موڈ سوئنگز
(Mood Swings)
" یار کچھ سمجھ نہیں آتا" عرفان کے لہجے میں پریشانی بھی تھی اور تشویش بھی۔
" میں زرینہ کے موڈ سوئنگز سے پریشان ہوں"
" موڈ سوئنگز؟ ۔۔یہ کیا ہوتا ہے۔" میری کچھ سمجھ نہیں آیا۔
" یار جب عورتیں پورے دنوں سے ہوتی ہیں تو ان کے بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں ان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت بھی بدلتی رہتی ہے۔" عرفان نے سمجھایا۔
خواتین کی یہ کیفیت ان دنوں میں ہوتی ہے جب وہ امید سے ہوتی ہیں۔
میری قوم کے ساتھ یہ کیفیت روز اوّل سے ہے یا کم از کم جب سے میں نے ہوش سنبھالا قوم کو اکثر وبیشتر اسی کیفیت میں پایا۔ خصوصا جب کبھی وہ امید سے یا کسی سے مایوس ہوتی ہے۔۔ ہر نئے رہنما سے ہمالیہ جتنی امیدیں وابستہ کرلینا اور پھر کچھ دنوں بعد خوابوں کے ٹوٹنے پر اسی رہبر کو پاتال کی گہرائیوں میں دھکیل دینا۔
میرا ظہور پچاس کی دہائی کے وسط میں ہوا۔ سن ساٹھ اکسٹھ میں اسکول میں داخل کیا گیا۔ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے اسکولوں کا یہ کمال تھا کہ دوسری جماعت میں پہنچنے تک پورا اخبار پڑھ لیتا تھا۔
اس عمر میں ظاہر ہے فکر روزگار میرا مسئلہ نہیں تھا۔ ماں باپ زندگی کے تاروپود کو قائم رکھنے کے لئے کیا کچھ کرتے تھے یہ چھ سال کے بچے کو کیا خبر۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ زندگی کے مسائل کچھ اتنے زیادہ نہیں تھے۔ ابا کی قلیل آمدنی میں بھی گذران ہوہی جاتی تھی اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑتا تھا۔ سرکاری پیلے اسکول میں جہاں میں اور میری بڑی بہن پڑھتے تھے، کوئی فیس نہیں دینی پڑتی تھی ۔سرکاری ہسپتالوں میں بھی کچھ نہیں دینا پڑتا تھا۔ اور یاد نہیں کہ اتنی زیادہ بیماریاں بھی تھیں جتنی آج ہیں۔ لیباریٹری ٹسٹ، الٹرا ساؤنڈ، ایم آر آئی، سی ٹی اسکین کے بغیر بھی مریض ٹھیک ہوجاتے تھےاور ایک مکسچر، جس کی بوتل پر خوراک کے پیمانے کے لئے کاغذ کی پٹی چپکی ہوتی تھی، پڑیوں میں کچھ گولیوں کا سفوف ہر درد کی دوا کے لئے کافی وشافی ہوتا تھا۔
محلے کے ایک آدھ گھر میں ریڈیو تھا اور اخبار بھی کسی کسی گھر میں آتا تھا۔ پاس پڑوس یا ہوٹلوں اور حجام کی دکانوں میں اخبار پڑھنے مل جاتے تھے۔
انہی ہوٹلوں اور حجام کی دکان میں ایک سرخ وسپید چہرے والے۔ وجیہ اور خوبرو فوجی کی تصویر فریموں میں نظر آتی۔
یہ " جنّل" ایوب کی تصویر تھی۔ اور جنّل ایوب اور مارشل لا کا ذکر بڑے پیار اور محبت سے کیا جاتا۔
یہ رومانس کچھ سال چلتا رہا، پھر قوم کے "موڈ سوئنگ " کا پہلا مشاہدہ سن چونسٹھ کے آخر اور پینسٹھ کے شروع میں ہوا۔
صدارتی انتخاب میں 'جنّل ایوب ' ، جو اب ' صدر ایوب' کہلانے لگاتھا ۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل کھڑا تھا۔ اوران دنوں کراچی والوں کے نزدیک سب سے بڑا ولن ایوب خان تھا ۔
الیکشن ہوئے اور مشرقی پاکستان اور کراچی چھوڑ کر پورے پاکستان میں ایوب کی فتح کا ڈنکا بجایا گیا۔ جسے اور کسی نے قبول کیا ہو یا نہ کیا ہو، کراچی والوں نے ماننے سے انکار کردیا۔
