جس قسم کی تصویر ساتھ لگی ہے، اس طرح کا بے شمار مواد مشہور ہوتے دیکھا ہو گا۔ بنیادی نکتہ ایک ہی۔ اپنے کسی خیال کا اظہار ایک چست فقرے کے ذریعے کرنا۔ ساتھ لگی تصویر کے آخر میں لکھا فقرہ بس اپنی پسند کا لگا دیں۔ ایسا کرنے والے کو یہ علم تو ہوتا ہے کہ وہ جس بھی خیال کا اظہار اس طریقے سے کر رہا ہے، وہ نہ دلیل ہے اور نہ ہی کبھی کسی کا ذہن بدل سکے گا۔ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اس طرح کچھ لوگوں سے دوستی کا تعلق ختم ہو جائے کیونکہ اس طرح کی حرکتوں کا جواب تو کچھ بھی نہیں۔ پھر ایسا کیا کیوں جاتا ہے اور اتنا مشہور کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ کے لئے نظر مور کی دُم پر۔
ڈارون کا پیش کیا گیا قدرتی چناؤ کا خیال مشہور تو بہت ہوا لیکن نہ ہی نیا تھا اور نہ ہی اس میں کچھ زیادہ حیرت انگیز تھا اور اگر ڈارون نے یہ اس طریقے سے پیش نہ کیا ہوتا تو کوئی اور کر دیتا۔ لیکن قدرتی چناؤ بہت سی چیزوں کی وضاحت نہیں کرتا تھا۔ مور کی دم کے خوبصورت رنگ بہت سے حیاتیاتی ریسورسز مانگتے ہیں اور بنانا ہر لحاظ سے مہنگا پڑتا ہے اور زندگی میں مدد نہیں کرتے تو پھر یہ ہیں کیوں؟ ان پر غور و فکر کرتے ہوئے اس نے یہ وضاحت جنسیاتی چناؤ سے کی۔ اس کا مرکزی خیال 'مہنگی سگنلنگ' ہے کہ یہ دُم کچھ پیغام دیتی ہے۔ (تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے)۔ یہ خیال صرف یہاں تک یا ساتھی کی تلاش تک محدود نہیں۔ ہم اپنی حرکتوں، عادتوں، رویوں، الفاظ، لباس وغیرہ سے پیغامات دیتے رہتے ہیں۔ یہ سب اسی قسم کی سگنلنگ ہے۔
جب چیتا ہرن کا شکار کرنے اس کے پیچھے دوڑتا ہے تو نوجوان ہرن سیدھا اور تیز نہیں بھاگتا۔ یہ چھلانگیں لگاتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ "چیتے بھیا، میں جوان اور فِٹ ہوں۔ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں توانائی ضائع کر سکتا ہوں۔ میرے پیچھے نہ آنا، کسی اور کو پکڑو۔" چیتا بھی عام طور پر اس سگنل کو سمجھ جاتا ہے۔
انسانوں میں جہاں پر نئی گاڑیاں، دکھاوے کی چیزیں وغیرہ بھی اس طرح کے سگنل ہیں، وہاں پر یہ چست فقرے اور تمسخر اڑانے والے مذاق بھی۔ مثال کے طور پر اگر میرے ذہن پر ایک سیاسی جماعت سے وابستگی سوار ہو گئی ہے تو اپنے سیاسی خیالات کے لئے فقرہ بازی کرنا، طنزیہ تصاویر کو شئیر کرنا میری اپنی اس شناخت کا سگنل ہے۔ اس کا تعلق دوسروں سے مکالمہ کرنے، بات سمجھنے سمجھانے سے نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کی اشتہاربازی سے ہے۔
اگر آپ اپنے خیالات کے حق میں مختصر طنزیہ فقرے کستے ہیں، ان کو پسند کرتے ہیں اور ان کو آگے بڑھا کر اطمینان محسوس کرتے ہیں یا پھر دکھاوے کے شوقین ہیں تو یاد رکھیں کہ اس قسم کے کام دوسرے جانور اور پودے بھی کرتے ہیں اور اگر آپ نے چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے سے خود کو روک دیا تو یہ آپ کے دماغ کے اس چھوٹے سے حصے کا کمال ہے جو انسان سے خاص ہے۔
اگر طنزیہ فقرہ بازی سن کر آپ کسی کو آگے سے یہ جواب دیں کہ، "انسان بنو" تو سائنس کے حساب سے بالکل درست جواب ہو گا۔
لیکن مہنگے پیغامات کے اصول کی کہانی صرف یہی نہیں۔ اس خیال کی اپنی پوری گہرائی کو نہ صرف مارکسسٹ سخت ناپسند کرتے ہیں بلکہ نیولبرل بھی اور رسل ویلس جیسے بائیولوجسٹ بھی۔ (بہت سے چھپے اچھے خیالات ان کونوں کھدورں سے ملتے ہیں جن کو ہر کوئی ناپسند کرتا ہے)۔ بڑی کہانی یہ ہے کہ فطرت منتشر قوتوں کے کھچاؤ سے آگے چلتی ہے۔ یہ صرف بقا کا کھیل نہیں۔ اگر یہ دوسرا پریشر نہ ہوتا تو پھر بہت کچھ نہ ہوتا۔ ہماری کئی اور خصوصیات جیسا کہ قابلِ بھروسہ ہونا، وعدہ پورا کرنا، شائستگی، اچھا اخلاق، ایثار اور قربانی بھی مہنگے پیغامات ہیں اور ہماری ذات کی شناخت بھی۔
باقی جانداروں کے مقابلے میں ہم میں ایک چھوٹا سا فرق ہے۔ ہم کونسے پیغامات سے اپنی شناخت کروانا چاہتے ہیں، یہ ہمارا انتخاب ہے۔