ہری پور سے ایبٹ آباد کا رُخ کریں تو شہر سے نکلتے ہی بائیں طرف شاہراہ کے کنارے وہ آدھی اجاڑ اور آدھی آباد خانقاہ تھی جس میں پُرنم الٰہ آبادی مقیم تھے۔
سب سے پہلے پروفیسر رئوف امیر نے بتایا آتشِ شوق بھڑکی اور میں خانقاہ میں حاضر ہوگیا۔ رئوف امیر ساتھ تھے اور پُرنم صاحب کو میرے بارے میں پہلے بتا چکے تھے۔ ایک چھپر نما برآمدہ تھا جہاں چٹائی بچھی تھی۔ شفقت سے ملے‘ مسرت کا اظہار کیا‘ ایک پلیٹ میں جلیبی رکھی تھی‘ جو شاید ہمارے لیے ہی انہوں نے منگوائی تھی۔ ہم نے کھائی‘ چائے پی‘ سارے چھپر میں عجیب خوشبو تھی۔ فضا میں سوندھا سوندھا تاثر تھا۔ کچی دیواریں‘ چھپر نما برآمدے میں چٹائی۔ غالباً چٹائی پر سفید چادر بچھی تھی۔ سازوسامان سے بے نیاز یعنی بے سروسامانی‘ پُرنم صاحب کے کھچڑی بال جو مانگ کے بغیر‘ سامنے سے پیچھے کی طرف جا رہے تھے۔ بہت ہی سادہ اور عام شلوار قمیض میں ملبوس! یوں لگتا تھا یہ شخص دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہے۔
اُس کے بعد معمول بن گیا۔ میں اسلام آباد سے نکلتا‘ راستے میں واہ سے پروفیسر رئوف امیر کو لیتا اور ہم خانقاہ میں پُرنم صاحب کے ہاں حاضر ہو جاتے‘ گھنٹوں بیٹھتے‘ انتہائی بے تکلفی میں بھی پُرنم صاحب نے کبھی کوئی بات متانت سے گری ہوئی نہ کی‘ قہقہہ بھی کبھی نہ لگایا۔ شاعری سنتے اور سناتے مگر بہت کم۔ ایک دفعہ انہوں نے خاص میرے لیے شب بیداری کا اہتمام کیا۔ موسیقی بھی تھی اور دعوت کا انتظام بھی تھا۔ عارف منصور اور یارِ دیرینہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ بھی ہمارے ساتھ مہمانوں میں شامل تھے۔
پُرنم صاحب اپنے کسی استاد یا بزرگ کی رحلت کا ذکر کرتے تو ’’پردہ فرما گئے‘‘ کا محاورہ استعمال کرتے۔
خانقاہ چھوڑ کر چلے گئے تو رئوف امیر نے ظریفانہ انداز میں بتایا کہ پُرنم صاحب پردہ فرما گئے۔ کبھی پتہ چلتا وہ کراچی گئے ہیں‘ کبھی کوئی لاہور کا بتاتا۔
آج پُرنم صاحب دنیا میں نہیں ہیں۔ پروفیسر رئوف امیر قازقستان یونیورسٹی میں اردو چیئر پر تعینات تھے۔ وہیں جان‘ جان آفریں کے سپرد کی۔ عارف منصور‘ وفاقی سیکرٹری لگے‘ عمرہ کرنے گئے‘ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان خوفناک حادثہ پیش آیا اور میاں بیوی کے خاکی جسد لوٹ کر آئے!
پُرنم الٰہ آبادی کے نام سے کم ہی لوگ آشنا ہیں مگر ان کی لکھی ہوئی دو شہرۂ آفاق قوالیوں سے شاید ہی کوئی ناآشنا ہوگا۔ ’’تاجدارِ حرم ہو نگاہ کرم‘‘ اور ’’بھر دو جھولی میری یا محمدؐ!‘‘ پُرنم صاحب کا ذکر اس لیے کرنا پڑا کہ ’’تاجدارِ حرم‘‘ پر بات کرنا تھی۔ یہ قوالی صابری برادران نے مدتوں پہلے گائی‘ اور یوں گائی کہ مقبولِ خاص و عام ہوئی۔ آج یہ ہمارے ثقافتی منظرنامے کا جزولاینفک ہے۔ قوالی کے بول اور صابری برادران کے نام آپس میں یوں خلط ملط ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہے‘ مگر حال ہی میں نوجوان سنگر عاطف اسلم نے اس قوالی (تاجدار ِ حرم) کو‘ کور (COVER) کی صورت میں گایا اور فضا میں ارتعاش پیدا کردیا۔ کیا عاطف اسلم اس شہرۂ آفاق قوالی اور اس کے لیجنڈری فنکاروں‘ صابری برادران سے انصاف کر سکے؟ غالباً نہیں!
