سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو کو اشتراکیت نواز افراد کا مکہ کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ مکہ کا لوگوں کے لیے مکہ ہونا تھا کیونکہ کم علم مسلمانوں کا جم غفیر مکہ کی تعظیم کو تقدیس کا چولا پہنانے کا مرتکب ہوتا ہے۔ ماسکو سے متعلق بھی بائیں بازو کے عقیدہ پرستوں کا تصور کچھ اسی قسم کا ہوا کرتا تھا۔ اصل میں مکہ وحدانیت پرستی کا مرکز تھا اور ماسکو کو اشتراکیت پرستی کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تعظیم اور تقدیس میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا عقیدے اور عقیدت میں۔ عقیدہ یا ایمان منطقی یا الوہی (یاد رہے الوہیت بالکل بھی منطق سے مبرّا نہیں، یہ اور بات ہے کہ منطق کے کچھ زاویے شعور سے بالاتر ہیں) اصولوں کو تسلیم کرکے ان پر عمل درآمد کرنے کی دیانت دارانہ سعی کا نام ہے جبکہ عقیدت کسی فرد، مقام یا معاملے سے بلاجواز والہانہ بلکہ مجنونانہ وابستگی سے عبارت ہوتی ہے۔ ثونکہ عقیدت احترام سے فروتر ہوتی ہے اس لیے وہ بیشتر اوقات عقیدے یا ایمان کی اصل ہئیت کو مسخ کرنے کا موجب بن جایا کرتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے کسی کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسے اللہ تعالٰی سے عقیدت ہے یا کسی ملک میں توہین الٰہی سے متعلق کوئی قانون ہے؟ نہیں ناں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ سے پیار کیا جا سکتا ہے، لو لگائی جا سکتی ہے، احترام و تعظیم پیار کا جزو ہوتے ہیں مگر عقیدت کوئی بہت ہی دنیاوی قسم کی سی شے ہے۔ میں نے اس دور میں بھی جب میں باقاعدہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا، ماسکو سے عقیدت روا نہیں رکھی تھی چہ جائیکہ کسی شہر کا احترام کرنے کی بدعت کا مرتکب ہوتا۔
لیکن اب میں اس شہر کا احترام کروں گا کیونکہ مجھے اس شہر سے ہی مدینہ منورہ اوروہاں سے مکہ مکرمہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی، جس کے بارے میں میں نے سوچا تک نہیں تھا۔ یوں میرے لیے یہ بدعت “نعمت البدعۃ” یعنی اچھی بدعت ہو گی۔ ایمان کی ضرورت اور اہمیت بھی مجھ پر ادھیڑ عمری میں اسی شہر میں منکشف ہوئی تھی۔ میں نے کچی عمر میں ہی آبائی مذہب کو بقول وراثت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 9 مئی 1999 کو پیش آنے والے ایک حادثے کے بعد میری چولیں جو مقام سے ہٹی ہوئی تھیں بتدریج اپنے درست مقام پہ واپس آنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ میرے سابق ہم خیال لوگوں کے مطابق میری چولیں پہلے درست مقام پر تھیں اور اب ہلنا شروع ہو گئی ہیں۔ بہر حال ایک یکسر تبدیلی کا عمل جاری ہے، سفر حج بھی اسی تبدیلی کا حصہ تھا۔
جب تک اللہ راستہ نہ دکھائے تب تک راستہ دکھائی نہیں دے سکتا اور جب تک اللہ کی ہدایت دل میں جگہ نہ پالے تب تک کوئی بھی اس راستے کو اختیار نہیں کر سکتا جو اس نے انسان کے لیے متعین کیا ہوا ہے یعنی صراط المستقیم۔ مگر کیا کریں ہم انسان ہیں ہمارے اختیار کردہ راستے میں ہماری ذات کی غلطیوں کی وجہ سے کجی ہوتی رہتی ہے۔ یقیناً اگر آپ کی مذہب کے ساتھ وابستگی نہیں ہے تو آپ کو اس قسم کی باتیں بوڑھوں یا ملاؤں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کی سی لگیں گی لیکن اگر آپ مذہب سے شیفتگی کی بجائے ایک عقلی تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو یہ باتیں دو جمع دو چار کی طرح سادہ اور سچی لگیں گی۔ میری دعا یہی ہے کہ اللہ سب کو ہدایت کاملہ عنایت فرمائے۔
اصل میں نور حبیب شاہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے چین دکھانے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ اس کا ٹیکسٹائل کا کاروبار چین کے ساتھ وابستہ ہے دوسرے وہ مجھے وہاں کے راحت بخش مساج کے بارے میں قائل کر چکا تھا۔ نور حبیب شاہ ایک وزیری پٹھان ہے، جس کے نام کی وجہ سے بشمول میرے اکثر لوگ اسے شاہ جی سمجھتے ہیں۔ مبالغہ آرائی میں یہ صاحب ید طولٰی رکھتے ہیں، اس لیے مساج سے متعلق اس کے ذکر کو میں دس بارہ پہ تقسیم کر دیتا تھا البتہ مجھے چین دیکھنے کا شوق تھا اور ہے تاہم چین ساتھ لے کر جانے کا اس کا وعدہ “سعید خان کی باتیں” ہی رہا۔ گورنمنٹ ہائی سکول علی پور میں کہیں آٹھویں جماعت میں آ کر ایک سیاہ و سپید نوجوان پٹھان ہمارا ہم جماعت ہوا تھا، نام کا تھا سعید خان اور قیام اس کا سکول کے ہوسٹل میں تھا۔ باتیں بڑی بناتا تھا۔ جب اس کی کہی باتیں پوری نہ ہو پاتیں اور کوئی اس سے توجیہہ طلب کر لیتا تو وہ کہہ دیا کرتا تھا “وہ تو سعید خان کی باتیں تھیں”۔ گذشتہ برس نور حبیب شاہ نے اپنی تاتار اہلیہ کے ہمراہ حج کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کا پاکستانی پاسپورٹ یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا تھا کہ وہ سفر حج اپنے ملک سے ہی کر سکتا ہے۔ اس سال اس نے روسی پاسپورٹ حاصل کر لیا تھا۔ میں نے گرم لوہے پہ چوٹ ماری تھی کہ چین تو نہیں لے گئے اس سال حج تو کرواؤ گے ناں؟ اس نے ہامی بھر لی تھی۔ پھر اسے دل کی تکلیف ہو گئی تھی۔ ماسکو کے ڈاکٹروں نے اسے بہت خوفزدہ کر دیا تھا اور اوپن ہارٹ سرجری کی تجویز دی تھی۔ وہ پاکستان چلا گیا تھا۔ آغا خان ہسپتال میں اسے stent چڑھائے گئے تھے، جس کے بعد وہ اپنے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان استراحت کرنے چلا گیا تھا۔ اگست کے اوخر میں لوٹا تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیا حج پر جانے کا ارادہ ہے تو اس نے جواب اثبات میں دیا تھا۔ میں نے ماسکو کی تاریخی مسجد، جو ریڈیو صدائے روس کے میرے دفتر کے نزدیک ہی ہے اور جہاں میں نماز ظہر جماعت کے ساتھ پڑھتا ہوں، کے دفتر سے معلوم کیا تو وہاں روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ عمرہ وحج کے سربراہ رشیت حضرت خالیکوو کی معاون آئے نارا نے بتایا کہ نشستیں تو پوری ہو چکی ہیں لیکن اگر رشید حضرت کہہ دیں تو میں آپ کا نام لکھ سکتی ہوں بصورت دیگر میں آپ کا نام آئندہ برس کے حج کے لیے ہی درج کر سکتی ہوں۔ دوسری جانب میری ہم کار خواتین کی چھٹیاں بھی ایام حج کے دوران ہی پہلے سے ہی طے تھیں مطلب یہ کہ حج کے سفر کے راستے میں دوہری رکاوٹیں پیدا ہو چکی تھیں۔ میں نے حبیب شاہ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور دفتر والوں پہ بھی واضح کر دیا
تھا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں ملازمت ختم ہو جانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس سفر سعید پہ روانہ ہو جاؤں گا۔ کہیں ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد حبیب شاہ نے دفتر کے باہر آ کر میر ا پاسپورٹ اور دو تصویریں مجھ سے لیں اور آدھے گھنٹے بعد حج کا نام درج ہونے کی دستاویز لا کر میرے حوالے کر دی اور بتایا کہ اس میں درج کمپنی والے فون کرکے جانے کے بارے میں بتائیں گے۔ دو ہفتے بعد بھی کوئی فون نہ آیا تو میں نے اس دستاویز کو دیکھا، جس میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے توسط سے Slots نام کی کمپنی نے چار ہزار آٹھ سو ڈالر وصول کیے تھے لیکن اس کاغذ پہ کمپنی کا کوئی فون نمبر یا ای میل درج نہیں تھا۔ ایک روز، بعد از نماز ظہر میں آئے نارا کو ملا تو اس نے اپنا وزٹ کارڈ دے دیا کہ کہ چند روز بعد معلوم کر لیں۔ چند روز کے بعد نہ تو وہ فون پہ ملتی تھی اور نہ دفتر میں۔ مناسک حج سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔ بالآخر ایک روز وہ مل ہی گئی تو کہنے لگی ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ آپ کب جائیں گے۔ حج سے متعلق ایک کانفرنس پہلے ہو چکی ہے اور ایک اس اتوار کو گیارہ بجے ہوگی۔ آپ آ جائیں۔ میں بھی آؤں گی اور آپ کو بتا دوں گی۔ کانفرنس کیا تھی بارہ چودہ افراد پر مشتمل ایک اکٹھ تھا، جس سے مخاطب ہوتے ہوئے مسجد کے نوجوان نائب امام نے پہلا فقرہ یہ کہا تھا کہ ان سے حج پہ جانے سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ یہ کام آئے نارا کا ہے اور جہاں تک انہیں معلوم ہے اس سلسلے میں اسے بھی شاید ہی کچھ علم ہو کیونکہ قافلے جانے سے محض ایک دو روز پیشتر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ پھر انہوں نے مناسک حج اور ساتھ لے جانے والی ضرورت کی چیزوں اور دوران قیام احتیاطوں کے بارے میں بتایا۔ ظہر پڑھنے کے بعد چند عورتیں اور چند مرد آئے نارا کے دفتر کے باہر موجود تھے لیکن وہ حسب معمول دفتر میں نہیں تھی۔ دفتر کو تالا لگا ہوا تھا۔ مولانا کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں
ایک داڑھی والے شخص نے جو تاجک نہیں تھا جبکہ میرے علاوہ موجود بیشتر لوگ تاجک تھے، احرام کے ساتھ ماسک استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تھا، جس سے لگا تھا کہ وہ “ہیلتھ کانشیس” شخص ہے یا اس کا تعلق کسی حوالے سے طب کے ساتھ ہے۔ آئے نارا کے بند دفتر کے باہر اس سے علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے ہیں۔ وہ یہاں آنے سے پہلے کابل کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اور ان کا نام جمشید صافی ہے۔ اکتا کر بالآخر انہوں نے ہی آئے نارا کے ساتھ فون پہ رابطہ کیا تھا جس نے آنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اسے تاحال کچھ معلوم نہیں تھا یعنی کہ مولانا موصوف نے درست فرمایا تھا۔
