میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اور صرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دو نفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اور ایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوکس رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دو نفل ادا کر لیں تو پولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کر اٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کر سکیں لیکن لوگ عبادت کی حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خود غرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہر خواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اور مطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کر بیٹھے ہوئے عرب اہلکار نے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اور روضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھر نوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑ گئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوار الٰہی کی بوچھاڑ برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازار گرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کر رہے ہیں اور مسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیا پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نماز اور کچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پر مبنی مال تھا۔
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدر العنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پر جوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھر ادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھر عنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیر معروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کر اسے متوجہ کیا اور انگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کر کے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگر گاڑی سے اتر کر باہر آیا تھا اور آگے جاکر مجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔ میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھر سو کر ہاتھ منہ دھو کر ہشیار ہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو اپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اور پھر پوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کر ناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ ہی نہیں رہی تھی اور داؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کو برباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کو اتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جو خیر و شر کے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں۔
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اور درست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسر انکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرور کریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اور ہمارے گروپ کو ” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطر کہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اور چراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طور پہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کو مکہ میں جا کر پورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیظ کچھ اور زیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔ مسجد نبوی کے پہلو میں بازار کی نکڑ پہ ہی “صراف” یعنی منی ایکسچینجر کا بوتھ تھا۔ میں نے اسے بھنانے کی غرض سے دو سو ڈالر دیے تھے۔ اس نے مجھے ان کے عوض سات سو چھیالیس ریال دے دیے تھے۔ رسید وسید دینے کا تردد نہیں کیا تھا۔ اس کے سامنے ہی بازار کے برآمدے میں ایک عرب نژاد زمین پہ ایک صندوقچی رکھے بیٹھا تھا، جس میں مختلف کمپنیوں کے ٹیلیفون کارڈ تھے۔ میں نے اس سے اردو میں ہی پوچھا تھا کہ پاکستان اور روس کے لیے کون سی کمپنی کی سم بہتر رہے گی۔ تمام عربوں کی طرح اردو سمجھ لیتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بہر حال کمپنی “موبیلی” کی سم نکال کر دکھائی اور کہا “بہتر”۔ پچاس ریال کی سم خریدنے پہ بیلنس میں اڑتیس ریال جمع ہوتے تھے۔ دے دو بھائی اور ڈال بھی دو۔ آدمی دلچسپ تھا، میں نے اسے سو ریال کا نوٹ دیا تھا جو اس نے جیب میں ڈال لیا تھا اور بڑے انہماک سے میرے فون میں سم ڈالنے لگا تھا۔ سم ڈالنے کے بعد بولا “فلوس” لیکن چہرے پہ مذاق کرنے کی مسکراہٹ کا نقطہ جما ہوا رہ گیا تھا۔ میں نے کہا “استاد! ہم پاکستانی تم عربوں کے بھی استاد ہیں، مسخرے مت بنو باقی کے پچاس ریال نکالو”۔ وہ ہنس دیا تھا اور باقی پیسے دے دیے تھے۔ اب ہم نے بلکہ میں نے راہ چلتے لوگوں اور دوکانوں کے باہر کھڑے سیلز مینوں سے پاکستانی ریستوران کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا تھا۔ نزدیک کسی ایسے ریستوران کی شنید نہیں تھی۔ کسی نے ہمیں ایک راستے پہ ڈال دیا تھا۔ پل کے نیچے سے گذر کر سڑک کے دوسری طرف جانا تھا۔ پھر ایک مزدور نما شخص سے پوچھا تو اس نے عمارت کے کونے سے اندر جانے کو کہا۔ آگے بڑھے تو کئی دکانوں کے بعد ایک ڈھابا ٹائپ تھا اور ایک پنجابی جٹ باہر جھاڑو لگا رہا تھا۔ پوچھا “بھائی کیا پکا ہے؟” “دال ہے، چھولے ہیں اور سادہ گوشت بھی ہے” اس نے جھاڑو لگاتے ہوئے زمین سے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا تھا۔ “مرچیں نہیں” جمشید نے اپنی گلابی اردو میں دریافت کیا تھا۔ “مرچیں تو ہیں” جٹ نے سیدھا ہو کر کہا تھا۔ سامنے سے ہمارے گروپ کا ایک فرد مظفر ازبک آ رہا تھا، جس نے صافی کو بتایا تھا کہ آگے جا کر ترک ریستوران ہے وہاں “جگر” بہت اچھا بنا ہوا ہے۔ گوشت کا رسیا افغان جگر کھانے کے درپے ہو گیا تھا۔ مجھے بھی کھانے کے لیے یہ ڈھابا کوئی مناسب جگہ نہیں لگی تھی اس لیے آگے بڑھنے لگے تو مظفر نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ احرام خرید چکے ہیں؟ جمشید تو احرام افغانستان سے منگوا کر ہی ساتھ لائے تھے البتہ مجھے خریدنا تھا۔ مظفر نے کہا یہ سامنے ایک ازبک کی دکان ہے ، آؤ لے کر دیتا ہوں اور ہمیں ازبک لڑکے کے حوالے کرکے آگے نکل گیا تھا۔ میں نے پینتیس ریال کا احرام اور دس دس ریال کے چار مدینہ کے بنے ہوئے جائے نماز لے لیے تھے۔ ابھی ترک ریستوران نہیں پہنچے تھے کہ صافی کو ایک کابلی نان بائی کا تنور دکھائی دے گیا تھا۔ شاید ان کا تاستلجیا ان پر قابو پا چکا تھا، وہ تنور والے سے “تڑا ماشے” کرکے محو گفتگو ہو گئے تھے اور میں ترک ریستوران میں چلا گیا تھا جو ریستوران کم، ایک فاسٹ فوڈ جوائینٹ زیادہ تھا۔ معاملہ ‘زبان یار من ترکی‘ کا تھا۔ صافی بھی پہنچ گئے تھے۔ کھانوں کی تصویریں دیکھ کر پوچھتا رہا “وٹ، کیا، چہ” لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ بہر حال ایک جگر اور ایک گوشت کی فرمائش کر دی۔ صافی نے اشارے سے کہا کہ وہ نان خود لائیں گے۔ جوائینٹ سے آگے ایک چبوترے پر کرسیاں میزیں دھری تھیں۔ ہم آخری والی میز کے گرد بیٹھ گئے تھے۔ صافی جا کرایک آدھ نہیں بلکہ تین نان لے آئے تھے۔ جگر اور گوشت کی تھالیاں بھی آ گئی تھیں۔ میں نے جگر میں موجود کولیسٹرول سے بچنے کی خاطر گوشت کی خواہش کی تھی لیکن گوشت پھیکا تھا اور جگر واقعی خوش مزہ۔ یوں ایک نان اور جگر کھا کر ہی ہم سیر ہو گئے تھے ۔ لیکن جب میں نے گردن گھما کر اپنے پیچھے جبوترے کے نیچے نگاہ ڈالی تو وہاں ڈرم نما کوڑا ڈالنے کا برتن تھا، یعنی ہم گند کے اوپر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔ میں نے جمشید کی ناگواری کے باوجود گوشت پیک کروا لیا تھا۔ جب ہم ریستوران میں پہنچے تھے اور کھانے کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہاں فوج کی یا محافظ کی وردی پہنے ہوئے ایک شخص موجود تھا جو ہنس ہنس کر کچھ کہہ رہا تھا۔ بعد میں بھی وہ کھانا کھانے کے چبوترے کے شروع کی میز کے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہنستے ہوئے ہمیں کچھ کہتا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ کوئی پنجابی جوان ہے جو مذاقاً عربی بول رہا ہے۔ میں بھی اسے پنچابی میں کہتا رہا ،” تو ہیں تے پنجابی، اینج ای بن رہیا ایں”۔ لیکن وہ بیچارا پنجابی نہیں تھا بلکہ مشابہ تھا۔
واپسی پہ میں نے صافی سے پوچھا تھا کہ کیا سارے عرصے کے لیے ایک احرام کافی رہے گا تو ان کا جواب تھا کہ دو تو ہونے چاہییں۔ صافی ایک اور دکان سے جائے نماز لینے کے لیے رکے تو میں نے ایک اور احرام خرید لیا تھا۔ دکان پہ کام کرنے والا ادھیڑ عمر شخص گورکھپور ہندوستان سے تھا۔ میں نے پیک کیا ہوا گوشت کھانے کے لیے اسے دے دیا تھا۔ ہم ہوٹل واپس آ گئے تھے۔ ابھی صرف ساڑھے گیارہ بجے تھے لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ تھوڑی دیر استراحت کی تھی پھر ظہر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی چلے گئے تھے۔
چلچلاتی دھوپ کی سختی کا احساس مسجد نبوی تک ہی ہوتا تھا لیکن مسجد نبوی کے اندر پہنچ کر ایر کنڈیشنرز کی وجہ سے اس قدر برودت ہوتی تھی کہ بعض اوقات تو اچھی خاصی خنکی محسوس ہونے لگتی تھی۔ بالخصوص وہ حصہ جو روضہ اقدس کے آگے ہے وہاں اگرچہ دونوں جانب کے بلند دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اولیں تین صفوں میں عام کپڑوں میں ٹھنڈ لگتی تھی۔ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے تھے۔ شاید یہ ایک ہی بار تھا کہ میں اور جمشید اکٹھے لوٹے تھے کیونکہ اس کے بعد ہم اکثر بچھڑ جاتے تھے جس کی ایک بڑی وجہ جمشید کی حرص عبادت تھی۔ وہ عبادت کے شوق میں ہمرہی کا بھی خیال نہیں کر تے تھے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا آگے نکل جایا کر تے تھے ۔
پھر عصر کی نماز پڑھنے گئے تھے اور مغرب تک مسجد نبوی کے باہر گھومتے رہے تھے لیکن علیحدہ علیحدہ۔ مسجد کے باہر خوانچہ نما دکانوں میں عبادت اور عقیدت سے وابستہ اشیاء بشمول تسبیحوں، ٹوپیوں، رومالوں، کھجوروں، مسواکوں اور چپلوں کی فروخت کا بازار گرم تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معمول کی بات تھی مگر ایک تکلیف دہ چیز جو میں نے اپنے تمام اسفار میں پہلی بار یہیں دیکھی تھی کہ برقعہ پوش سیاہ فام عورتیں جو نہ جانے دیہات کے غرباء میں سے تھیں یا ان کا تعلق غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ تھا، ہاتھ سے کھینچی جانے والی ریڑھیوں میں اشیا رکھ کر کے بیچ رہی تھیں۔ روس کی اوپن اور کلوزڈ مارکیٹوں میں بھی جارجیا کی عورتیں چائے اور فواکہات ایسی ٹرالیوں میں رکھ کر بیچتی ہیں جیسی پر طیارے میں ایر ہوسٹسیں ڈیوٹی فری اشیاء رکھ کر مسافروں کو خریدنے کے لیے پیش کرتی ہیں لیکن ان مستورات کی ریڑھیاں بہت ہی دیسی قسم کی تھیں۔ اتنے خوشحال ملک میں عورتوں کو یوں خوار ہوتے دیکھنا اذیت دہ تھا۔
مغرب کی نماز کے بعد میں اور جمشید صافی کھانا کھانے کی غرض سے صبح جس طرف گئے تھے اسی جانب نکل گئے تھے. وہاں ہمیں ایک مناسب پاکستانی ریستوران نظر آ گیا تھا، جہاں ہم نے چکنائی میں تر سالن اور تندور سے اتری ہوئی گرم گرم روٹیاں کھائی تھیں۔ پھر عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی جا پہنچے تھے۔ حریص عبادت جمشید کی آج کی خواہش مسجد نبوی کی صف اوّل میں نماز پڑھنا تھی۔ میں نے کسی طرح وہاں جگہ بنا لی تھی اور پھر صافی کو بھی اشارے سے بلا لیا تھا، دونوں کے لیے جگہ بن گئی تھی۔ ایک بوڑھا ، ٹھگنا شخص ہمارے نزدیک اپنا رومال رکھ کر شیلفوں میں لگے قرآنی نسخوں کو ترتیب دیتا پھر رہا تھا۔ ایک فلسطینی اس کے رومال کو تھوڑا سا سرکا کر وہاں بیٹھ گیا۔ پھر کیا تھا، موصوف آئے اور اردو میں اسے بری طرح ڈانٹنے لگے کہ جب رومال پڑا ہوا تھا تو تم یہاں بیٹھے کیوں۔ فلسطینی اسے صبر کرنے کو کہہ رہا تھا لیکن اس کو اگر سمجھ آ بھی رہی تھی تو وہ اس کی نہیں سن رہا تھا۔ مجھے دخل درمعقولات کرنی پڑی تھی اور میں نے ان صاحب کو جو پختون خواہ کے کسی چھوٹے شہر سے تھے بالآخر رام کر لیا تھا۔ یہ صاحب کسی زمانے میں پرائمری سکول ٹیچر تھے۔ ان کے بیٹے مکہ اور ملتان کے دینی مدارس میں پڑھا رہے تھے۔ یہ گذشتہ آٹھ سال سے مدینے میں ہیں۔ اپنے طور پر مسجد نبوی میں دھرے قرآن کے نسخوں کو ترتیب سے رکھتے رہتے ییں۔ مقامی عرب اور پاکستانی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مسجد نبوی میں گذرتا ہے اور کھانے مختلف پاکستانی ‘ہوٹلوں‘ پہ بندھے ہوئے ہیں۔ موصوف کے مزاج سے البتہ پرائمری سکول کی استادی نہیں گئی تھی۔ سبھوں کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن بہرحال تھے دلچسپ آدمی اور خیر سے بزلہ سنج بھی ۔ کہنے لگے نماز کے دوران آدمی سب کچھ کر لے، چاہے تو آنکھیں بھی بند کر لے لیکن اللہ سے اپنا چہرہ تو نہ چھپائے۔ میں نے پوچھا خانصاحب، وہ کون ہے جو اللہ سے اپنا چہرہ چھپاتا ہے۔ بولے جیسے اس نے کیا ہوا ہے۔ ایک انڈونیشیائی نے میڈیکل ماسک باندھا ہوا تھا۔ انڈونیشیا سے آنے والے سب کے سب ماسک باندھ کر آئے تھے۔ لگتا تھا کہ وہیں سے کوئی وائرس لے کر نکلے تھے۔ نماز کے دوران نمازیوں کی تین چوتھائی تعداد کھانس رہی ہوتی تھی۔ کچھ تربیت کا فقدان، کچھ عبادت کا پاس، کھانستے ہوئے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھتا تھا یوں یہ مرض تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں فلو سے بہت جلدی متاثر ہوتا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ میرا کام ہو گیا ہے۔ ویسے بھی جانے سے پہلے ہماری کوئی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں بہت ٹھنڈی مسجد نبوی سے براہ راست خاصے گرم صحن میں نکل آتے تھے۔ وائرس اور درجہ حرارت کی فوری اور مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے عشاء کے بعد مجھے نزلہ ہو چکا تھا اور بدن ٹوٹنے لگا تھا۔ میں کمرے میں آ کر آنکھوں پہ پٹی باندھ کر لیٹ گیا تھا۔ اب میرے نخرے بھلا کون برداشت کرتا۔ میں مکمل اندھیرے اور خاموشی کے بغیر سو ہی نہیں سکتا لیکن اس رات گذشتہ رات کے رت جگے کی وجہ سے میں انٹا غفیل ہو گیا تھا۔ صبح انکل داؤد نے نماز فجر کے لیے اٹھایا تھا اور میں وضو کرکے ان کے ہمراہ مسجد نبوی چلا گیا تھا۔ وہاں اتفاقا” جمشید سے ملاقات ہو گئی تھی۔ مجھ سے بڑے خفا تھے کہ تم رات بھر خراٹے لیتے رہے ہو۔ میں سو نہیں سکا اور رات دو بجے ہی مسجد نبوی میں آ گیا تھا۔ میں نے معذرت کی تھی اور بتایا تھا کہ میں مریض ہوں۔ نماز کے بعد میں نے انہیں اور انکل داؤد کو ناشتہ کرنے کی تجویز دی تھی۔ انکل تو واپس چلے گئے تھے لیکن جمشید میرے ساتھ اسی ہوٹل پہنچا تھا جہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا تھا۔ وہاں گرم گرم پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ میں نے سبزی کے ساتھ پراٹھا مانگا تھا لیکن جمشید نے چائے کے ساتھ پراٹھے کھائے تھے اور بتایا تھا کہ کابل میں ان کے میڈیسن کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ افغانیوں کی بڑی آنت فی الواقعی دوسرے انسانوں سے کم از کم ایک فٹ بڑی ہوتی ہے اس لیے وہ دوسروں کی نسبت دوگنی روٹیاں کھاتے ہیں۔ مجھے یہ بات مذاق لگی تھی لیکن وہ اس کی صداقت پہ مصر تھا۔
مدینہ میں کاروبار حیات نماز فجر کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو ویسے بھی دن روشن ہو چکا تھا۔ جمشید ایک بار پھر خریداری کے چکر میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے میں چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، بہتر ہے یہیں سے لے لی جائیں۔ میں کسی قسم کی خریداری نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ حج کوئی شاپنگ ٹور نہیں جیسے لوگوں نے سمجھ لیا ہوا ہے۔ بہر حال صافی نے کوئی دس کلو کھجوریں خرید لی تھیں۔ ہم ہوٹل میں واپس آ گئے تھے۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ لگتا تھا جیسے بخار ہو گیا تھا ۔ پہلے روس فون کیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ بہت مہنگا ہے پھر پاکستان فون کیا تھا جو بہت سستا تھا اس لیے اپنی پریشانی اور تاثّرات میں پاکستان میں اپنے بچوں کی ماں اور اچھی دوست ڈاکٹر میمونہ کو فون کرکے بانٹتا رہتا تھا۔ طبیعت کی کسالت کے باوجود میں باقی نمازیں پڑھنے مسجد نبوی بی گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد جب میں مسجد کے احاطے سے نکل کر بغلی راستہ عبور کرکے سڑک پہ نکلا تھا تو ایک منظر دیکھ کر طبیعت اوبھ گئی تھی۔ وہی بیچاری عورتیں جو چلچلاتی دھوپ میں ریڑھیاں کھینچ کر مشقت کرتی ہیں ان کی ریڑھیاں نارنجی وردیوں میں ملبوس میونسپل کمیٹی کے بنگلہ دیشی و ہندوستانی اہلکار اٹھا اٹھا کر ٹرک میں ڈال رہے تھے۔ ایک سعودی عمّال ہاتھ میں واکی ٹاکی پکڑے ہوئے ان پر بری طرح برس رہا تھا۔ جو بیچاریاں ریڑھیاں کھینچتے ہوئےبھاگ کر اپنا سامان بچانے کی کوشش کر رہی تھیں، سعودی شکرا چیخ کر ماتحتوں کو حکم دیتا ہے کہ دوڑو اور اس کا مال ضبط کرو۔ میری طرح دو ایک اور عازمین جب یہ اذیت ناک تماشا دیکھ کر رکے تو وہ عمّال ہم پہ بھی برسنے لگا۔ اس کی معاونت کرنے والے پولیس اہلکار نے “یاحجّی، یاللہ” کہہ کے ہمیں دھتکار کر آنکھیں چرا کر نکل جانے کو کہا تھا۔ اوہ میرے خدا، غریب تیرے نبی کے شہر میں بھی اسی طرح پریشان ہے جس طرح کسی بے برکت شہر میں۔