موری دروازہ
——————
موری دروازہ، لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان شہر پناہ کی جنوبی جانب واقع ہے۔ اس کے بالکل سامنے سرکلر روڈ کے دوسری طرف اُردو بازار ہے۔ شہر پناہ کے برج کے گوشے میں چھوٹا سا دروازہ عہد انگریزی سے قبل موجود تھا جس میں سے گھڑ سوار بمشکل ہی گزر سکتا ہے۔ انگریزی عہد میں اس کو کشادہ کر دیا گیا کہ گاڑی ، اونٹ یا گھوڑا بخوبی گزر سکے۔ کنہیا لال نے تاریخ لاہور میں لکھا ہے۔
’’یہ دروازہ موری دروازے کے نام سے بعہد ملک ایاز موسوم ہوا۔ اس واسطے کہ جن دنوں میں بہ عہد راجگی راجہ جے پال، سلطان محمود نے شہر کو محصور کیا ہوا تھا، راجہ تو بے خبر بھاگ گیا مگر شہر کے لوگ بدستور لڑتے رہے۔ سلطان نے چاہا کہ شہر میں داخل ہو کر شہر والوں کو سزا دیوے مگر کسی راستے سے دخل نہ ملا۔ آخر اس مقام سے دیواروں کو گرا کر داخل شہر ہوا۔ ملک ایاز نے جب پھر شہر کو آباد کیا تو فتح کی یادگار کے طور پر اس جگہ دروازہ قائم کر دیا اور بہ سبب اس کے کہ چھوٹا دروازہ تھا ’موری دروازہ‘ نام رکھا۔‘‘
’’نقوش لاہور نمبر‘‘ میں درج ہے کہ سکھوں کے عہد میں اس راستے سے شہر کا کوڑا کرکٹ باہر پھینکا جاتا تھا مگر ایسی کوئی روایت ہمیں تاریخ کی کتابوں میں کہیں اور نہیں ملتی کہ آخر سارے شہر کا کوڑا اسی دروازے سے کیوں باہر پھینکا جاتا تھا۔
ایک دوسری بات جو ذہن میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ملک ایاز کے زمانے میں لوہاری دروازے کے اندر ہی قدیم شہر آباد تھا اور سب سے پہلا تجارتی مرکز لوہاری منڈی ہی تھا جو چوک جھنڈا کے پاس واقع تھی جہاں کا مشہور کردار حسو تیلی بھی ہے۔ مال برداری و نواح سے لوگوں نے جب تجارت کے لیے لوہاری دروازے سے آنا جانا شروع کر دیا تو بکثرت انبوہ یہ راستہ کم پڑ گیا اور یوں بھی لوہاری منڈی جانے کے لیے جو راستہ چوک بخاری سے ہو کر گزرتا تھا قدرے طویل تھا لہٰذا ایک براہ راست اور قدرے نزدیک راستے کی غرض سے اس مقام سے کہ جہاں آج موری دروازہ ہے، راستہ نکالا گیا جو بعدازاں باقاعدہ موری دروازہ بن گیا۔
موری دروازہ کی اہمیت چوک جھنڈا، لوہاری منڈی اور سید مٹھا بازار کی وجہ سے ہے۔ سید مٹھا بازار سیدھا دھیان سنگھ حویلی کے نواح سے گزرتا ہوا نخاس منڈی تک جا پہنچتا ہے، جس کی پشت پر قلعہ لاہور واقع ہے۔ یوں بھی قدیم بستیوں میں اور گائوں میں باسی اس طرح کے مختصر راستے اپنی ضرورت و سہولت کے تحت بنا لیتے تھے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمیں موری دروازے کی بھی نظر آتی ہے۔
آج موری دروازہ اندرون و بیرون موری دروازے میں تقسیم ہو چکا ہے۔ بیرون موری دروازہ پر مچھلی فروشوں کا قبضہ ہے جبکہ دائیں جانب کارپوریشن نے گرلز ہائی سکول کی عمارت تعمیر کی ہے۔ موری دروازے میں داخل ہوں تو سامنے ہی دو منزلہ مسجد جمال مصطفیٰ موجود ہے۔ موری بازار سے گزریں تو ہمیں روزمرہ استعمال کی اشیاء فروخت کرنے والی چھوٹی چھوٹی دوکانات نظر آتی ہیں حتیٰ کہ ہم چوک جھنڈا میں پہنچ جاتے ہیں۔ کاروباری اعتبار سے موری بازار کوئی اہم بازار نہیں ہے اور اس بات میں صداقت نظر آتی ہے کہ یہ محض چوک جھنڈا تک پہنچنے کا محدود و تنگ راستہ تھا۔ آج بھی چوک جھنڈا کے وسط میں سبز کپڑے میں لپٹا ہوا ایک اونچا جھنڈا ایستادہ ہے جس کی دائیں اور بائیں جانب دو قدیمی درخت اگے ہوئے ہیں۔ اس جھنڈے کی موجودگی یہاں کے لوگوں کی قدیمی روایت سے محبت کا ثبوت ہے اور یہی جھنڈا دراصل ’’جھنڈاچوک ‘‘کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔
چوک جھنڈا میں مرچ و مسالحہ جات کی فروخت کی دوکانات ہیں، آٹا پیسنے کی مشین ہے۔ گویا آج بھی کاروبار کا سلسلہ یہاں ویسے ہی جاری ہے جیسے حسو تیلی کے زمانے میں تھا۔ موری دروازے کے بیرون جو نالہ انگریزی عہد میں تعمیر کیا گیا تھا، 2002ء میں اس نالے کی موری اور بھاٹی دروازے کے درمیانی حصے میں تعمیر نو کی گئی۔ شہر میں نکاسی آب کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے جو یکی دروازے سے شروع ہوتا ہے اور پھر اکبری، موچی، لوہاری، موری اور بھاٹی دروازے سے گزرتا ہوا ٹکسالی دروازے تک جا پہنچتا ہے اور پھر آگے راوی کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ اندرون موری دروازے کی عمارات کافی حد تک نئی تعمیر ہو چکی ہیں۔
(غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس)
Mori Gate
https://www.facebook.com/groups/290995810935914?view=permalink&id=1256152401086912