(Last Updated On: )
صرف گزشتہ 18 ماہ میں ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کی ایٹمی تنصیبات اور شخصیات پر 4 انتہائی منظم اور کامیاب حملے کیے جنہوں نے ایران کو لرزا کے رکھ دیا اور ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔
یہ 4 حملے :
1- ڈاکٹر محسن فخری زادہ کا قتل۔
2- نطانز جوہری نیوکلئیر پلانٹ حملہ اول۔
3- نطانز نیوکلیئر پلانٹ حملہ دوم۔
4- کراج سینٹری فیوج فیکٹری ڈرون حملہ۔
۔۔۔
کسی بھی ملک کے لیے اس کی جوہری تنصیبات سب سے حساس اور اہم مقام ہوتی ہیں جن کی حفاظت سب سے سخت منظم اور فول پروف انداز میں کی جاتی ہے ۔
ایران کے نطانز نیوکلیئر پلانٹ کی حفاظت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ یہ زیرزمین پلانٹ کنکریٹ اور فولاد کی 40 فٹ ، جی ہاں پورے چالیس فٹ موٹی دیوار میں گھرا ہے۔۔۔ یعنی اس کے اوپر اگر زمین پے ایٹم بم بھی گرا دیا جائے تو یہ بچ جائے گا ۔۔۔۔ اور پھر اس بات کا کسی کو اندازہ بھی نہیں کہ اس میں سینٹری فیوجز کہاں نصب کی گئی ہیں ۔ ایک اصل پلانٹ کے ساتھ درجن بھر زیر زمین ڈیکوے عمارات اور گودام بھی موجود ہیں اور زمین کے اوپر سے یا سیٹلائیٹ کی مدد سے سینٹری فیوجز کا پتا چلانا بھی ناممکن ہے۔
تو پھر موساد نے ایران کے سب سے بحفاظت رکھی جانے والی ، فول پروف سکیورٹی کی حامل ایٹمی تنصیب کو ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کیسے نشانہ بنانا یہ ہم جانیں گے اس تحریر میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- ڈاکٹر محسن فخری زادہ کاقتل :
محسن فخری زادہ ایران کے سب سے سینئیر جوہری سائنسدان ، ایرانی جوہری پروگرام کے بانیوں میں سے ایک اور ایرانی جوہری پروگرام کے ہیڈ بھی تھے ۔ یوں سمجھ لیں کہ وہ ایران کے ڈاکٹر عبد القدیر خان تھے ۔
موساد کئی سال سے محسن فخری زادہ کو ٹریک کررہی تھی ۔ ان کی روٹین کی ایک ایک سیکنڈ کی نگرانی اور ریکی کی جارہی تھی یہاں تک کہ موساد نے ان کی بےداغ سکیورٹی میں سوئی کے ناکے کے برابر ایک چھید تلاش کر ہی لیا ۔
اب انہیں نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔۔۔۔
لیکن ۔ اب کی بار موساد نے انہیں ختم کرنے کے لیے ایک ایسے ہتھیار کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کہ “جو غلطی نہ کرے اور اس کانشانہ خطا نہ ہو “.
27 نومبر 2020 ، محسن فخری زادہ تہران کے نزدیک آبسرد شہر سے واپس تہران کی طرف محوِ سفر تھے ۔ ان کی گاڑی کے ساتھ 3 سکیورٹی گاڑیاں بھی تھیں جن میں ایرانی سپیشل فورسز کے 11 مستعد کمانڈوز موجود تھے۔
پورے راستے کو پہلے ہی کلیئر کیا جاچکا تھا کہ دشمن نہیں کہیں کوئی بارودی سرنگ یا دھماکہ خیر مواد نہ نصب کر رکھا ہو۔۔۔
ابھی ان کا سفر نصف بھی نہ ہوا تھا کہ کچھ فاصلے سے محض ایک ، دو سیکنڈ کے لیے فائرنگ کی تڑتڑاہٹ سنائی دی اور پھر اتنے ہی فاصلے پر ایک دھماکہ ہوا۔
فوراً گاڑیاں روک دیں گئیں اور مستعد ایرانی کمانڈوز نے “پوزیشنیں سنبھال لیں” ۔
لیکن چند لمحے بعد انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر محسن فخری زادہ اب نہیں رہے ۔
لیکن۔۔۔ ہوا کیا ؟
ہوا کچھ یوں کہ جس روڈ پر فخری زادہ کا قافلہ سفر کررہا تھا اس سے کچھ فاصلے پر ایک سمت ایک نسان ٹرک کھڑا تھا جس کے اوپر کیمرے سے لیس ایک روبوٹک مشین گن نصب تھی جسے سیٹلائیٹ کی مدد سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
اسے چھپانے کے لیے اس کے اوپر ترپال یا کپڑا ڈال دیا گیا تھا جس میں صرف کیمرے کے لینز کے لیے چھید تھا ۔
جیسے ہی فخری زادہ کی گاڑی ہدف میں آئی ریموٹ کنٹرولڈ مشین گن نے ایک ہی لمحے میں برسٹ کھول دیا اور گولیاں ٹھیک فخری زادہ کو جاکر لگیں یہاں تک کہ ان کے ساتھ محض چند انچ کے فاصلے پر بیٹھی ان کی بیوی کو خراش تک نہ آئی ۔
ہدف کے ہٹ ہوتے ہی نسان ٹرک دھماکے سے پھٹ گیا اور اس پر نصب مشین گن مکمل تباہ ہوگئی۔
لیکن اس قدر حساس اور جدید اسلحہ موساد نے ایران کے اندر پہنچایا کیسے ؟
یہ ہم اسی تحریر میں آگے چل کر جانیں گے!