کریلا اوپر سے نیم چڑھا۔ کراچی والے اپنے زخموں کو چاٹ ہی رہے تھے کہ ایوب خان کا بیٹا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے کراچی کی سڑکوں پر دندنانے لگا۔ اور پھر کراچی میں نفرت اور عصبیت کے زہر کا پہلا بیج ایسا بویا گیا کہ باہمی کدورت کا یہ ناگ ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنا پھن پھیلاتا چلآگیا۔
لیکن چند ماہ بعد ہی ہمارے موڈ سوئنگ کا دوسرا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ ستمبر سن پینسٹھ میں بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی اور قوم سب کچھ بھول بھلا کر اپنے جوانوں کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ جنگ کے یہ سترہ دن ہماری قومی تاریخ کے یادگار ترین دن تھے۔ اتحاد اور یکجہتی کے جو مظاہرے ان دنوں میں دیکھنے میں آئے ، ملک اور قوم اس کے بعد اس جذبے کے لئے ہمیشہ ترستے ہی رہے۔
جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا یہ فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی لیکن مسلح افواج کے ساتھ ایوب خان، بھٹو، نور خان ، ایم ایم عالم اور نیوز ریڈر شکیل احمد ہمارے ہیرو بن گئے۔ مجھے آج بھی قصائی اور حجاموں کی دکانوں پر لگے وہ رنگین پوسٹر یاد ہیں جس میں صدر ایوب فوجی وردی میں ملبوس، گھوڑے پر سوار، تلوار لہراتے ہوئے اگلے مورچوں پر جوانوں کی کمان کرتے نظر آتے۔
اگلے ڈھائی تین سال اسی رومانس میں گذر گئے کہ ایوب خان کو یاد آیا کہ اس قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے دس سال بیت گئے اور اگر قوم کو یاد نہیں ہے کہ ان کے بابرکت دور میں کیا کچھ ترقی ہوئی ہے تو اب اسے یاد دلایا جائے، چنانچہ " عشرہ ترقی" منانے کا ڈول ڈالا گیا۔
لیکن پینسٹھ کی جنگ بندی اور معاہدہ تاشقند میں نجانے کیا ہوا تھا، اور تب سے بھٹو صاحب قوم کو بتانے کے لئے بے چین تھے کہ طویل القامت ایوب خان تاشقند میں چند فٹے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری سے کیا ہار کر آئے ہیں۔
ایوب حکومت عشرہ ترقی میں مست تھی، ادھر چینی کی قیمت میں چار آنے اضافے کی وجہ سے ملک گیر بے چینی، طلبہ کے ہنگاموں اور ایوب مخالف جذبات کی کمان بھٹو صاحب نے سنبھالی، گوکہ مولانا بھاشانی، خان ولی خان، ائر مارشل اصغر خان اور جسٹس ایس ایم مرشد بھی اس قافلے میں شامل تھے لیکن ایوب کا اصل مقابلہ بھٹو سے ہی تھا۔ عوام کا موڈ پھر سوئنگ ہونا شروع ہوا۔
ملک گیر ہنگاموں، بے چینی، سیاستدانوں کی قید وبند، جلسے جلوسوں اور ایوب کتّا ہائے ہائے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایوب خان نے راج سنگھاسن اپنے پیٹی بھائی جنرل آغا محمد یحیٰی خان کے حوالے کیا اور اپنے گاؤں ریحانہ کی راہ لی۔
اب یہ ذرا موڈ سوئنگز کی کہانی جلدی جلدی مکمل کرلیں پھر جنل ایوب کی باتیں کرتے ہیں۔
آغا صاحب کا مارشل لگا تو فوجی انتظامیہ کی فیوض و برکات گوشت اور دودھ دہی کی دکانوں پر جالیاں لگنے کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔ کچھ عرصے کے لئے قیمتوں پر کنٹرول رہا ۔
