ولادت ۔ یکم جون 1958ء حافظ آباد —— وفات ۔ .8. جون 2011ء لاہور
محترمہ ادا جعفری ، کشور ناہید ، زہرہ نگاہ ، پروین فنا سید ، فہمیدہ ریاض اور اسی درجے کی چند اور شاعرات کے قلم کی جنبش جب سست روی کا شکار ہوگئی یا یوں کہیےکہ ان کی شاعری منظرِ عام پر آنا جب کم ہو گئی تو دلداگانِ شعروادب نے شاعرات کے تخلیقی جوہر کی کمی کا شدت سےاحساس کیا ایسے میں اچانک متعدد شاعرات سامنے آئیں۔۔۔ان میں ایک نام پروین شاکر کا بھی تھا جبکہ سارہ شگفتہ کی آزاد اور نیم آزاد یا نثری نظمیں بھی اسی عہد میں مگر کم کم سامنے آئیں کیونکہ وہ اپنی نظمیں شائع کروانے کے بجائے امرتا پریتم کو لکھ کر بھیجنے کو ترجیح دیتی تھیں۔۔۔۔۔ نورین طلعت عروبہ ، نوشی گیلانی ، شاہدہ نور و دیگر نے اپنی شاعری شائع کرنے کروانے اور مشاعرے پڑھنے پر زیادہ توجہ دی بےشک محترمہ ماہ طلعت زاہدی کو شاعرات میں ایک بلند اور اعلی مقام حاصل رہا ہے اور ان کی حیثیت مسلمہ ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ مشاعروں سے گریزاں رہیں ۔ اور جہاں تک شاعری کی اشاعت کا تعلق ہے تو ہمیں کہہ لینے دیجے کہ محترمہ ماہ طلعت زاہدی اس معاملے میں بھی معیار کو مد نظر رکھتی تھیں۔ چند مخصوص اور معیاری ادبی رسالوں اور جریدوں کو ہی اپنی تخلیقات بھیجتی تھیں ۔جبکہ منصورہ احمد بھی مشاعروں کی واہ واہ سے دور رہیں اور اپنی شاعری کو اپنے یا اپنے مخصوص اور قریبی حلقے تک محدود رکھنے میں کامیاب رہیں۔۔۔۔پروین شاکر، نوشی گیلانی اور نیلما ناھید درانی ہم عصر تھیں۔۔۔نیلما ناھید درانی کا تعلق محکمہ پولیس سے تھا۔۔۔جو ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ھوئیں۔ مگر دوران سروس ہی انھوں نے شاعری افسانہ نگاری سفر نامہ نگاری جاری رکھی۔۔۔وہ بھی اپنی پہلی کتاب۔۔۔جب تک آنکھیں زندہ ہیں کی اشاعت( 1986) سے بلے ھاوس کی ادبی محافل میں شرکت کرتی رہیں ہیں
ان سب میں پروین شاکر کی شاعری سب سے زیادہ مشہور اور ممتاز قرار پائی ، نوشی گیلانی کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی کو متنازعہ بناکر پیش کیا جانے لگا اور پھر اچانک پروین شاکر ایک ”مبینہ“ حادثے میں داغِ مفارقت دے گئیں۔۔۔ادھر ”فنون“ میں منصورہ احمد کی خوبصورت نظمیں پہلے ہی شائع ہو رہی تھیں اور ان کے مداحوں کا حلقہ وسیع تر ہوتا جا رہا تھااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منصورہ احمد تمام شاعرات میں سب سے منفرد اور بلند قامت نظر آنے لگیں مگر ابھی تک منصورہ احمد کا کوئی شعری مجموعہ منظرِعام پر نہیں آیا تھا۔
منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طلوع‘‘ 1997ء میں شائع ہوا۔ 1998ء میں طلوع کو وزیراعظم ادبی ایوارڈ ملا۔ احمد ندیم قاسمی کے 81 ویں جشنِ ولادت کے موقع پر منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ادبی افق پر ”طلوع“ ہوا۔
یہ حقیقت ہے کہ بڑے لوگ بہت کم کم ہی ہوتے ہیں بلکہ ایک ارب تیس چالیس کروڑ کی آبادی کو صرف ایک ”گلزار“ میسر آسکا۔ اس ایک گلزار نے لاکھوں تخلیق کاروں میں بھی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کروالیا اور سرحدوں سے (صرف جغرافیائی سرحدوں سے) پار بھی گلزار کو لاکھوں پرستار میسر آئے اور وہ گلزار کہ جس کے ایک مصرع
”ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“
نے منصورہ احمد کی تخلیقی اپج کو منظرِ عام پر لانے اور جوالا سلگانے میں اہم کردار ادا کیا اسی منصورہ احمد کو تخلیق کے ایک گھنے شجر کی ٹھنڈی اور مہکتی چھاؤں سے فیض یاب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اگر آپ منصورہ احمد کی نجی حلقے پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس میں شامل ہر شخص کسی نہ کسی اعتبار سے علم و ادب اور تخلیق کاری میں پیش پیش نظر آئے گا اور پھر اگر آپ ”حلقہ فنون“ اور حلقہِ اساطیر کی طرف آئیں گے تو شاید اس بات کا اندازہ کر سکیں کہ علمی ، ادبی اور تخلیقی سطح پر جو جس قدر بلند مرتبے کا حامل ہوگا منصورہ احمد کے لیے اس قدر قابلِ تکریم ہوگا۔
منصورہ احمد کی خوبصورت شاعری کا مطالعہ کرتے وقت احساس ہوتا ہے گویا ہم خود بھی ان کے ہمراہ ہیں اور ہر منظر اور موضوع کو محسوس کر رہے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاری تخلیق کار کے ساتھ آدھے سفر تک ہی ہمسفر رہتا ہے کیونکہ وہ تو پاتال میں اس قدر گہرائی تک اترتی ہیں کہ جہاں سے دوبارہ ابھرنا یا باہر نکل آنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔
منصورہ احمد ایک شدت پسند شاعرہ ہے بہت سی چھوٹی چھوٹی اور معمولی بلکہ معمولی سے معمولی بات کا شدت سے احساس کرکے پھراسی شدتِ احساس کو شعری پیکر عطا کر دیتی ہیں ، کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس قدرحساس ہونا خود تخلیق کارا ور اس کے قاری دونوں کے لیے خطرناک ہے اور بے شک منصورہ احمد ان خطرات سے کھیلتی ہیں اور ان خطرات سے کھیل کر ہی کھل کر سامنے آتی ہیں۔۔۔۔منصورہ احمد کے مشاہدات اور تجربات انتہائی تلخ ہیں انہوں نے جو کچھ دیکھا ‘سنا ‘ سمجھا، پایا اس کو اسی انداز میں محسوس بھی کیا اور محفوظ بھی ”طلوع“ کا مطالعہ کر کے یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ منصورہ احمد کی تخلیقی اپج سے انکار ممکن ہی نہیں البتہ طلوع پڑھ کر ایک اور احساس بھی ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ ”طلوع“ کا قاری خوف زدہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ وہ تخلیق کاری کی اس شدت بلکہ حدت کو برداشت نہیں کر پاتا۔۔۔۔۔ اور ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ منصورہ احمد کی شاعری کی کیفیت ایسی ہے ہی نہیں کہ اس سے یکدم باہر آیا جا سکے اور یہ انداز اور اعزاز کم بلکہ بہت کم تخلیق کاروں کو حاصل ہوتا ہے یقینا منصورہ احمد انہی میں سے ایک ہیں۔
میری خواہش تو یہ تھی کہ میں منصورہ احمد کی نظموں میں سے چند نظمیں منتخب کر کے اس کے اقتباسات بھی شامل تحریر کروں لیکن نہیں یہ کام بہت کٹھن ہے۔ منصورہ احمد کی تمام تر تخلیقات منتخب شدہ ہیں شاید مجھ سے مزید انتخاب نہیں ہو پائے گا ۔مجھے منصورہ احمد کے ”طلوع“ میں کوئی تخلیق تو کجا ایک مصرع تک ایسا محسوس نہیں ہوا جس کو میں نسبتاً کم اچھا کہہ سکوں ۔۔۔۔ بہرطور بحالتِ مجبوری چند نظموں کے اقتباسات شامل تحریر کرنا برائے حوالہ اشد ضروری ہے۔۔۔۔۔
مگر پہلے منصورہ کی شاعری کے حوالے سے جون ایلیا کی رائے ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ ”منصورہ احمد ایک زبردست شاعرہ ہے اور پنجاب میں تو اس سے بہتر یا اس کے پائے کی شاعرہ ہے ہی نہیں “۔۔۔۔۔طلوع کی اشاعت پر پروفیسر طاہر تونسوی کے تاثرات بھی توجہ طلب ہیں ملاحظہ ہوں ”طلوع کی اشاعت ادبی دھماکہ قرار پایا۔۔۔اور یہ ثابت ہوکر رہا کہ منصورہ احمد منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کی ایک خوبصورت شاعرہ ہےاور ان کے پہلے ہی شعری مجموعے ”طلوع“ نے ادبی دنیامیں تہلکہ مچا دیاہے۔“
