ایک غریب بوڑھا آدمی کھلونوں کی چھوٹی سی دکان سجائے بازار میں بیٹھا آواز لگاتا ہے۔۔۔ ایک روپئے کا ایک کھلونا۔ جو چاہو لے جائو۔۔ ہر مال ایک روپیہ ۔۔۔ ا۔۔ ایک انمول گڑیا۔ بیش قیمتی جو چاہے خرید لے، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کانپ جاتی۔جو خریدنا چاہے خرید لے۔۔۔ لوگ چلتے پھرتے بوڑھے آدمی کے کھلونوں پر نظر ڈالتے اور چلے جاتے۔ اتفاق سے اسی وقت راجہ رائے بہادر صاحب اپنے دستے کے ساتھ اس بازار سے گزرے۔ انہوں نے بوڑھے آدمی کی آواز سنی۔۔۔ انمول گڑیا۔ جو کوئی خرید سکے۔ خرید لے۔۔۔ آواز سن کر راجہ صاحب بوڑھے آدمی کی دکان پر آئے۔ دکان میں سرسری سی نظر پوری دکان پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔ا ابھی تم کسی گڑیا کے بارے میں آواز دے کر کچھ کہرہے تھے۔۔۔ ذرا ہمیں بھی دکھائو۔۔۔ کیسی گڑیا ہے تمہاری۔؟ ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ بوڑھے آدمی کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ اسنے راجہ صاحب کو اپنی دکان پر دیکھا۔۔۔۔ وہ گھبرا گیا۔۔۔۔اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔راجہ صاحب۔۔ معاف کریں۔ میں غریب آدمی ہوں آپ کی کیا خدمت کروں۔۔ میری دکان میں تو آپ کے لائق کوئی کھلونا نہیں ہے جو آپ کو پیش کروں۔ نہیں۔۔۔۔ ہمیں کوئی کھلونا نہیں چاہئے۔۔۔۔۔۔ا ہم تو تمہاری وہ گڑیا دیکھنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں تم ابھی آواز دے کر کچھ کہرہے تھے؟ اچھا حضور۔۔۔۔ابھی دکھاتا ہوں گڑیا۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اس کی پیشانی پر اداسی اور فکر نظر آنے لگی۔ بوڑھے آدمی نے دکان کے ہی اندر سے بنا دروازہ کھولا۔ گڑیا کو باہر نکالا اور راجہ صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ صاحب۔۔۔۔ا یہ ہے میری پیاری گڑیا۔
یہ آپ کے لئے تو بےکار ہے۔ کیوں ؟ راجہ صاحب نے کہا۔۔۔ ا۔ حضور۔۔۔اس لئے۔۔۔ کہ آج تک یہ غریبی میں رہی ہے۔
یہ گڑیا عجیب و غریب ہے۔ کبھی ہنستی ہے، کبھی روتی ہے اور کبھی گنگناتی ہے۔۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔؟ ۔ بہت خوب۔ حضور۔۔۔۔۔
ایک خاص بات اورہے اس میں ۔۔۔۔۔ وہ کیا ؟ ۔۔۔۔۔حضور جب یہ ہنستی ہے تو پھول کھلتے ہیں، روتی ہے تو بارش ہونے لگتی ہے اور جب کبھی یہ خوش ہوکر گنگناتی ہے تو فضائوں میں چاروں طرف ستار کی میٹھی دھن بکھرنے لگتی ہے۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ا ۔ بڑے کمال کی گڑیا ہے یہ تو۔۔۔ جی حضور۔۔۔۔۔ سچ میں یہ کمال کرتی ہے۔یہ آپ کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں بھر دیگی۔ یہ موم کی بنی ہے پھر بھی اس پر کسی موسم کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ہر موسم میں سدا بہار رہتی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ پھر تو یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ کیا قیمت لوگے اس کی۔؟۔ بولو ؟ یہ گڑیا تو ہم ہی خریدینگے۔۔,۔۔۔۔ا۔ بوڑھے آدمی نے اپنی آنکھوں میں آنسوئوں کو چھپاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ارے صاحب۔۔۔۔۔۔ جو مرضی ہو ۔ سو دےجائیے۔۔ غریب آدمی ہوں ایک دو روز کا گزارا ہو جائےگا۔۔ ۔ ۔ ۔ یہ گڑیا مجھے اپنی جان سے بھی پیاری ہے صاحب۔ میں اسے بازار میں کبھی نہیں لاتا مگر کیا کروں۔۔۔؟ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز گلے میں ہی اٹک نے لگی، حالات نے مجبور کیا ہے بس۔۔۔۔۔اس لئے گڑیا کا سودا کرنا پڑ رہا ہے یہ کہ کر وہ زور زور سے رونے لگا۔ راجہ صاحب نے اسے تسلی دی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔۔ ہم بھی اسےاپنی جان سے زیادہ عزیز رکھینگے۔
راجہ صاحب نے پوچھا۔۔۔اچھا بتائو تم رہتے کہاں ہو؟ ۔۔۔۔۔اس نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ ارے صاحب۔۔۔۔ا۔ ۔ ہم غریبوں کا بھی کوئی گھر ٹھکانہ ہوتا ہے کیا ؟ ۔ ۔ رہنا بسنا کیا، بس سمئے کاٹتے ہیں۔ ۔ ۔ شہر کے اس پارجھوپڑ پٹی میں ایک اپنی بھی گھاس پھوس کی کٹیا ہے اسی میں سارا پریوار گزر بسر کرتا ہے۔ یہ سن کر ر اجہ رائے بہادر صاحب نے اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دی اور کہا۔ ۔ ۔ لو۔۔۔۔یہ رکھ لو ۔ اپنا گھر بنا لینا اور پریوار کے ساتھ چین سے رہنا۔ اب یہ گڑیا ہمیں دیدو۔ بوڑھے آدمی نے کانپتے ہاتھوں سے ابنی گڑیا راجہ صاحب کو سونپ دی اور اشرفیوں کی تھیلی اپنے ہاتھ میں لئے زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔ ۔ راجہ صاحب گڑیا کو لےکر چلے گئے۔ بوڑھا آدمی دور تک ۔۔انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا اور نہ جانے کب تک روتا رہا۔
راجہ صاحب گڑیا کو بڑے پیار سے راج محل میں لے آئے۔ ایک مخصوص کمرے میں اس کے رہنے کاانتظام کیا گیا۔ اسے سجایا، سنوارا اور زیادہ خوب صورت بنا دیا گیا۔ اب غریب گڑیا ایک مہا رانی جیسی نظر آرہی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر بعد راجہ صاحب اس کے قریب آئے، غور سے دیکھا، چھوا اور مسکرائے۔ اسی وقت کسی لڑکی کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ کہیں کوئی نہیں تھا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ ہنسی اس گڑیا کی ہے۔ راجہ صاحب نے کمرے کی کھڑکی سے باہر باغیچہ کی طرف غور سے دیکھا، سچ مچ پھول کھل گئے تھے۔ راجہ صاحب سوچنے لگے یہ گڑیا ہے یا کوئی کرشمہ۔۔ ایک دن راجہ صاحب اپنے علاقائی دورے پر جانے لگے جیسے ہی وہ باہر نکلے آسمان پر کالی گھٹائیں گھر آئیں اور تیز بارش شروع ہوگئی۔ راجہ صاحب سوچ میں پڑ گئے ۔یہ سب کیا ہے ،ابھی ابھی توموسم بالکل صاف تھااور اب یہ اچانک بارش۔۔۔۔۔ا فورا انہیں گڑیا کا خیال آیا۔ واپس گڑیا کے پاس آئے۔ دیکھا ۔۔۔۔گڑیا کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ راجہ صاحب حیران تھے یہ کیسی گڑیا ہے۔
