(Last Updated On: )
باسمہ تعالی
مقدمہ
الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایت علی بن ابیطالب علیہ السلام و الصلوۃ و السلام علی رسولہ الکریم و علی اہلبیتہ الطیبین الطاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین الی قیام یوم الدین۔
اما بعد :
حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی آج عالم میں محتاج تعارف نہیں ہے پوری انسانیت کی تاریخ میں جس قدر آپ کے متعلق لکھا اور پڑھا گیا شاید ہی کوئی ہوگا بلکہ ایسا ہے ہی نہیں جس کے متعلق اس قدر زبان و قلم و بیان نے طبع آزمائی کی ہو ۔یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ ذات والا صفات مولائے کائنات بدوِ ولادت ہی سے زباں زد خاص و عام رہی ہے ۔آپ کی ولادت سے شہادت اور شہادت سے لے کر آج تک ہر زمان و مکان میں اور ہر لہجہ و لسان میں بحث و تحقیق کا موضوع رہی ہے ۔
تاریخ بشر میں عام انسانوں کے علاوہ انبیاء ، اولیاء ،صالحین اور شہدا ء ہر طرح کے لوگ گزرے ہیںاور بالمقابل نمائندگان شیطان رجیم کی بھی کسی دور میں کمی نہیں رہی ہے اور وہ بھی اپنی بدکاریوں ، سرکشیوں اور طغیانیوں کی وجہ سے بدنما داغ کی صورت میں جبین انسانیت پر باعث ننگ و عار بنے رہے ہیں یا یوں کہا جائے کہ صالحین اور مومنین کے لئے ابتلاء ، امتحان ار آزمائش کا ذریعہ بنے رہے اور ہر ایک اپنی اپنی حیثیت کے ساتھ آسمانی صحیفوں کے ساتھ ساتھ انسانی نوشتوں میں محفوظ ہے ۔
اور ان روشن ستاروں میں کوکب ولایت و امامت جس قدر درخشاں ہے کوئی اس کی ضو فشانی کو نہیں پا سکتا ،حالانکہ ہر دور میں مولائے متقیان کے فضائل کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور تنہا آپ کی ہی وہ ذات ہے کہ جس کے مناقب کو دشمنوں نے تو چھپایاہی دوستوں نے بھی چھپایا چنانچہ امام اہلسنت شافعی کہتے ہیں :
’’مجھے اس(مولا علی علیہ السلام ) پر بہت تعجب ہے جس کے فضائل دشمنوں نے حسد کی وجہ سے اور دوستوں نے
خوف کی وجہ سے چھپائے لیکن پھر بھی اتنے زیادہ فضائل مذکور ہیں کہ جن سے مغرب و مشرق پُر ہیں ‘‘
امام شافعی لکھتے ہیں :
’’اگر علی مرتضیٰ ؑ اپنا مقام ظاہر کر دیتے تو لوگ ان کو سجدہ کرنے کے لئے جمع ہو جاتے اور مولا علی علیہ السلام کی فضیلت
کے لئے یہی کافی ہے کہ کئی لوگ تو شک میں پڑ جاتے ہیں ‘‘
’’ پس شافعی مر گیا اور سمجھ نہ سکا کہ علی ہے کیا ؟‘‘
( منا قب خوارزمی ۔ص؍ ۳۔۱۹،تاریخ الخلفاء (سیوطی) ،ص؍۱۶۸،شواہد التنزیل حسکانی ۔ ج،۱ ۔ص؍۱۹، پھر میں ہدایت پا گیا ، محمد تیجانی ۔ص؍۱۹۵)
بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتیںاور طاقتیں فنا ہو گئیں اور ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ہر پہلو پر مسلسل گفتگو ہو رہی ہے اور تحقیق و تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہے اس لئے کہ یہ وہ شمع ہے جسے خدا نے روشن کیا ہے اور اسے کوئی بجھا نہیں سکتا۔
ذکر علی کا آج بھی روشن ہے وہ چراغ
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
چودہ صدی کے بعد بھی رضواںؔ علی ؑ علی ؑ
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ان سب کے باوجود آپ کے متعلق کوئی بھی تحقیق آخری نہیں کہی جا سکتی ہر کلام اور ہر بیان میں فضائل کے پہلو نکل کر سامنے آتے جاتے ہیں اور اہل ولا کے قلوب اور روح و جان کو سیراب کرتے رہتے ہیں ۔
ہر صنف سخن ار ہر زبان و کلام میں حضرت علی علیہ السلام کے فضایل و مناقب دستیاب ہیں اور آسمانی کتابیں ہوں یا اہل زمین کی تخلیقات جس نے بھی قلم اٹھایا شانِ علوی میں اظہار عقیدت کر کے بارگاہ رب العزت میں سرخرو ہوا اور محققین نے حتی الامکان حضرت علی علیہ السلام کے متعلق ہر موضوع پر گفتگو کی کہ ان موضوعات کو اگر جمع کیا جائے تو از خود ایک مکمل کتاب ہو گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی صاحب قلم آپ کے فضائل کو لکھنا چاہتا ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ فضیلت کے کس باب سے داخل ہوا جائے کہ حق فضائل ادا ہو جائے ۔ قران مجید کی آیات ، رسول گرامی قدر ﷺ کی روایات ، علماء کے بیانات ، شعراء کی تخلیقات ، آپ کے معجزات و کرامات بس یوں کہہ لیجئے کہ : ’’ جدھر جدھر نظر پڑی ۔۔۔۔ علی علی علی علی ؑ۔
کلام الٰہی ایسی آیات سے پر ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کر رہی ہیں ۔ علماء کا ماننا ہے کہ تین سو سے زیادہ آیات مولائے متقیان کی شان میں نازل ہوئی ہیں جن میں بہت سی آیات تو ایسی ہیں کہ جن میں حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی شراکت نا ممکن ہے جس کا شیعہ اور سنی تمام مفسرین اقرار کرتے ہیں جیسے آیہ ٔ ولایت ، آیۂ نجویٰ وغیرہ ۔اس کے علاوہ بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام مصداقِ بارز کا عنوان رکھتے ہیں چنانچہ بہت سے اسلامی ماخذ منجملہ اہلسنت کی کتابوں میں پیغمبر اسلام ﷺ سے اس طرح روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا :
’’ ما انزل اللہ آیۃ فیہا ’’ یا ایہا الذین آمنوا‘‘ الا و علی راسہا و امیرہا ‘‘ خدا وند عالم نے کوئی ایسی آیت نازل نہیں فرمائی کہ جس میں ’’یا ایہا الذین آمنوا‘‘ ہو مگر یہ کہ اس کے واضح مصداق اور ان میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ‘‘(تفسیر نمونہ ۔ج۱۔ص؍۳۸۶،۳۸۷)
اس کے علاوہ سابق آسمانی کتابوںاور صحیفوں میں بھی حضرت علی علیہ السلام کا ذکر ہے جس کی تفصیلات کے لئے ایک طویل تحقیقی مقالہ درکار ہے ہم یہاں اختصار کے پیش نظر کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔
اس کے باوجود کہ موجودہ توریت و انجیل میں تحریفات ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی کچھ اشارے حضرت علی علیہ السلام کے نام اور آپ کے بعض خصوصیات کی طرف مل ہی جاتے ہیں ۔مثلاً:
’’ ایک روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بآواز بلند فریاد کیا :ایلی ایلی میری مدد کرو ۔ وہاں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ خدا کو بلا رہے ہیں اور بعض نے کہا حضرت الیاس ؑ کو بلا رہے ہیں ۔(عہد جدید متی ۔شمارہ ۔۲۷،عدد؍۴۶)لیکن کسی بھی نبی کا نام ایلی یا ایلیا ہو اس کی کہیں تصریح نہیں ہوئی ہے اور صرف حضرت علی علیہ السلام ہیں جنھوں نے توریت و انجیل میں اپنے نام کی تصریح کی ہے ۔آپ فرماتے ہیں :’’انا ایلیا الانجیل ‘‘سلیمان قندوزی نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ کے ضمن میں خود کو پہچنواتے ہوئے فرمایا کہ : ’’انا ایلیا الانجیل‘‘(قندوزی، حنفی سلیمان ابن ابراہیم ، ینابیع المودۃلذوی القربیٰ، ج،۳،ص؍۲۰۷ )
