مـــاســکو سے ایک محبت بھرا تصویری پوسٹ کارڈ
علی سردار جعفری ایک کثیر جہتی شخصیت کا نام ہے۔ وہ شاعر تھے، نقاد تھے، منفرد اسلوب کے حاصل نثر نگار اور فلم ساز تھے۔ وہ ایک فعال عالم تھے۔ اوراپنے نظریات پر اٹل رہتے تھے، مگر اپنے مخالفین کے نظریات اورخیالات کو سننے اوران پر بحث کرنے سے کبھی انکار نہیں کرتے تھے۔ تخلیقات کے میدان میں سردار جعفری اپنی مثال آپ تھے ۔ اور انہی خوبیوں کی بنا پر وہ اب تک ترقی پسند ادبی تحریک کی نمایاں و درخشاں شخصیت تسلیم کیے جاتے ہیں ۔
علی سردار جعفری کی شخصیت میں کوئی ایسی بات تھی کہ جس محفل میں موجود ہوتے وہاں چھا جاتے تھے۔ پھر ان کا مبلغ علم دوسرے ادیبوں کے مقابلے میں بہت وسیع تھا اور حافظہ بلا کا تھا۔
مجھے اس پر مٖخر ہے اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں کہ علی سردار جعفری صاحب کے ساتھ میرا تعلق 1973 سے لے کر ان کی رحلت تک قائم رہا ۔ اگرچہ ہماری ملاقات صرف دو مرتبہ ہوئی پہلی بار بمبئی میں اور پھر لندن میں لیکن ایک دوسرے سے خط و کتابت کا سلسلہ تو ایسا رہا کہ ان کے خطوط کو یکجا کرکے ایک چھوٹی سی کتاب مرتب کی جا سکتی ہے ۔ آج کل میں اپنے پرانے کاغذات کو ترتیب دینے میں مصروف ہوں اور ان میں علی سردار جعفری صاحب کے میرے نام آئے ہوئے خطوط بھی شامل ہیں ۔ ان میں ہر خط کی اپنی علمی و ادبی افاقیت، اہمت و حیثیت ہے لیکن ایک طویل خط جو 7 مارچ 1988ء کا لکھا ہوا ہے اس لحاظ سے بڑا اہم اور منفرد ہے کہ اس میں علی سردار جعفری صاحب نے اس واقعہ کا بڑئ تفصیل سے ذکر کیا ہے جو لاہور میں فیض احمد فیض کے جشن کے موقعہ پر جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ اور جس کے وہ چشم دید گواہ تھے ۔ یہ خط اس واقعہ کے متعلق اوراس کے پس منظر میں علی سردار جعفری صاحب کے اپنے مؤقف کی بھرپور عکاسی کرتا ہے لیکن، اس وقت مجھے اس تفصیل کی ضرورت نہیں، میں تو اُس تصویری پوسٹ کارڈ کی بات کرنا چاہتا ہوں جو مجھے علی سردار جعفری صاحب نے مجھے تب لکھا تھا جب وہ اگست 1987 ء میں ماسکو گئے تھے ۔ میں اُن کے اس تصویری پوسٹ کارڈ کو اپنے لیےاُن کی محبت کا اظہار سمجھتا ہوں کیونکہ اس میں انہوں نے مجھے ایک خوش خبری دی تھی کہ شاید میری نظموں کی کتاب جو انہوں نے اردو زبان کے ایک سوویت ماہر کو دی تھی، اس میں سے کسی نظم کا روسی یا تب کی کسی سوویت ریاست کی زبان میں ترجمہ ہو جائے ( اس کی تفصیل کسی اور موقع پر پیش کروں گا)۔ آج علی سردار جعفری صاحب کے خلوص و محبت کو یاد کرتے ہوئے، مــاســکــو سے لکھا ہوا اُن کا تصویری پوسٹ کارڈ آپ احباب کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں ۔
( نـصـر مـلک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ) ۔
عــلـی ســردار جـعـفری صاحب کے لکھے تصویری پوسٹ کارڈ کی عبارت:
ماسکو ۲۰؍اگست 87ء
میں ہندوستان کی آزادی کے چالیس سالہ جشن میں شرکت کے لیے آیا ہوں ۔ سوویت یونین تنہا ملک ہے جو ہندوستان کی آزادی کا جشن ذوق و شوق سے مناتا ہے ۔ آج کا یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا جشن بھی ہو رہا ہے ۔ ہر طرف شعر و شاعری/ قصہ و نغمہ کی بہار ہے۔ اس میں شرکت کی ۔ پرسوں پیرس کے راستے واپس جا رہا ہوں ، رکنے کا وقت نہیں ورنہ آپ کے پاس آتا ۔ آپ کی کتاب میں نے دے دی ہے شاید کوئی نظم ترجمہ ہو جائے ۔
سردار جعفری
……………………………..
نوٹ: اس پوسٹ کارڈ پر لکھا ہوا میرا ایڈریس اب تبدیلی ہو چکا ہوا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“