راجہ صاحب نے گڑیا سے کہا۔۔ ۔ دیکھو۔۔۔ہمیں ضروری کام سے باہر جانا ہے اس طرح ہمیں مت روکو ورنہ ہم پریشان ہونگے اور ناراض بھی۔ گڑیا نے مسکراکر پلکیں جھکا لیں۔
رات کو جب راجہ صاحب سورہے تھے تو انہیں دور کہیں ستار بجنے کی آواز سنائی دی وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان کے کانوں میں سنگیت کے سریلے سر گونج رہے تھے۔ ساتھ ہی کسی لڑکی کے گانے کی آواز بھی آرہی تھی۔ راجہ صاحب سمجھ گئے کہ یہ آواز گڑیا کی ہے ۔وہ خوش ہوکر گارہی ہے اس لئے فضائوں میں سنگیت بکھر گیا ہے۔ گانا سن کر راجہ صاحب خود کو روک نہیں پائےاور بے چین ہوکر گڑیا کے پاس آگئے اس کا گانا ختم ہو چکا تھا۔ماحول میں خاموشی تھی۔رات کے سناٹے میں راجہ صاحب گڑیا کے پاس کھڑے دیوانہ وار اسے دیکھ تے رہے۔وقت گزرتا رہا۔ گڑیا اب راجہ صاحب کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔اس سے دور جانے کی بات سوچنا بھی ناممکن تھا۔
۔ ۔ ۔ اور پھر ایک دن اچانک محل میں رانی صاحبہ آگئیں۔وہ ہر لمحہ راجہ صاحب کے ساتھ تھیں۔راجہ صاحب گڑیا کے لئے وقت نہیں نکال سکے۔ دوسرے دن بہ مشکل تمام کچھ وقت ملاتو گڑیا سے ملنے آئے ہی تھے کہ پیچھے سے رانی صاحبہ آ پہنچیں اور راجہ صاحب سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ گڑیا کی طرف دیکھ کر عجیب سا منہ بناکر کہنے لگیں۔۔ ۔ ۔ یہ شوق آپ نے کب سے لگا لیا۔,۔۔۔ہٹائیے یہاں سے۔ ۔ یہ بےکار کی چیزیں ۔۔۔۔۔۔اور گڑیا کو اٹھا کر سامنے والے خالی کمرے کے سوفے پر پھینک دیااور راجہ صاحب کو اپ نے ساتھ لے کر جھلبلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔ گڑیا کو بہت دکھ ہوا وہ بےچاری دیر رات تک راجہ صاحب کا انتظار کرتی رہی غم اور مایوسی نے اسے نڈھال کر دیا۔ اس کی پلکیں بھیگتی رہیں۔ آہستہ آہستہ آسمان پر گہرے کالے بادل چھانے لگے۔ فضائوں میں غم کا اندھیرا چھا گیا۔۔ ۔ ۔ رات بھر تیز بارش ہوتی رہی۔ وہ بہت غمگین تھی۔ راجہ صاحب بھی بیچینی کے عالم میں ادھر سے ادھر ٹہلتے رہے۔ مگر۔ ۔ گڑیا کے پاس آتے اتنی ہمت نہیں کر سکے۔
۔ ۔ ۔ انہیں بار بار گڑیا کی آواز سنائی دیتی رہی۔ ایسا لگتا جیسے گڑیا انہیں بلا رہی ہے۔۔ ۔ ۔ وقت گزرتا گیا۔ رانی صاحبہ کی سختی بڑھتی گئی۔ اس کے چاروں اطراف میں سخت پہرا لگا دیا گیا۔۔ ۔ ۔ ۔ اب راجہ صاحب چوری چھپے اس سے ملنے لگے۔ اسے تسلی وتشفی دی ۔اپنا تن ۔من ۔ دھن سب کچھ گڑیا پر قربان کرنے لگے۔ اس کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ پر ہزاروں اشرفیاں لٹاکر غریبوں میں تقسیم کر دیتے اس بات سے وہ بہت خوش ہوتی۔۔ ۔ ۔ ۔ محل کے اطراف باغیچوں میں بہار ہی بہار تھی۔ رونق ہی رونق تھی۔ ماحول خوشگوار تھا۔
