افسانہ نگار: موری اوگائی (جاپان)
اُردو ترجمہ: ڈاکٹر انیس رشید خان (بھارت)
‘ کابوکی’ پلے ہاؤس کے سامنے ، جب کاؤنسلر واٹانابے، ٹرام کے باہر اُترا، بارش بند ہوچکی تھی۔ پانی سے بھرے گڑھوں سے بچتے ہوئے وہ تیزی سے، محکمہ مواصلات کی سمت میں ‘ کوبیکی’ ضلع کی جانب بڑھنے لگا ۔ جب وہ نہر کے کنارے کنارے گزر رہا تھا ، اُس نے سوچا کہ یہیں کہیں وہ ریستوراں موجود تھا؛ کیونکہ اُسے یاد آرہا تھا کہ یہیں کسی کارنر پر اُس نے اُس کا سائن بورڈ دیکھا تھا۔ سڑکیں کافی حد تک سنسان ہوچکی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ، مغربی طرز کے لباس پہنے کچھ آدمیوں کے ایک گروہ کے قریب سے گزرا جو کہ نہایت پُرجوش انداز میں باتیں کررہے تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ابھی ابھی اپنے دفتری کاموں سے فارغ ہوکر باہر آئے ہوں۔ پھر اُس کے قریب سے ایک لڑکی نہایت تیزی سے گزری ،جس نے روایتی کیمونو لباس، جس میں ایک کندھے پر لمبا سا دوپٹہ لٹکا ہوا تھا ، زیب تن کیا ہوا تھا۔ وہ لڑکی اُس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اُس نے سوچا کہ شاید وہ لڑکی قریب کسی چائے خانے میں ملازمہ ہوگی۔ جب وہ مزید آگے بڑھا ، اُس کے پیچھے سے ایک رکشہ گزرا جس کا اُوپری ڈھکنا کھلا ہوا تھا۔
بالآخر اُسے ایک چھوٹا سا سائن بورڈ دکھائی دیا جس میں مغربی طرز میں افقی سطروں میں “سیواکن ہوٹل ” لکھا ہوا تھا۔ اُس عمارت کا سامنے والا حصہ، جو نہر کی جانب تھا، بہت ساری لکڑیوں اور بانس کے عارضی سہاروں سے گھیرا ہوا تھا۔ اُس کا بغلی داخلی دروازہ ایک تنگ گلی میں کھلتا تھا۔ ریستوراں کے باہر ، دو ترچھی رکھی ہوئی سیڑھیاں موجود تھیں ، جو ایک طرح سے ٹوٹا ہوا سا اُلٹا مثلث تیار کررہی تھیں۔ ہر ایک سیڑھی کے سب سے اوپری سرے پر ، کانچ کے دروازے موجود تھے۔
ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بعد ، واٹانابے بائیں جانب والے کانچ کے دروازے میں داخل ہوا جس پر “داخلہ” لکھا ہوا تھا۔ اندر اُسے ایک طویل راہداری دکھائی دی۔ دروازے کے بغل میں ، جوتے صاف کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کپڑوں کا ایک ڈھیر رکھا ہوا تھا اور اُسی ڈھیر کے بغل میں مغربی طرز کا ایک ڈور میٹ پڑا تھا۔ واٹانابے کے جوتے کیچڑ کی وجہ سے گندے ہوچکے تھے۔ اُس نے جوتے صاف کرنے کے لئے وہاں موجود دونوں سہولیات کا استعمال کیا ۔ بظاہر یہی محسوس ہورہا تھا کہ اس ریستوراں میں ، مغربی تہذیب کے مطابق ، اندرونی حصے میں بھی جوتے پہنے رہنا ہوگا۔ اُس راہداری میں زندگی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے ، لیکن کچھ فاصلے سے، ہتھوڑیوں اور لکڑی کاٹنے کی کافی تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ واٹانابے نے سوچا کہ شاید یہ جگہ زیر تعمیر ہے۔ وہ وہاں کچھ پل کے لئے رکا، لیکن جب اُس کے استقبال کے لئے کوئی نہیں آیا تب وہ راہداری کے اختتام تک آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہاں اُسے رُکنا پڑا کیونکہ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب آگے کس سمت میں مُڑنا چاہیئے۔ اچانک اُس نے دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر ایک آدمی ، ہاتھ میں رومال پکڑے ہوئے سامنے دیوار کی جانب جھکا ہوا کچھ کررہا ہے۔ وہ اُس کے قریب پہونچ گیا ۔