مرحوم طبرسی کہتے ہیں کہ :حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانہ میں ایک عیسائی راہب مدینہ آیا اور مسجد میں وارد ہوا اور اس نے کچھ سوالات حضرت ابو بکر و عمر اور حاضرین سے کئے کہ جن کا کوئی جواب نہ دے سکا اسی اثنا ء میں حضرت علی علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور جناب سلمان نے اس راحب کی حضرت علی علیہ السلام کی طرف راہنمائی کی ۔ راحب نے امام علیہ السلام سے پوچھا اے جوان تمھارا نام کیا ہے ؟آپ نے فرمایا : میرا نام قوم یہود میں الیا اور مسیحیوں میں ایلیا ، میرے والد کے نزدیک علی اور میری ماں مجھے حیدر کہتی ہے ۔راحب نے کہا جیسا کہ آپ نے کہا میں نے توریت و انجیل میں آپ کا نام دیکھا ہے ۔(طبرسی ، احمد بن علی ، الاحتجاج ، دار النعمان ،ج، ۱ ص؍ ۳۰۸)
غرض آسمانی کتابیںاور صحیفے ذکر و مناقب مولائے متقیان سے پر ہیں اور خدا وند عالم نے آپ کے قصیدے آسمانی کتابوںمیں خوب پڑھے ہیں تو پھر بندے اس سلسلہ میں کیوں پیچھے رہتے ؟ بندوں نے بھی ہرصنف سخن اور ہر زبان میں آپ کے فضائل بیان کئے ہیں، ہر مذہب و ملت کے عقیدت مندوں نے آپ کے فضائل نظم و نثر میں لکھ کر خود کو آپ کے مداحوں میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ شیعہ جو آپ کو رسول اسلام ﷺکا خلیفہ بلا فصل اور آپ کا جانشین برحق اور امام مانتے ہیں انھوں نے تو آیات و روایات کی روشنی میں کتابوں کے مجلدات لکھ ڈالے ہیں اور خوب لکھا ہی ہے۔ اہلسنت علماء و دانشمندوں نے بھی آپ کے مناقب میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں کہ جن کی فہرست ہی ایک مفصل مقالہ چاہتی ہے ۔
ہر مکتب فکر کے علماء و دانشمندوں نے آپ کے مناقب اپنے اپنے انداز میں بیان کئے ہیں جو مختلف معتبر کتابوں میں آج بھی قید تحریر ہیں ۔آئمہ اربعہ میں سے کوئی نہیں ہے جس نے حضرت شاہ ولایت کے مناقب کی روایتیں نقل نہ کی ہوں ۔ چنانچہ امام احمد ابن حنبل شیبانی (مذہب حنبلی کے امام)کہتے ہیں کہ :
’’ جو فضائل حضرت علی علیہ السلام کے ہیں وہ اصحاب رسول ﷺ میں سے کسی بھی صحابی کے نہیں ہیں ‘‘
(الصواعق المحرقہ ۔ص؍۱۲۰۔باب ،۷، فصل دوم)
اسی طرح امام ابو حنیفہ (حنفی مذہب کے امام )کہتے ہیں کہ :
’’جس نے بھی علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ و جداج کیا اس میں علی علیہ السلام حق پر تھے اور اگر علی علیہ السلام
مقابلہ میں نہ کھڑے ہوتے تو کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ ایسی حالت میں رسول کی سیرت اور حکم شرعی کیا ہے ؟
(علی خورشید بی غروب ۔ص؍۲۶۹۔ بنقل از مناقب ابو حنیفہ ، خوارزمی ،ج،۲،ص؍۸۲، طبع حیدر آباد)
محمد بن ادریس شافعی (مذہب شافعی کے امام )کہتے ہیں کہ :
’’اگر حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام اپنے باطن کی حقیقت حال کو لوگوں پر ظاہر کر دیتے تو لوگ کافر ہو جاتے اور
ان کے خدا ہونے کے شبہہ میں ان کے لئے سجدہ میں گر پڑتے اور ان کے فضائل کے لئے اتنا ہی کافی ہے
کہ ان کے متعلق بعض لوگوں نے شک کیا ہے کہ وہ خدا ہیں یا مخلوق‘‘
(سید یحی برقعی ، چکیدہ اندیشہ ھا ،ص؍۲۹۷)
مذکورہ مسالک کے دیگر علماء نے بھی مولا علی علیہ السلام کے بہت سے فضائل و ناقب بیان کئے ہیں ۔ غیر شیعہ مداحان علی علیہ السلام کا ذکر ہو اور ابن ابی الحدید معتزلی جو اہلسنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ان کا نام نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کا جو مطالعہ کیا اور اس کی جو شرح کی کہ جس کا آج تک کوئی جواب نہ لا سکا ۔ انہوں نے نہج البلاغہ کی جو شرح کی وہ اپنی جگہ ہے لیکن اس شرح کے مقدمہ میں جو مولا علی علیہ السلام کے فضائل کے دریا بہا دئے وہ پڑھنے کے قابل ہے وہ کہتے ہیں :
’’علی علیہ السلام کے فضائل ، عظمت و بزرگی اور انتشار و اشتہار میں اس قدر ہیں کہ کوئی اسے بیان
نہیں کر سکتا اور کوئی آپ کی برابری نہیں کر سکتا ۔ حضرت کے فضائل ایسے ہیں کہ متوکل و معتمد عباسی
کے وزیر عبید اللہ بن یحی بن خاقان سے ابو العیناء نے کہا : اگر میں ان (حضرت علی ؑ)کے فضائل بیان
کرنا چاہوں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے دن کی روشنی کی خبر دوں یا ماہ منیر کی چمک کو بیان کروں کہ جو کسی پر پوشید
ہ نہیںہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان کے فضائل بیان کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی جائے تو میں اپنی
عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرتا ہوں اور یہ کام میرے بس کا نہیں ہے اس لئے میں آپ کے فضائل
بیان نہیں کر رہا ہوں بلکہ آپ پر درود و سلام بھیجتا ہوں ۔
میں اس شخص کے سلسلہ میں کیا کہوں جس کے فضائل کا دشمنوں نے اعتراف کیا ہے اور وہ آپ
کے فضائل سے نہ چشم پوشی کر سکے اور نہ چھپا سکے ۔
بنی امیہ نے دنیائے اسلام کے مغرب و مشرق پر قبضہ کیا اور ہر طرح کی مکاری کو استعمال کیا اور
جو ہو سکا وہ کیا تا کہ آپ کے نور کو بجھا دیں ، حقیقتوں کو بدل ڈالا اور آپ کے خلاف جھوٹی روایتیں گڑھ ڈالیں
اور منبروں پر آپ پر لعن طعن کیا اور جو بھی آپ کو اچھائی سے یاد کرتا اسے قتل و قید کی سزا دی ۔انھوں نے رسول
اسلام ﷺ کی تمام ان روایتوں کو بیان کرنے پر پابندی لگا دی جو آپ کے فضائل پر مشتمل تھیں یہاں تک کہ
کسی کو اپنے بچہ کا نام علی نہیں رکھنے دیا ۔لیکن ان تمام تر کوششوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا مگر یہ کہ علی کانا م و مقام
بلند سے بلند تر ہوتا رہا ۔۔۔۔۔
(ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ بتحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم ،بیروت لبنان ، دار الاحیاء الکتب العربیہ ، الطبعۃ الثانیہ ۔ج،۱، مقدمہ ،ص؍۱۶)
اس کے علاوہ ابو عثمان عمرو بن جاحظ ، خطیب بغدادی ،علامہ سبط ابن جوزی ، شیخ محمد عبدہ (شارح نہج البلاغہ )، عباس محمود عقاد مصری ، ڈاکٹر طہ حسین ، زمخشری ، فخر رازی اورحافظ ابو نعیم جیسے سیکڑوں اہلسنت علماء کے ایسے نام ہیں جو اس فہرست میں شامل ہیں جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شان والا صفات میں کتابیں مقالے اور اشعار لکھ کر آپ کے مداحوں میں اپنا نام شامل کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔
غیر مسلمان علماء و دانشور:
یہ تو مسلمان علماء و دانشور حضرات تھے جنھوں نے مولائے کائنات کے فضائل بیان کئے ، اب اگر ہم ان دانش وروں پر نظر ڈالیں جن کا تعلق دین اسلام سے نہیں ہے تو ان کی بھی ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے جو غیر مسلمان ہونے کے باوجود مولا علی علیہ السلام کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں جن میں :
۱۔جبران خلیل جبران (مشہور عیسائی مصنف)
۲۔جارج سجعان جرداق (مشہور عیسائی مصنف)
۳۔ بارون کارادوو(فرانسوی محقق و مورخ)
۴۔ میخائیل نعیمہ (عرب کے مشہور مفکر و مصنف)
۵۔ایلیا پاولویچ پطروشفسکی(روسی مورخ)