یہ سانحہ ایرانی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی بدترین ناکامی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔۔ جنوری 2020 میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ہی ایران کو اپنی ایک شخصیات کی حفاظت اور نگرانی میں اضافہ کردینا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا نتیجتاً محسن فخری زادہ بھی نشانہ بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔
نطانز حملہ 1 :
2 جولائی 2020 کو اصفہان میں واقع ایران کے سب سے اہم جوہری مرکز “نطانز نیوکلیئر پلانٹ” کا گراؤنڈ فلور ایک زوردار دھماکے سے لرز اٹھا ۔ دھماکہ اس وقت ہوا جب گراؤنڈ فلور پر سینٹری فیوجز کو اسمبل کیا جارہا تھا ۔
یہ دھماکہ اس قدر بھیانک تھا کہ محض نقصان کا تخمینہ لگانے میں بھی کئی دن لگ گئے ۔
لیکن یہ دھماکہ ہوا کیسے ؟ ۔۔۔۔ ایران دھماکے کے بعد بھی طویل عرصہ تک یہ جان نہ پایا۔
صورتحال کچھ یوں لگ رہی تھی کہ جیسے پلانٹ کی مشینری نے خود کو خود ہی دھماکے سے اڑا دیا ہو۔۔۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ 2019 کے اوائل میں جب پلانٹ کی Renovation کا کام چل رہا تھا تو حکومت نے اس کے لیے اکثریت سامان ایک کمپنی سے خریدا ۔
کمپنی بھی اصل تھی ۔۔۔ سامان بھی اصل ۔۔۔ اور کمپنی کا عملہ بھی سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔
لیکن۔۔۔۔موساد تب تک اس کمپنی کو کامیابی سے infiltrate کر چکی تھی اور ایرانی حکومت کو فروخت کیے گئے سازوسامان مشینری اور آلہ جات کے اندر دھماکہ خیز مواد موجود تھا ۔
اور یہی مشینری اور دیگر سازوسامان نطانز کے جوہری پلانٹ میں لگایا گیا ۔
لیکن۔۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر حساس اور اہم ترین جوہری تنصیب کے لیے خریداری کے وقت ایرانی ماہرین نے کسی ممکنہ تخریب کاری کے خدشات کا خیال نہ رکھا ہو اور خریدتے وقت سامان کی جامع اور باریک بینی سے جانچ پڑتال نہ کی ہو ؟؟
فی الحقیقت انہوں نے یہ سامان بیحد تفصیلی جانچ پرکھ کے بعد ہی خریدا اور نصب کیا تھا لیکن اس میں موجود دھماکہ خیز مواد کو وہ ڈیٹیک نہ کر پائے۔۔۔۔۔۔ لیکن کیوں ؟
دھماکہ خیز مواد آج کے دور میں صرف بارود ہی نہیں ۔ بلکہ سینکڑوں قسم کے مختلف نوعیت کے دھماکہ خیز مواد تیار ہوچکے ہیں جن کی خصوصیات ، پھٹنے کا طریقہ اور تباہی کا پیمانہ مختلف ہے ۔
انہیں مشینی چیکنگ کی مدد سے چیک کرنا آسان نہیں کیونکہ وہ مشین میں نصب کسی پلاسٹک کے ٹکڑے کی شکل میں بھی ہوسکتے ہیں یا کسی پرزے کو جوڑنے کے لیے لگائی گئی گلیو کی صورت میں بھی ۔
ان کے پھٹنے کے طریقہ کار بھی مختلف ہیں کوئی مواد مخصوص ٹمپریچر کے کم یا زیادہ ہونے پر پھٹ جاتا ہے ، کوئی خاص بلندی پر پہنچ کر پھٹ جاتا ہے تو کسی مواد کو فاصلہ سے ریموٹ کنٹرول کے زریعے بلاسٹ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال آپکو دیتی ہوں ۔
