(Last Updated On: )
ہم مپہنوں مور پنکھ کے پودے کی باتیں کرتے رہے
اور پھر ایک دن اُس نے مورپنکھ کا پوردا خریدا
مورپنکھ کی ایک شاخ پہ میرا نام اور دوسری شاخ پہ اپنا نام لکھا اور پودے کو بلکونی میں رکھ دیا
میں نے اس پہ ایک نظم لکھی " گملے سے فرار"
وہ پوودوں کو پانی دیتی مورپنکھ کے پتوں کو صاف کرتے ان کو ہاتھوں میں پکڑ کرپوچھتی
" آپ کیسے ہیں "
میرے حصے میں اب صرف میری نظم اور مورپنکھ کے پودے کی یہ تصویر ہی رہ گئی
گملے سے فرار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے
یہ پودہ درخت بنے
اور تنے سے لپٹی
ہمارے ناموں کی پرچیاں پھاڑ دے
آو ہم
مورپنکھ کی شاخوں
کے پر لگا کر
جنگل میں رقص کرتے کرتے
مور بن جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