۶۔ڈاکٹر بولس سلامہ (بیروت کے ادیب و ماہر حقوق)
اور امین نخلہ ، جرجی زیدان ،بارون کاردایفواور میڈم ڈیالافواوغیرہ بہت سے نام ہیں جو اس فہرست میں شامل ہیں کہ جن کے لئے مفصل مقالہ درکار ہے ۔ انہیں غیر مسلم قلم کاروں کی تحریروں میں ایک تحریر ایسی منظر عام پر آئی جس نے پوری دنیا میں ہنگامہ کر دیا اور وہ صدی کی غیر مسلم کے ذریعہ لکھی گئی فضائل حضرت علی علیہ السلام کی سب سے اہم تحریر شمار کی گئی وہ کتاب ہے ’’الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ‘‘جس کو مشہور عیسائی مصنف جارج سجعان جرداق نے لکھا ۔جو پانچ مجلدات پر مشتمل ہے ۔ اور اس کتاب کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے یہ کتاب ۱۹۵۶ء میں بیروت میں دار الفکر الاسلامی کے ذریعہ شائع ہوئی ۔ اس کتاب کے مصنف جارج جرداق لکھتے ہیں :
’’علی ابن ابیطالب علیہ السلام انسانی معاشرے ہیں وہ واحد لیڈر ہیں جنھوں نے انسانیت اور عدالت
کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ہے ۔جب آپ نے اہل کوفہ سے سوال کیاکہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے
جو بھوکا ہو؟ تو سب نے کہا : یا علی آپ حاکم ہیں اب یہاں کوئی بھوکا نہیں ہے ۔سوال کیا کوئی ہے جس کے
پاس لباس نہ ہو ؟ سب نے کہا :یا علی سب کے پاس لباس ہے ۔سوال کیا کوئی ہے جس کے پاس مکان
نہ ہو ؟ سب نے کہا : یا علی ! سب کے پاس مکان ہے ۔امام علیہ السلام نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا اسے دیکھ
کر دنیا آج تک حیرت زدہ ہے ‘‘
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’تاریخ اور حقیقت انسان کے لئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے ۔ تاریخ اور حقیقت
انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ اور بیدار تھا ۔وہ شہید راہ خدا تھے اور شہداء کے جد
تھے ، عدالت انسانی کی فریاد تھے اور مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے ‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں :
’’اے کل جہاں ! کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجود اپنی تمام قوتوں کے ، اپنی ترقی ، علم اور ہنر کے علی جیسا ایک
اور انسان جو علی جیسی عقل رکھتا ہو، ان کے جیسا دل ، ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو اس دنیا کو دے ؟
(امام علی ؑندائے عدالت انسانی ، جارج جرداق ، مترجم)
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت علی بن ابیطالت علیہ السلام کی ذات گرامی وہ ہے جس کے فضائل و مناقب لا تعد و لا تحصی ہیں کہ ہر دور میں لکھنے والوں نے خوب لکھا ، پڑھنے والوں نے خوب پڑھا اور ہر صنف سخن میں نظم ہو یا نثر آپ کے فضائل کے موتیوں کو پرویا اور اہل ولا سے داد تحسین اور بارگاہ خدا وندی سے اجر جزیل حاصل کیا ۔
کون ہے جو حضرت شاہ ولایت پناہ سلام اللہ علیہ کے فضائل کا احصا ء کر سکتا ہے جبکہ مرسل اعظم پیغمبر اکرم ﷺ فرما گئے ہیں :
’’ لو کان الاشجار اقلام و البحر مداد و الجن حساب و الانس کتاب ما احصوا فضائل امیر المومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ‘‘
اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا روشنائی ہو جائیں اور تمام جن حساب کریں اور تمام انسان لکھنے لگیں تو بھی علی بن ابیطالب علیہ السلام کے فضائل شمار نہیں کر سکتے ‘‘
(بحار الانوار ،ج،۲۸،ص؍۱۹۷۔ینابیع المودہ ،شیخ سلیمان قندوزی البلخی ، المتوفی ۱۲۹۳ھ،ص؍۱۲۱ طبع اسلامبول)
لہٰذا ہر ایک نے اپنے سلیقہ ،شعور اور عقیدت کی بنیاد پر آپ کے فضائل کے کچھ گوشے ہی ثبت و ضبط کئے ہیں اور پھر اپنی عاجزی کا اقرار بھی کیا ہے ۔
آیات و روایات سے صرف نظر دنیائے شعر و ادب میں مولائے متقیان صدر اسلام سے ہی شعراء کے لئے موضوع سخن رہے ہیں اور آپ کے فضائل ومناقب میں ہر دور کے شعراء نے طبع آزامائی کی ہے جو ایک مفصل مقالہ کا موضوع ہے ۔
جس دور میں پیغمبر اسلام ﷺ نے دین اسلام کا پرچم سر زمین حجاز پر بلند کیا وہ زمانہ شعر و ادب کے عروج کا تھا اور عرب میں ایک سے ایک نامور شعراء موجود تھے ۔ اگر چہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن شعر و شاعری میں ماہر تھے ۔چنانچہ معلقات سبعہ کا قصہ اس زمانہ کے مشہورات میں سے ہے ۔کلام و بیان ان کا امتیاز تھا ، فی البدیہ شاعری ان کے لئے کوئی بڑی چیز نہیں تھی ۔ اس دور میں قرآن مجید وہ کلام ہے جو مرسل اعظم ﷺ کے ذریعہ متعارف کرایا گیا کہ ادبائے عرب جس کی بالا دستی اور اعجاز آمیزی کا اقرار کئے بنا نہیں رہ سکے ۔اگر چہ خدا وند عالم نے اپنے نبی کیلئے فرمایا ’’ و ما علمناہ الشعر و ما ینبغی لہ ‘‘(سورہ یس ،آیت ؍۶۹)لیکن آپ کا کلام وحی اس قدر مقفع و مسجع او ر فصیح و بلیغ تھا کہ جو سنتا اس کی سحر بیانی کا اقرار کرتا اور اس کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر دیتا اور آج تک اس کا کوئی جواب نہ لا سکا ۔
اگر چہ پیغمبر اسلام ﷺ شاعر نہ تھے لیکن آپ کے اہل خاندان کی شان میں قصیدہ پڑھنے والے اور اشعار کہنے والے صدر اسلام ہی سے فراوان رہے ہیں ۔ حسان بن ثابت سے لے کر دور حاضر کے عرب شعراء تک سب نے آپ کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں ۔
کیا عرب اور کیا غیر عرب جس تک بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل پہنچے اس نے آپ کے فضائل کے موتیوں کو اشعار کی مالا میں پرو کر اظہار عقیدت کیا ہے ۔دنیا کی کون سی زبان ہے جس میں علی علیہ السلام کے قصیدے نہیں ہیں ۔ اصحاب پیغمبر اسلام ﷺمیں کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی شان میں اس قدر قصیدے کہے اور پڑھے گئے ہوں۔ عربی زبان میں بھی اور غیر عربی میں بھی کہ اگر ان تمام اشعار کو جمع کیا جائے جو آپ کی شان میں کہے گئے ہیں تو کئی مجلدات بھی ناکافی ہونگی ۔
عربی زبان میں حضرت علی علیہ السلام کے قصیدے :
صدر اسلام ہی سے حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی قابل تعریف و توصیف رہی ہے اور شاعر مرسل اعظم ﷺ حسان بن ثابت سے لے کر آج کے دور تک کے شعراء نے آپ کی شان میں اشعار کہے ہیں ۔
اگر چہ حضرت علی علیہ السلام کا نام تمام فصحاء و بلغائے عرب میں اس مقام پر ہے کہ جس کی بلندی کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا اور آپ کے نثری کلام کا مجموعہ نہج البلاغہ جس کو سید رضی علیہ الرحمۃ نے جمع کیا ہے جس کو دیکھ کر کہنے والوں نے کہا کہ یہ کلام ’’ دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق ‘‘یعنی علی ؑ کا کلام خالق کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بالا تر ہے ۔(ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ )لیکن آپ کا نام کبھی شعراء کی فہرست میں نہیں لیا گیا حالانکہ امامیہ نظریہ کے اعتبار سے آپ حجت خدا اور امام وقت اور جملہ کمالات کے حامل تھے چنانچہ اگر آپ شعر و سخن میں اظہار نظر فرماتے تو دنیائے ادب کا کوئی بھی ادیب آپ کی ہمسری نہیں کر سکتا تھا ۔ پھر بھی ایک مجموعہ اشعار ’’ دیوان علی بن ابیطالب علیہ السلام ‘‘ کے نام سے ہمارے درمیان موجود ہے ۔