دسمبر 1994 میں ا•لقا•عدہ کے یوسف رمزی نے فلپائن سے جاپان سفر کررہے ایک جہاز میں دھماکہ مواد کو کانٹیکٹ لینز کے سلوشن میں چھپا کے جہاز پر پہنچا دیا جو دورانِ پرواز پھٹ گیا ۔
یہ تو 1994 کی بات تھی اب تو ایکسپلوسوز کے شعبہ میں کہیں زیادہ ترقی ہوچکی ہے ۔
ایسے مخفی مواد کو جانچنے کے دو ہی طریقے ہیں :
1- تربیت یافتہ کتوں سے سونگھوا کر۔۔۔ لیکن کتے ایسا مواد نہیں کھوج پائیں گے کہ جسے وہ پہلی مرتبہ سونگھ رہے ہوں اور انہیں پہلے سے اس کی تربیت نہ ہو۔
2- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مشینری اور سامان کے ایک ایک پرزے ایک ایک حصے کو کھول کر ایکسپلوسوز ماہرین سے اس کے ایک ایک انچ کا manually معائنہ کیا جائے جس میں کئی کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں ۔
چنانچہ۔۔۔۔ 2 جولائی 2020 کو جب نطانز جوہری مرکز کے گراؤنڈ فلور پر سینٹری فیوج اسمبل کی جارہی تھیں تو پہلے سے نصب اس دھماکہ خیز مواد کو ریموٹ کنٹرول لہروں کے زریعے بلاسٹ کردیا گیا ۔ اور ایرانی حکومت ، سکیورٹی ادارے راکھ چھانتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نطانز حملہ 2 :
2020 حملے میں بھلے ہی نطانز جوہری مرکز کا گراؤنڈ فلور تباہ ہوگیا لیکن یورینیم کی افزودگی ظاہر ہے گراؤنڈ فلور پر تو نہیں ہورہی تھی بلکہ جیسے میں پہلے آپکو بتا چکی کہ سینٹری فیوجز کنکریٹ و فولاد کے 40 فٹ موٹے ہالے کے اندر زیرزمین نصب تھیں ۔ جن کی تعداد 5 ہزار کے نزدیک بتائی جاتی یے۔
اور ظاہر ہے یہ مقام دنیا کے سب سے سخت سکیورٹی والے مقامات میں سے ایک تھا ۔
اسے ٹارگٹ کرنے کے لیے موساد گزشتہ کئی سال سے ایسے جونئیر ایرانی جوہری ماہرین کی ریکی کررہی تھی کہ جو اس مرکز میں کام کر رہے تھے ۔
ظاہر ہے کوئی بھی ملک اپنی جوہری تنصیبات کے ساتھ ساتھ اس میں کام کرنے والے ایک ایک شخص پر بھی ہمہ وقت کڑی نگرانی رکھتا ہے لیکن یہاں بھی ایرانی انٹیلی جنس کی ناکامی اور نا اہلی رنگ دکھا گئی اور موساد کے آپریٹوز خود کو ا•سر•ا•ئیلی ایجنٹ نہیں بلکہ ایرانی کالعدم اپوزیشن جماعت PMOI کے ممبر بتاتے ہوئے ایسے 10 ماہرین کو لالچ ، خوف یا کسی بھی طرح برین واش کرکے اپنے لیے کام کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی ۔۔۔۔ اب سوال تھا کہ اس قدر سخت سکیورٹی میں دھماکہ خیز مواد کو سینٹری فیوجز تک کیسے پہنچایا جائے ۔
اس سلسلے میں کوئی واضح معلومات تو نہیں کہ دھماکہ خیز مواد کو مرکز کے اندر کیسے پہنچایا گیا لیکن “جیو••ش کرونیکل” میں مبہم سا ذکر ہے کہ مبینہ دھماکہ خیز مواد کو پلانٹ کو خوراک ، پانی سپلائی کرنے والی گاڑیوں کے زریعے پلانٹ تک پہنچایا گیا جہاں ان ماہرین نے اسے کینٹین سے کلیکٹ کرلیا ۔۔۔۔ یہاں میں پھر بتاتی چلوں کہ۔۔۔۔ دھماکہ خیز مواد سے مراد بم یا ڈیٹونیٹر سے لیس کوئی ڈیوائس نہیں بلکہ وہ کسی بھی صورت میں ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ ممکن ہے سپلائی ٹرک میں موجود دودھ کی 500 بوتلوں میں سے دس بارہ بوتلوں میں دودھ ہی کے رنگ کا مواد موجود ہو ان ان بوتلوں پر کوئی نقطہ یا۔ نشان لگا کر نشاندہی کی گئی ہو کہ ہاں یہی ہیں وہ بوتلیں ۔۔۔ آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں ۔