میں نویں جماعت میں تھا اور ہمارا اسکول اسلامیہ کالج اور گودھرا کیمپ کے درمیان، مسلم آباد کی دوسری طرف تھا یہ جمشید روڈ کا علاقہ ہے۔ ایک دن وہاں سے جنرل یحیٰی گذرے جو مزار قائد جارہے تھے اور ہم نے انہیں دیکھ کر پرجوش نعرے لگائے اور تالیاں بجائیں۔
یحیٰی کے خلاف تو کوئی تحریک نہیں چلی لیکن پے درپے حالات تبدیل ہوتے رہے، انتخابات کے نتیجے میں مجیب اور بھٹو کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں اکثریت ملی، پھر چھ نکات، ادھر تم ادھر ہم وغیرہ کا نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں برآمد ہوا۔
بھٹو صاحب نے بچے کھچے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی۔ ان کی خوش لباسی اور گرمئی گفتار کے تو ہم دیوانے تھے ہی لیکن الیکشن میں ہم نے تو نہیں لیکن ہمارے گھر والوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا تھا۔ میں بھی کالج میں داخل ہوگیا تھا اور اسلامی جمیعت طلبہ کے ' متاثریں' میں شامل تھا۔
لیکن اس کے باوجود ایک دن جب بھٹو صاحب کا جلوس ہمارے کالج کے عقب سے یعنی پی آئی ڈی سی ہاؤس کے سامنے سے گذرا تو میں نے بھی گلا پھاڑ کر " جئے بھٹو" کا نعرہ بلند کیا۔ اب ہمارا موڈ سوئنگ بھٹو کے رومانس کے زیر اثر تھا۔
بھٹو امید اور آزادی کا استعارہ تھا لیکن پھر کراچی میں لسانی ہنگامے ہوئے اور بھٹو اور کراچی والوں کے راستے الگ ہوگئے۔ اس کے دوسال بعد میں اپنی تعلیم ختم کرکے بحرین چلا گیا۔ بعد کے حالات کی مجھے زیادہ خبر نہیں کہ ان دنوں بیرون ملک خبریں کم ہی ملتی تھیں۔ پھر سن ستتر کے انتخابات ہوئے اور دھاندلی وغیرہ کے شور اور نظام مصطفے کی تحریک کے نتیجے میں ہماری مسلح افواج نے ایوب اور یحیٰی کی اتبّاع میں ملک کا نظم وضبط سنبھال لیا اور مر مومن مرد حق، ضیاءالحق تخت پر براجمان ہوئے۔
مجھے علم نہیں کہ اس بار فوجی حکومت اور عوام کے رومانس کی کیا کیفیت تھی۔
پھر بھٹو کا مقدمہ اور سزائے موت وغیرہ کے مناظر ہم سنّاٹے کے عالم میں، بیرون ملک بیٹھے دیکھتے رہے۔
فوجی حکومتوں کو قصر صدارت کا پانی کچھ زیادہ راس آتا ہےاور کوئی بھی یہاں آئے تو پھر واپس جانے کا جی نہیں چاہتا۔ گیارہ سال مملکت خداداد کے سیاہ وسفید کا مالک رہنے کے بعدایک دن ان کا سی ۱۳۰ہرکولیس طیارہ بہاولپور کے قریب تباہ ہوا اور ایک آمر کی موت کو قوم نے ملے جلے انداز میں منایا۔
خیریہ ایک کہانی ختم ہوئی اور یہاں سے ہمارے موڈ سوئنگز کی رفتار تیز تر ہوتی گئی۔
نئے انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور الطاف حسین بالترتیب، مرکز، پنجاب اور کراچی میں ابھر کر سامنے آئے۔ قوم کو اس نوجوان قیادت سے بڑی امیدیں تھیں لیکن بہت جلد اس عشق کا بخار اتر گیا اور اس نوجوان قیادت نے اپنے سے پیشرو قیادتوں سے بڑھ کر مایوس کیا۔ پھر نواز شریف اور بے نظیر باری باری۔ ، باریاں لیتے رہے تو پھر ہمارے رکھوالوں کو خیال آیا کہ بھئی اب بہت ہوگیا اور عالی جناب سید پرویز مشرف منصئہ شہود پر نمودار ہوئے اور ماشاء اللہ آٹھ سال رج کے حکومت کی اور حسب معمول موقع فہم سیاستدانوں کا ایک گروہ انہیں دستیاب ہوگیا جنہوں نے انہیں نہ صرف " سید پرویز مشرف" کا خطاب دیا بلکہ انہیں دس بار وردی سمیت منتخب کرنے کی قسمیں کھائیں۔