کچھ دن بعد راج محل کے لوگوں پریہ راز کھلنے لگا۔لوگ کانا پھوسی کرنے لگے۔ رانی صاحبہ اور ذیادہ پریشان رہنے لگیں۔ بگڑتے حالات اور ماحول کو دیکھ کر راجہ صاحب نے گڑیا کے رہنے کا انتظام کسی دوسری جگہ کردیا۔اکثر راجہ صاحب اس سے ملنے آتے اور کچھ وقت وہاں گزارتے۔ اس دوران گڑیا کافی پریشان رہنے لگی لیکن راجہ صاحب کی تسلیاں اسے ہمت دیتی رہیں۔
ایک دن راجہ صاحب کو کسی ضروری کام سے چند روز کے لئے شہر سے باہر جانا پڑگیا۔ پھر کیا تھا۔ مخالفین کو موقع ملگیا اس کے خلاف سازش رچنے کا۔ راجہ صاحب کے چند خاص لوگ اس مہم میں شامل ہوگئے۔ باقائدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گڑیا کی زندگی سے کھیل شروع ہوگیا۔ہر ممکن کوشش کی گئی کہ اب گڑیا کو کبھی راجہ صاحب سے ملنے نہ دیا جائے۔۔ ۔ ۔ ۔ گڑیا بہت حیران و پریشان تھی کہ اب اس سازش سے کیسے خود کو بچائے اور کس طرح یہ سارا معاملہ راجہ صاحب کو بتائے۔۔ ۔ ا راجہ صاحب۔ واپس آگئے۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ انہیں کچھ بھی پتہ نہیں چلا کہ ان کی غیر موجودگی میں محل میں سازشوں کے تانے بانے کس طرح بنے گئے۔ ان کے جانے کے بعد محل میں کیا کیا ہوگیا۔ گڑیا کو پریشان و فکر مند دیکھ کر انہہوں نے کہا۔۔۔۔۔ تم کدی بات کی پروا مت کرو ہم ہیں نہ۔ تمہارے ساتھ ۔ کبھی کبھی راجہ صاحب بہت فکرمند ہوتے کہ کیا کریں جس سے گڑیا کو ہر خوشی مل سکے اس پر کوئی پریشانی نہ آئے۔ وہ بےچاری پہلے ہی غریبی کی وجہ سے نہ جانے کیا کیا سہتی رہی ہے ۔ وہ ہر طرح اسے خوشیاں دینے کی کوشش کرتے۔گڑیا کے اندر راجہ صاحب کی جان تھی اور راجہ صاحب کے سینے میں اس کا دل دھڑکتا تھا۔ وہ ہمیشہ خود سے ذیادہ راجہ صاحب کے بارے میی سوچتی اور انکی خوشی کا خیال رکھتی۔ان کی پسند، نا پسند کا دھیان رکھتی۔ سب کچھ بھول کر راجہ صاحب کے بارے میں سوچا کرتی اور مگن رہتی۔اور راجہ صاحب اب اسے اپنے جینے کا مقصد بنا چکے تھے۔دور رہ کر بھی دونوں کے بیچ فاصلہ نہیں تھا۔ گڑیا کے ہر پل کی خبر انہیں رہتی۔ ۔ ۔ وقت خوشگوار گزر رہا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن اچانک۔۔۔ کچھ مخالفین نے راجہ صاحب کو گڑیا کی طرف سے بدگمان کردیا۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔راجہ صاحب نے ان کی بات مان لی اور وہ گڑیا کی طرف سے لاپروا ہونے لگے۔وہ بہت پریشان تھی ماحول کو کچھ کچھ سمجھرہی تھی۔۔ اس نے بار بار راجہ صاحب کو حالات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر۔ ۔ ۔ ۔ انہیں اتنی فرصت ہی کہاں تھی جو اس کی بات سن تے۔۔۔۔وہ بار بار کوشش کرتی رہی کہ ان کی بے رخی کا سبب پوچھے۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ راجہ صاحب کی خاموشی اس کی تکلیف بڑھاتی رہی۔ اب راجہ صاحب بھی کبھی کبھی پریشان نظر آتے مگر اپنی پریشانی اسے نہیں بتاتے۔۔ دونوں ہی اپنے اندر گھٹن کا احساس کرتے رہے۔ ۔