“میں نے ایک ٹیبل مخصوص کرنے کے لئے کل فون کیا تھا”
وہ آدمی فوراً اُس کی جانب متوجہ ہوا ۔
” جی ہاں جناب! میرے خیال سے ، دو لوگوں کے لئے ایک ٹیبل؟ ۔۔۔ وہ دوسری منزل پر ہے۔ ۔۔ کیا آپ میرے ساتھ وہاں چلنا پسند کریں گے جناب!۔۔۔”
وہ اُس ویٹر کے آگے آگے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اُس وقت واٹانابےسوچ رہا تھا کہ ویٹر نے اُسے بڑی جلدی پہچان لیا ہے! عمارت کی درستگی کے کام کی وجہ سے یہاں گراہک کافی کم ہونا چاہیئے۔ سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے ٹھونکنے پیٹنے کی نہایت تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔
“یہاں تو کافی شور ہے ۔۔۔” واٹانبے نے پیچھے پلٹ کر ویٹر سے کہا۔
“ارے نہیں جناب! ۔۔۔ تمام مزدور پانچ بجے چلے جائیں گے۔۔۔ کھانا کھاتے وقت آپ کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی۔۔۔”
وہ جیسے ہی اُوپری منزل پر پہونچے، ویٹر نہایت تیزی سے آگے بڑھا اور بائیں جانب والا دروازہ کھولنے لگا۔ وہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا جس کی کھڑکی سے نہر کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ صرف دو انسانوں کے لئے ، وہ کمرہ ضرورت سے کافی بڑا محسوس ہورہا تھا۔ وہاں صرف تین دائروی ٹیبل موجود تھے جن کے اطراف بہت ساری کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ کھڑکی کے نیچے، کافی بڑا صوفہ موجود تھا۔ اُس کے بغل میں ، ایک گملے میں اُگائی ہوئی کوئی بیل موجود تھی جس کی اُونچائی تقریباً تین فٹ رہی ہوگی۔ وہیں پر ایک بونا پودا بھی رکھا ہوا تھا جس میں انگور لگے ہوئے تھے۔
ویٹر اُس کمرے میں آگے بڑھا اور سامنے والا ایک دروازہ کھولا۔ “جناب! ۔۔۔ یہ آپ کے کھانے کا کمرہ ہے ۔۔۔” واٹانابے اُس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو کہ دو انسانوں کے لئے بالکل مناسب تھا۔ کمرے کے درمیانی حصے میں ، نہایت سجا ہوا ایک ٹیبل لگا ہوا تھا جس پر دو مختلف غلاف چڑھائے گئے تھے۔ درمیان میں ایک باسکٹ بھی رکھی ہوئی تھی جس میں ‘ ازالیہ’ کے گھنٹی نما نہایت خوبصورت پھول سجے ہوئے تھے۔
کافی حد تک مطمئن ہوکر، واٹانابے بڑے کمرے میں واپس لوٹا۔ ویٹر چلا گیا اور اب واٹانابے ایک بار پھر تنہاء ہوچکا تھا۔ اچانک ٹھونکنے پیٹنے کی آوازیں یکلخت بند ہوگئیں۔ اُس نے غیر ارادی طور پر اپنے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھا: جی ہاں، ٹھیک پانچ بج چکے تھے! ۔ ۔۔ ابھی اُس کے طے شدہ مقررہ وقت میں آدھا گھنٹا باقی تھا۔ واٹانابے نے ٹیبل پر رکھے ہوئے کھلے باکس میں سے ایک سگار نکالا ۔ اُس کا ایک سرا توڑا اور اُسے جلایا۔ انتہائی حیرت کی بات تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی متوقع صورت حال سے بالکل بے پرواہ محسوس ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے اس بات کی قطعئی کوئی فکر ہی نا ہو کہ پھولوں کی باسکٹ کے پرے کون سا چہرہ ہوگا جس سے وہ ابھی کچھ ہی دیر بعد ملنے والا تھا۔ وہ خود اپنی اس سرد مہری پر حیران بھی تھا۔