پھر این آر آو۔ بے نظیر اور نواز شریف کی وطن واپسی اور بے نظیر کی ناگہانی شہادت کے نتیجے میں ایک اور نابغہ روزگار کا ظہور ہوا۔ جناب آصف علی زرداری کے ساتھ ہمارے موڈ سوئنگ کا معاملہ ملا جلا رہا۔
لیکن.اس سے پہلے ایک اور موڈ سوئنگ کا ذکر کرتا چلوں. مشرف دور میں جسٹس افتخار چوہدری کے حرف انکار کی گونج نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑلیا. عدلیہ بحالی تحریک میں ہمارا موڈ سوئنگ ہیجان کی بلندیوں کو چھونے لگا. اب ایک نئی مخلوق کا ظہور ہوا جو ' سول سوسائٹی ' کہلائی.
لیکن بہت جلد اس کا پانی بھی اتر گیا. جہاں ایک طرف قانون شناسوں یعنی وکلا نے اپنے زور بازو کے جوہر دکھائے تو دوسری جانب عدلیہ بھی طاقت کا مرکز بن کر ابھری. وہی عدلیہ جو کبھی آمر سے ٹکرائی تھی اب انتظامی امور میں دخیل ہوتی چلی گئی. اب منصف اعلی فریق بن کر مقدمات کے فیصلے کرنے لگے اور پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح بڑھکیں مارتے نظر آنے لگے.
خیر یہ ایک دوسرا ہی قصہ ہے.
۲۰۱۳ کے انتخابات تک بے نظیر کی شہادت کا سوگ ختم ہوگیا تھا اور اس بار پھر نوازشریف نے عنان حکومت سنبھالی لیکن اب ان کے سامنے عمران خان کی صورت میں ایک نیا چیلنج کھڑا تھا جس نے حکومت میں رہنے کا سارا مزہ کرکرا کردیا۔ پہلے دھاندلی کے خلاف دھرنے اور پھر پانامہ کیس کے نتیجے میں بالآخر نواز شریف کو پہلے نااہلی پھرجیل پھر انتخابات میں شکست ہوئی۔
اب قوم کے نوجوانوں کا رومانس کرکٹ کے ہیرو، شوکت خانم ہسپتال کے بانی اور کرپشن کے خلاف جہاد کے سالار کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ اب تک نئی حکومت نہیں بنی ہے اور دونوں جانب سے جو کچھ ہورہا ہے دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہمارے موڈ سوئنگز کی کیفیت بھی دگرگوں ہے۔ قوم بہت ہی دلفریب خوابوں کی سرشاری میں گم ہے، اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان خوابوں کی کیا تعبیر ملتی ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی کی دعا ہے کہ قوم کو اس کے خوابوں کی نیک تعبیر ملے، اس کی امیدیں مایوسی میں نہ بدلیں اور کسی فیض کو یہ نہ کہنا پڑے کہ
" وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں".
میں جنرل ایوب کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا لیکن تمہید اس قدر طویل ہوگئی کہ خود ایک کہانی بن گئی۔ مجبوراً مجھے کہانی کا عنوان ہی بدلنا پڑگیا۔ انشاء اللہ زندگی رہی تو جلد ہی ایوب خان سے ہمارے رومانس اور طلاق کا قصہ احباب، خصوصا نوجوان دوستوں کو سناؤں گا۔
ایک نئے ، خوشحال، پرامن اور مضبوط پاکستان کے لئے دعاؤں کے ساتھ۔۔۔اللہ حافظ و ناصر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