اگلے روز بھی آئے نارا فون پہ میسر نہیں تھی البتہ دوسرے روز اس نے بتایا کہ آپ آٹھ مارچ دس بجے دن ایر پورٹ دومادیوا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوں گے، یعنی سفر حج پہ روانہ ہونے میں محض پانچ روز باقی تھے۔ دو روز بعد اس سے معلوم کیا کہ احرام کہاں سے خریدیں تو اس نے بتایا تھا کہ مدینہ سے ہی خرید لینا باقی مجھے کچھ اور معلوم نہیں ہے۔ جب اس سے حبیب شاہ کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام تو فہرست میں ہے ہی نہیں۔ یا مظہر العجائب، مجھے حج پہ لے جا رہا ہے اور خود نہیں جا رہا کیا؟ اب حبیب شاہ ٹیلی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ بالآخر رشیت حضرت کو فون کیا۔ وہ میرے نام ایم ایم ایم سے خوب محظوظ ہوئے وجہ یہ تھی کہ اس نام کی ایک کمپنی بہت سے شہریوں کو ڈبل شاہ کا سا غچہ دے کر بدنام ہو چکی تھی۔ حضرت نے عقدہ کھولا کہ بھئی دس بجے ایر پورٹ پہ اکٹھے ہونا ہے، روانگی البتہ ڈیڑھ بجے دن ہوگی۔ اگلے روز حبیب شاہ بھی فون پہ مل گیا۔ میرے متعجب ہونے پہ گویاا ہوا “میں تو وی آئی پی لسٹ میں ہوں ناں”۔ طبیعت بہت مکدر ہو گئی تھی کہ اس نے یہ امتیاز کیوں روا رکھا۔ بس اسے اتنا کہا کہ جا بچّو! مجھے حج کروانے کا تجھے ثواب بھی آدھا ہی ملے گا۔ حبیب شاہ کی روانگی چار اکتوبر کو تھی۔ اب وہ ساتھی نہیں رہا تھا، اس لیے جمشید صافی سے رجوع کیا کہ چلو اور کچھ نہیں تو ہمسایہ ملک سے تو ہے ہی ناں۔ ساتھ میں یا تو تاجک تھے یا قفقاز کی ریاستوں کے لوگ جن سے کبھی راہ و رسم ہی نہیں رہی، میری علیک سلیک اور تعلق روسی النسل لوگوں سے رہا جو ظاہر ہے مسلمان نہیں۔
سفر کی تیاری شروع کر دی تھی لیکن دل بجائے خوش ہونے کے کچھ بجھا بجھا سا تھا جس کی وجہ حبیب کی حرکت، حج کی سفری کمپنی کا گم سم ہونا اور شاید اس سفر میں کسی اپنے کا ساتھ نہ ہونا تھا یا کوئی اور مخفی وجہ جس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ گاڑی والے ایک نوجوان کو فون کیا تھا کہ وہ مجھے صبح آٹھ بجے گھر سے لے لے اور ہوائی اڈّے پر پہنچا دے۔ اس نے خود کہا تھا کہ جی سات بجے نکلنا چاہیے کیونکہ ٹریفک بہت جیم ہوتی ہے۔ میں نے اسے آٹھ بجے ہی آنے کو کہا تھا۔ اس نے وعدہ کر لیا تھا لیکن مجھے شک تھا کہ وہ سویا رہے گا۔ وہی ہوا میں نے پونے آٹھ بجے صبح سے اسے فون کرنا شروع کیا تو نو رپلائی تھا۔ سوا آٹھ بجے تک تین بار فون کیا نتیجہ وہی جواب نہ داشتم۔ ایسے وقت میں ٹیکسی بلانا مزید وقت کا ضیاع ہوتا چنانچہ میں ایک بیگ اور ایک دستی تھیلا لے کر زیر زمین ریل سے جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا تھا۔ اگرچہ بیگ کے پہیے تھے لیکن سیڑھیاں اترنے، سیڑھیاں چڑھنے، زیر زمیں راہداریوں سے گذرنے، پاولیتسکی سے نکل کر اسی نام کے ریلوے سٹیشن سے چلنے والی ایر پورٹ ایکسپریس کے ٹکٹ گھر تک پہنچتے پہنچتے میرے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ ٹکٹ دینے والی نے تین سو بیس روبل یعنی مبلغ دس ڈالر لے لیے اور چپ کرکے بیٹھ گئی۔ میں بولا بی بی ٹکٹ؟ بولی میں آپ کو دے چکی۔ جبکہ ٹکٹ بنانے کے دوران وہ اپنی پشت پہ کھڑی ہم کار سہیلی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے ٹکٹ ادھر ادھر رکھ بیٹھی تھی۔ میرے تحیر پہ جز بز ہو کر ادھر ادھر ہاتھ مارے، ٹکٹ مجھے تھمایا، معذرت کی بجائے مسکراہٹ بکھیری اور پوچھنے پر مجھے ایک راستے کی جانب جانے کا اشارہ کر دیا۔ ایک اور طویل راہداری اور پھر پلیٹ فارم تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں۔ میں بیگ اٹھا کر سیڑھیاں چڑھا تو کھڑی ایکسپریس کے دروازے بند ہوئے اور وہ روانہ ہو گئی۔ میں پسینے میں شرابور تھا۔ پلیٹ فارم پہ خاصی خنکی بلکہ سردی تھی لیکن مجھ میں واپس ویٹنگ روم میں جا کر بیٹھنے کا یارا نہیں تھا۔ اس لیے اگلی ٹرین کی روانگی تک کا آدھ گھنٹے کا وقفہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد رام دہ ریل گاڑی میں پاؤں پسار کر بیٹھے, پینتالیس منٹ کے سفر کے بعد ایر پورٹ پہنچا۔ گاڑی رکنے سے پہلے ہی جمشید صافی کا فون آ گیا تھا، انہوں نے پوچھا تھا کہ مجھے آنے میں تاخیر تو نہیں ہو جائے گی۔ میں نے بتایا کہ میں بس پہنچ گیا ہوں، ریل گاڑی بس رکنے ہی والی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دوسری منزل پہ فلاں جگہ آ جاؤ ۔ وہاں پہنچا تو پورا قافلہ موجود تھا جن میں صرف جمشید شناسا تھے البتہ مولانا رشیت (رشید) سے میں نے خود بڑھ کر مصافحہ کیا تھا اور اپنا نام ایم ایم بتایا تھا۔ رشیت حضرت کوئی اڑتیس چالیس برس کے درمیانے قد ، چھوٹی داڑھی اور کج نگاہ شخص تھے۔ کرو کٹ بال تھے اور پاؤں میں چپل پہنے ہوئے تھے۔ پرواز ڈیڑھ بجے بھی روانہ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی تاخیر کا اعلان مانیٹر پہ عیاں تھا۔ میں اور جمشید نماز پڑھنے کے لیے جگہ کی تلاش میں لگ گئے تھے۔ ایک کینٹین کے پیچھے کاریڈور میں بڑے سے گملے میں لگے پودے کی اوٹ میں کھڑکی کے سامنے نماز پڑھنے کی تیاری کی تھی ۔ ایک تاجک نوجوان بھی آ شامل ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک جائے نماز تھا۔ وہ اسنے آگے بچھا دیا تھا اور مجھے امامت کرنے کو کہا تھا۔ میں نے بھی عجلت میں اللہ اکبر کہہ دیا تھا لیکن وہ نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ فارسی یا دری و توجکی زبان میں محو کلام تھے۔ میں نے کسر فرض پڑھ لیے تو وہ تاجک نوجوان اذان کہنے لگا۔ حج کا ماحول بن چکا تھا۔ کہیں جاکر تین بجے اردن ایر لائن کا طیارہ روانہ ہوا اور ہم پونے چار گھنٹے کے سفر کے بعد عمان کے ہوائی اڈے پر تھے۔ وہاں عصر اور مغرب کی نماز پڑھی تھی۔ مجھے ایر لائن، عملہ، کھانا، عمان کا ہوائی اڈہ اور اہلکار سب اچھے لگے تھے۔ دو گھنٹے کے انتطار کے بعد ایک اور طیارہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم مدینہ ایر پورٹ پر تھے۔ امیگریشن اور دیگر مراحل سے گذرنے کے بعد ایک بس میں سوار ہو گئے تھے جو ہمیں لے کر ایک ہوٹل پہنچی تھی۔ یہاں سے سفر کی صعوبتوں کو سہنے اور کمپنی سلوٹس اور روس کے مفتیوں کی کونسل کی چابک دستیوں کو سہنے کا آغاز ہوتا ہے.