امام علی علیہ السلام سے منسوب اشعار کا یہ مجموعہ علماء اور ادباء کے درمیان بحث کا مرکز رہا ہے جس کی تفصیلات کے لئے ایک مفصل مقالہ درکار ہے البتہ ہم یہاں اختصار کے پیش نظر کچھ اہم مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
سب سے پہلے ان اشعار کو عبد العزیز جلودی متوفی ۳۲۲ھ نے جمع کیا ۔ اس سلسلہ میں نجاشی کہتے ہیں :
’’عبد العزیز جلودی نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کا لوگ ذکر کرتے ہیں انہیں میں سے ایک کتاب ’’مسند امیر المومنین علیہ السلام ، ایک کتاب آپ کے خطبات ، ایک کتاب آپ کے اشعار کی اور ایک آپ کے فیصلوں ‘‘کی ہے ۔اسی طرح ایک کتاب آپ کے خطوط ، ایک آپ کے مواعظ و نصیحتوں کی اور ایک آپ کی دعائوں کی ہے ‘‘(رجال نجاشی۔ص؍۱۶۷ )اور صاحب الذریعہ آقا بزرگ تہرانی نے بھی اس کو صحیح مانا ہے اور اس کو قدیم ترین دیوان قرار دیا ہے ۔(الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ۔ ج۔۱ ؍۹،ص؍۱۵۱) البتہ وہ دیوان اب ہمارے درمیان نہیں ہے ۔
ٍٍ دوسری مرتبہ ابوالحسن علی بن احمد فنجگردی نیشاپوری متوفی ،۵۱۲ یا ۵۱۳ ھ نے ان اشعار کو جمع کیا اور اس کانام ’’ سلوۃ الشیعہ ‘‘ رکھا ۔(حوالہ سابق ۔ج،۲،ص؍۴۳۲۔ و ج،۳،ص؍۲۰۵) البتہ اس دیوان کے خطی نسخے کتابخانوں میں محفوظ ہیں ۔
اس کے بعد بہت سے لوگوں نے آپ کے اشعار کو جمع کیا اور ان کتابوں کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا جن میں سے ایک موجودہ کتاب ’’ دیوان علی بن ابیطالب علیہ السلام ‘‘ ہے ۔ استاد حسن زادہ عاملی اس کتاب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
’’اس دیوان کے بہت سے اشعار امام علیہ السلام سے مروی روایات ہیں جن کو شعر کی شکل دی گئی ہے اور چونکہ ان کے مضامین آپ کی روایات پر مشتمل ہیں اس لئے ان کو امام علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔جیسے :
یا حار ہمدان من یمت یرنی من مومن او منافق قبلا
اے حارث ہمدان جو بھی مرتا ہے وہ مجھے دیکھتا ہے چاہے وہ مومن ہو یا منافق۔جس کو سید حمیری نے نظم کیا ہے اور اصل روایت کو شیخ مفید نے امالی کی مجلس اول میں نقل کیا ہے ۔
اسی طرح بہت سے اشعار امام علیہ السلام کی نصیحتیں اور وصیتیں ہیں جن کو نظم کیا گیا ہے ۔البتہ یہ اشعار امام علیہ السلام کے خطبوں اور کلام اور مکتوبات کے مقابلہ میں ان سے زیادہ فصیح و بلیغ نہیں ہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو آپ کی رجز ہیں ان کا آپ کی طرف منسوب کرنا بہتر ہے ۔بہت سے وہ اشعار ہیں جو ’’ علی بن ابیطالب قیروانی ‘‘کے ہیں جن کو نام کے اشتباہ کی وجہ سے امام علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی مشہور رجز وہ ہے جو آپ نے جنگ خیبر میں مرحب کے جواب میں پڑھی تھی جس کا پہلا شعر اس طرح ہے ۔انا الذی سمتنی امی حیدرہ لیث لغابات شدید قسورہ
میں وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر رکھا ہے ۔ جو ایسا شیر ہے کہ جس کا قہر و غضب سخت اور دلیرانہ ہے ۔
جنگوں میں آپ کے ذریعہ پڑھی گئی رجز تو آپ کے اشعار ہیںاس کے علاوہ بہت کم ایسے مواقع ہیں جن میں آپ کی شعر گوئی کی کوئی مثال ملتی ہو۔البتہ آپ کی شان میں دوست و دشمن سب نے اشعار لکھے اور پڑھے ہیں ۔
صدر اسلام ہی سے جہاں قرآن کی آیتیں حضرت علی علیہ السلام کا قصیدہ پڑھ رہی تھیں وہیں شعراء بھی آپ کی شان میں مدح سرئی کر رہے تھے۔اس وقت جب خدا وند عالم نے آپ کو تاج ولایت سے سرفراز فرمایا تو پیغمبر اسلام ﷺ کے شاعر حساب بن ثابت نے آپ کی شان میں اس طرح قصیدہ پڑھا ۔
فانت الذی اعطیت اذا کنت راکعا فدک نفوس القوم یا خیر راکع
فانزل فیک اللہ خیر ولایۃ و بینہا فی محکمات الشرائع
(اے علی ) آپ وہ ہیں کہ جس نے حالت رکوع میں بخشش کی پس لوگوں کی جانیں آپ پر قربان ہوں اے بہترین رکوع کرنے والے ۔خدا وند عالم نے بھی آپ کے سلسلہ میں بہترین ولایت کو نازل فرمایا اور اس کو قرآن کریم میں محکم شریعتوں کے ضمن میں بیان فرمایا ۔(کشف الغمہ ،ص؍۸۵)
اس کے علاوہ جنگ صفین کے موقع پر سعید بن قیس ہمدانی کے اشعار ، آپ کی مدح میں ابی معیط کے اشعار ،جنگ خندق کے موقع پر عمرو بن عبدود کی بہن ام کلثوم کے اشعار تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں ۔
عمارہ ہمدانیہ کی بیٹی سودہ ہمدانیہ نے امیر معاویہ کے دربار میں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں قصیدہ اس طرح پڑھا :
صلی الالہ علی جسم تضمنہ قبر فاصبح فیہ العدل مدفونا
قد خالف الحق لا یبغی بہ ثمنا فصار بالحق و الایمان مقرونا
خدا کا درود و سلام ہو اس جسم پر جو قبر میں پہنچ گیا اور عدل اس میں مدفون ہو گیا جو حق کا ہم پیمان تھا اور کوئی اس کی برابری نہیں کر سکتا اور وہ حق اور ایمان کے ساتھ ساتھ تھے ۔(wiki-ahlolbait.com)سودہ دختر عمارہ۔
حضرت علی علیہ السلام کے عزیز ترین صحابی صعصعہ بن صوہان نے آپ کی شہادت کے بعد مرثیہ پڑھا وہ کہتے ہیں :
ہل خبر القبر سائلہ ام قر عینا بزائرہ
ام ہل تراہ احاط علما بالجسد المستکین فیہ
لو علم القبر من یواری تاہ علی کل من یلیہ
کیا قبر اپنے سوال کرنے والوں کو جواب دے گی کہ وہ اپنے مہمان پر فخر کرتی ہے ؟ آیا وہ متوجہ ہے کہ جس جسم مطہر کو اس نے اپنے اندر جگہ دی ہے وہ معدن علم ہے اگر قبر کو معلوم ہوتا کہ کس شخص کو اس نے اپنے اندر جگہ دی ہے تو وہ ان تمام لوگوں پر فخر کرتی جو اس کے بعد قبر میں آنے والے ہیں ۔(مناقب ابن شہر آشوب ۔ج۔۳،ص؍۹۷)
یہ ایک طولانی فہرست ہے ان لوگوں کی جنھوں نے مولائے متقیان کی شان میں قصیدے لکھے ہیں ان میں سے کچھ نام اس طرح ہیں :ابو طیب طاہر بن عبد اللہ شافعی ، عمر و بن عاص اور محمد بن ادریس شافعی و غیرہ ۔
امام شافعی کی امام علی علیہ السلام کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ پوری دنیا پر روشن ہے جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ’’ اگر علی اپنے باطن کو ظاہر کر دیتے تو لوگ کافرہو جاتے ‘‘امام شافعی کے قصیدے آج زباں زد خاص و عام ہیں جیسے ان کے وہ اشعار جن میں وہ کہتے ہیں :
علی حبہ جنۃ امام الانس والجنۃ
وصی مصطفی حقا قسیم النار والجنۃ
کہ علی علیہ السلام کی محبت آتش جہنم سے سپر ہے ، وہ جن و انس کے امام ہیں اور حق یہ ہے کہ آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وصی ہیں اور آپ ہی جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والے ہیں ْ(فرائد السمطین ۔ ج۔ ۲۔ص؍۳۲۶)
