اہل ہند کی زندگی کا دارومدار موسمی یا ہنگامی بارشوں پر تھا۔ پنجاب کے قدیم فطرت پرست آریاؤں نے اپنے تخیل سے موسم بارش کے آسمانی تغیرات میں جان ڈال دی تھی اور بادلوں کے ادھر ادھر آنے جانے، باد و باراں کے طوفان اور بجلی کی کڑک سے انہوں نے ایک زرمیہ داستان بنالی تھی۔ جس میں فوجیں بھی تھیں اور سورما بھی اور ان کی لڑائیاں بھی۔ بادلوں کے خطہ وسطی کا جو آسمان اور زمین کے درمیان میں انہوں نے اس کا نام انتہ رکشا نام رکھا تھا اور اسی پر اور اسی کے نئے نئے نظاروں پر ان کی آنکھیں لگی رہتی تھیں۔ کڑکنے والا اندر راجہ تھا اور مَارُوت (آندھیاں) اس کے دوست اور معاون تھے۔ اس سرزمین پر بادل تماشے دیکھاتے اور کبھی اس تماشے کے لیے پردوں کا کام دیتے تھے اور یہیں وہ قیمتی گائیں تھیں جن کے لیے یہ سب جنگ تھی اور جن کے دودھ کی زمین پیاسی خیال کی جاتی تھی۔
اب ہم ہندی آریاؤں کے اس عجیب و غریب توہم یعنی گائے کے تقدس کی تہہ کو پہنچتے ہیں جو بظاہر ان کے دلوں سے کبھی دفع نہیں ہوسکتا ہے۔ اس توہم کا ایک سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ گائے آریاؤں کی تمدنی زندگی کا جزو لازمی تھی۔ کیوں کہ یہ جانور طبعاً خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنے یا کھلے میدانوں کی سخت گرمی برداشت کرنے لیے ناقابل ہے۔ اس کے لیے مرغزاروں کی سبزی اور سکون کی ضرورت ہے جو تمدن انسانی کی اس کی درمیانی منزل ہی میں اس کو نصیب ہوسکتی ہے۔ جو خانہ بدوشی اور مدنیت کے درمیان ہے یعنی زراعت۔ گائے کی پرورش اسی حالت میں ہوسکتی ہے جب کہ اس کے پالنے والے ایک ہی مقام پر زندگی بسر کریں۔ اس زمانے میں آریاؤں کے لیے نعمت سمادی تھی۔ جو ان کی ہر ایک دنیاوی ضرورت کے لیے کافی تھی اور ایک ایسی قوم کے لیے جو خاندانوں یا چھوٹے چھوٹے گوتوں میں منقسم ہو اور جس میں سے ہر ایک کا دارومدار اپنے مویشیوں اور کھیتوں پر ہو گائے کے ایسا ہمدر اور رفیق ایک نعمت غیر مترقبہ تھا۔ کیوں کہ اس کے تھنوں سے شیریں دودھ جو مفید غذا نکلتی ہے۔ جس کا آسانی سے روغن بن سکتا ہے اور اسے پگھلا کر قربان گاہ کی آگ پر ڈالتے تھے۔ اس کا نر بیل بھی ایک مفید جانور تھا۔ کیوں کہ اس سے سوختی قربانیوں کے لیے گوشت ملتا تھا اور زراعت میں بھی اس سے کام لے سکتے تھے۔ گائے کو آریا ایک فیض چشمہ خیال کرتے تھے اور اس کی عظمت رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں بیٹھ گئی کہ وہ اسے نہ صرف مقدس بلکہ نیم دیوتا بھی خیال کرکے اس کی پرستش کرنے لگے جو اب تک ہندوستان میں اب تک جاری ہے۔
اس تقدس کے علاوہ جو صریحی اسباب پر مبنی ہے آریاؤں کے شاعرانہ تخیل نے گائے کی عظمت کی ایک دوسری وجہ بھی پیدا کردی تھی۔ یعنی گائے کا جواب آسمان انتہ رکشا (فضاء) میں بھی موجود تھا۔ جہاں بادلوں کے سیاہ اور ابلق اور ہلکے رنگ کی گایوں کے گلے ادھر ادھر پھرتے تھے اور جن کے تھنوں میں سے خالص شیریں دودھ (بارش) نکلتا ہے اور انسان، حیوان اور نباتات کو سیراب کرتا ہے۔ گائے اور بادلوں میں جو تعلق ہے ہے اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ویدی سنسکرت میں دونوں کہ لیے ایک ہی لفظ ’گو’جس کے لغوی معنی حرکت کرنے یا چلنے کے ہیں۔ آسمان پر بادلوں کے حرکت کرنے کو اولاً گایوں کے گلوں سے تشبیہ دی گئی ہوگی۔ جو مرغزاروں میں چرتے ہیں اور بار بار دیکھنے سے یہ خیال ان کے دل میں جم گیا ہوگا۔ آسمانی سمندروں اور ان کے بادلوں کے جہازوں کی طرح آسمانی مرغزاروں، آسمانی گایوں کے گلے اور آسمانی چرواہے۔ یعنی دیوتا افسانوں کے مستقل ارکان بن گئے ہیں جس میں ہر زمانے میں شاعروں نے تصرف کیا ہے۔ رگ وید کے سرسری مطالعے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ فضاء ایک آئینہ ہے جس میں اس عالم اسفل کے حالات و تعلقات و افعال کا ایک اعلیٰ پیمانے پر عکس نظر آتا ہے۔ جس کو دنیاوی لڑائیوں اور قبائل کی یورشوں کا مقابل قرار دیا گیا ہے اور ان لڑائیوں کے اسباب جو بھی بیان کیے گئے ہیں محض دنیاوی ہیں۔ یعنی مویشی اور عورتیں اور دوشیزاؤں کو چرانے کی حرص جو قبائلی جنگ کا باعث ہوتی تھی۔
میور اندر کے تذکرے کے ضمن میں لکھتا ہے کہ ”بجلی کی گرج سے ہمارے ذہنوں میں مخالف قوتوں کے مقابلے کا خیال آتا ہے اور اب بھی ہم اس زمانے میں جنگ عناصر کا محاورہ استعمال کرتے ہیں۔ آسمان کے دوسرے مناظر سے شاعر کے ذہن میں اس قبیل کے تخیلات آسکتے ہیں۔ کسی دیوتا کا پرستش کرنے والا بادلوں کو دیکھ کر خیال کرسکتا ہے کہ یہ اس دیوتا کے رتھ اور گھوڑے ہیں یا ان کے ذہن میں آسکتا ہے کہ بادلوں کے دَل قلعے اور شہر جو دیوتا فتح کرنے کے لیے جارہا ہے۔”
شہروں اور قلعوں کے علاوہ پہاڑوں کا بھی ہوسکتا ہے کہ بادلوں کے دل آسمان پر بالکل پہاڑوں کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں اور سمندروں میں ملاحوں کو ان بادلوں کو دیکھ کر اکثر خشکی کا دھوکا ہوتا ہے۔ پَرُوَت جس کے معنی پھیلنے کے بادل اور پہاڑ دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ جیسے کہ پور کے معنی قلعے کے ہیں اور بادلوں کے بھی۔ ویدی سنسکرت میں اس قسم کے بہت سے الفاظ ہیں جن کے دو معافی ہیں جن سے گو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم شعرا کو فطرت سے کس قدر قربت حاصل تھی اور ارضی اور سمادی مناظر کی مشابہت کا انہیں کس درجہ احساس تھا۔ مگر اس سے یہ دقت واقع ہوتی کہ زمانہ حالیہ کے لوگوں کو دونوں کے درمیان تمیز کرنے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ قلعوں کو فتح کرنے، دشمنوں کو زیر کرنے کی کیا تعبیر کی جائے۔ یعنی کوئی واقعہ تاریخی ہے یا محض افسانہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ دونوں عالموں میں رہتے تھے اور دونوں میں تمیز نہ کرسکتے تھے۔
یہ قلعے اور پہاڑ جن میں عمیق اور تاریک غار ہوتے ہیں وہ مستحکم مقامات ہیں جہاں بدطینت ڈاکو مسروقہ مویشیوں اور دوشیزاؤں کو چھپاتے ہیں۔ جن پر بادل کا مہیب دیو آہی (سانپ) جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑا رہتا ہے اور ایک دوسرا دیو وِرِررا (لیپٹنے والا) نگران رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کڑکنے والا اندر اپنی بجلی کے بھالے سے ان کو چیر ڈالتا ہے اور اپنے آتشی اعصا سے قلعے کی دیواروں کو توڑ کر اسیروں کو رہا کراتا ہے۔ بادلوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور سب بادلوں سے بارش کی امید نہیں ہوتی ہے۔ اگر ان میں سے بعض اس عالم تشنہ کو سیراب کرتے ہیں تو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو پانی کو اپنی خباثت سے چھپائے رہتے ہیں اور پھول کر کپا ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ برق کا دیوتا غضب ناک ہوکر اپنے بھالے سے ان کو چیر دیتا ہے۔’جو لوگ قحط سالی کے زمانے میں کسی نیم گرم ملک میں رہے ہیں وہ ضرور تسلیم کریں گے کہ جب ہر جاندار پر پانی کا منتظر ہو۔ یہاں تک کہ بے جان زمین بھی پیاسی نظر آنے لگے۔ تو بادلوں کا آسمان پر جمع ہونا اور پھر پانی کا نہ برسنا فطرت انسانی کو سخت ناگوار گزرتا ہے اور مایوسی ہوتی ہے۔