۔۔۔۔ 12 اگست 1993 کو ا•لقا•عدہ کا ایک ایجنٹ ” رچرڈ ریڈ ” المعروف ” شُو بومبر” پیرس سے میامی جانے والی ایک امریکی پرواز میں داخل ہوا اور اس کا مقصد اس پرواز کو بم سے اڑا دینا تھا ۔اور وہ بم تھا اس کے جوتے ۔۔۔ اس نے جو جوتے پہن رکھے تھے وہ بنے ہی دھماکہ خیز مواد سے تھے ۔ جن میں کوئی ڈیٹونیٹر یا مشینری نصب نہ تھی کہ جس کو مشینی آلات سے پکڑا جا سکے ۔ ان کو بلاسٹ کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ان کے تسموں کو آگ لگا دی جائے۔
خوشقسمتی سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پایا اور جب وہ اپنے جوتے کو اتار کے گود میں رکھ کے تسمے کو لائٹر سے آگ لگا رہا تھا تو اس کی اس صریح مشکوک حرکت پر مسافروں نے اسے دبوچ لیا اور جوتے اس سے لے لیے ۔۔۔۔ رچرڈ زندہ ہے اور 110 سال کی قید کاٹ رہا ہے۔
چنانچہ موساد نے دھماکہ خیز مواد کو نطانز جوہری مرکز میں پہنچا دیا جہاں سے ان 10 ماہرین نے اسے لے کر 10 مقامات پر نصب کردیا۔۔۔۔۔10 اپریل 2021 کو ایک بھیانک نوعیت کے دھماکے نے نطانز کو دہلا کے رکھ دیا ۔
5 ہزار میں سے کم از کم 4 ہزار سینٹری فیوجز مکمل تباہ ہوگئیں اور متعدد ڈیمج ہوگئیں۔
تب سے اب تک نطانز میں یورنیم کی افزودگی کا کام 90٪ کم ہوچکا ہے ۔
حملے کے بعد ان 10 ماہرین کو موساد نے انڈر گراؤنڈ کردیا اور ایران سے بحفاظت نکال لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کراج حملہ :
کراج ، تہران کے نزدیک ایک شہر ہے ۔ نطانز میں جتنی بھی سینٹری فیوجز استعمال ہوتی ہیں وہ سب کراج کے for Advanced Centrifuges (ICAC) میں تیار کی جاتی ہیں ۔
نطانز حملے کے بعد ظاہر ہے ایران کو بھاری تعداد میں نئی سینٹری فیوجز کی ضرورت تھی جوکہ کراج میں ہی تیار ہورہی تھیں ۔ چنانچہ موساد نے اپنا اگلا نشانہ کراج کے سینٹری فیوج مرکز کو بنانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے ایک ڈرون کا استعمال کیا جانا تھا ، بم لیجانے کی صلاحیت سے لیس ایک عسکری نوعیت کا کواڈکوپٹر جس کا وزن ایک موٹر سائیکل کے برابر ہوتا ہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے روبوٹک مشین گن اور اب مسلح کواڈکوپٹر موساد نے ایران کے اندر کیسے پہنچایا ؟
۔۔۔۔
موساد ایران کے اندر اسلحہ اور ایجنٹ کیسے پہنچاتی ہے ؟
یہاں پر پہلے یہ واضح کرتی چلوں کہ یہ معلومات اور تفصیلی روٹ آپ کو کہیں اور سے نہیں مل سکے گا کیونکہ یہ حساس معلومات ہیں جن کے لیے میں نے زاتی سورسز کا استعمال کیا ہے ۔۔۔
ایران کے اندر اسلحہ اور اور ایجنٹس پہنچانے کا روٹ کچھ یوں ہے۔
عراق۔۔۔ عراقی کردستان۔۔۔ایرانی کردستان ۔۔۔ اندرون ایران ۔