اور اگر دیوان امام شافعی کو اٹھا کر دیکھا جائے تو ان کا دیوان امام علیہ السلام کی شان میں قصیدے سے پُر ہے اورا نتہا تو اس وقت ہو گئی جب کسی نے امام شافعی کو رافضی ہونے کا الزام لگایا تو انھوں نے کہا :
قالوا ترفضت قلت کلا ماالرفض دینی و لا اعتقادی
لکن تولیت غیر شک خیر امام و خیر ہاد
ان کان حب الوصی رفضا فاننی ارفض العباد
لوگ کہتے ہیں کہ تم رافضی ہو گئے ہو (یعنی حق سے پھر گئے ہو ) میں کہتا ہوں میرا دین و اعتقاد رفض نہیں ہے لیکن بیشک میں بہترین امام اور بہترین ہادی کو دوست رکھتا ہوں ان سے محبت کرتا ہوں اور اگر رفض کے معنی وصی رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت کرنا ہے تو میں لوگوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں ۔(الفصول المہمہ فی معرفت الائمہ )
ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کے شارح نے ایک طولانی قصیدہ لکھا ہے ۔وہ کہتے ہیں :
لو لا ابوطالب و ابنہ لما مثل الدین شخصا فقاما
فذاک بمکۃ اوی و حامی و ہذا بیثرب جس الحماما
اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام کا تشخص اور قوام نہ ہوتا ۔ ابوطالب نے مکہ میں آنحضرت ﷺکو پناہ دی اور حمایت کی اور علی نے مدینہ میں صاحب مقام مقدس نبوت کی جستجو کی ور پا لیا اور حمایت کی ۔(ابن ابی الحدید ۔ شرح نہج البلاغہ ، بتحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم ، بیروت ،دار احیاء الکتب العربیہ ، الطبعۃ الثانیہ ،ج۔۳۔ص؍۳۲۱)
ابن ابی الحدید معتزلی کے اور بھی بہت سے اشعار جو کتابوں میں ثبت ہیں ان کے علاوہ مجد الدین ، ابن جمیل کے اشعار علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں تفصیل سے نقل کئے ہیں اور حق تو یہ ہے کہ علامہ امینی نے مولا کے مداح شعراء کو ان کے اشعار کے ساتھ بہت ہی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب الغدیر میں بیان کیا ہے ۔ (خاص طور سے اہلسنت شعراء )
امام علی علیہ السلام کی مدح سرائی کا ذکر نے والے عرب شعراء کا ذکر آئے اور سید حمیری کو فراموش کر دیا جائے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟ سید اسماعیل حمیری اہلبیت علیہم السلام کے مشہور شعراء میں سے ہیں کہ جن کے دوہزار تین سو (۲۳۰۰)قصیدے وہ ہیں جو جمع ہو سکے ہیں ۔۱۷۹ھ میں ان کی وفات ہوئی اور ان کی وفات کے وقت کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔
امام صادق علیہ السلام نے ان کو سید الشعراء کا لقب دیا ہے ۔ کشی نے اپنی کتاب رجال میں لکھاہے کہ امام صادق علیہ السلام نے سید کو دیکھ کر فرمایا :
’’ تمھاری ماں نے تمہارا نام سید رکھا ہے اور تم کامیاب بھی ہوئے اور اب سید الشعراء ہو ‘‘ (محمد بن عمرکشی ۔ اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال کشی )
یہاں ہم سید حمیری کے کچھ اشعار تبرکا نقل کرتے ہیں :وہ کہتے ہیں :
قام محمد بغدیر خم منادی معلنا صوتا ندایا
لمن وافاہ من عرب و عجم و حقوا حول دوحیۃ حنیا
محمد ﷺ غدیر خم میں اٹھے اور بلند آواز سے پکارا ! اپنے عرب و عجم پیروکاروں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
الا من کنت مولاہ فہذا لہ مولی و کان بہ حفیا
الہی عاد من عادی علیا و کن لولیہ مولی ولیا
جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں ۔خدا وندا! علی کے دشمن کو دشمن رکھ اور علی کے دوستوں کو دوست رکھ ۔
سید حمیری کی امام علی علیہ السلام سے کمال محبت و عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے آپ نے ان کی وقت ِآخر مدد فرمائی اور وہ اس دنیا سے سرخرو اور سر بلند اور محبت علی علیہ السلام پر فخر کرتے ہوئے گئے ۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ :
محدث قمی اپنی کتاب تتمۃ المنتہی میں تحریر کرتے ہیں کہ سید اسماعیل حمیری جلیل القدر اور عظیم القدر مداح اہل بیتؑ تھے ۔اصحاب ائمہؑ میں سے کسی نے بھی ان کی طرح امیر المومنین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل نشر نہیں کئے ۔ آپ اعلی پائے کے شاعر تھے ۔
عون کہتے ہیں جب سید حمیری کی وفات کا وقت ہوا تواس وقت ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر میں،میں بھی موجود تھا اور اس وقت ان کے بہت سے مذہبی مخالف عثمانی المذہب لوگ بھی جمع تھے اور ان کے ہم عقیدہ دوست (یعنی شیعہ حضرات)بھی موجود تھے ۔سید حمیری خوبصورت اور کشادہ پیشانی والے تھے ۔
ان پر جیسے ہی حالت احتضار شروع ہوئی تو ان کی پیشانی پر ایک سیاہ نقطہ سا پیدا ہوا پھر وہ پھیلتے پھیلتے ان کے سارے چہرے پر پھیل گیا ۔ اس وقت سید حمیری نے تین مرتبہ پکار کر کہا ’’ ہکذا یفعل باولیائک یو علی ‘‘اے علی کیا آپ کے دوستوں کا یہی انجام ہوتا ہے ؟ان کی یہ حالت دیکھ کر شیعہ پریشان ہو گئے اور ناصبی خوش ہونے لگے ۔
چند لمحات ہی گزرے تھے کہ جس مقام سے سیاہ نقطہ ابھرا تھا اسی مقام سے روشنی سی پھیلنے لگی ۔ پھر کیا تھا ، چند ہی لمحات میں ان کا پورا چہرہ جگمگانے لگا اور سید نے مسکرا تے ہوئے فی البدیہ یہ اشعار پڑھے :
کذب الزاعمون ان علیا لن ینجی محبہ من ہنات
قد و ربی دخلت جنۃ عدن و عفا لی الا لہ عن سیئاتی
فابشروا الیوم اولیاء علی و تولوا علیا حتی الممات
ثم من بعدہ تولوا بنیہ واحد بعد واحد بالصفات
وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ علی اپنے دوستوں کو مشکلات سے نجات نہیں دیتے۔مجھے اپنے رب کی قسم میں جنت عدن میں داخل ہوا اور اللہ نے میرے تمام گناہ معاف کر دئے ۔تو اے محبان علی ؑ ! آج تمہیں خوشخبری ہو ، مرتے دم تک علی ؑ سے محبت رکھو اس کے بعد ان کی اولاد سے تولا رکھو جو ایک کے بعد ایک صفات میں برابر ہیں ۔(پند تاریخ ، موسی خوسروی ۔ج۔۵۔س؍۹۲)
آفتاب ولایت سے پوری کائنات منور ہوئی اور زمین کے چپہ چپہ پر اس نے نور افشانی کی اور پاک دلوں کو منور کر دیا ۔ عرب کے بہت سے لوگوں نے آپ کی زیارت کی ، آپ کے آداب و اخلاق و کردار و عبادات واور مقام عدل و شجاعت کو نزدیک سے دیکھا یا ان کے اہل بیت ؑاور اولاد سے سنا اور نظم و نثر میں قلم بند کیا لیکن چونکہ نور ولایت صرف سرزمین عرب تک ہی محدود نہیں تھا اس لئے اس کی تابانیاں پورے عالم میں پھیلیں اور غیر عرب جنھوں نے نہ آپ کو دیکھا نہ آپ کی اولاد سے ملاقات کی بس آپ کے فضائل کو سنا اور خون کی طہارت نے اس کو اپنے اندر اس طرح جذب کیا کہ زبان و قلم ،فکر و فہم سب کچھ آپ کا قصیدہ پڑھنے لگے ۔
عالم عرب سے باہر نکل کر جب ہم ایک نگاہ مولائے کائنات کے مداحوں پر ڈالتے ہیں تو عقلیں حیران رہ جاتی ہیں ۔ کون سی زبان ہے جس میں آپ کی مدح نہیں کی گئی ہو؟ فارسی ،اردو، ہندی ،پنجابی ،انگریزی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ہر زبان میں امام علیہ السلام کے مداح اور اشعار فراوان مل جائیں گے ۔