گلزار لکھتے ہیں کہ ”منصورہ ایک کولمبس ہے۔۔۔۔سمندروں پہ سفر کرتی ہےاور زندگی کے نئے نئے جزیروں کو تلاش کرتی ہے وہ جزیرے کبھی ایک صورت کی صورت میں نظر آتے ہیں کبھی تواریخ کی صورت۔۔۔۔اس کی نظمیں پرسنل بھی ہیں اور اپنے دور کی روداد بھی اس کے مصرعے سانس لیتے ہیں تو چھو جاتے ہیں کبھی صبا کی صورت کبھی روشنی کے چھینٹے کی طرح ۔۔۔۔اس کی سطروں میں وقت کی تہیں رکھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اس کی نظم پڑھ لینے کے بعد کئی بار محسوس ہوا کہ نظم کی افشاں میرے ہونٹوں پہ رہ گئی !۔۔۔“
منصورہ احمد کی نظمیں ہی نہیں بلکہ غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں ۔۔۔۔چند اشعار ملاحظہ ہوں لیکن اس سے قبل ایک چھوٹی سی بات اور وہ. یہ لازمی نہیں ہے لیکن عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب کے ایسے تخلیق کار کہ جن کا تعلیمی یا مطالعاتی پس منظر انگریزی ادب یا پھر دیگر زبانوں اور اردو ادب سے وابستہ رہا ہوتا ہے تو ان کی تخلیقات کی انفرادیت انہیں جداگانہ پہچان عطا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن شاعرات میں ہی دیکھ لیجے تو بالکل سامنے کی مثالوں میں محترمہ پروین شاکر ٗ محترمہ ماہ طلعت زاہدی ٗ محترمہ فہمیدہ ریاض اور خود محترمہ منصورہ احمد اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام ہیں. منصورہ احمد کی غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں ۔۔۔۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
زندگی موت کی امان میں ہے
چھاؤں سورج کے سائبان میں ہے
کل عدالت لگائیں گے بچے
محتسب آج کس گمان میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس قدر دشوار ہے ان شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا
پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیاہے موسم گل
کتنے دن کے بعدمیں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بےصدا شہر میں رہ کر ہی پکارے کوئی
کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا ……….. منصورہ احمد
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا
عجیب وجہ ملاقات تھی مری اس سے
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا
میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی
مرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا
میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا
میں گل پرست بھی گل سے نباہ کر نہ سکی
شعور ذات کا کانٹا بہت نکیلا تھا
سب احتساب میں گم تھے ہجوم یاراں میں
خدا کی طرح مرا جرم عشق تنہا تھا
وہ تیرے قرب کا لمحہ تھا یا کوئی الہام
کہ اس کے لمس سے دل میں گلاب کھلتا تھا
مجھے بھی میرے خدا کلفتوں کا اجر ملے
تجھے زمیں پہ بڑے کرب سے اتارا تھا
فراق آثار لمحوں کی دہائی کون دے گا ………….. منصورہ احمد
فراق آثار لمحوں کی دہائی کون دے گا
ترے چہرے کے سورج میں دکھائی کون دے گا
مجھے اک بات کہنا ہے اسے کتنے یگوں سے
مگر صحرا کی وسعت میں سنائی کون دے گا
جو اک بیکل سی خوشبو میرے اندر پھوٹتی ہے
اسے اس کے دریچے تک رسائی کون دے گا
کسی کی قید سے چھٹنا تو خیر اک مسئلہ ہے
مجھے میرے ہی زنداں سے رہائی کون دے گا
میں سلطاں کے در دولت پہ اک دستک تو دے لوں
مگر اس ہاتھ کو ذوق گدائی کون دے گا
کس قدر دشوار ہے ان اجنبی شہروں میں رہنا ………. منصورہ احمد
کس قدر دشوار ہے ان اجنبی شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا
اس سے کرنا گفتگو بس آتے جاتے موسموں کی
اور سرگرداں ہوا سے اپنے دل کی بات کہنا
اب تو اس کی جستجو کا ایک ہی انداز ٹھہرا
تتلیوں کے ساتھ پھرنا خوشبوؤں کے ساتھ رہنا
پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیا ہے موسم گل
کتنے دن کے بعد میں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا
کو بہ کو پھرتے ہی کٹ جائے گی ساری عمر اپنی
کیا سرابوں کے نگر میں منزلوں کی قید سہنا
اک بھنور میں گھومتی ہے سانس کی کشتی ازل سے
اپنی فطرت ہی کہاں تھی پانیوں کے ساتھ بہنا
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی …………. منصورہ احمد
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بے صدا شہر میں رو کر ہی پکارے کوئی
کل تجھے دیکھنا چاہا تو عجب بات ہوئی
آنکھ پر ٹانک گیا چاند ستارے کوئی
میں تری ذات سے باہر بھی تری ذات میں ہوں
کیسے دکھلائے مجھے میرے کنارے کوئی
اس نئے دور میں بچوں پہ یہ کیا وقت پڑا
آگ میں جھونک گیا ان کے غبارے کوئی
کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی
رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے …………….. منصورہ احمد
رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے
یہ الگ بات کہ ہر خواب میں گرداب بھی تھے
زندگی بانجھ سی عورت تھی کہ جس کے دل میں
بوند کی پیاس بھی تھی آنکھ میں سیلاب بھی تھے
زخم کیوں رسنے لگے اک ترے چھو لینے سے
دکھ سمندر تھے مگر موجۂ پایاب بھی تھے
چاند کی کرنوں میں آہٹ ترے قدموں کی سنی
اور پھر چاند کے ڈھل جانے کو بیتاب بھی تھے
کتنا آباد مرے ساتھ تھا سایوں کا ہجوم
کیسے تنہائی کے صحرا تھے جو شاداب بھی تھے
منصورہ احمد کی یہ بھی ایک انفرادیت ہے کہ بقول احمد ندیم قاسمی کے ”منصورہ کی بیشتر نظموں کا انجام ایک سوال ہوتا ہے“اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی نظموں کے اختتام پر جو سوال ہوتے ہیں وہ معنی خیز بھی ہوتے ہیں اور قاری کو جھنجھوڑتے بھی ہیں۔۔۔۔چند سوال کہ جن پر ان کی نظمیں اختتام پذیر ہوئیں ملاحظہ ہوں
سوچ رہی ہوں ایسا کیوں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو لا کے کہاں بٹھاؤں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہاتھوں پر دیئے رکھ کر جلا پائے گا کون؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے کہے کوئی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام آنے سے پہلے سورج کو کیوں دفناؤں ۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بولو جگنو تھام سکو گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کا ہاتھ ہے شاہ والا۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کی جوانی کون جیتاہے۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کدھر جاؤں۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس کو ڈھونڈے آخر کہاں جاؤں۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میری زندگی آغاز کب ہوگی۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سینے سے لگائے گا۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لفظ کب تک تکذیب کی سولی اتریں گے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟
منصورہ احمد کی نظموں میں بہت خوبصورت بلکہ کہیں کہیں تو انوکھے سوال بھی ملتے ہیں ”ایک سوال“میں ایک نہیں کئی سوال ہیں۔۔۔۔
ایک سوال کے ایک اقتباس میں بھی آپ کو کئی سوال نظر آئیں گے ملاحظہ ہوں۔
تم نے تو رستے دیکھے ہیں
یہ تو بتاؤ
کیا اس سے مجھ تک آنے والے سب رستوں پر
کرچی کرچی ہجر اگا ہے؟
کیا ہر موڑ پہ
آدھی زندہ تتلی کی
پاگل چیخوں کا شور بپا ہے؟
کیا اس نے بھی بارش کی اک بوند کی خاطر
میری اکلوتی گڑیا کو
جلتی آگ میں جھونک دیا ہے؟
اپنے گھرکو لوٹ آنے والی ننھی چڑیو!
کچھ تو بتاؤ!
