمانوں کا مذہب ہندو دشمنی پر مبنی ہے۔ یہ ہندو دشمنی کا کیڑا ہی تھا، کہ 13 سے 14 فیصد اقلیت ہونے کے باوجود ہندوستان کے بٹوارے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مرے جاتے تھے، جبکہ جہاں پاکستان بنانا چاہتے تھے، وہاں 47ء سے چند برس قبل تک عام لوگوں کو تو چھوڑیے سیاسی زعماء تک پاکستان کے قیام پر آمادہ نہیں تھے۔
یوپی کے مسلمانوں کے برعکس جنوب مغربی ہندوستان کے اکثر مسلمانوں کااسلام ہندو دشمنی پر مبنی نہیں تھا۔ اس خطے کی بہت سی قوموں، لسانی اکائیوں، برادریوں اور ذاتوں میں تو مسلمان ہونے کے باوجود مقامی نام رکھے جاتے تھے، جنہیں یوپی کے زیادہ تر مسلمان ہندووانہ طرز کے نام قرار دیا کرتے تھے۔
بعض قومیتوں میں تو اس شجرہ نصب کو فخر سے لکھا جاتا تھا، جس میں ان کے پورکھے ہندو مذہب کے ماننے والے تھے۔
اس حوالے سے برادرِ محترم رئیس اختر Raees Akhtar نے کافی تحقیق کی ہے، اور اس ضمن میں کافی معلومات رکھتے ہیں۔
ہم نے حیدرآباد کے اس ماحول میں ہوش سنبھالا تھا، جہاں سندھی بولنے والوں کے تہوار محرم کے علاوہ صوفیاء کے عرس ہوا کرتے تھے، جبکہ اردو بولنے والے افراد میں یوپی کے لوگوں جیسی مذہبی جنونیت نہیں تھی۔حیدرآباد میں بقرعید پر گائے کی قربانی نہیں ہوتی تھی، یہ روایت ہم نے کراچی میں دیکھی، اب تو یہ وباء پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔
چنانچہ جب ہم کراچی منتقل ہوئے تو یہاں کے مذہب پرست ماحول پر ہمیں حیرت ہوئی۔ یہاں ہر جمعہ کسی نہ کسی کے گھر میں قرآن خوانی ہوا کرتی تھی۔ روزے نماز کا بھرپور منافقت کے ساتھ خوب اہتمام کیا جاتا تھا۔ تراویح پڑھنا فرض سے بھی برتر سمجھاجاتا تھا۔ جاگنے کی راتوں میں بچے بوڑھے مساجد میں جاکر عبادت کیا کرتے تھے۔
ہمیں بھی ان سب پر مجبور کیا جانے لگا۔
ان دنوں ہم نے وہ وہ شرارتیں کی ہیں، کہ آج حیرت ہوتی ہے کہ ہم یہ سب کیسے کرگزرے تھے۔
ہم تراویح پڑھنے جاتے تو کم سن لڑکوں اور بچوں کو پچھلی صف میں بھیجا جاتا۔ ہم سب سے آخر میں کھڑے ہوکر پوری صف کو اس طرح دھکا دیتے کہ ساری کی ساری صف ایک دوسرے کے اوپر گرتی چلی جاتی۔
پھر بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں، اس قدر قہقہے لگاتے کہ بعض بڈھے تو نماز کے دوران ہی پلٹ کر گھورنا شروع کردیتے۔
ایک کام ہمارا یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ پچھلی صف کے نمازی جب سجدے میں جاتے تو ہم اپنی ٹولی کے ہمراہ ان سب کی ٹانگیں کھینچ کر بھاگ جاتے۔
سادات کالونی میں زیدی نام کے دو صاحب رہتے تھے۔ ایک پتلے زیدی، دوسرے موٹے زیدی۔ پتلے زیدی تو یاد نہیں رہے، اس لیے کہ شاید شریف آدمی ہوں گے، موٹے زیدی آج تک یاد ہیں۔
ان کے بارے میں مشہور تھا کہ کالا جادو کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان سے سب ہی خوف کھاتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی مت دیکھنا، اس طرح دیکھنے والے کے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ…. ان کا گھر بھی خاصا منحوس قسم کا تھا، بغیر پلاستر کا بے رونق ، گھر کے آنگن میں جامن کا درخت تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ موٹے زیدی نے اس میں جنات باندھ رکھے ہیں۔
جب ہم کراچی سے نئے نئے اس علاقے میں پہنچے تو محلے کے سمجھدار بچوں اور زیرک خواتین نے ہمیں موٹے زیدی کے بارے میں خبردار کردیا تھا، لیکن چند روز بعد ہی ہم نے سیاہ دھاگہ ان کے گھر کے دروازے سے لٹکتی کنڈی سے باندھا اور چھپ کر دھاگہ کھینچ کر کنڈی کھٹکھٹانے لگے۔
پہلے موٹے زیدی کی بیوی آئی، اور کسی کو نہ پاکر بڑبڑاتی ہوئی واپس چلی گئی۔ پھر بیٹی، اور اس کے بعد موٹے زیدی ڈھیلا ڈھالا بڑے پائنچے کا پاجامہ پہنے خود برآمد ہوئے، ان کے سفید لمبے بال، سیاہ رنگ پر بڑی بڑی سفیدمونچھیں اندھیرے میں انہیں نہایت خوفناک بنا رہی تھی۔
ایک لمحے کو تو ہمیں ڈر لگا، دل چاہا کہ بھاگ جائیں۔ لیکن جم کر بیٹھے رہے، جب وہ اندر گئے تو کچھ دیر بعد ہم نے پھر کنڈی کھٹکٹا دی۔ پھر وہ باہر آئے۔ اس طرح ہم نے کچھ دیر تک ان کی پریڈ کرائی اور جب وہ تھک گئے تو انہوں نے باآواز بلند اس قدر فحش گالیاں بکنی شروع کیں کہ پورا محلہ اکھٹا ہوگیا۔ ہم اپنے ساتھی کے ہمراہ فوراً ہی رفو چکر ہوگئے تھے.
کچھ عرصے بعد شب برأت کا تہوار آیا۔ ہم حیدرآباد سے اپنا دیسی بم کا ہتھیار ساتھ لائے تھے۔ یہ ایک لمبا سا Hole Nut تھا، جسے ایک لمبی سی راڈ کے ساتھ جوڑا گیا تھا، ہول کے اندر ہم ماچس کا مسالہ بھر کر، اس کے اندر ایک موٹی سی کیل پھنسادیتے اور پھر پوری قوت سے کسی دیوار، فرش یا موٹے پتھر پر مارتے تو ایسا دھماکہ ہوتا کہ درودیوار ہل جایا کرتے۔
یہ ہتھیار اس محلے کے بچوں کے لیے شاید نیا تھا، ہم نے اس کے ذریعے بچوں کے دلوں سے موٹے زیدی کے جنات کا خوف تو دور کردیا تھا۔
وہ اس طرح کہ ہم اس کی دہلیز پر اپنا ایٹم بم پھوڑ آتے اور موٹے زیدی اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نکلتے اور اپنی ایجاد کردہ ایسی ایسی فحش گالیاں دیتے کہ بچے تو بچے بڑے بوڑھوں کی بھی ہنسی چھوٹ جاتی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“