ہوٹل کیا تھا بقول جمشید صافی کے سیاہ رنگ کا “تیورما” یعنی قید خانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے ماڈرن دکھائی دینے والا ایک عرب نوجوان تھا۔Description: afzaal pic رشیت حضرت سے اس نے عربی میں کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تین تین مردوں اور تین تین عورتوں کی علیحدہ علیحدہ ٹولیاں بنا لیں تاکہ ان کو کمروں کی چابیاں دی جا سکیں۔ نہ جان نہ پہچان بھلا کون کس کا ساتھی بنے؟ خواتین میں سے تو بیشتر ویسے ہی حسب معمول ہوائی اڈے پہ شناسا ہو چکی تھیں چنانچہ ان کا معاملہ جلد نمٹ گیا تھا۔ تاجک تاجکوں کے ساتھ اور قفقازی قفقازیوں کے ساتھ، کچھ دیر بعد اکٹھے ہونے پہ رضامند ہو گئے تھے۔ میری جوڑی صافی کے ساتھ تھی لیکن تیسرا شخص نہیں تھا۔ رشید حضرت نے ایک بہتر سالہ تاتار شخص کو ہمارے ساتھ جوڑ دیا تھا جو چہرے سے اکتائے اور جھلائے ہوئے لگتے تھے۔
چھوٹی چھوٹی لفٹیں تھی اور کمروں تک جلد پہنچنے کے خواہاں افراد زیادہ۔ ہم تقریباً گیارہ بجے اپنے کمرے میں پہنچ پائے تھے۔ کمرہ کیا تھا ڈربہ تھا جس کی تین دیواروں کے ساتھ سنگل بیڈ لگے ہوئے تھے اور چوتھی جانب راہداری، باتھ روم اور دروازہ تھا۔ بستروں کی چادریں بظاہرصاف تھیں لیکن ان کے گجلے پن سے یہی گمان ہوتا تھا جیسے وہ میلی ہوں۔ باتھ روم بھی چھوٹا سا تھا۔ نہ صابن، نہ تولیہ اور نہ ہی ٹوائلٹ پیپر۔ طبیعت مکدر سے مکدر تر ہو گئی تھی۔ روس کے مفتیوں کی کونسل کے تحت کام کرنے والی کمپنی “سلوٹس” کا تحریری دعوٰی تھا کہ مدینہ منورہ میں تھری سٹار یعنی سٹینڈرڈ ہوٹل دیا جائے گا لیکن یہ “سب سٹینڈرڈ” ہوٹل تھا۔ میں نیچے گیا۔ کاؤنٹر والے کو میری بات سمجھ نہیں آتی تھی اور مجھے اس کے ” ما فی” کے ما فی الضمیر کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ اشاروں اور ملغوبہ زبان کا بس اتنا فائدہ ہوا کہ اس نے گول صابن کی پیک شدہ چھوٹی چھوٹی تین ٹکیاں اور شیمپو کے تین ساشے میرے ہاتھ میں دھما دیے تھے پھر مسکرا دیا تھا۔ صبح صبح بھی کہا تھا۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا اور جمشید کے ساتھ طے کیا تھا کہ ہم آرام نہیں کریں گے، نہائیں گے اور مسجد نبوی چلے جائیں گے۔
ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منور دمکتے ہوئے مینار دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دور پہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریباً نصف کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ اتنی وسیع و Description: 1267078عریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیر لگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصر راستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کر سیدھے چلتے جاؤ تو مقام مقصود پا لو گے۔ ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے میں کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اور وہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگر دو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہو جائے اور آپ تیسرے شخص ہوں تو شرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہو جائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیر و شکر ہو کر آپ کو بھول جاتے ہیں۔ چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل در معقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔ موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اور وہ پاکستان سے حجاج اور معتمربن کے اپنے گروہ لے کر آتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور تیز تیز قدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے گیا جہاں سنگ مرمر کی سلوں کا فرش تھا اور کچھ ستون ایستادہ تھے جو اگلے روز معلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکار طور پر کھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفر حج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات تو حاصل کر ہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطار میں شامل ہو چکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی “حجّی! Description: 128892563حجّی!! چلو ! آگے!! کہتے جارہے تھےاور ہاتھ سے آگے نکلنے کا اشارے کر رہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اور مرقد بھی شایید کہیں نیچے ہو مگر جسم میں ایڈرینالین کا وفور تھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہور پذیر نہ ہوئی ہوں۔ میں نے پر سکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرور کونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اور اسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گذرتا ہوا پھر روضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطار سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کر ایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آواز میں “یا حجّی” کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑ کر دعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگر کسی قبر پہ فاتحہ بھی پڑھنی ہو تو رخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرور کہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پرور یعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اور میں گفتگو یا تحریر کو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اور جذباتی بنانے سے بھی گریز کرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرور ہونے کی بجائے تسکین آور تھی۔ جسے روح پرور کہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ “یا” کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس “یا” کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر یا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گذرتے ہوئے “السلام علیکم یا اہل القبور” ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سوال جو پریشان کر رہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہوں گے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اور دو قدم آگے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی کچھ ہستیوں کے بارے میں رائے سے آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اور بریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تو مجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اور صرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دو نفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اور ایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوکس رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دو نفل ادا کر لیں تو پولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کر اٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کر سکیں لیکن لوگ عبادت کی حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خود غرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہر خواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اور مطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کر بیٹھے ہوئے عرب اہلکار نے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اور روضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھر نوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑ گئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوار الٰہی کی بوچھاڑ برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازار گرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کر رہے ہیں اور مسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیا پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نماز اور کچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پر مبنی مال تھا۔
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدر العنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پر جوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھر ادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھر عنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیر معروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کر اسے متوجہ کیا اور انگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کر کے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگر گاڑی سے اتر کر باہر آیا تھا اور آگے جاکر مجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔ میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھر سو کر ہاتھ منہ دھو کر ہشیار ہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو اپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اور پھر پوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کر ناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ ہی نہیں رہی تھی اور داؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کو برباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کو اتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جو خیر و شر کے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں۔