جبکہ ”مرے مالک“میں سوال بھی انوکھا ہےاور سوال کرنے کا انداز بھی دیکھیے
مرے مالک
تجھے تو علم ہی ہوگا
جو بچپن سے بڑھاپے میں چلے جاتے ہیں
ان سب کی جوانی کون جیتا ہے۔۔۔؟
”تم اور سورج“بھی منصورہ احمد کی مختصر اور خؤبصورت نظموں میں سے ایک ہے۔۔۔۔اور یہ وہ نظم ہے جس کو پڑھ کر وثوق سے کہا جا سکتا ہےکہ منصورہ احمد تقابلی جائزے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف ہیں۔۔۔۔اور تقابلی جائزے میں جب تک تنقید کا عنصر شامل نہ ہو تو یقینا تشنگی رہ جاتی ہے مگر آپ خود فیصلہ کریں کہ منصورہ احمد کی تم اور سورج کیسی مثال ہے
————- تم اور سورج ———–
تم اور سورج اک جیسے ہو
دونوں آنگن میں اترو تو جھلمل ہونے لگتی ہے
دونوں کی حدت سے دل کی برف پگھلنے لگتی ہے
دونوں آنکھ کی وسعت سے بڑھ جاتے ہو
دونوں آنکھیں چندھیاتے ہو
دونوں آگ میں جھلساتے ہو
منصورہ احمد کی خوبصورت نظموں میں قدرت اور فطرت کے حسین مظاہر کا ذکر شدت کے ساتھ ملتا ہے
عجب لہجہ ہے اس کا ……….. منصورہ احمد
پانیوں پر جھلملاتی چاندنی جیسا
مرے دل کا سمندر جب بھنور کی زد میں آ جائے
سبھی تاریک لہریں گھیر کر مجھ کو
کسی پاتال کا رستہ دکھاتی ہوں
تو وہ ایسی صفت لہجہ
مجھے پھر ساحلوں پر کھینچ لاتا ہے
مجھے کہتا ہے دیکھو
اس بھنور کے پار بھی دنیا میں کچھ لمحے دھڑکتے ہیں
انہیں بھی اپنی سانسوں میں پردہ دیکھوں
یہ لہریں جو کہ اندھیاروں میں دیو آثار لگتی ہیں
انہیں تم چاندنی میں دیکھنا یہ کس طرح
کرنوں سے مل کر ماجرے تخلیق کرتی ہیں
یہ لہریں جب روپہلے نور کی ندی میں ڈھلتی ہیں
تو مستی میں مچلتی آسمانوں کو لپکتی ہیں
اماوس جب بھی آئے چاندنی کو یا مگر لینا
مرے چاروں طرف میلوں پہ چلتی دھوپ پھیلی ہے
مگر اس کی یہ باتیں بارشوں کی بوندیوں جیسی
مرے دل کی دراڑوں میں
ہری فصلی اگائی ہیں
میں سر سے پاؤں تک
شبنم سے بھیگی پتیوں میں ڈوب جاتی ہوں
گواہی ………………………. منصورہ احمد
وہ سیڑھی جو مرے دل سے
تمہارے دل کے گنبد پر اترتی ہے
شکستہ ہے
وہ کھڑکی جو تمہارے گھر میں کھلتی ہے
مری پہچان اور مکڑی کے جالوں سے اٹی ہے
زنگ خوردہ ہے
گواہی دے نہیں سکتے نہ دو
لیکن مرا اک کام تو کر دو
مری پہچان میں الجھے ہوئے مکڑی کے سب جالے
مجھے دے دو
کوئی تو ہو جو مجھ کو میرے ہونے کی گواہی دے
کوئی آواز دیتا ہے ……………….. منصورہ احمد
کوئی آواز دیتا ہے
حریر و پرنیاں جیسی صداؤں میں
کوئی مجھ کو بلاتا ہے
کچھ ایسا لمس ہے آواز کا جیسے
اچانک فاختہ کے ڈھیر سے کومل پروں پر ہاتھ پڑ جائے
اور ان میں ڈوبتا جائے
بہت ہی دور سے آتی صدا ہے
میں لفظوں کے معانی کی گواہی دے نہیں سکتی
مگر ہر لفظ میں گھنگرو بندھے ہیں
حریم جان میں ان کے پاؤں دھرتے ہی
کئی بے چین پازیبیں دھڑکتی ہیں
لمحوں میں ایک دیوالی سی سجتی ہے
کوئی آواز دیتا ہے
حریر و پرنیاں جیسی صداؤں میں
کوئی مجھ کو بلاتا ہے
صدیوں پیچھے ………………….. منصورہ احمد
سنتے ہیں کہ نسلوں پہلے
چین کی باغی شہزادی نے
اپنی دنیا تک جانے کے پاگل شوق میں
آنگن کی دہلیز الانگی
اور گلیاں شہ راہیں ناپتی
اک پھلواری تک جا پہنچی
رسموں کے ٹھیکے داروں نے
جرم تمنا کی پاداش میں حکم سنایا
اب دنیا میں آنے والی ہر ہوا کو
سیاست ……………………… منصورہ احمد
جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے
ہم سایے میں ایک بڑی بی رہتی تھی
گلی محلے کے سب بچے اس کو ماسی کہتے تھے
ماسی کی اک عجب ادا تھی
گلی محلے کے جس بچے پر بھی اس کا داؤ چلتا
مکوں اور دھمکوں سے
ادھ موا سا کر کے خود چھپ جاتی
فریادی بچے کی آہ و زاری سن کر
رستہ چلنے والے یا بچے کے اپنے آ جاتے تو
مجمع چیر کے سب سے پہلے ماسی آتی
رونے والے بچے کو سینے سے لگاتی
شہد بھرے لمحے میں کہتی
میرے پیارے
آنکھ کے تارے
کس نے مارا
بچہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے
ماسی کو تکتا رہ جاتا
اور قصہ ٹھنڈا ہو جاتا
ہم سب بچے
نا سمجھی میں
ماسی سے نفرت کرتے تھے
مورکھ تھے نا
ماسی کے اصلی قد کو پہچان نہ پائے
اب جا کر یہ سمجھ سکے ہیں
گھر گھر برتن مانجھنے والی اپنی ماسی
کتنی بڑی سیاست داں تھی
سنو …………………………….. منصورہ احمد
سنو
جن کی ہنسی سے اس زمیں پر پھول کھلتے ہوں
جنہیں نغمے پہ اتنی دسترس ہو
کہ پنچھی ان کی لے پر چہچہاتے ہوں
انہیں تو اس طرح چپ چاپ ہو جانا نہیں سجتا
سنو
ساری زمیں گمبھیر چپ اوڑھے ہوئے ساکت کھڑی ہے
تم اتنی ہی کرو اک بار ہنس دو
زمیں کی منجمد سانسوں میں
پھر سے زندگی چلنے لگے گی
پہلے دن سے لوہے کے جوتے پہناؤ
یہی ہوا اور ہوتا آیا
سب نے دیکھا
سرخ سجیلے چہروں والی
اور گدرائے جسموں والی دوشیزائیں
آنگن کی دیوار پکڑ کر چل پاتی تھیں
سوچ رہی ہوں
صدیاں کیسے اتنا پیچھے لوٹ آئی ہیں
چین کی سرحد کیسے میرے گھر آنگن تک آ پہنچی ہے
لوہے کے جوتوں میں جکڑے میرے پاؤں
آنگن کی دہلیز الانگ کے
اپنی دنیا تک جانے سے انکاری ہیں
”یہاں سے آسماں دیکھو“جو کہ بلا شبہ ایک انوکھے خیال کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں منصورہ احمد نے دھول ، پلکیں ، صحرا ، کلیاں ، شاخوں ، شاخوں پہ ہلکا بور ، پت جھڑ ، چاند ، سمندر ، روزوشب ، ساحل ، جزیرہ ، زندگی ، بدن ، گھاٹیاں ، آنکھ ، خوشبو ، خلا ، گرداب ، بیل ، آنگن ، آسمان اور زمین جیسے مظاہر قدرت و فطرت کے ذکر سے ثابت کیا ہے کہ فطرت اور قدرت کی ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر قائم یہ کائنات اور اس کائنات کا ہر رنگ اور روپ انہیں کس قدر عزیز ہے۔
ادب کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میرا اکابرین و ناقدین ِ ادب اور اکادمی ادبیات جیسے اداروں کے کرتا دھرتا جو بھی ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ منصورہ احمد کا ایک مجموعہ کلام منظر عام پر آچکا اور اس منصورہ احمد کا اب تک جتنا بھی کلام منظر عام پر آچکا ہے اس پر اہل نظر اور نقادان فن اپنی آرا ٕ دے چکے ہیں اور اگر ان تمام تر آرا ٕ کو یکجا کیا جاۓ تو دو یا تین ضخیم کتابیں مرتب کرنا تو ہرگز بھی دشوار نہیں تو منصورہ احمد کا شعری .8. جون 2011 کو اس کی سانسوں کے ساتھ ختم کیسے ہوسکتا ہے ۔ جبکہ منصورہ احمد اپنی زندگی میں ہی اپنا دوسرا شعری مجموعہ پبلش نہ بھی کرواسکی تو کم از کم مرتب ضرور کرچکی تھی۔
منصورہ احمد ……………… کی 53 سالہ زندگی پر ایک نظر
نام : منصورہ احمد
والد کا نام : مرزا حبیب احمد
تاریخ ِ ولادت ۔ یکم جون 1958ء
مقام ِ ولادت : حافظ آباد
تعلیم ۔ ایم اے انگلش 1982
وجہ ِ شہرت : احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی
شاعرہ ٗ مدیرہ ٗ پبلشر ٗ اور مصنفہ
بانی مینجنگ ڈائریکٹر
اساطیر۔ پبشلرز / پبلیکیشنز ۔ لاہور
مدیر منتظم / شریک مدیرہ : ۔ سہہ ماہی فنون لاہور 1986_ 2006
مدیرہ : ۔ سہہ ماہی مونتاج لاہور 2006_2011
پہلا مجموعہ کلام ۔ طلوع. 1997
(وزیراعظم انعام یافتہ 1998 مجموعہ)
دوسرا مجموعہ کلام