پاک سرشت شعراء ، شعلہ بیان خطباء اور ادباء نے اپنے اپنے انداز میں امام علیہ السلام کے فضائل کو بیان کیا اور جب تک یہ زمین و زمان ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا انشاء اللہ ۔
فارسی زبان میں اگر ان شعراء کی ایک فہرست مرتب کی جائے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شان والامقام میں قصائد کہے ہیں ہیں تو ایک مستقل کتاب تیار ہو جائے گی ۔زبان فارسی کے نامور شعراء سے لے کر دور حاضر کے شعراء تک ہر ایک نے آپ کی شان میں اپنے اپنے انداز میں قصیدے کہے ہیں ۔
شیخ فرید الدین عطار ہوں کہ شیخ سعدی ، مولانا جلال الدین رومی ہوںکہ پروین اعتصامی اور فردوسی جس نے بھی شاعری کی اس نے مولا کی شان میں قصیدہ ضرور لکھا ۔
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے فارسی شعراء ،شہید بلخی اور رودکی سمرقندی کہ جن کو ’’بابائے شعر فارسی ‘‘ کہا جاتا ہے ان کے اشعار میں حضرت علی علیہ السلام کی مدح و ثنا میں اشعار ملتے ہیں اسی طرح چوتھی یاپانچویں صدی ہجری کے شاعر کسائی مروزی نے بھی آپ کی شان میں مفصل اشعار لکھے ہیں ۔ مثلا وہ کہتے ہیں :
مدحت کن و بستائی کسی را کہ پیمبر بستود و ثنا کرد و بدو داد ہمہ کار
آن کیست بدین حال و کہ بودہ است و کہ باشد جز شیر خدا وند جہان حیدر کرار
یعنی اس کی مدح و ثنا کرو کہ خود پیغمبر سلام ﷺ نے جس کی مدح کی ہے اور اس کو سارے اختیارات دئے ہیں ۔ اس طرح کا وہ کون ہے اور کون ہو سکتا ہے سوائے شیر خدا حیدر کرار کے ؟
ٓ اسی طرح فردوسی اپنے مشہور کلام ’’ شاہ نامہ ‘‘ کے آغاز میں حضرت علی علیہ السلام کی مدح میں اشعار کہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
کہ من شہر علمم علیم در است درست این سخن قول پیغمبر است
گواہی دہم کاین سخن ہا از وست تو گوئی دو گوشم پر آواز اوست
یعنی میں شہر علم ہوں اور میرا علی ؑ اس کا دروازہ ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ یہ قول پیغمبر ﷺ ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ قول ان (پیغمبر ﷺ)کا ہے اس طرح کہ گویا میرے دونوں کان اس آواز سے پر ہیں ۔
چوتھی اور پانچویں صدی کے مشہور شاعر ابو سعید ابو الخیر نے بہت سی رباعیاں امام علیہ السلام کی شان میں لکھی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
ای حیدر شہسوار وقت مدد است ای زبدہ ہشت و چہار وقت مدد است
من عاجزم از جہان و دشمن بسیار ای صاحب ذوالفقار وقت مدد است
یعنی اے حیدر شہسوار وقت مدد ہے ، اے آٹھ و چار (بارہ) کے منتخب یعنی سید الاوصیا ء وقت مدد ہے ۔ میں دنیا سے عاجز ہوں اور دشمن بہت ہیں اے صاحب ذوالفقار وقت مدد ہے ۔
اگر اس وقت سے آج تک کے شعراء کی فہرست اور نمونہ کلام کو یکجا کر دیا جائے تو کئی مجلدات نا کافی ہیں ۔
مولانا جلال الدین رومی نے بڑے زبردست اشعار آپ کی شان میں کہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
در شجاعت شیر ربا نیستی در مروت خود کہ داند کیستی
راز بکشا ای علی مرتضی ای پس سوء القضا حسن القضا
چون تو بابی آن مدینہ علم را چون شعائی آفتاب حلم را
آپ شجاعت میں شیر خدا ہیں اور مروت میں کون جان سکتا ہے کہ آپ کیا ہیں ؟اے علی مرتضیٰ ؑعلوم کے راز کو کھول دیں اس لئے کہ آپ مشکلات کے بعد مشکل کشا ہیں اس لئے کہ آپ باب مدینۃ العلم ہیں اور آفتاب علم کے روشن نور ہیں ۔
حافظ شیرازی سے لے کر شہریار اور معاصر شعراء تک سب نے آپ کی مدح کے آفتاب و ماہتاب روشن کئے ہیں اور اہل ولا کے دلوں کو منور کیا ہے ۔اور ایسا نہیں ہے کہ ممدوح اپنے مداحوں سے غافل رہیں بلکہ مسلسل ان کی عنایات اپنے معتقدین کے شامل حال رہی ہیں اور یہ موضوع بھی مفصل مقالہ چاہتا ہے ہم بطور مثال یہاں دو نمونے پیش کرتے ہیں ۔
مرحوم آیۃ اللہ سید شہاب الدین مرعشی فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے توسل کیا تا کہ کسی ولی خدا کو خواب میں دیکھوں ۔اس رات میں نے عالم خواب میں دیکھا کہ مسجد کوفہ کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوں اور مولا امیر المومنین علیہ السلام بھی کچھ لوگوں کے ساتھ تشریف فرما ہیں ۔
حضرت ؑ نے فرمایا : شاعران اہل بیت ؑ کو بلائو ۔میں نے دیکھا کہ کچھ عرب شعراء کو بلایا گیا ۔ آپ نے فرمایا: ایرانی شعراء کو بلائو ۔ میں نے دیکھا کہ محتشم اور کچھ دوسرے ایرانی شاعروں کو بلایا گیا ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ہمارا شہریار کہاں ہے ؟
شہریار آئے ۔امام علیہ السلام نے فرمایا : تم اپنا شعر پڑھو۔ تو شہریار نے یہ اشعار پڑھے :
علی ای ہمای رحمت تو چہ آیتی خدا را کہ بہ ما سوا فکندی ہمہ سایہ ہما را
دل اگر خدا شناسی ہمہ در رخ علی بین بہ علی شناختم من بہ خدا قسم خدا را
اے فرشتہ رحمت علی آپ خدا کی کیا خوب نشانی ہیں کہ آپ نے پوری دنیا پر اپنی مہربانی کے سایہ کو ڈال رکھا ہے ۔ اے دل اگر خدا کو پہچاننا چاہتا ہے تو رخ علی کو دیکھ کہ خدا کی قسم میں نے علی ؑ کے ذریعہ ہی خدا کو پہچانا ہے ۔
مرحوم آیۃ اللہ مرعشی نجفی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب شہریار کے اشعار تمام ہوئے تو میں خواب سے بیدار ہوگیا اور چونکہ میں نے شہریار کو دیکھا نہیں تھا اس لئے میں نے اگلے روز پوچھا کہ شہریار شاعر کون ہے ؟لوگوں نے بتایا کہ ایک شاعر ہیں جو تبریز میں رہتے ہیں تو میں نے کہا کہ ان سے کہو کہ وہ قم تشریف لائیں ۔
کچھ دنوں کے بعد شہریار قم آئے ۔ میں نے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے امام علی علیہ السلام کی خدمت میں خواب میں دیکھا تھا ۔میں نے ان سے پوچھا کہ یہ شعر ’’ علی ای ہمائے رحمت ۔۔۔‘‘ کس کا ہے ؟
شہریار نے تعجب سے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم کہ یہ شعر میں نے کہا ہے ؟ اس لئے کہ نہ میں نے یہ اشعار کسی کو دئے اور نہ کسی سے اس کے سلسلہ میں کوئی بات کی ہے ۔
مرحوم آیۃ اللہ مرعشی نجفی نے کہا ! کچھ دنوں پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد کوفہ میں امام علی علیہ السلام کی خدمت میں ہوں امام علیہ السلام تشریف رکھتے ہیںاور آپ نے شاعران اہل بیت علیہم السلام کو بلایا ۔
پہلے عرب شعراء آئے پھر آپ نے فرمایا فارسی زبان شعراء سے کہو کہ آئیں ۔ وہ سب بھی آئے ، پھر آپ نے فرمائے ہمارا شہریار کہاں ہے ؟ شہریار کو بلائو ۔ آپ بھی آئے اور تب امام علیہ السلام نے فرمایا : شہریار اپنے اشعار سنائو ۔اور آپ نے وہ قصیدہ پڑھا جس کا مطلع مجھے یاد ہے ۔’’ علی ای ہمای رحمت تو چہ آیتی خدا را ۔۔۔۔‘‘یہ سن کر شہریار بالکل بیخور ہو گئے اور کہتے ہیں کہ میں نے فلاں شب میں یہ اشعار کہے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا میں نے ابھی تک ان اشعار کے سلسلہ میں کسی کو بتایا بھی نہیں ہے ۔
