ماسکو میں "یوم اقبال" کی تقریب
ڈاکٹر مجاہد مرزا
9 نومبر کی سہ پہر مجھے کشمیر سنگھ کا فون آیا کہ انسٹیٹیوٹ برائے ایشیا و افریقہ میں یوم اقبال منایا جا رہا ہے۔ اس کا مہتمم کون ہے؟ مجھے معلوم نہیں تھا مگر میں نے کہا کہ میں معلوم کرکے بتایا ہوں، تاہم اندازے سے بتا دیا کہ کون ہو سکتا ہے۔ پاکستانی برادری کو دو حصوں میں بانٹ دینے والے اہنے ایک دوست کو فون کیا جس نے حسب عادت "یار میں بھول گیا تھا بتانا" کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر کوئی ایسی بات نہیں، اس کے اور میرے لیے ایساکہنا معمول کی بات ہے مگر علمی ادبی اکٹھ میں تو بنا بلائے بھی جانا معیوب نہیں چنانچہ میں چلا گیا۔
انسٹیٹیوٹ کے جس کلاس روم میں یہ تقریب ہونی تھی، اس میں داخل ہوتے ہی کشمیر سنگھ نے عادت کے مطابق مجھے کچھ سنا کے پذیرائی کی جو میرے ایک اور دوست ظہیراللہ خان کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں بولا ،"ایک تو بلاتے ہو، اوپر سے سناتے ہو، واپس چلا چاؤں؟" وہ مسکرا دیا۔ مجھے دیکھ کر "پاکستانسکی زملیاچیستوا" کے نام سے رجسٹرڈ تنظیم کا کوآرڈینیٹر اعجاز احمد ہنستا ہوا آگے بڑھا اور بولا،" ڈاکٹر صاحب، آئیے آئیے، واپس کیوں جائیں گے"۔۔ میں نے سچ کہہ کے بھڑاس نکالی کہ مجھے کسی پاکستانی نے اس تقریب میں مدعو نہیں کیا بلکہ میرے دوست اور 60سالہ تنظیم "ہندوستانی سماج" کے صدر ڈاکٹر کشمیر سنگھ نے مدعو کیا ہے"۔۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا۔
روایت کے مطابق پہلی قطار کو "سرکار عالیہ" کے اہلکاروں کے لیے چھوڑ کر دوسری قطار میں بیٹھ گئے۔ میرے ایک جانب کشمیر سنگھ اور دوسری جانب نور حبیب تھا۔ اعجاز نے مجھے تقریر کرنے کو کہا۔ سوچا میں اقبال پر کیا بولوں گا،بہرحال حامی بھر لی۔ کلاس روم کو طلباء نے بھر دیا تھا۔ ماسکو میں مقیم پاکستانی زیادہ نہیں تھے مگر تھے ضرور۔
پہلے انسٹیٹیوٹ میں ہندی کی پروفیسر لدمیلا وکتروونا خخلووا پہنچیں تو ان سے دعا سلام ہوئی، پھر میری عزیز ہستی ایرینا میکسی مینکا بھی پہنچ گئیں۔ تقریب شروع کیے جانے کا وقت ساڑھے چھ بجے طے تھا مگر جیسے عرب امارات میں جب تک شیخ نہ پہنچ جائے، جمعہ کا خطبہ نہیں دیا جا سکتا، معاملہ کچھ ایسے ہی تھا۔ تاہم روس میں پاکستانی سفارت خانے کے قنصلر بلال وحید اور عسکری اتاشی بریگیڈیر عفان کے پہنچنے کے بعد تقریب کا آغاز حسب معمول تلاوت قرآن پاک سے یوا۔ شاہد محمود نے لحن داؤدی میں سورت "الم ترا کیف" پڑھی۔ ہم نے جزاک اللہ کہا۔تنظیم مذکورہ کے صدر خلیل الرحمان نے تقریب میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ روسی زبان میں کیا۔ پھر انسٹیٹیوٹ کے مہتمم پروفیسر میخائیل صاحب نے اعتراف کرتے ہوئے کہ انہیں اقبال سے متعلق زیادہ معلوم نہیں ہے مگر وہ ان کی تصویر سے زمانہ طالبعلمی سے ہی شناسا ہیں، اقبال کی تعریف میں کلمات ادا کیے۔
ان کے بعد اردو پڑھنے والے سال سوم کے طلباء و طالبات نے اپنے مخصوص لہجے میں اقبال کی ایک نظم سنائی۔ ڈاکٹر لدمیلا خخلووا کو سٹیج پر بلایا گیا، انہوں نے بھی مختصر خطاب کیا۔ پھر ڈاکٹر ابرار آئے، جو پیشے سے سرجن ہیں اور اس تنظیم میں مدارالمہام بھی۔ انہوں نے اپنی مسجع روسی میں اقبال کے بارے میں اچھی باتیں کیں اور اچھے اشعار پڑھے۔ روس میں افغان برادری کے صدر فاروق فردا نے فارسی اور پشتو میں علامہ اقبال سے متعلق بہت اچھے الفاظ ادا کیے۔ ڈاکٹر زاید علی خان نے اقبال کی زندگی سے متعلق اور ان کے فلسفہ محبت سے متعلق اپنی لکھی تقریر پڑھ کر سنائی۔ اعجاز احمد نے اقبال کی کوئی غزل جس کے آخر میں "اے ساقی اے ساقی" آتا تھا گا کر سنائی مگر مجھے یہ غزل اقبال سے زیادہ عبدالحمید عدم کی لگی۔ کیا کیا جائے، جو طغرے دیوار پر لگے ہوئے تھے ان میں اقبال کی ایک بڑی تصویر کے نیچے ایک شعر لکھا تھا جو کسی بھی طرح اقبال کا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس میں نہ وزن تھا اور نہ فکر۔ دوسرا مصرع تھا "ہر میکدے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا"۔ اقبال کو لوگوں نے اپنا شاعر مان کر ان کے نام سے منسوب اپنے ایسے شعر بھی ان کے کھاتے میں ڈال دیے ہیں جو ٹرکوں کے پیچھے لکھے ہوتے ہیں۔
اب میری باری تھی۔ میں نے بتایا اگر ہمیں سکول میں علامہ صاحب کی دعا "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا" ترنم کے ساتھ پڑھنی ہوتی تھی تو ہندوستان میں اقبال کی نظم "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" ٹیگور کی نظم "وندے ماترم" کے بعد گائی جانے والی دوسری بڑی نظم ہے۔ میں نے کہا کہ اقبال پر نطشے کا فلسفہ چرانے کا الزام ہے کیونکہ انہوں نے نطشے کے "سپرمین " کو " مرد مومن" بنا کر پیش کر دیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ ان کی شاعری میں تضمین یا ترجمہ بھی ہے جیسے کہ:
میں جو سربسجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
غالبا" حافظ شیرازی کے شعر:
زا زمیں چوں سجدہ کردم، بہ زمیں ندا برآمد
چہ مرا خراب کردہ، ترا سجدہ ریائی
کی اردو شکل ہے۔ مگر ایک ہی طرح کی سوچ بھی تو ہوسکتی ہے۔ توارد بھی ہو سکتا ہے۔
میں نے کہا کہ مجھے کبھی گمان ہوتا ہے کہ جوہری توانائی سے متعلق آئن سٹائن کے معروف فارمولے کا خواب بھی شاید علامہ اقبال نے ہی دیکھا تھا کیونکہ ان کا ایک مصرع یوں ہے:
لہو خورشید کا نکلے اگر ذرے کا دل چیریں
ایٹم بم کہیں 1944 میں تیار ہوا تھا جبکہ علامہ اقبال کی رحلت 1936 میں ہو چکی تھی۔ ممکن ہے انہوں نے جوہری فارمولے کو منظوم انداز میں پیش کیا ہو جو آئن سٹائن پہلے پیش کر چکے تھے۔ جیسے آئن سٹائن نے جوہری فارمولا جوہری بم کی بجائے جوہری توانائی کے لیے وضع کیا تھا مگر اس کی بنیاد پر ایٹم بم پہلے بنا لیا گیا اور ہزاروں لوگوں کو مارنے کی خاطر استعمال بھی کر لیا گیا، اسی طرح علامہ اقبال کی شاعری کو بھی طرح طرح کے لوگ اپنے اپنے مقصد کے لئے لے اڑے ہیں اگرچہ وہ محبت کی ہی بات کرتے رہے۔
میرے بعد ایک بار پھر طلباء و طالبات نے علامہ کے اشعار پڑھے۔ پھر کشمیر سنگھ کو بات کرنے کے لیے بلایا گیا جنہوں نے کہا کہ اقبال برصغیر کے شاعر تھے اس لیے آئندہ برس یہ تقریب ماسکو میں مقیم ہندوستان اور پاکستان کے لوگ مل کر منائیں گے،
ستیج سیکرٹری عبدالخالق نے نظامت تو اچھی طرح سے کی مگر نمعلوم آخر میں کوئی مزاحیہ نظم گا کر کیوں سنائی جس کا "یوم اقبال" سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس تنظیم نے اس تقریب کا اہتمام کیا اس کے رہنما نورحبیب شاہ نے اس حرکت پر کہا " یہ کوئی عید کی خوشی منانے کی تقریب تو نہیں ہے"۔۔۔ تاہم تقریب اچھی رہی۔ ہال بھرا ہوا تھا اگرچہ طلباء زیادہ تھے، جس سے علامہ اقبال میں ان کی دلچسپی کا اظہار ہوتا تھا۔ آخر میں اکل و شرب کے بعد میں اور ایرینا صاحبہ ماسکو کی کھلی فضا میں نکل گئے تاکہ اپنے اپنے گھونسلوں میں لوٹا جا سکے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“