۔ ۔ ۔ راجہ صاحب نے اس کی زندگی کی پروا کئے بغیر ۔ ۔ اسے اپنی زندگی سے دور کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔رانی صاحبہ بھی تو یہی چاہتی تھیں۔۔ اور پھر ایک دن رانی صاحبہ کے محل میں آنے کی خبر سن کر۔ ۔ راجہ صاحب نے، محل کے بچھلے حصے کی طرف گڑیا کو اپنے ساتھ لے جاکر۔۔۔ بالائی منزل کی کھڑکی کھول کر۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی آنکھیں بند کر کے گڑیا کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔۔۔۔۔۔ وہ بے چاری محل کی سازشوں سے انجان یہ سمجھ ہی نہ سکی کہ یہ سب کیوں ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟ کیسے ہوا ؟۔
۔۔۔۔۔۔۔تیز دھوپ تھی۔۔ ۔ ۔ سڑک جل رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں سوچا۔۔۔۔۔ دوپہر کا وقت۔۔۔۔پتھریلی و گرم سڑک ، کافی بلندی سے پھینکی گئی گڑیا تپتی ہوئی سڑک پر بے جان سی پڑی تھی ۔ راستے سے گزرنے والے لوگ سرسری سی نظر اس پر ڈالتے اور چلے جاتے۔۔ ۔ ۔ ۔ گڑیا کا جسم تپش سے جلتا رہا۔۔۔۔۔ وہ درد سے کراہتی رہی۔۔۔۔,مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی نہیں تھا اس کا پرسان حال۔۔۔۔۔۔۔۔ا۔ ۔ وہ بیچ سڑک پر راستے کےپتھر کی طرح پڑی تھی ۔جو چاہتا اسے ٹھوکر مارکر چلا جاتا۔وہ بےچاری بےجان۔۔۔۔نڈھال سی تل تل کر کے پگھلتی رہی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دن ڈھل چکا تھا ۔۔۔۔دھوپ۔ کچھ ہی دیر کی مہمان تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس کا زخمی جسم آدھے سے ذیادہ گرمی کی شدت سے پگھل چکا تھا۔۔۔۔۔۔ا۔ ۔ پگھلا ہوا موم سڑک پر بہنے لگا تھا۔۔۔۔ا۔ ۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی سڑک پر دوڑتی ہوئی آئی اور اس کے مردہ جسم کو اپنے پہیوں سے روندتی چلی گئی۔۔ ۔ ۔ سڑک پر۔ دور تک موم کے نشان نظر آرہے تھے۔ گاڑیاں گزرتی رہیں ایک کے بعد ایک۔۔ ۔۔۔۔۔ا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر بعد سڑک پر خاموشی تھی۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گڑیا کا وجود مٹ چکا تھا۔۔۔۔۔ا۔ فنا ہو چکی تھی وہ۔ ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔۔۔ا۔ ۔ ۔ راجہ رائے بہادر صاحب کی کھڑکی کھلی رہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کارخانہء حیات اسی طرح چلتا رہا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معصوم گڑیوں کے جسموں کا سودا یوں ہی ہوتا رہا ۔۔ ۔ ۔ ۔ نہ جانے۔ ۔ کتنی معصوم گڑییں مفلسی کا شکار ہوکر راجائوں کی بھینٹ چڑھتی رہیں اور کتنی زندگانیاں سسک سسک کر یوں ہی دم توڑتی رہیں۔۔۔۔۔ا
**************