سگار کا پُر سکون کش لیتے ہوئے وہ کھڑکی کے قریب پہونچا اور اُسے کھولا۔ باہر اُس کے بالکل نچلے حصے میں بہت سارے بانس اور لکڑی کے تختے ٹھونکے ہوئے تھے ۔ وہ دراصل ریستوراں کا اصل داخلی حصہ تھا۔ نہر میں پانی بالکل ساکت محسوس ہورہا تھا۔ اُس کی دوسری جانب لکڑی کے بنے ہوئے بہت سارے مکان ایک قطار میں موجود تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ تمام مکان ، خفیہ میٹنگوں کے لئے تفویض کئےگئے ہوں۔ ایک مکان کے باہر، ایک عورت اپنی پیٹھ پر بچے کولئے آگے پیچھے ٹہل رہی تھی۔ اُس عورت کے علاوہ وہاں دور دور تک کوئی اور انسان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کافی دور ، سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ایک بڑی سی عمارت نے اُس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ عمارت دراصل ایک بحری عجائب خانہ تھی۔
واٹانابے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا اور کمرے کا بغور معائنہ کرنے لگا۔ دیواروں پر کچھ تصویریں لگی ہوئی تھیں جن سے اُنہیں سنوارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن وہ تصویریں بڑی بیمار بیمار سی محسوس ہورہی تھیں۔ ایک تصویر میں ، ایک بیری کے پیڑ پر رات میں گانے والے کتھئی پرندے دکھائے گئے تھے۔ ایک تصویر میں پریوں کی دنیا دکھائی گئی تھی جبکہ ایک اور تصویر میں ایک بڑا سا عقاب موجود تھا۔ چینی یا جاپانی اسٹائل کی تاریخی مصوری کے وہ نمونے چھوٹے اور تنگ تھے، اور اونچی دیواروں پر وہ عجیب حد تک چھوٹے لگ رہے تھے۔ دروازے کے اُوپر ایک فریم لگا ہوا تھا جس میں کوئی بودھ متن لکھا ہوا تھا۔ واٹانابے نے سوچا کہ اُس متن کا مطلب یہی ہونا چاہیئے کہ یہ فنون لطیفہ کی زمین ہے!
کچھ دیر وہ وہاں بیٹھا سگار پیتا رہا اور محض طبعئی تندرستی کے احساس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ پھر اُسے راہداری میں کچھ آوازیں سنائی دینے لگیں اور اچانک دروازہ کھلا۔ وہ وہی تھی۔ اُس نے موتیوں سے سجی ایک بڑی سی ‘این- میری’ تنکوں سے بنی ہیٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے لمبے سرمئی کوٹ کے نیچے اس نے سفید کڑھائی والا بلاؤز پہن رکھا تھا۔ اس کا اسکرٹ بھی سُرمئی تھا۔ اس نےدائیں ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھتری اٹھا رکھی تھی۔ واٹانابے نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔ ایش ٹرے میں سگار پھینکتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ جرمن خاتون نے اپنا پردہ ہٹا کر واپس ویٹر کی طرف دیکھا، جو اس کے پیچھے کمرے میں آیا تھا اور جو اب دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ پھر اس نے نظریں واٹانابے کی طرف موڑ لیں۔ اُس کی بھوری آنکھیں کافی بڑی بڑی تھیں۔ وہ وہی آنکھیں تھیں جن کی گہرائی میں وہ ماضی میں غوطے لگایا کرتا تھا۔ اس کے باوجود اسے برلن میں گزارے اُن خوبصورت دنوں کے وہ ہلکے سائے اب بالکل بھی یاد نہیں تھے۔۔
“مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو انتظار کروایا” عورت نے جرمن زبان میں نہایت تیزی سے کہا۔
اُس نے چھتری اپنے بائیں ہاتھ میں منتقل کی اور اپنے دائیں ہاتھ کی دستانے والی انگلیوں کو کچھ مشکل سےآگے بڑھایا۔ واٹانابے نے شائستگی سے انگلیاں اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے سوچا کہ یہ سب ویٹر کے فائدے کے لئے تھا۔
“جب رات کا کھانا تیار ہوجائے تو آپ مجھے بتا سکتے ہیں۔۔۔” اُس نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ویٹر فوراً جھک کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
“آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔۔۔” اُس نے جرمن میں کہا۔
عورت نے بے فکری سے اپنی چھتری ایک کرسی پر پھینکی اور تھکن کی ہلکی سی ہانپ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ میز پر کہنیاں رکھ کر اس نے خاموشی سے واٹانابے کی طرف دیکھا۔ وہ میز کے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
“یہاں بہت خاموشی ہے، ۔۔۔۔ ہے نا؟” اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
“یہ تعمیر نو کے تحت ہے۔۔۔” واٹانابے نے کہا۔ “جب میں یہاں پہنچا تھا، تب یہاں ایک خوفناک شور مچا ہوا تھا۔۔۔”
“اوہ! یہ سناٹا اس کی وضاحت کرتا ہے۔۔۔ یہ جگہ ایک غیر متزلزل احساس دیتی ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ میں خاص طور پر ایک پرسکون قسم کی انسان ہوں۔”
“آپ جاپان کب پہنچے؟”
“پرسوں۔۔۔۔ اور پھر کل میں نے تمہیں سڑک پر دیکھا تھا ۔۔۔”
“اور ۔۔۔ آپ کیوں آئے ہو؟”
“ٹھیک ہے! آپ جانتے تو ہو کہ میں پچھلے سال کے آخر سے ولاڈی اُسٹوک میں ہوں۔۔۔”
“مجھے لگتا ہے کہ آپ وہاں اس ہوٹل میں، یا اُسے جو بھی کہا جائے، گا تے ہوں گے۔۔ ۔”
“جی ہاں.”
“ظاہر ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہوں گے ۔۔۔ ۔ کیا آپ کسی کمپنی کے ساتھ تھے؟”
“نہیں، میں کسی کمپنی کے ساتھ نہیں ہوں۔ لیکن میں اکیلے بھی نہیں ہوں ۔۔۔ میں ایک آدمی کے ساتھ ہوں ۔۔۔ حقیقت میں آپ بھی اسے جانتے ہیں۔” وہ ایک لمحے کے لئے ہچکچائی ۔۔۔۔ “میں کوسنسکی کے ساتھ رہ رہی ہوں۔۔۔”
“اوہ! وہ کھمبا! ۔۔۔ تو مجھے لگتا ہے کہ ۔۔۔ اب آپ کو ‘کوسنسکایا ‘ کہا جاتا ہوگا ؟۔۔۔”
“بے وقوف نہ بنو! بات صرف اتنی ہے کہ میں گاتی ہوں اور کوسنسکی موسیقی میں میرا ساتھ دیتاہے۔۔۔”
“کیا آپ کو یقین ہے کہ بس اتنا ہی ہے؟”
“آپ کا مطلب ہےکہ ہم ایک ساتھ اچھا وقت گزارتے ہیں؟ ٹھیک ہے!۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔۔”
“یہ کافی حیران کن بات ہے۔۔۔ میرے خیال سے وہ آپ کے ساتھ ٹوکیو میں ہے؟”
“ہاں، ہم دونوں ‘ایکوکوسن’ ہوٹل میں رُکے ہیں۔۔۔”
“لیکن وہ تمہیں اکیلے باہر آنے جانے دیتا ہے؟”
“میرے پیارے دوست! میں نے اسے صرف گانے میں اپنے ساتھ دینے کے لئے رکھا ہے!۔۔۔تم جانتے ہو۔”
‘اگر وہ پیانو پر اس کا ساتھ دیتا ہے تو، ۔۔۔ دوسرے معاملوں میں بھی اس کا ساتھ دیتا ہی ہوگا۔۔۔’ واٹانابے نے سوچا۔
“میں نے اسے بتایا تھا کہ میں نے آپ کو گِنزا شہر میں دیکھا ہے” اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا “اور وہ آپ سے ملنے کے لیے بہت بے چین ہے۔۔۔”