مذکورہ اسلحے کو چھوٹے چھوٹے پارٹس کی شکل میں اور اسی طرح موساد کے ایجنٹوں کا سفر بھی عراق میں واقع امریکی فوجی اڈوں سے شروع ہوتا ہے ۔۔۔ جہاں سے وہ پہنچتے ہیں عراقی کردستان میں جہاں کی گورنمنٹ اور فوج (پیشمرگہ ) امریکہ کی قریبی اتحادی ہے۔۔۔چنانچہ انہیں عراق-ایران سرحد تک پہنچے میں کسی خاص دشواری کا سامنا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ ایران عراق بارڈر ایک انتہا درجے کا دشوار گزار، پہاڑی اور جنگلی علاقہ کے جس کے بہت سے اہم علاقوں پر ایرانی حکومت یا فوج کا کوئی کنٹرول نہیں بلکہ وہاں ایرانی کردستان کی عسکری و سیاسی جماعت PDKI کا کنٹرول ہے جوکہ امریکہ و اسرائیل کے اتحادی ہیں ۔۔۔ PDKI کے آپریٹرز یہاں سے موساد کے ایجنٹوں اور سامان کو بحفاظت خفیہ پہاڑی راستوں اور دروں سے گزار کر ایرانی مقبوضہ کردستان میں پہنچا دیتے ہیں (ایران عراق بارڈر کس ناقابل یقین حد تک پیچیدہ اور دشوار گزار ہے یہ آپ الجزیرہ نیوز کی ڈاکومینٹری Hadaka Returns to Arms دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں)۔۔۔ اب یہاں سے سامان کو اندرونِ ایران پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف پرزوں کو مختلف گاڑیوں میں انجن یا کہیں بھی نصب کرکے ایران میں پہنچا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ یہاں ایران کی ایک اور اپوزیشن جماعت PMOI یا MeK “مجاہدینِ خلق” کے مختلف آپریٹوز مختلف جگہوں سے وہ پرزے کلیکٹ کرلیتے ہیں اور پھر انہیں اپنے پاس سنبھال کر سگنل کا انتظار کرتے ہیں کچھ دن یا کچھ ہفتے بعد جب اوکے کا سگنل مل جاتا ہے تو ان پرزوں کو باری باری اس شہر یا علاقے میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں اس اسلحے کو اسمبل اور استعمال کیا جانا ہوتا ہے ۔۔۔۔ اس شہر میں جا کر وہ سامان یا پرزہ جات PMOI کے دیگر آپریٹوز کے حوالے لیے جاتے ہیں جو کہ سینئر، تجربے کار اور عرصہ دراز سے موساد کے لیے کام کررہے ہوں ۔۔۔ باری باری سب کچھ اس خاص مقام تک پہنچا دیا جاتا ہے جہاں اس کو اسمبل کیا جانا ہوتا ہے۔۔۔ اس طرح وہ ڈرون ، بم یا جیسے میں نے بتایا روبوٹک مشین گن۔۔۔ اس کو اسمبل کرلیا جاتا ہے اور پھر کارروائی کے بعد یا تو اسے تباہ کردیا جاتا ہے جیسے گن کو تباہ کردیا گیا ۔۔۔ یا پھر دوبارہ سے کھول کر الگ کر دیا جاتا ہے اگلی کارروائی میں استعمال کے لیے ۔۔۔ جیسا کہ کراج میں ہوا ۔
چنانچہ 23 جون کو موساد نے اس ڈرون کو اسمبل کرکے کراج میں ، ہدف سے کئی میل کے فاصلے سے اڑایا اور رات کے وقت کراج کا سینٹری فیوج سینٹر دھماکوں سے لرز اٹھا ۔
اس کامیاب کارروائی کے ایران کو مزید کئی مہینوں کے لیے جوہری میدان میں پیچھے دھکیل دیا۔
اور یہ کارروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔۔۔۔ ابھی چند روز قبل 4 دسمبر کو نطانز کے قریب ایک اور زوردار دھماکہ ہوا ہے جس کی تفصیلات اب تک منظر عام پر نہیں آ سکیں ۔