آسمان میرا ہے (مرتبہ2010) (تاحال غیر مطبوعہ)
منصورہ احمد کی زندگی کے آخری تین چار برس شدید علالت میں گزرے اور پھر
وفات : ۔ .8.جون 2011ء لاہور
پہنچی وہیں پہ خاک ٗ جہاں کا خمیر تھا . لاہور میں منصورہ احمد کے سانسوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد انہیں ان کے آبا ٶ و اجداد کے شہر حافظ آباد میں ہی سپرد خاک کردیا
جب میں نے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی سالگرہ کے حوالے تہنیتی کارڈز پرنٹ کروانے کے سلسلے کا آغاز کیا تو یہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی اکہترویں سالگرہ کا موقع تھا۔ میری دانست میں لاہور کے دو تین ہی پرنٹرز بہت معیاری کام کرنے والے تھے ۔ ایک ٹریک اینڈ ٹای اور دوسرے الایڈ پریس لہذہ ابتدا میں پانچ ہزار کارڈز پرنٹ کرواۓ۔ نومبر کی یکم تاریخ تھی۔ ترسیل سے قبل خفیہ بھی رکھنا تھا خاص طور احمد ندیم قاسمی صاحب سے۔ اب مرحلہ آیا بذریعہ ڈاک ارسال کرنے کا تو ہم احمد ندیم قاسمی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا ہماری والدہ ماجدہ مہر افروز بلے صاحبہ کو منصورہ باجی سے کچھ کام ہے اگر آپ اجازت دیں تو ہم تھوڑی دیر کےلیے منصورہ باجی کو ساتھ لے جاکر ملوا لاتے ہیں ۔ ابھی تک منصورہ باجی کو کسی بات کا علم نہیں تھا یہ سب سن کر ندیم قاسمی صاحب سے زیادہ تعجب تو منصورہ احمد کو ہورہاتھا۔ کہنے لگیں بابا میں ان سے فون پر رابطہ کرلیتی ہوں پوچھ لیتی ہوں کیا کام ہے ۔ یہ سن کر تو ہمیں ہمارا منصوبہ ناکام ہوتا نظر آنے لگا اور یہ بھی ڈر لگا کہ اگر انہوں فون کردیا تو پول کھل جاۓ ۔ یا اللہ مدد فرما۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ نہیں یہ نامناسب بات ہوگی بیٹی آپ کا ہم عمر ہو تو ٹھیک لیکن اپنے سے بڑوں کی تعظیم لازمی ہے اور محترمہ مہر افروز بلے صاحبہ سے تو آپ پہلے بھی متعدد بار ملاقات کرچکی ہیں اور انہوں نے آپ کو لینے کےلیے بھیجوایا ہے لہذہ آپ کا جانا زیادہ بہتر رہےگا ۔ منصورہ احمد ہمارے ساتھ مجلس کے دفتر سے شادمان جی۔او۔آر۔تھری کےلیے روانہ ہو ہی رہیں تھیں جیسے ہی ہم لوگ گاڑی میں بیٹھے تو روانگی سے قبل میں نے منصورہ احمد صاحبہ تہنیتی کارڈز میں سے ایک نکال کر دکھایا تو وہ خوشی سے اچھل پڑیں۔ میں نے عرض کیا آپ کے پاس جو فنون کی میلنگ لسٹ ہے وہ بھی درکار ہوگی۔ انہوں نے کہا جی جی بالکل رکیے میں ابھی لےکر آتی ہوں آج ہی فوٹو کاپیاں کرواکر رکھی ہیں۔ خیر وہ بھاگم بھاگ فوٹوکاپیاں اٹھا لانے میں کامیاب رہیں ۔ ہم شادمان میں بلے ہاٶس پہنچے ۔ ہماری والدہ منصورہ احمد سے ملیں۔ پھر ہم دونوں ڈسپیچ کا کام پھیلا کر بیٹھ گۓ ۔ تین چار گھنٹے لگے لیکن کام مکمل نہ ہوا۔ پھر منصورہ احمد نے کہا اب مجھے ڈراپ کروا دیں بابا پریشان ہو رہے ہونگے ۔ باقی کام ہم دونوں کل دوبارہ مل بیٹھیں گے تو کرلیں گے ۔ خیر ہم انہیں مجلس کے دفتر ڈراپ کرنے گۓ تو قاسمی صاحب فکر مند بیٹھے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر بس اتنا پوچھا کہ سب خیریت تو ہے ۔ ہم نے ان کی تسلی کروا دی۔ اگلے روز منصورہ احمد کام مکمل کرنے کےلیے پہنچیں۔ اور ہم نے پھر تین چار گھنٹے بیٹھ کر کام مکمل کیا ۔ منصورہ احمد صاحبہ سے مشاورت کی اور پھر طے یہ پایا کہ لوکل کارڈز 20.نومبر سے تین یا چار روز قبل پوسٹ کیے جاٸیں جبکہ بیرون ملک کم از کم بارہ پندرہ روز قبل سپرد ڈاک کیے جاٸیں ۔ منصورہ احمد صاحبہ کے ساتھ مل کر میلنگ لسٹ کے مطابق ہم نے سب سے سے پہلے انڈیا۔ یو کے ۔ کینیڈا اور امیریکہ کے کارڈز پوسٹ کیے . اور شرارتا“ ہم نے ایک کارڈ احمد ندیم قاسمی صاحب کو بھی پوسٹ کیا۔ کارڈ موصول ہونے پر ان کا فون آیا اور انہوں نے فرمایا کہ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ سازش ہورہی ہے کسی قسم کی۔ جب مجلس کے دفتر میں میں اور منصورہ احمد اور احمد ندیم قاسمی صاحب بیٹھے ہوۓ تھے تو اختر حسین جعفری صاحب تشریف لے آۓ تو قاسمی صاحب نے ان سے کہا کہ میرے اور آپ کے علاوہ اس کمرے میں جو موجود ہیں وہ سازشی عناصر ہیں ۔ سازشی ٹولے کی کارگزاری ملاحظہ کیجے یہ کہہ کر قاسمی صاحب نے تہنیتی کارڈ ان کی جانب بڑھایا تو اختر حسین جعفری نے فرمایا جی جی مجھے بھی موصول ہوا اور دیکھ کر بے حد خوشی کا احساس ہوا۔ اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے کیونکہ یہ ادبی دنیا میں ایک عمدہ اور خوبصورت روش کا آغاز ہے
۔ خلاف توقع سب سے پہلے بھارت میں گلزار صاحب کو کارڈ موصول ہوا اور انہوں نے کارڈ موصول ہوتے ہی احمد ندیم قاسمی صاحب کو فون کیا اور سالگرہ کی پیشگی مبارکباد دینے کے بعد ہمارا نام لے کر ہم سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی اور ہمارے فون کا نمبر بھی قاسمی صاحب سے یہ کہہ کر لے لیا کہ ہم خود ظفر معین بلے صاحب کو فون کریں گے اور ان کی قاٸم کردہ اس نٸی روایت کو جاری رکھنے کی بھی فرماٸش کریں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ قاسمی صاحب نے ہمیں فون کرکے مجلس کے دفتر بلوایا اور کہا کہ دو گھنٹے بعد گلزار صاحب کا دوبارہ فون آٸے گا . ہم بر وقت پہنچ گٸے اور منصورہ احمد ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب اور برادرم خالد احمد صاحب کی موجودگی میں ہماری جناب گلزار صاحب سے تفصیلی بات ہوٸی ۔ انہوں نے ہمارے اس اقدام کو بے حد سراہا اور اس سلسلے کو ہر سال جاری رکھنے کی فرماٸش بھی کی۔احمد ندیم قاسمی صاحب کی سالگرہ کی مناسبت سے ہمارے پرنٹ کرواٸے ہوٸے گریٹنگ کارڈز کو ہر سال ہی بے حد سراہا جاتا تھا ۔ مہر سلطانہ صاحبہ نے تو احمد ندیم قاسمی صاحب کے جشن ولادت کی مناسبت سے ہمارے پرنٹ کرواٸے ہوٸے کارڈ جناب محترم شبنم رومانی صاحب سے حاصل کیا اور اس کا عکس اپنی کتاب میں شاٸع فرمایا
اب سے دو برس قبل ہم نے منصورہ احمد کی شاعری کے حوالے سے ان کی برسی کے موقع پر ایک مختصر سا مضمون لکھا تو ایک بطور شاعرہ جانی پہچانی جانے والی شخصیت نے ہمیں فون کرکے پوچھا کہ ”آپ نے منصورہ احمد کی شاعری پر ایک توصیفی مضمون کیوں لکھا۔ آپ نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ ناہید قاسمی صاحبہ کو ناگوار گزرے گا بلکہ انہیں ذہنی اذیت پہنچے گی آپ نے یہ مضمون لکھ کر کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے مجھے بہت کوفت اٹھانا پڑی بہت برا لگا ۔ لگتا ہے اب تک میرا شعری مجموعہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا اگر گزرا ہوتا تو منصورہ کے مجموعہ کلام کے بجاۓ میری شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے تو مجھے بہت اچھا لگتا “