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اور درست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسر انکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرور کریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اور ہمارے گروپ کو ” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطر کہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اور چراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طور پہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کو مکہ میں جا کر پورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیظ کچھ اور زیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔ مسجد نبوی کے پہلو میں بازار کی نکڑ پہ ہی “صراف” یعنی منی ایکسچینجر کا بوتھ تھا۔ میں نے اسے بھنانے کی غرض سے دو سو ڈالر دیے تھے۔ اس نے مجھے ان کے عوض سات سو چھیالیس ریال دے دیے تھے۔ رسید وسید دینے کا تردد نہیں کیا تھا۔ اس کے سامنے ہی بازار کے برآمدے میں ایک عرب نژاد زمین پہ ایک صندوقچی رکھے بیٹھا تھا، جس میں مختلف کمپنیوں کے ٹیلیفون کارڈ تھے۔ میں نے اس سے اردو میں ہی پوچھا تھا کہ پاکستان اور روس کے لیے کون سی کمپنی کی سم بہتر رہے گی۔ تمام عربوں کی طرح اردو سمجھ لیتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بہر حال کمپنی “موبیلی” کی سم نکال کر دکھائی اور کہا “بہتر”۔ پچاس ریال کی سم خریدنے پہ بیلنس میں اڑتیس ریال جمع ہوتے تھے۔ دے دو بھائی اور ڈال بھی دو۔ آدمی دلچسپ تھا، میں نے اسے سو ریال کا نوٹ دیا تھا جو اس نے جیب میں ڈال لیا تھا اور بڑے انہماک سے میرے فون میں سم ڈالنے لگا تھا۔ سم ڈالنے کے بعد بولا “فلوس” لیکن چہرے پہ مذاق کرنے کی مسکراہٹ کا نقطہ جما ہوا رہ گیا تھا۔ میں نے کہا “استاد! ہم پاکستانی تم عربوں کے بھی استاد ہیں، مسخرے مت بنو باقی کے پچاس ریال نکالو”۔ وہ ہنس دیا تھا اور باقی پیسے دے دیے تھے۔ اب ہم نے بلکہ میں نے راہ چلتے لوگوں اور دوکانوں کے باہر کھڑے سیلز مینوں سے پاکستانی ریستوران کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا تھا۔ نزدیک کسی ایسے ریستوران کی شنید نہیں تھی۔ کسی نے ہمیں ایک راستے پہ ڈال دیا تھا۔ پل کے نیچے سے گذر کر سڑک کے دوسری طرف جانا تھا۔ پھر ایک مزدور نما شخص سے پوچھا تو اس نے عمارت کے کونے سے اندر جانے کو کہا۔ آگے بڑھے تو کئی دکانوں کے بعد ایک ڈھابا ٹائپ تھا اور ایک پنجابی جٹ باہر جھاڑو لگا رہا تھا۔ پوچھا “بھائی کیا پکا ہے؟” “دال ہے، چھولے ہیں اور سادہ گوشت بھی ہے” اس نے جھاڑو لگاتے ہوئے زمین سے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا تھا۔ “مرچیں نہیں” جمشید نے اپنی گلابی اردو میں دریافت کیا تھا۔ “مرچیں تو ہیں” جٹ نے سیدھا ہو کر کہا تھا۔ سامنے سے ہمارے گروپ کا ایک فرد مظفر ازبک آ رہا تھا، جس نے صافی کو بتایا تھا کہ آگے جا کر ترک ریستوران ہے وہاں “جگر” بہت اچھا بنا ہوا ہے۔ گوشت کا رسیا افغان جگر کھانے کے درپے ہو گیا تھا۔ مجھے بھی کھانے کے لیے یہ ڈھابا کوئی مناسب جگہ نہیں لگی تھی اس لیے آگے بڑھنے لگے تو مظفر نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ احرام خرید چکے ہیں؟ جمشید تو احرام افغانستان سے منگوا کر ہی ساتھ لائے تھے البتہ مجھے خریدنا تھا۔ مظفر نے کہا یہ سامنے ایک ازبک کی دکان ہے ، آؤ لے کر دیتا ہوں اور ہمیں ازبک لڑکے کے حوالے کرکے آگے نکل گیا تھا۔ میں نے پینتیس ریال کا احرام اور دس دس ریال کے چار مدینہ کے بنے ہوئے جائے نماز لے لیے تھے۔ ابھی ترک ریستوران نہیں پہنچے تھے کہ صافی کو ایک کابلی نان بائی کا تنور دکھائی دے گیا تھا۔ شاید ان کا تاستلجیا ان پر قابو پا چکا تھا، وہ تنور والے سے “تڑا ماشے” کرکے محو گفتگو ہو گئے تھے اور میں ترک ریستوران میں چلا گیا تھا جو ریستوران کم، ایک فاسٹ فوڈ جوائینٹ زیادہ تھا۔ معاملہ ‘زبان یار من ترکی‘ کا تھا۔ صافی بھی پہنچ گئے تھے۔ کھانوں کی تصویریں دیکھ کر پوچھتا رہا “وٹ، کیا، چہ” لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ بہر حال ایک جگر اور ایک گوشت کی فرمائش کر دی۔ صافی نے اشارے سے کہا کہ وہ نان خود لائیں گے۔ جوائینٹ سے آگے ایک چبوترے پر کرسیاں میزیں دھری تھیں۔ ہم آخری والی میز کے گرد بیٹھ گئے تھے۔ صافی جا کرایک آدھ نہیں بلکہ تین نان لے آئے تھے۔ جگر اور گوشت کی تھالیاں بھی آ گئی تھیں۔ میں نے جگر میں موجود کولیسٹرول سے بچنے کی خاطر گوشت کی خواہش کی تھی لیکن گوشت پھیکا تھا اور جگر واقعی خوش مزہ۔ یوں ایک نان اور جگر کھا کر ہی ہم سیر ہو گئے تھے ۔ لیکن جب میں نے گردن گھما کر اپنے پیچھے جبوترے کے نیچے نگاہ ڈالی تو وہاں ڈرم نما کوڑا ڈالنے کا برتن تھا، یعنی ہم گند کے اوپر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔ میں نے جمشید کی ناگواری کے باوجود گوشت پیک کروا لیا تھا۔ جب ہم ریستوران میں پہنچے تھے اور کھانے کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہاں فوج کی یا محافظ کی وردی پہنے ہوئے ایک شخص موجود تھا جو ہنس ہنس کر کچھ کہہ رہا تھا۔ بعد میں بھی وہ کھانا کھانے کے چبوترے کے شروع کی میز کے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہنستے ہوئے ہمیں کچھ کہتا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ کوئی پنجابی جوان ہے جو مذاقاً عربی بول رہا ہے۔ میں بھی اسے پنچابی میں کہتا رہا ،” تو ہیں تے پنجابی، اینج ای بن رہیا ایں”۔ لیکن وہ بیچارا پنجابی نہیں تھا بلکہ مشابہ تھا۔
واپسی پہ میں نے صافی سے پوچھا تھا کہ کیا سارے عرصے کے لیے ایک احرام کافی رہے گا تو ان کا جواب تھا کہ دو تو ہونے چاہییں۔ صافی ایک اور دکان سے جائے نماز لینے کے لیے رکے تو میں نے ایک اور احرام خرید لیا تھا۔ دکان پہ کام کرنے والا ادھیڑ عمر شخص گورکھپور ہندوستان سے تھا۔ میں نے پیک کیا ہوا گوشت کھانے کے لیے اسے دے دیا تھا۔ ہم ہوٹل واپس آ گئے تھے۔ ابھی صرف ساڑھے گیارہ بجے تھے لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ تھوڑی دیر استراحت کی تھی پھر ظہر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی چلے گئے تھے۔
چلچلاتی دھوپ کی سختی کا احساس مسجد نبوی تک ہی ہوتا تھا لیکن مسجد نبوی کے اندر پہنچ کر ایر کنڈیشنرز کی وجہ سے اس قدر برودت ہوتی تھی کہ بعض اوقات تو اچھی خاصی خنکی محسوس ہونے لگتی تھی۔ بالخصوص وہ حصہ جو روضہ اقدس کے آگے ہے وہاں اگرچہ دونوں جانب کے بلند دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اولیں تین صفوں میں عام کپڑوں میں ٹھنڈ لگتی تھی۔ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے تھے۔ شاید یہ ایک ہی بار تھا کہ میں اور جمشید اکٹھے لوٹے تھے کیونکہ اس کے بعد ہم اکثر بچھڑ جاتے تھے جس کی ایک بڑی وجہ جمشید کی حرص عبادت تھی۔ وہ عبادت کے شوق میں ہمرہی کا بھی خیال نہیں کر تے تھے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا آگے نکل جایا کر تے تھے ۔
پھر عصر کی نماز پڑھنے گئے تھے اور مغرب تک مسجد نبوی کے باہر گھومتے رہے تھے لیکن علیحدہ علیحدہ۔ مسجد کے باہر خوانچہ نما دکانوں میں عبادت اور عقیدت سے وابستہ اشیاء بشمول تسبیحوں، ٹوپیوں، رومالوں، کھجوروں، مسواکوں اور چپلوں کی فروخت کا بازار گرم تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معمول کی بات تھی مگر ایک تکلیف دہ چیز جو میں نے اپنے تمام اسفار میں پہلی بار یہیں دیکھی تھی کہ برقعہ پوش سیاہ فام عورتیں جو نہ جانے دیہات کے غرباء میں سے تھیں یا ان کا تعلق غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ تھا، ہاتھ سے کھینچی جانے والی ریڑھیوں میں اشیا رکھ کر کے بیچ رہی تھیں۔ روس کی اوپن اور کلوزڈ مارکیٹوں میں بھی جارجیا کی عورتیں چائے اور فواکہات ایسی ٹرالیوں میں رکھ کر بیچتی ہیں جیسی پر طیارے میں ایر ہوسٹسیں ڈیوٹی فری اشیاء رکھ کر مسافروں کو خریدنے کے لیے پیش کرتی ہیں لیکن ان مستورات کی ریڑھیاں بہت ہی دیسی قسم کی تھیں۔ اتنے خوشحال ملک میں عورتوں کو یوں خوار ہوتے دیکھنا اذیت دہ تھا۔
مغرب کی نماز کے بعد میں اور جمشید صافی کھانا کھانے کی غرض سے صبح جس طرف گئے تھے اسی جانب نکل گئے تھے. وہاں ہمیں ایک مناسب پاکستانی ریستوران نظر آ گیا تھا، جہاں ہم نے چکنائی میں تر سالن اور تندور سے اتری ہوئی گرم گرم روٹیاں کھائی تھیں۔ پھر عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی جا پہنچے تھے۔ حریص عبادت جمشید کی آج کی خواہش مسجد نبوی کی صف اوّل میں نماز پڑھنا تھی۔ میں نے کسی طرح وہاں جگہ بنا لی تھی اور پھر صافی کو بھی اشارے سے بلا لیا تھا، دونوں کے لیے جگہ بن گئی تھی۔ ایک بوڑھا ، ٹھگنا شخص ہمارے نزدیک اپنا رومال رکھ کر شیلفوں میں لگے قرآنی نسخوں کو ترتیب دیتا پھر رہا تھا۔ ایک فلسطینی اس کے رومال کو تھوڑا سا سرکا کر وہاں بیٹھ گیا۔ پھر کیا تھا، موصوف آئے اور اردو میں اسے بری طرح ڈانٹنے لگے کہ جب رومال پڑا ہوا تھا تو تم یہاں بیٹھے کیوں۔ فلسطینی اسے صبر کرنے کو کہہ رہا تھا لیکن اس کو اگر سمجھ آ بھی رہی تھی تو وہ اس کی نہیں سن رہا تھا۔ مجھے دخل درمعقولات کرنی پڑی تھی اور میں نے ان صاحب کو جو پختون خواہ کے کسی چھوٹے شہر سے تھے بالآخر رام کر لیا تھا۔ یہ صاحب کسی زمانے میں پرائمری سکول ٹیچر تھے۔ ان کے بیٹے مکہ اور ملتان کے دینی مدارس میں پڑھا رہے تھے۔ یہ گذشتہ آٹھ سال سے مدینے میں ہیں۔ اپنے طور پر مسجد نبوی میں دھرے قرآن کے نسخوں کو ترتیب سے رکھتے رہتے ییں۔ مقامی عرب اور پاکستانی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مسجد نبوی میں گذرتا ہے اور کھانے مختلف پاکستانی ‘ہوٹلوں‘ پہ بندھے ہوئے ہیں۔ موصوف کے مزاج سے البتہ پرائمری سکول کی استادی نہیں گئی تھی۔ سبھوں کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن بہرحال تھے دلچسپ آدمی اور خیر سے بزلہ سنج بھی ۔ کہنے لگے نماز کے دوران آدمی سب کچھ کر لے، چاہے تو آنکھیں بھی بند کر لے لیکن اللہ سے اپنا چہرہ تو نہ چھپائے۔ میں نے پوچھا خانصاحب، وہ کون ہے جو اللہ سے اپنا چہرہ چھپاتا ہے۔ بولے جیسے اس نے کیا ہوا ہے۔ ایک انڈونیشیائی نے میڈیکل ماسک باندھا ہوا تھا۔ انڈونیشیا سے آنے والے سب کے سب ماسک باندھ کر آئے تھے۔ لگتا تھا کہ وہیں سے کوئی وائرس لے کر نکلے تھے۔ نماز کے دوران نمازیوں کی تین چوتھائی تعداد کھانس رہی ہوتی تھی۔ کچھ تربیت کا فقدان، کچھ عبادت کا پاس، کھانستے ہوئے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھتا تھا یوں یہ مرض تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں فلو سے بہت جلدی متاثر ہوتا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ میرا کام ہو گیا ہے۔ ویسے بھی جانے سے پہلے ہماری کوئی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں بہت ٹھنڈی مسجد نبوی سے براہ راست خاصے گرم صحن میں نکل آتے تھے۔ وائرس اور درجہ حرارت کی فوری اور مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے عشاء کے بعد مجھے نزلہ ہو چکا تھا اور بدن ٹوٹنے لگا تھا۔ میں کمرے میں آ کر آنکھوں پہ پٹی باندھ کر لیٹ گیا تھا۔ اب میرے نخرے بھلا کون برداشت کرتا۔ میں مکمل اندھیرے اور خاموشی کے بغیر سو ہی نہیں سکتا لیکن اس رات گذشتہ رات کے رت جگے کی وجہ سے میں انٹا غفیل ہو گیا تھا۔ صبح انکل داؤد نے نماز فجر کے لیے اٹھایا تھا اور میں وضو کرکے ان کے ہمراہ مسجد نبوی چلا گیا تھا۔ وہاں اتفاقا” جمشید سے ملاقات ہو گئی تھی۔ مجھ سے بڑے خفا تھے کہ تم رات بھر خراٹے لیتے رہے ہو۔ میں سو نہیں سکا اور رات دو بجے ہی مسجد نبوی میں آ گیا تھا۔ میں نے معذرت کی تھی اور بتایا تھا کہ میں مریض ہوں۔ نماز کے بعد میں نے انہیں اور انکل داؤد کو ناشتہ کرنے کی تجویز دی تھی۔ انکل تو واپس چلے گئے تھے لیکن جمشید میرے ساتھ اسی ہوٹل پہنچا تھا جہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا تھا۔ وہاں گرم گرم پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ میں نے سبزی کے ساتھ پراٹھا مانگا تھا لیکن جمشید نے چائے کے ساتھ پراٹھے کھائے تھے اور بتایا تھا کہ کابل میں ان کے میڈیسن کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ افغانیوں کی بڑی آنت فی الواقعی دوسرے انسانوں سے کم از کم ایک فٹ بڑی ہوتی ہے اس لیے وہ دوسروں کی نسبت دوگنی روٹیاں کھاتے ہیں۔ مجھے یہ بات مذاق لگی تھی لیکن وہ اس کی صداقت پہ مصر تھا۔
مدینہ میں کاروبار حیات نماز فجر کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو ویسے بھی دن روشن ہو چکا تھا۔ جمشید ایک بار پھر خریداری کے چکر میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے میں چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، بہتر ہے یہیں سے لے لی جائیں۔ میں کسی قسم کی خریداری نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ حج کوئی شاپنگ ٹور نہیں جیسے لوگوں نے سمجھ لیا ہوا ہے۔ بہر حال صافی نے کوئی دس کلو کھجوریں خرید لی تھیں۔ ہم ہوٹل میں واپس آ گئے تھے۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ لگتا تھا جیسے بخار ہو گیا تھا ۔ پہلے روس فون کیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ بہت مہنگا ہے پھر پاکستان فون کیا تھا جو بہت سستا تھا اس لیے اپنی پریشانی اور تاثّرات میں پاکستان میں اپنے بچوں کی ماں اور اچھی دوست ڈاکٹر میمونہ کو فون کرکے بانٹتا رہتا تھا۔ طبیعت کی کسالت کے باوجود میں باقی نمازیں پڑھنے مسجد نبوی بی گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد جب میں مسجد کے احاطے سے نکل کر بغلی راستہ عبور کرکے سڑک پہ نکلا تھا تو ایک منظر دیکھ کر طبیعت اوبھ گئی تھی۔ وہی بیچاری عورتیں جو چلچلاتی دھوپ میں ریڑھیاں کھینچ کر مشقت کرتی ہیں ان کی ریڑھیاں نارنجی وردیوں میں ملبوس میونسپل کمیٹی کے بنگلہ دیشی و ہندوستانی اہلکار اٹھا اٹھا کر ٹرک میں ڈال رہے تھے۔ ایک سعودی عمّال ہاتھ میں واکی ٹاکی پکڑے ہوئے ان پر بری طرح برس رہا تھا۔ جو بیچاریاں ریڑھیاں کھینچتے ہوئےبھاگ کر اپنا سامان بچانے کی کوشش کر رہی تھیں، سعودی شکرا چیخ کر ماتحتوں کو حکم دیتا ہے کہ دوڑو اور اس کا مال ضبط کرو۔ میری طرح دو ایک اور عازمین جب یہ اذیت ناک تماشا دیکھ کر رکے تو وہ عمّال ہم پہ بھی برسنے لگا۔ اس کی معاونت کرنے والے پولیس اہلکار نے “یاحجّی، یاللہ” کہہ کے ہمیں دھتکار کر آنکھیں چرا کر نکل جانے کو کہا تھا۔ اوہ میرے خدا، غریب تیرے نبی کے شہر میں بھی اسی طرح پریشان ہے جس طرح کسی بے برکت شہر میں۔