“مجھے اجازت دیں کہ میں ، اپنے آپ کو اس خوشی سے محروم رکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔”
“فکر نہ کرو۔۔۔ اسے پیسے یا کسی اور چیز کی کمی نہیں ہے۔۔۔”
“نہیں! لیکن اگر وہ یہاں زیادہ دنوں تک رہتا ہے تو شاید بہت جلد ضرورت مند بن جائے گا۔” واٹانابے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “اور آگے کہاں جانے کا ارادہ ہے، آپ کا؟”
“میں امریکہ جا رہی ہوں۔۔۔۔ ہر کوئی مجھے کہتا ہے کہ جاپان ناامید ہے۔۔۔ اس لیے اب میں یہاں کام حاصل کرنے پر اعتماد نہیں کرتی ۔۔۔”
“آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔ امریکہ، روس کے بعد جانے کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔ ۔۔۔ جاپان اب بھی پسماندہ ہے۔ ۔۔۔ یہ ابھی تک تعمیر نو کے تحت ہے ۔۔۔ آپ جانتے ہو۔۔۔”
“اوہ خدایا! ۔۔۔۔ اگر آپ محتاط نہیں رہے تو میں، امریکہ میں بتاؤں گی کہ ایک جاپانی شریف آدمی نے اعتراف کیا ہے کہ اس کا ملک پسماندہ ہے! ۔۔۔ حقیقت میں، میں کہوں گی کہ یہ بات جاپانی حکومت کے ایک اہلکار نے کہا تھا ۔۔۔ کیا آپ ایک سرکاری اہلکار نہیں ہیں؟۔۔۔۔ ہیں ناں ؟”
“ہاں میں حکومت میں ہوں۔۔۔”
“اور، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ بہت صحیح برتاؤ کر رہے ہیں؟”
“حیرت انگیز طور پر! میں ایک حقیقت بیان کررہا ہوں ، آپ جانتے ہیں! ۔۔۔ آج کی رات واحد استثناء ہے۔۔۔”
” اس عزت افزائی کے لئے ممنون ہوں!” اس نے اپنے لمبے دستانے کے بٹنوں کو آہستہ آہستہ کھولا، انہیں اتارا، اور اپنا دایاں ہاتھ واٹانابے کی طرف بڑھایا۔۔۔ یہ ایک خوبصورت، شاندار سفید ہاتھ تھا۔۔۔ اس نے اسے مضبوطی سے جکڑ لیالیکن اس کی ٹھنڈک پر حیران رہ گئی ۔۔۔ اپنا ہاتھ واٹانابے کی گرفت سے ہٹائے بغیر اس کی طرف متوجہ ہو کر دیکھنے لگی۔ اس کی بڑی، بھوری آنکھیں اپنے گہرے سائے کے ساتھ اپنے سابقہ سائز سے دوگنا بڑھ گئی تھیں۔
“کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہیں چوموں؟” اُس نے بے ساختہ پوچھا۔
واٹانابے کے چہرے پر کراہت نمودار ہوئی تھی ۔۔۔۔ اُس نےآہستہ سے کہا۔۔۔ ” ہم جاپان میں ہیں!۔۔۔”
اُسی وقت بغیر کسی دستک کے دروازہ کھلا اور وہی ویٹر نمودار ہوا۔۔۔ “صاحب رات کا کھانا پیش کیا جاتا ہے۔۔۔”
“ہم جاپان میں ہیں۔۔۔ ” واٹانابے نے دہرایا۔ وہ اٹھا اور عورت کو کھانے کے چھوٹے کمرے میں لے گیا۔ ویٹر نے اچانک چمکتی ہوئی اوور ہیڈ لائٹس آن کر دیں۔
عورت ، واٹانابے کے سامنے بیٹھ گئی اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ “انہوں نے ہمیں ایک الگ چیمبر دیا ہے!” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ “کتنی پرجوش اور خوبصورت بات ہے!” اس نے اپنی پیٹھ سیدھی کی اور براہ راست واٹانابے کی طرف دیکھا جیسے دیکھنا چاہتی ہو کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔
“مجھے یقین ہے کہ یہ محض اتفاق سے ہوا ہے ۔۔۔ ” واٹانابے نے نہایت سکون سے جواب دیا۔
اُن دونوں کے لئے تین ویٹر مستقل حاضری میں تھے۔ ایک نے شیری ڈالی، دوسرے نے خربوزے کے ٹکڑے پیش کیے، اور تیسرے نے بہت ساری چیزیں لاکر رکھتے ہوئے کافی حد تک شور برپا کیا ہوا تھا۔