جب محترمہ نے اپنی بات مکمل کرلی تو ہم نے بصد احترام ان سے عرض کیا کہ ہم نے آپ کی اعلی ظرفی دیکھ رکھی ہے آپ کو تو نہ ہی بڑوں کی بزرگی کا خیال ہے نہ ہی کسی کے بھی سفید بالوں کی لاج ہے ۔ ہم نے سب سن رکھا ہے احمد ندیم قاسمی صاحب سے اور اشفاق احمد خاں صاحب سے ۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی صاحب سے اور لطیف الزماں صاحب سے اور دیگر اصحاب ِ باکمال سے۔ آپ نے جس طرح ان کی پگڑیاں اچھالیں اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اور رہی بات ڈاکٹر ناہید قاسمی صاحبہ کی تو ہم انہیں آپ سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر ناہید قاسمی صاحبہ ایک مہذب ٗ اعلی تعلیم یافتہ ٗ ایک زیرک ٗ اعلی ظرف اور بردبار خاتون ہیں ہم دل سے ان کی اور ان کی علمیت کی قدر کرتے ہیں۔ ہم خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کسی کے حوالے سے خاص طور پر منصورہ احمد کے حوالے سے کچھ لکھنے پر ان کو ذہنی کوفت ہوگی یا نہیں لیکن جو کچھ آپ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کے حوالے سے فرماچکی ہیں اس سے یقینا“ تمام محبان ِ احمد ندیم قاسمی کو بہت تکلیف پہنچی اور انہیں ذہنی اذیت بھی ہوی لیکن اس سے ایک مثبت نتیجہ اخذ ہوگیا اور وہ یہ کہ آپ کا ظرف سب پر کھل گیا۔ آپ نے احمد ندیم قاسمی صاحب ٗ عاصی کرنالی صاحب اور اشفاق احمد خاں صاحب ہی کیا بانو قدسیہ آپا کو بھی نہ چھوڑا اور آخر میں ایک اہم بات اور وہ یہ کہ ہمیں اپنے بڑوں اور بزرگوں اور اسلاف سے بے پناہ محبت اور عقیدت ہے اور وہ سب کے سب ہمیں ہم سے زیادہ جانتے پہچانتے اور سمجھتے ہیں اور ہم نظریاتی اختلاف کی بات سنتے بھی ہیں اور اس پر غور بھی کرتے ہیں لیکن اگر بات ذاتیات پر حملوں تک پہنچے گی تو اس کو کسی طور درگزر یا معاف کرنے کو تیار نہیں۔ امید ہے کہ آپ ہمیں کبھی کسی قسم کا سبق پڑھانے کی کوشش نہیں کریں گی۔ اللہ حافظ۔
منصورہ احمد نے ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ 1986ء سے 2006ء تک حضرت احمد ندیم قاسمی کا جاری کردہ مقبول ترین ادبی جریدوں اور رسالوں سے ایک ادبی رسالے ’’فنون‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل رہیں۔ جبکہ منصورہ احمد کا نام بطور شریک مدیرہ دس برس سے کم عرصہ چھپا لیکن عملی طور پر منصورہ احمد کی بھرپور معاونت شامل حال رہتی ۔
اختر حسین جعفری کی شعری تخلیقات ویسے تو بلا شبہ 90 فیصد انتہاٸی تواتر اور اہتمام کے ساتھ فنون میں شاٸع ہوا کرتی تھیں یا پھر یہ اعزاز سید فخرالدین بلے اور راقم السطور ظفر معین بلے کے زیر ادارت شاٸع ہونےوالے جریدے ”آواز جرس“ کو حاصل ہوا ۔ فنون کے مدیر احمد ندیم قاسمی اور معاون مدیرہ منصورہ احمد نے قبلہ اختر حسین جعفری کی رحلت کے بعد شاندار و جاندار فنون کا اختر حسین جعفری نمبر بھی شائع کیا تھا۔
ہمارے پیارے اور محترم جناب اختر حسین جعفری صاحب کی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے سے محبت اور تعلق داری اور رفاقت کی داستان اللہ جانے کتنی عمر رسیدہ ہوگی ہم تو کم از کم اپنے ہوش سنبھانے کے بعد سے دیکھتے چلے آٸے ہیں اور بےشک ہمیں اختر حسین جعفری انکل کی محبت و چاہت وراثت میں ملی ہے۔ ہمیں جناب منظر حسین اختر بھاٸی صاحب اور برادر عزیز جناب امیر حسین جعفری کا شمار خوبصورت شعرا میں ہوتا ہے اور وہ ہمیں بہت عزیز ہیں۔احمد ندیم قاسمی صاحب نے اختر حسین جعفری صاحب کی موجودگی میں قافلہ کے ایک پڑاٶ میں شرکاٸے قافلہ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ اگر منظر حسین جعفری اور امیر حسین جعفری نے اسی محنت اور لگن سے اپنے شعری سفر کو جاری رکھا تو ایک دن ضرور یہ آسمان ادب کے درخشاں ستاروں میں شمار ہونگے
منصورہ احمد نے اساطیر کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کی بھی بنیاد رکھی ۔ ادارہ ٕ اساطیر نے بہت اعلی معیار کی کتب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ جن میں جناب احند ندیم قاسمی کے تقریبا“ تمام تر شعری اور افسانوی مجموعوں کے نۓ ایڈیشنز کے علاوہ دیگر کتب بھی شامل ہیں اور دنیاۓ ادب کے بےتاج بادشاہ سرکار گلزار کی کتب بھی۔
حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد نے ادبی جریدہ ”مونتاج“ جاری کیا۔ جس میں جناب احمد ندیم قاسمی کا نام بطور میر ِ کارواں سب سے اوپر پبلش کیا جاتا تھا۔ مونتاج کا پہلا شمارہ احمد ندیم قاسمی نمبر تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے منصورہ احمد نے مونتاج کے تقریبا“ گیارہ ہی شمارے منظر عام پر لاسکیں۔ مونتاج کے بارہویں شمارے کا مسودہ کمپوز بھی ہوچکا تھا بلکہ نصف سے زیادہ مواد کی تو پروف ریڈنگ بھی ہوچکی تھی۔ طلوع کے بعد بلکہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں منصورہ احمد نےاپنا دوسرا شعری مجموعہ آسمان میرا ہے مرتب کرنا شروع کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ منصورہ احمد اپنی زندگی ہی میں اپنا دوسرا شعری مجموعہ ”آسمان میرا ہے“ مرتب کرچکی تھیں لیکن اس سے قبل کہ وہ زیور طباعت سے آراستہ ہوتا منصورہ احمد کا اس جہان ِ فانی سے دانہ پانی اٹھ گیا۔ اور آسمان میرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ اللہ جانے کہاں چلا گیا۔ آسمان میرا ہے ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اشد ضروری ہے اور وہ یہ کہ منصورہ احمد کی زندگی کے ان پانچ برسوں کے حوالے سے ہماری تمام تر معلومات کا ذریعہ خود منصورہ احمد ہیں ۔ ان سے فون پر مسلسل رابطہ تھا۔ بہت سے امور پر باہمی مشورے ہوتے تھے۔ لیکن جب منصورہ احمد شدید علالت کا شکار ہوچکی تھیں اور فالج کے حملے کے بعد تو جیسے وہ ڈھیر ہی ہوچکی تھیں ۔ بعض اوقات ان کی زبان کی لکنت کی وجہ سے ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں آتے تھے۔
کیونکہ ان کی آواز سے ان کی نقاہت اور زبان کی لکنت کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد اندر تک سے ٹوٹ اور بکھر چکی تھی ممکن ہے کہ وہ خود کو بکھرنے سے بچانے میں کامیاب ہوجاتی اور خود کو سمیٹ پاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رویوں اور ہمارے طرز عمل نے منصورہ احمد کو جیتے جی مار ڈالا۔ یہ اسٹروک ۔ یہ فالج ۔ اور پھر نمونیا اور پھر تو جیسے بیماری نے منصورہ احمد کو آن لیا تھا۔ کبھی بلڈ پریشر کا سنتے تو کبھی نقاہت کا اکیلی جان اور اس کے ساتھ مونتاج جیسے معیاری اور ضخیم جریدے کے تمام تر کام کا بوجھ اور بھاگ دوڑ بھی منصورہ احمد کے کاندھوں پر تھی۔