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موسیقی کی دنیا میں کوَر سانگ کیا ہوتا ہے۔ کسی مشہور نغمے کو‘ کوئی نیا فنکار دوبارہ گائے تواسے کوَر سانگ یا محض کوَر کہا جاتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوَر سانگ اصل نغمے سے زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ یہ نام کیسے پڑا؟ موسیقی کے بہت سے مورخ اس ضمن میں اُس زمانے کا ذکر کرتے ہیں جب امریکہ میں نسلی امتیاز عروج پر تھا۔ کالوں کے ریڈیو سٹیشن الگ تھے اور گوروں کے الگ۔ موسیقی میں کالوں کا جواب نہیں تھا۔ جب کالے ریڈیو سٹیشن سے کوئی گیت ہٹ ہوتا تو سفید فام نوجوان اسے اپنے یعنی گورے ریڈیو سٹیشن سے سننا چاہتے۔ یوں میوزک کمپنی اصل گیت کا ’’کور‘‘ تیار کرتی جو سفید فاموں کے ریڈیو سٹیشن سے نشر ہوتا۔ دعویٰ یہ کیا جاتا کہ اس کا اصل سے کوئی تعلق نہیں! یوں چربہ سازی کو کوَر کا نام دے دیا گیا۔
کوَر گیت گانے کی عام طور پر تین وجوہ ہوتی ہیں‘ یا تو کسی شہرۂ آفاق سنگر کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے نئے آنے والے اُس کے گیت دوبارہ گاتے ہیں یا نئے فنکاروں کو پرانے گیتوں کا سہارا اس لیے لینا پڑتا ہے کہ منڈی میں ان کی مانگ زیادہ ہوتی ہے اور لوگ انہی کو سننا پسند کرتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض نئے فنکار گم شدہ گیتوں کو اپنی ذاتی پسند اور جذبے کی وجہ سے دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں اور یوں حال کے سننے والوں کو ماضی سے آگاہ کرتے ہیں۔
عاطف اسلم کے پاس غالباً دوسری وجہ تھی۔ یعنی ایک مقبول عام قوالی کو انہوں نے اس لیے گایا کہ اس کی طلب وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ بات بنی نہیں! مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی! خود عاطف اسلم کہتے ہیں کہ بیس منٹ کی قوالی کو آٹھ منٹ میں دوبارہ متشکل کرنا تھا۔ یہ مشکل کام تھا۔ پھر نئے بول‘ پرانے بولوں کے مقابلے میں کم حیثیت ہیں!یہ اور بات کہ نوجوان عاطف اسلم نے کم عمری میں معرکے کے گیت گائے ہیں اور دنیا بھر میں دھوم مچائی ہے ۔
صابری خاندان کے موجودہ چشم و چراغ امجد فرید صابری ہیں جو غلام فرید صابری کے فرزند اور مقبول احمد صابری کے بھتیجے ہیں۔ اس قوالی کی نقل پیش کرنے سے پہلے متعلقہ میوزک کمپنی نے ان سے اجازت لی؛ تاہم امجد نے عدم اطمینان کا اظہار بہت محتاط انداز میں کیا۔ ’’عاطف کی کارکردگی بری نہیں تھی؛ تاہم اُسے اپنے ڈِکشن پر مزید کام کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اصل اشعار کے بجائے جو اشعار عاطف نے پیش کیے امجد صابری ان پر بھی زیادہ خوش نہیں ہیں! مشہور بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان میں عدنان سمیع نے صابری برادران کی قوالی ’’بھر دو جھولی‘‘ امجد صابری کی اجازت کے بغیر گائی۔ اس پر امجد نے احتجاج کیا‘ اس حوالے سے وہ عاطف اسلم کو دیانتدار قرار دیتے ہیں!
اسی میوزک کمپنی نے کچھ کوَر گیت معرکہ آرا بھی پیش کیے ہیں۔ امیر خسرو کا شہرۂ آفاق گیت ؎
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
مورا جوبن گروی رکھ لے
حدیقہ کیانی نے اس کامیابی سے گایا ہے کہ اس بھولے بسرے نغمے کو پھر سے زندہ کردیا ہے؛ تاہم جو کامیابی نوجوان علی سیٹھی نے ’’عمراں لنگیاں پباں بھار‘‘ گا کر حاصل کی ہے وہ مثالی ہے اور تاریخی بھی! علی سیٹھی نے انگریزی میں کالم نگاری کی۔ پھر ناول لکھا‘ پھر میوزک میں در آیا اور سماں باندھ دیا۔ اس سے پہلے اُس نے محبوب خزاں کی مشہور غزل ؎
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
گائی اور اُن سب کو پیچھے چھوڑ گیا‘ جنہوں نے اس غزل کو گایا ’’عمراں لنگیاں‘‘ کے آخر میں ایک اور نوجوان سنگر نبیل شوکت آ کر گیت میں شریک ہوتا ہے۔ یہ حصہ بھی خاصے کی چیز ہے اور ایک قابلِ تحسین جوت ہے۔ نبیل شوکت کی پرفارمنس زبردست ہے مگر یہ سب کچھ اسے وراثت میں ملا ہے۔ تعجب علی سیٹھی کی صلاحیت پر ہوتا ہے جس کے خاندانی پس منظر کا (غالباً) موسیقی سے کوئی تعلق بھی نہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“