آیۃ اللہ مرعشی فرماتے ہیں کہ جب شہریار نے ان اشعار کے کہنے کی تااریخ بتائی تو معلوم ہوا کہ یہ اشعار اسی رات کہے گئے تھے جس رات انہوں نے خواب دیکھا تھا ۔ آیۃ اللہ مرعشی نے اس واقعہ کو کئی مرتبہ نقل کیا اور فرماتے ہیں کہ یقینا ان اشعار کے کہنے میں الہام ہوا ہے ۔(مناظرہ علمائے بغداد ۔ ابن عطیہ ۔ص؍۲۲۱)
امام علیہ السلام کی عنایات اپنے چاہنے والوں کے ساتھ مسلسل رہی ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مخلص شعر گوئی میں غفلت کا شکار ہوا تو آپ نے اس کی اصلاح بھی فرمائی ہے چنانچہ آیت اللہ جعفر سبحانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
حاجب بروجردی (ایک ایرانی شاعر )ان لوگوں میں سے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ ہدی علیہم السلام کی شفاعت ہر حال میں اور ہر طرح سے گناہگاروں کے شامل حال ہو گی اور وہ یہ تصور کرتے تھے کہ شفاعت کا مسئلہ ایک طرح کی پارٹی بازی ہے اور اس کواسی لئے رکھا گیا ہے تا کہ مجرم اور گناہگار لوگ اس کے بھروسے جو چاہیں جرم و گناہ کریں اسی لئے انہوں نے ایک قصیدہ جو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کہا تھا اس کا مقطع اس طرح لکھا:
حاجب اگر معاملہ حشر با علی ست من ضمنم کہ ہر چہ بخواہی گناہ کن
یعنی اے حاجب اگر روز حزر کا معاملہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہے تو پھر میں ضمانت لیتا ہوں کہ جو چاہو گناہ کرو ۔
حاجب نے جس رات یہ قصیدہ لکھا سی رات عالم خواب میں حضرت علی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : سنا ہے تم نے کوئی قصیدہ لکھا ہے ؟ تم اس کا آخری شعر پڑھو تو حاجب نے اپنے قصیدے کا وہ مقطع پڑھ کر سنایا ۔
امام علیہ السلام نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : اپنے شعر کو ذرا بدل دو (یعنی اصلاح کر لو )
حاجب نے کہا کس طرح بدل دوں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اس طرح اصلاح کرو۔
حاجب اگر معاملہ حشر با علی ست شرم از رخ علی کن و کمتر گناہ کن
یعنی اے حاجب اگر حشر کا معاملہ علی ؑ کے ساتھ ہے تو رخ علی ؑ سے شرم کرو اور گناہ کم کرو ۔
حاجب خواب سے بیدار ہوئے تو پشیمان ہوئے اور اپنے شعر کی اصلاح کر لی ۔(جعفر سبحانی تبریزی ،دوست نماہا ،تفسیر سورہ منافقون ۔ص؍۶۳)
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ امام علی علیہ السلام شاعری نہیں کرتے تھے لیکن اس کا مطلب کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ شاعری نہیں کر سکتے تھے یا اس صنف سخن سے نابلد تھے چنانچہ ایسے واقعات موجود ہیں جو اس بات کی کے شاہد ہیں کہ آپ نے اشعار کی اصلاح کی ہے یا مصرعہ پر مصرعہ لگایا ہے جیسا کہ حاجب بروجردی کے شعر کی امام علیہ السلام نے اصلاح فرمائی ۔ اگر اس طرح کے واقعات کو اکٹھا کیا جائے تو ایک مفصل کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔
امام علیہ السلام نے مصرعہ پر مصرعہ بھی لگایا :
فاضل بزرگوار سید جعفر مزارعی روایت کرتے ہیں کہ حوزہ علمیہ نجف کا ایک طالبعلم مالی اعتبار سے بہت تنگی میں تھا ۔ ایک روز وہ امیر المومنین علیہ السلام کی ضریح کے قریب بیٹھا آپ کے حرم کو دیکھ رہا تھا ۔ وہاں کے جھاڑ فانوس اور سونے چاندی یہ سب دیکھ کر اس نے امام علیہ السلام سے شکایت کی کہ آقا یہ سب قیمتی جھومر اور قندیلیں آپ نے حرم میں کیوں لگا رکھی ہیں جبکہ میں اپنی زندگی کو چلانے کے لئے سخت مالی مشکلات میں گرفتار ہوں ؟اسی رات اس نے خواب میں حضرت علی علیہ لسلام کو دیکھا کہ آپ اس سے فرما رہے ہیں : اگر تم چاہتے ہو کہ نجف میں ہمارے جوار میں رہو تو اسی طرح سادی ،معمولی اور مشکلات کے ساتھ زندگی گزارنا ہو گا ایک طالبعلم کی طرح اور اگر مادی اور عیش و عشرت کی زندگی چاہتے ہو تو ہندوستان میں حیدرآباد دکن چلے جائواور فلاں نواب کے پاس جائو ۔ جب ان کا دروازہ کھٹکھٹائوگے اور صاحب خانہ دروازہ کھولے گا تو اس سے کہو : ’’بہ آسمان رود و کار آفتاب کند‘‘
اگلے روز وہ امام علیہ لسلام کے حرم میں جاتاہے اور عرض کرتا ہے مولامیں یہاں اس قدر پریشان ہوں اور مشکلات میںگرفتار ہوں اور آپ مجھے ہندوستان بھیج رہے ہیں !! اس نے دوبارہ خواب دیکھا کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں : میری بات وہی ہے کہ اگر ہمارے جوار میں رہنا چاہتے ہو تو انہیں حالات کا سامنا کر کے رہنا ہوگا ورنہ پھر ہندوستان جائواور فلاں نواب سے ملاقات کرکے اس سے کہو :’’ بہ آسمان رود و کار آفتاب کند ‘‘
اگلے دن اس طالبعلم نے اپنی کتابیں اور مختصر سامان کو فروخت کیا اور کچھ اہل خیر نے اس کی مدد کی اور وہ ہندوستان کے سفر پر چل پڑا ۔
حیدرآباد پہنچ کر طالبعلم نے نواب صاحب کا پتہ معلوم کیا تو لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک غریب طالبعلم اس نواب صاحب کا پتہ کیوں پوچھ رہا ہے ؟
یہ طالبعلم جب نواب صاحب کے گھر پہنچا ،دروازہ کھٹکھٹایا ، کیا دیکھا کہ ایک شخص ہے جو سیڑھیوں سے اتر رہا ہے ۔ جیسے ہی یہ طالبعلم اس شخص سے رو برو ہوتا ہے کہتا ہے : ’’ بہ آسمان رود و کار آفتاب کند ‘‘
نواب صاحب فوراً اپنے نوکروں کو آواز دیتے ہیں اور کہتے ہیں اس طالبعلم کو حویلی میں لے جائو ، ان کی مہمان نوازی کرو اور تھوڑا آرام کر لیں تو ان کو حمام لے جائو ،کہو نہا دھو کر تیار ہوجائیں اور انہیں اچھے اور قیمتی لباس پہنائو ۔اور کل عصر کے وقت تک ان کی اچھی مہمان نوازی کرو اور عصر کے وقت دیوان عالی میں پروگرام ہو گا ۔
اگلے دن اس طالب علم نے دیکھا کہ شہر کے بڑے بڑے لوگ ، اعیان و اشراف اور تجار دیوان عالی میں اپنے فاخرہ لباسوں میں آئے ہیں اور اپنے اپنے مقامات پر بیٹھ رہے ہیں ۔ اس طالب علم نے اپنے بغل میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا یہاں کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا : صاحب خانہ کی بیٹی کا عقد ہے ۔ جب محفل عقد آمادہ ہو گئی تو نواب صاحب تشریف لائے سب لوگ ان کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ نواب صاحب نے بھی سب کا استقبال کیا اور اپنے مقام پر بیٹھ گئے ،انہوں نے ایک نگاہ حاضرین پر ڈالی اور کہا : حاضرین میں اپنی جائداد کا آدھا حصہ جو اس قدر ہوتا ہے اس طالب علم کے نام کرتا ہوںجو ابھی نجف اشرف سے تشریف لائے ہیں ۔آپ سب کو معلوم ہے کہ میری دو بیٹیاں ہیں ان میں سے ٰٓ ایک جو زیادہ خوبصورت ہے اس کا عقد اس طالب علم کے ساتھ کرتا ہوں ۔ اور آپ اے علمائے دین عقد کا صیغہ جاری کریں۔
جب صیغہ جاری ہو گیا تو وہ طالب علم جو حیرت میں غرق تھا اس نے پوچھا آخر قصہ کیا ہے ؟