منصورہ احمد بےشک جدید اردو شاعری کا معتبر حوالہ معتبر نام ہے۔ منصورہ احمد نے کم از کم بھی پچیس نہ بھی سہی تو بیس برس تو ضرور دنیاۓ شعر و ادب میں محض اپنی جاندار شاعری کی بنا پر خوب نام اور مقام پایا اور کمایا۔ منصورہ احمد کی نظم ہو یا غزل دونوں ہی کو اعلی اور عمدہ اور یکسر منفرد لہجے کا تسلیم کیا گیا لیکن خدا جانے ایسا کیا ہوا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد تو جیسے منصورہ احمد کی ادبی خدمات اور عمدہ شاعری کا تذکرہ کرنے سے بھی اجتناب برتنے کا رحجان پروان چڑھنے لگا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ منصورہ احمد کی شخصیت اور کردار اور فن کے منفی پہلو تلاش کرنےکی ناکام کوشش کی جانے لگی۔ جب ہمیں منصورہ احمد کی علالت کی خبر ملی تو صدیقہ بیگم نے میرے دورہ ٕ لاہور کے دوران معلوم کروایا تو پتہ چلا کہ بسلسلہ علاج منصورہ احمد لاہور میں نہیں ہیں بلکہ لاہور سے باہر اپنے بھای یا بہن کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد خود منصورہ احمد سے معلوم ہوا کہ وہ لاہور لوٹ چکی ہیں اور شاید فیصل ٹاٶن میں ہیں ۔ میں اور صدیقہ بیگم منصورہ احمد کی مزاج پرسی کو گویا کہ عیادت کےلیے گۓ۔ منصورہ علالت اور نقاہت کے باوجود وہ بہت تپاک سے ملیں۔ اس وقت بھی منصورہ احمد کی طبیعت ہرگز ٹھیک یا بہتر نہیں تھی اور باوجود اس کے کہ ان سے بولا بھی نہیں جارہا تھا گفتگو میں بھی دشواری کا سا احساس ہورہا تھا۔ وہ مسلسل ہم دونوں سے محو گفتگو رہیں۔ دو ایک مرتبہ ہم نے اٹھنے اور رخصت کی اجازت چاہی لیکن منصورہ احمد نے ہمیں اٹھ کر آنے بھی نہ دیا اور کہنے لگیں بہت کم بہت کم لوگ ہیں کہ جن سے میں بات گویا کہ اپنی بات کرلیتی ہوں۔ ایک مسعود اشعر صاحب ۔ خالد احمد صاحب ۔ نجیب احمد صاحب ظفر معین بلے اور صدیقہ بیگم آپ اور بس۔ ہاں دو ایک نام اور بھی ہیں لیکن آپ سب سے بات کرکے میرا جی ہلکا ہوجاتا ہے۔ اور آپ سب کے سب نے مجھے ہمیشہ مخلصانہ مشوروں سے نوازا اور کسی بھی قسم کی محاذ آرای سے اجتناب برتنے کا کہا۔
منصورہ احمد علالت کے باعث حد درجہ حساس سی ہوچکی تھیں۔ دوران گفتگو متعدد بار ان کی آنکھیں اشک بار اور ان کا لہجہ تھرا گیا۔ میں نے اور صدیقہ بیگم نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی تو کہنے لگیں مجھے آپ سب کی دعاٶں کی اشد ضرورت ہے مجھے اندازہ ہے کہ اب میرے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔ بابا سے محبت کرنے والے بہت سوں میں سے چند ایک ہی سہی لیکن مجھ سے بھی بابا کی محبت میں محبتیں اور تعلق نبھا رہے ہیں آپ دونوں بھی انہی چند میں سے ہیں۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے اشکبار آنکھوں اور دکھ بھرے لہجے میں مذید کہا کہ اگر کبھی آپ کی یا آپ میں سے کسی کی میری کسی بات سے دل شکنی ہوی ہو تو میں دست بستہ معذرت کی خواستگار ہوں۔ اس پر میں نے اور صدیقہ بیگم نے ان سے عرض کیا کیسی مایوسی کی باتیں کر رہی ہو۔ وہ بھی اتنی بہادر ہوکر تو منصورہ احمد نے کہا کہ نہیں مجھے اندازہ ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اور میری طبیعت میری بیماری ہرگز بھی قابو میں نہیں آرہی۔ وقت ریت کی طرح مٹھیوں سے نکلتا چلا جارہا ہے بلکہ آج تو میں سوچ رہی تھی کہ ناہید باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدیقہ بیگم نے استفسار کیا کہ ناہید باجی کیا ۔۔۔؟؟؟ کیا ناہید قاسمی سے پھر کچھ نیا معاملہ ہوا ہے کو۔۔۔۔۔۔ی ن۔۔۔۔۔۔ی بات۔ تو منصورہ احمد نے کہا نہیں فی الحال تو ایسا نیا کچھ نہیں ہوا لیکن میں سوچ ضرور رہی تھی کہ ان سے فون پر بات کروں اگر اب بھی ان کے دل میں میرے حوالے سے کو۔۔۔۔۔ی بدگمانی ہے تو میں ان سے معافی مانگ لوں۔ اس تمام تر گفتگو کے بعد ہم نے پھر جانے کا ارادہ کیا تو منصورہ احمد نے صدیقہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بٹھا لیا اور مجھ سے کہا کہ ظفر معین بلے صاحب آپ نے مجھ ہمیشہ احترام اور اعتماد بخشا اور منصورہ باجی کہہ کر مخاطب کیا۔ آج آپ کی منصورہ باجی آپ سے کہہ رہی ہے کہ بھیا ہم مدتوں بعد ملے ہیں ایک عرصہ ہوا کہ آپ اور صدیقہ بیگم کے ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا بھی نصیب نہ ہوسکا اور کب ہوسکے گا یا نہیں کون جانے ۔ اتنی دیر میں صدیقہ بیگم کا کہیں سے فون آگیا اس کمرے میں سگنلز کا کچھ اشو تھا تو وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جاکر فون سننے لگیں ۔مجھے تشویش کا احساس ہوا تو میں صدیقہ بیگم کے پیچھے پیچھے پہنچ گیا ۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں ظفر مینوں شدید پکھ لگی اے ہن کی کرنا اے۔ دس مینوں چھیتی چھیتی ۔ میں نے کہا کہ اجازت لیں منصورہ باجی سے تو صدیقہ بیگم تپ کر جھنجھلا کر بولیں ہالے تیکر تے اوہ شرافت دی شرافت وچ ریکویسٹ کر رہی اے کہ تسی لوکی تھوڑی دیر ہور نہ جاٶ ۔ فیر اوہ جدوں مولا جٹ دا ڈانگ چک کے وی ساڈے ول تکے گی تے دس کی بنے گا تیرا تے میرا۔ قصہ مختصر ہم دوبارہ منصورہ باجی کے پاس جا بیٹھے اور ایک دو ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد صدیقہ بیگم نے منصورہ احمد سے پوچھا کہ تمہارا پرہیز کس کس چیز کا ۔ تم کیا چیز شوق سے کھاسکتی ہو ۔ منصورہ احمد بتاتی رہیں اور میں سنتا رہا ۔ اور پھر میں نے پہلے چپکے سے صدیقہ بیگم کے فون سے کہیں کسی مخصوص جگہ پر فون کیا اور میسج بھی ۔ اور پندرہ منٹ بعد منصورہ احمد سے کہا کہ صدیقہ باجی کی کچھ میڈیسن لینی ہے آپ لوگ بیٹھیں میں آیا ابھی کچھ ہی دیر میں اور پینتالیس پچاس منٹ میں اپنے ٹھکانے سے کھانا تیار کروا لایا ۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہماری خواہش کے احترام میں شاید منصورہ احمد بھی کچھ کھالیں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
منصورہ احمد علمی اور ادبی حلقوں کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ ان کی شخصیت کم و بیش تیس پینتیس برس موضوعِ بحث رہی اور وہ بھی مختلف زاویوں اور حوالوں سے۔ خود اپنی ذاتی حیثیت میں بھی اور احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی کی حیثیت سے بھی۔حلقہء ندیم اور حلقہء فنون اور مخالف دھڑوں کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار حلقوں میں بھی۔ 1986ء سے 2006ء تک حضرت احمد ندیم قاسمی کا جاری کردہ مقبول ترین ادبی جریدوں اور رسالوں سے ایک ادبی رسالے ’’فنون‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل رہیں۔ جبکہ منصورہ احمد کا نام بطور شریک مدیرہ دس برس سے کم عرصہ چھپا لیکن عملی طور پر منصورہ احمد کی بھرپور معاونت شامل حال رہتی ۔ منصورہ احمد نے اساطیر کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کی بھی بنیاد رکھی ۔ ادارہ ٕ اساطیر نے بہت اعلی معیار کی کتب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ جن میں جناب احند ندیم قاسمی کے تقریبا“ تمام تر شعری اور افسانوی مجموعوں کے نۓ ایڈیشنز کے علاوہ دیگر کتب بھی شامل ہیں اور دنیاۓ ادب کے بےتاج بادشاہ سرکار گلزار کی کتب بھی۔ منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طلوع‘‘ 1997ء میں شائع ہوا۔ 1998ء میں طلوع کو وزیراعظم ادبی ایوارڈ ملا۔