“اس جگہ ویٹروں کی وجہ سے کافی شور برپا ہوگیا ہے۔۔۔ ” واٹانابے نے کہا۔
“ہاں! ۔۔۔ اور ۔۔۔ وہ بہت اناڑی بھی لگتے ہیں۔۔۔ ” اس نے اپنے خربوزےکو شروع کرتے ہوئے اپنی کہنیوں کو برابری میں لاتے ہوئے کہا۔۔ ۔ “یہ لوگ میرے ہوٹل میں بھی اتنے ہی خراب ہیں۔۔۔ ”
“میں توقع کرتا ہوں کہ آپ اور کوسنسکی ۔۔ ۔ اس بات پر ناراض ہوتے ہوں گے کہ یہ لوگ بغیر کسی دستک کے دروازوں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔۔۔”
“تم ان سب کے بارے میں غلط ہو! ۔۔۔ تم جانتے ہو! ۔۔۔۔ ٹھیک ہے! ۔۔۔ ویسے خربوزہ کافی اچھا ہے۔۔ ”
“امریکہ میں آپ کو ہر صبح اٹھتے ہی کھانے کے لیے کھانے کے ڈھیر ملیں گے۔۔۔”
گفتگو ہلکی پھلکی چلتی رہی۔۔۔۔ آخر کار ویٹر فروٹ سلاد لے کر آئے اور شیمپین ڈالا۔
“کیا تم حسد نہیں کرتے ؟ ۔۔۔۔ تھوڑا سا بھی؟” عورت نے اچانک پوچھا۔
وہ کھانا کھاتے رہے اور گپ شپ کرتے رہتے۔ عورت کو یاد آرہا تھا کہ وہ کس طرح ‘بلی ہر اِسٹیپس’ کے اوپر ، ایک چھوٹے سے ریستوراں میں، تھیٹر کے بعد، اس طرح ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ان میں جھگڑا بھی ہوجاتا تھا، لیکن آخرمیں وہ اپنے جھگڑے کو ختم بھی کرلیتے تھے۔ اُس وقت وہ اس طرح ظاہر کرتی تھی جیسے کہ وہ مذاق کر رہی ہو۔ لیکن خود اُسے احساس تھا کہ اُس کی آواز میں سنجیدگی ہوتی تھی اور شاید تھوڑی شرمندگی بھی!
واٹانابے نے اپنے شیمپین کا گلاس پھولوں کے اوپر تک اٹھایا اور صاف آواز میں کہا۔۔۔ “کوسنسکی زندہ باد!۔۔۔”
عورت نے خاموشی سے گلاس اٹھایا۔ اس کے چہرے پر منجمد مسکراہٹ تھی۔۔۔ میز کے نیچے اس کا ہاتھ بے قابو ہو کر کانپ رہا تھا۔
ابھی رات کے ساڑھے آٹھ ہی بجے تھے کہ سمندر کے کنارے کنارے بنی ہوئی سڑک پر ایک تنہاء کالی کار آہستہ آہستہ چلی جارہی تھی۔ سمندر کے پانی میں ٹمٹماتی روشنیاں بڑی سہانی لگ رہی تھیں۔ ۔۔۔ ۔کار کی پچھلی سیٹ پر ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی، جس کا چہرہ نقاب سے چھپا ہوا تھا۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
English Title: Under Reconstruction
**English Translation : **Ivan Morris
Written by:
Lieutenant-General Mori Rintarō (森 林太郎, February 17, 1862 – July 8, 1922), known by his pen name Mori Ōgai (森 鷗外), was a Japanese Army Surgeon general officer, translator, novelist, poet and father of famed author Mari Mori. He obtained his medical license at a very young age and introduced translated German language literary works to the Japanese public. Mori Ōgai also was considered the first to successfully express the art of western poetry in Japanese. He wrote many works and created many writing styles. The Wild Geese (1911–1913) is considered his major work. After his death, he was considered one of the leading writers who modernized Japanese literature. (Wikipedia)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...