نواب صاحب نے کہا : میں نے کئی سال پہلے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ایک قصیدہ کہنا چاہا تھا اور ایک مصرعہ کہا لیکن اس کا دوسرا مصرعہ نہیں کہہ سکا ۔ میں نے ہندوستان کے فارسی زبان شعراء سے رجوع کیا کہ اس ایک مصرعہ پر کوئی اچھا سا مصرعہ لگائیں لیکن کوئی ایسا مصرعہ نہیں لگا سکا جو مناسب ہو اور دل کو لگ جائے ۔پھر میں نے ایران کے شعراء سے رجوع کیا کہ اس مصرعہ پر مصرعہ لگائیں لیکن کوئی ایسا مصرعہ نہیں لگا سکا جو دل کو چھو جاتا ۔میں نے دل میں سوچا کہ لگتا ہے کہ میرا شعر مولا کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوا اس لئے میں نے نذر مانی جو اس مصرعہ پر ایسا مصرعہ لگا دے گا جو مناسب اور دل کو لگ جانے والا ہو تو میں اسے اپنی جائداد کا آدھا حصہ دے دونگا ۔اور اپنی خوبصورت بیٹی کی شادی اس سے کر دونگا ۔آپ نجف سے آئے اور ایسا مصرعہ لگادیا جو مکمل اور میرے مصرعہ سے ہماہنگ اور دل کو چھو لینے والا ہے ۔ اس طالب علم نے پوچھا وہ پہلامصرعہ کیا ہے ؟
نواب صاحب نے کہا میں نے کہا تھا کہ : ’’ بہ ذرہ گر نظر لطف بوتراب کند ‘‘اور آپ نے مصرعہ لگایا ’’ بہ آسمان رود و کار آفتاب کند‘‘ (یعنی اگر حضرت ابوتراب ؑ ایک ذرہ پر نگاہ کرم کر دیں تو (امام ؑ نے فرمایا)وہ آسمان پر جائے اور آفتاب کا کام کرے ۔ یعنی دنیا کو روشن کر دے )
طالب علم کہتا ہے کہ یہ دوسرا مصرعہ میرا نہیں ہے بلکہ خود حضرت امیر المومنین علیہ السلام کالطف و کرم ہے ۔ یہ سنتے ہی نواب صاحب سجدہ میں گر گئے ۔
بہ ذرہ گر نظر لطف بو تراب کند بہ آسمان رود و کار آفتاب کند
جب جناب امیر کی نظر کرم ایک غریب و محتاج پر پڑتی ہے تو وہ اس طرح مال و دولت اور صاحب ثروت و جاہ و جلال ہو جاتا ہے ۔
اردو زبان دنیا کی وہ ممتاز زبان ہے جس میں سب سے زیادہ شان اہل بیت علیہم السلام میں بالخصوص مولائے متقیان امیر مومنان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں قصیدے لکھے گئے ۔اور آل محمد علیہم السلام کے مصائب پر رثائی کلام کہے گئے ہیں کہ جس کو کوئی بھی اس دعوے کے ساتھ کہ میں نے تمام قصائد و مراثی جمع کر دئے ہیں کوئی کتاب نہیں مرتب کر سکتا کہ یہ موضوع ایک مفصل مقالہ چاہتا ہے ۔
چنانچہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ سے لے کرمیر و غالب اور اقبال و جوش اور انیس و دبیر تک مشہور شعراء کی ایک طویل فہرست ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں مدح مولائے کائنات میں اشعار کہے ہیں اور بارگاہ رب العزۃ سے اجر و ثواب کے مستحق ہوئے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ شاعری سب کے بس کی بات نہیں اور یہ توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے خاص طور سے جب وہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں ہو اس لئے کہ یہ قرآن صامت ہیں اور ’’ لا یمسہ الاالمطہرون ‘‘ کے مصداق کہ جن کا قصیدہ پڑھنے اور کہنے کے لئے باطنی طہارت بھی شرط ہے ۔
اور جیسا کہ ہم نے پہلے آیۃ اللہ مرعشی نجفی اعلی اللہ مقامہ کا قول نقل کیا کہ آپ فرماتے ہیں بعض اوقات یہ اشعار الہامی ہوتے ہیں ۔ اردو زبان کے ہند و پاک کے ایسے بہت سے شعراء ہیں جنھوں نے اہل بیت علیہم السلام کی شان میں بے پناہ قصیدے لکھے اور ایسے ایسے کلام موجود ہیں جو فصاحت و بلاغت کی معراج کی منزلوں کو طے کرتے نظر آتے ہیں ۔
انہیں شعراء اور ایسی ہی شاعری میں ایک عظیم شاعر و ادیب سید فخر لادین بلے صاحب کا نام ہے جنھوں نے امیر خسرو کے بعد ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ایک صنف شاعری کو حیات نو بخشی ۔
۱۶؍ اپریل ۱۹۳۰ ھ کو سید غلام معین الدین چشتی کے آنگن میں کھلنے والا یہ پھول اس قدر خوشبو پھیلائے گا کسے معلوم تھا ؟سید فخر الدین جن کو ان کے والد پیار سے بلّے بلاتے تھے اور یہ ان کی خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کمال عقیدت تھی کہ انھوں نے خواجہ کی طرح اپنے فرزند کا نام بھی فخر الدین رکھا تھا اور بلّے بلاتے تھے لہٰذا غلام معین الدین نے بھی سی طرح غلامی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور حق تو یہ ہے کہ فخر الدین بلّے شاہ نے اپنے والد کی لاج اس طرح رکھ لی کہ انہوں نے اپنی کاوشوں اور علمی کارناموں کے ذریعہ دنیائے علم و ادب و ثقافت و صحافت میں بلّے بلّے کر دی ۔
فخر ادب جناب فخر الدین بلّے صاحب کے متعلق بہت سے مقالات نظروں سے گزرے جن سے اس بات کا اندازہ لگایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شخصیت کی زندگی اور خدمات پر ایک مفصل تحقیقی مقالہ لکھا جائے اور ممکن ہے کسی نے یہ خدمت انجام بھی دی ہو جو میری نظروں سے نہیں گزری ۔
سید فخر الدین کا قول ترانہ آج مشہور عالم ہے میں نے بھی اس قول ترانہ کو پڑھا اور اور الحمد للہ حجۃ الاسلام مولانا سید کلب حسن نو نہروی صاحب نے اس قول ترانہ کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے میں اس سلسلہ میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ آیۃ اللہ العظمیٰ سیدشہاب الدین مرعشی نجفی اعلی اللہ مقامہ نے فرمایا کہ بعض اشعار الہامی ہوتے ہیں ۔ قول ترانہ پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اشعار بھی کسی الہام سے کم نہیں ہیں۔
صنف شاعری میں دو طریقہ بہت مشہور ہے ایک آمد اور ایک آورد قول ترانہ کا آہنگ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ قول آمد مطلق ہے اور القاء و الہام کے سوا کچھ نہیں ۔میں یہاں بحث عقیدہ و عقیدت میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن قول ترانہ کا مقطع سید کے عقیدے اور عقیدر دونوں کا غماز ہے جہاں وہ کہتے ہیں :
ہر سالک و عارف کا بلّے یہی مسلک ہے اللہ و نبی مولا و اللہ علی مولا
اور اس مقطع کی تشریح میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہ مقطع قرآن مجید کی آیہ ٔ ولایت سے الہام ہوا ہے جہاں خدا وند عالم فرماتا ہے :’’ انما ولیکم اللہ و رسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوۃ و یوتون الزکوۃ و ہم راکعون ‘‘(سورہ ٔ مائدہ ۔آیت ؍۵۵)اورپھر سیدنے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو خدا اور رسول کی ولایت کے ساتھ مانا ہے ۔
قول ترنہ کی شرح کے لئے کافی وقت درکار ہے لیکن مولانا سید کلب حسن صاحب نے جو شرح کی ہے کافی بسیط اور علمی ہے البتہ اگر اس میں خواص اسماء کا بھی اضافہ ہوتا تو بہتر تھا ۔امید ہے کہ قارئین کرام اس شرح سے بہرہ مند ہونگے اور اس کے بعد جب وہ قول ترانہ سنیں گے تواس کی معنویت کو بخوبی احساس کریں گے ۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ تمام علماء اور شعرائے اہل بیت علیہم السلام کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور ہماری زندگی میں جو بھی دن ہیں اسے محمد و آل محمد علیہم السلام کی خدمت میں گزارنے کی توفیق عطا فرما ۔
والسلام
سید رضوان حیدر رضوی
حیدر آباد ہند