لاہور سے ملتان اور پھر ملتان سے کراچی سکونت اختیا ر کرنے پر بھی قاسمی صا حب سے مسلسل رابطہ قائم رہا۔ مجھے اور میری بہن عذرا کمال کو کراچی میں بھی بارہا ان کی میزبانی کا اعزاز حا صل ہوتا رہا ۔وہ خیریت دریافت کرنے کیلئے بھی فون کیا کرتے تھے ۔ ایک مر تبہ کسی تقر یب کے حوالے سے احمد ندیم قا سمی ‘منصور ہ احمد ‘محسن احسان اور احمد فراز کراچی آئے ہو ئے تھے ۔قا سمی صا حب نے آتے ہی مجھے مطلع کیا ۔ پھر میری بہن عذرا کمال اور میرے بہنوئی محترم کمال اختر صاحب انہیں اپنے ساتھ لے آئے۔ اواری سے سی ویو تک کا سفر بھی خوشگوار رہا اور جیسے ہی خیابان ِ شمشیر سی ویو کی جانب مڑے تو ایک طرف تو تا حد نگاہ سمندر ہی سمندر تھا اور اس کے سامنے سی ویو اپارٹمینٹس۔ قاسمی صاحب نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ کمال صاحب اگر آپ کچھ دیر کےلیے گاڑی روک لیں تو اس منظر کو تسلی سے دیکھ سکوں گا ۔ جیسے ہی گاڑی رکی احمد ندیم قاسمی صاحب اور منصورہ احمد گاڑی سے اتر گۓ سمندر کا نظارہ کرتے رہے اور سمندری ہوا کو انجواۓ ۔ کچھ دیر کے بعد خود ہی کہنے لگے کہ واپسی پر ایک مرتبہ پھر رک لیں گے پانچ دس منٹ ۔ گھر پہنچ کر گھنٹوں محفل جمی رہی۔ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں ۔ پھر کیونکہ اسی رات کو وہ تقریب بھی تھی کہ جس میں شرکت کےلیے یہ تمام مہمانان گرامی کراچی تشریف لاۓ تھے لہذہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے شام کی چاۓ پر ہی اعلان فرمادیا کہ عذرا بیٹی ہمیں آٹھ بجے تک یہاں سے جانا ہوگا امید ہے آپ ہمیں خوش دلی سے رخصت کریں گی ۔ عذرا باجی نے کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن خوش دلی سے تو ہرگز بھی نہیں کیونکہ ابھی تک تو آپ سے ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں ہوسکی ۔ اگر آپ ہمیں کم از کم دوچار روز کی میزبانی کا اعزاز بخشیں تو ضرور ۔ قاسمی صاحب نے کچھ دیر کچھ سوچا پھر کہا کہ میں آج ہی اپنی میزبان ٹیم سے بات کرتا ہوں کہ ہماری واپسی کی بکنگ دو تین روز بعد کی کروادیں کیونکہ میں نے بیٹی عذرا کی خواہش کے احترام میں مذید دو تین رکنا ہے۔ اگلے ہی روز صبح دس بجے کے قریب قاسمی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے فرمایا کہ تین روز بعد کی بکنگ ہوسکی ہے۔ ہم سب قاسمی صاحب اور منصورہ احمد کو اواری سے سی ویو لے آۓ۔
قاسمی صاحب کی گرتی ہوئی صحت کے باعث ”فنون“ کی بہت حد تک ذمہ داری بھی منصورہ احمد کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ جب ان کا نام مدیر منتظم / شریک مدیرہ کے طورپر ”فنون“ میں شائع ہونے لگا تو یہ بات بذاتِ خود ایک نیا موضوع بن گیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کی جانے لگی کہ احمد ندیم قاسمی کا تو بس نام ہی استعمال ہو رہا ہے ان کا اتنا عمل دخل نہیں رہا۔تمام تر مواد matter کا انتخاب منصورہ احمد ہی کرتی ہیں۔اور جب منصورہ احمد کی شاعری بالخصوص نظمیں تواتر کے ساتھ فنون میں شائع ہونے لگیں تو ایک نئے موضوع نے جنم لیا۔پھر کیا ہوا . امجد اسلام امجد کے مطابق ”اس دوران میں اس نے بطورِ شاعرہ کے بہت ترقی کی۔اور بلا شبہ اپنے لیے ایک نام اور مقام حاصل کیالیکن یہاں بھی وہی افراط و تفریط کا ماحول بن گیاکہ فنون کا وہ حصہ جو قارئین کے خطوط اور آرا ٕ پرمبنی ہوتا تھا کم و بیش منصورہ نامہ بن کر رہ گیا۔جس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس کی سچ مچ کی بہت اچھی شاعری بھی اس کریڈیبلٹی سے محروم ہوگئی جواس کا حصہ تھا۔“
اس حوالے سے الگ بحث ہوتی رہی بہرحال کسی نہ کسی طور منصورہ احمد کا ہر عمل ایک نئے موضوع کو جنم دیتا رہا۔۔
انتظار حسین صاحب نے اپنے ایک کالم میں احمد ندیم قاسمی صاحب اور منصورہ احمد کے اس باہمی تعلق ٗ ربط اور رشتے کو ان الفاظ میں بیان کیا۔۔۔ ”بے شک اس بی بی نے قاسمی صاحب کے لواحقین کو شکایت کے مواقع فراہم کئے تھے مگر خدا لگتی کہیں گے اور سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہ اس منہ بولی بیٹی نے باپ کی خدمت گذاری بہت جی لگا کر کی تھی ۔ قاسمی صاحب نے اسے بلاوجہ تو بیٹی نہیں بنایا تھا“
ہم انتظار حسین صاحب کی راۓ سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوۓ اور ان کے موقف کی تصدیق کرتے ہوۓ بس اتنا کہنا چاہیں گے۔ منصورہ احمد نے بے شک احمد ندیم قاسمی صاحب کی حد درجہ خدمت کی اور ان کی تمام تر تخلیقات اور تصانیف کے تحفظ کا سامان بہم پہنچایا اور ان کی کسی بھی تصنیف یا تخلیق تو کجا ایک سطر کو بھی غیر محفوظ نہیں رہنے دیا۔ بلکہ بہت سی گمشدہ تخلیقات کو تلاش کرکے محفوظ کیا۔ فنون کے بھی جملہ امور میں جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا اس سے بڑھ کر معاونت کی لیکن ان تمام تر اوصاف اور خدمات کے چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل اعتراف کرتے ہوۓ ہم یہ بات کہیں گے بلکہ جناب انتظار حسین صاحب کے ہی الفاظ کو دہراتے ہوۓ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوۓ کہیں گے کہ بے شک منصورہ احمد نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے لواحقین اور پسماندگان کو شکایت کے مواقع فراہم کیے تھے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ منصورہ بھی دودھ کی دھلی تو تھی نہیں ہماری طرح بندہ بشر تھی اس کے ایسے کسی بھی عمل یا اقدام کی ہم پرزور مزمت کرتے ہیں اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی علمی و ادبی وراثت کی وارث محترمہ ناہید قاسمی صاحبہ تھیں اور ہیں اور اللہ انہیں سلامت رکھے ۔ آمین۔
یہاں جب اتنی بہت سی تکلیف دہ باتیں ہوچکی ہیں تو ہم اس بات کا بھی اعتراف کر لیں کہ منصورہ احمد کے انتقال کے فوراً بعد ہم نے ناہید قاسمی صاحبہ کو فون کیا تھا اور ہم نے ان سے عاجزانہ گزارش کی تھی کہ ناہید باجی آپ بڑی ہیں ہمارے لیے قابل صد تعظیم ہیں آپ کو منصورہ احمد کے انتقال کی خبر دینے کے ساتھ آپ سے ایک دست بستہ گزارش ہے اور وہ یہ کہ آپ اعلی ظرف ہیں اپنے بابا احمد ندیم قاسمی صاحب کے نام پر ان کے صدقے میں منصورہ احمد کی کوتاہیوں کمزوریوں اور خطاٶں اور زیادتیوں کو درگزر اور معاف فرمادیں ۔ میں آپ سے منصورہ کی طرف سے معافی کا طلبگار ہوں ۔ ایک عظیم ٗ زیرک اور بڑے انسان کی عظیم بیٹی سے ہمیں بالکل ایسے سے ہی جواب کی توقع تھی۔ سلام ہے محترمہ ناہید قاسمی صاحبہ کی عظمت اور اعلی ظرفی اور جزبہ ِعفو و درگزر کو انہوں نے فرمایا کہ میں نے معاف کیا اللہ بھی اس کی خطاٶں کو معاف فرماۓ۔ سلامت رہیں ناہید باجی پروردگار آپ کے گلشن کو شاد و آباد و شاداب رکھے ۔ آمین
جب لاہور میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا پچھتر سالہ جشن ولادت منایا گیا تو اس کی صدارت جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب نے فرمائی تھی ۔ ملک بھر سے محبان احمد ندیم قاسمی نے بھر پور انداز میں شرکت فرمائی تھی۔ بیرون ملک سے بھی کثیر تعداد میں ادب دوستوں نے شرکت فرمائی جن میں جناب نصر ملک صاحب بھی شامل ہیں۔ ملتان سے پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب بھی تشریف لائے تھے اور انہوں نے بلے ہاؤس میں قیام فرمایا تھا۔ جشن احمد ندیم قاسمی کے اختتام پر بہت سے احباب و اصحاب والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ملنے ( اور ان کی عیادت کرنے) شادمان جی او آر تھری میں بلے ہاٶس پہنچنا شروع ہوگٸے ۔ جن میں مشتاق احمد یوسفی صاحب ۔ جناب مختار مسعود صاحب ۔ جناب مسعود اشعر صاحب اور ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب ۔ شاہد واسطی۔ کلیم عثمانی صاحب ۔ حفیظ تاٸب صاحب ۔ قتیل شفاٸی ۔ طفیل ہوشیارپوری اور مسعود اشعر صاحب کے علاوہ بھی دیگر بہت سے احباب تھے ۔ اجمل نیازی صاحب نے مسعود اشعر صاحب سے پوچھا کہ جشن ندیم کیسا رہا اور آپ کو کیسا لگا تو مسعود اشعر صاحب نے فرمایا کہ یہ جشن تو تھا لیکن دراصل اعلان وراثت کا معاملہ تھا ۔ جشن میں تو وراثت کا اعلان کیا گیا ۔ کیک کاٹتے وقت ایک طرف ڈاکٹر ناہید قاسمی صاحبہ تھیں اور ایک طرف منصورہ احمد صاحبہ ۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد معروف شاعرہ اور سابق شریک مدیرہ فنون منصورہ احمد صاحبہ نے احمد ندیم قاسمی صاحب کی یاد میں رسالہ مونتاج کا آغاز کا ۔ مونتاج کی مجلس مشاورت میں جناب مسعود اشعر صاحب بھی شامل تھے۔ مونتاج نے احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے شاندار اشاعت خاص کا اہتمام بھی فرمایا تھا ۔ آپ اس اشاعت خاص کو ایک شاہکار اور ایک تاریخی دستاویز قرار دے سکتے ہیں۔ منصورہ احمد صاحبہ کا بھی فون آتا تو وہ تفصیلی گفتگو فرماتی تھیں اور برملا اس بات اعتراف کرتی تھیں کہ ظفر بلے بھاٸی مجھے جس قدر حوصلہ جناب مسعود اشعر صاحب نے دیا اور جتنی حوصلہ افزاٸی فرماٸی میں بتا نہیں سکتی ۔ فون پر آپ سے بات کرکے اور مسعود اشعر صاحب سے مل کر میری زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ منصورہ احمد صاحبہ ہمیشہ مجھے میری ہی کہی ہوٸی باتیں یاد دلایا کرتی تھیں کہ ” ہمت نہیں ہارنی حوصلے بلند رکھنے ہوں گے بابا احمد ندیم قاسمی صاحب کی آنکھیں بند ہونے پر بہت سے چہرے بے نقاب ہو جاٸیں گے“
حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد نے ادبی جریدہ ”مونتاج“ جاری کیا۔ جس میں جناب احمد ندیم قاسمی کا نام بطور میر ِ کارواں سب سے اوپر پبلش کیا جاتا تھا۔ مونتاج کا پہلا شمارہ احمد ندیم قاسمی نمبر تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے منصورہ احمد نے مونتاج کے تقریبا“ گیارہ ہی شمارے منظر عام پر لاسکیں۔ مونتاج کے بارہویں شمارے کا مسودہ کمپوز بھی ہوچکا تھا بلکہ نصف سے زیادہ مواد کی تو پروف ریڈنگ بھی ہوچکی تھی۔ طلوع کے بعد بلکہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں منصورہ احمد نےاپنا دوسرا شعری مجموعہ آسمان میرا ہے مرتب کرنا شروع کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ منصورہ احمد اپنی زندگی ہی میں اپنا دوسرا شعری مجموعہ ”آسمان میرا ہے“ مرتب کرچکی تھیں لیکن اس سے قبل کہ وہ زیور طباعت سے آراستہ ہوتا منصورہ احمد کا اس جہان ِ فانی سے دانہ پانی اٹھ گیا۔ اور آسمان میرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ اللہ جانے کہاں چلا گیا۔ آسمان میرا ہے ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اشد ضروری ہے اور وہ یہ کہ منصورہ احمد کی زندگی کے ان پانچ برسوں کے حوالے سے ہماری تمام تر معلومات کا ذریعہ خود منصورہ احمد ہیں ۔ ان سے فون پر مسلسل رابطہ تھا۔ بہت سے امور پر باہمی مشورے ہوتے تھے۔ لیکن جب منصورہ احمد شدید علالت کا شکار ہوچکی تھیں اور فالج کے حملے کے بعد تو جیسے وہ ڈھیر ہی ہوچکی تھیں ۔ بعض اوقات ان کی زبان کی لکنت کی وجہ سے ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں آتے تھے۔ کیونکہ ان کی آواز سے ان کی نقاہت اور زبان کی لکنت کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد اندر تک سے ٹوٹ اور بکھر چکی تھی ممکن ہے کہ وہ خود کو بکھرنے سے بچانے میں کامیاب ہوجاتی اور خود کو سمیٹ پاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رویوں اور ہمارے طرز عمل نے منصورہ احمد کو جیتے جی مار ڈالا۔ یہ اسٹروک ۔ یہ فالج ۔ اور پھر نمونیا اور پھر تو جیسے بیماری نے منصورہ احمد کو آن لیا تھا۔ کبھی بلڈ پریشر کا سنتے تو کبھی نقاہت کا اکیلی جان اور اس کے ساتھ مونتاج جیسے معیاری اور ضخیم جریدے کے تمام تر کام کا بوجھ اور بھاگ دوڑ بھی منصورہ احمد کے کاندھوں پر تھی۔
منصورہ احمد کی زیر ادارت مونتاج کا پہلا شمارہ منظر عام پر آنے سے قبل ہی ایک جناب مسعود اشعرصاحب کا فون آیا اور انہوں نے خیریت دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھےاس بات کی بہت خوشی ہے کہ منصورہ احمد جب جب بھی آپ سے رابطہ کرتی ہیں تو آپ ان کی حوصلہ افزاٸی کرتے ہیں اور آپ کے مشوروں میں منصورہ مجھے شامل رکھتی ہیں۔ آپ کے توسط سے منصورہ احمد کو مونتاج کےلیے قاسمی صاحب کے حوالے سے چند بہت اچھے مضامین بھی موصول ہوٸے۔
مونتاج کے نام سے رسالہ جاری کیا گیا جس کی مجلسِ مشاورت میں مسعود اشعر بھی شامل تھے۔”آئینہ میں مسعود اشعر نے بہت خوبصورتی سے منصورہ احمد کی شخصیت اور خدمات کا ذکر ”منہ بولی بیٹی“کے عنوان کے تحت کیا۔ اور بہت خوب کیا۔
مسعود اشعر صاحب وہ فرماتے ہیں کہ ’’احمد ندیم قاسمی نے اسے منہ بولی بیٹی بنایا تھا اور اس نے بیٹی بن کر دکھادیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے آخری تیس پینتیس سال اس نے ان کی ایسی خدمت کی کہ کیا کوئی سگی بیٹی کرسکے گی۔ ‘‘ ۔خود احمد ندیم قاسمی صاحب نے پروفیسر فتح محمد ملک کے نام ایک خط میں جو فتح محمد ملک کی کتاب ’’ندیم شناسی‘‘ میں شامل ہے، منصورہ احمد کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا ۔۔۔ ’’اگر میری منصورہ بیٹی میری بھرپور خدمت نہ کر رہی ہوتی تو میری سالگرہ کے بجائے آپ میری برسی منا رہے ہوتے ‘‘۔
اور یہی نہیں بلکہ بحثیت منہ بولی بیٹی کے منصورہ احمد نے جو اپنے بابا حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی بیس پچیس برس خدمت کی اس کا بھی جناب مسعود اشعر صاحب نے اس کا بھی خصوصی انداز اور الفاظ میں تذکرہ کیا ۔۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ منصورہ احمد کسی نہ کسی حوالے سے موضوعِ بحث بھی بنی رہی اور متنازعہ بھی
معتبر شاعرہ منصورہ احمد کی متنازعہ شخصیت
ولادت ۔ یکم جون 1958ء حافظ آباد —— وفات ۔ .8. جون 2011ء لاہور
داستان گو: ظفر معین بلے جعفری