کورنگی میں واقع وہ کوارٹر جو ایوب خان کے زمانے میں مہاجرین کو دئے گئے تھے۔ دو کمرے اور صحن کے ساتھ کچن باتھ روم ٹوائلٹ اور ایک چھوٹا سا اسٹور۔ باتھ روم اور ٹوائلٹ پر چھت نہیں ہوتی تھی۔ سرکاری لائن سے پانی وافر آتا تھا۔ جس میں کلورین کی تیز بو ہوتی تھی۔ باہر نکلو تو بڑے نالےکےپار کھلا میدان جس کے آخری سرے پر دور پاکستان آئل ریفانری کی چمنی سے دن رات شعلہ بھڑکتا نظر آتا تھا۔ سن 71 کی جنگ میں بھارتی طیاروں نے یہاں ریفائنری تباہ کرنے کے لئے خوب بمباری کی۔ لیکن دیکھئے خدا کا کرنا ایسا ہوا کے سارے بم کورنگی کی آبادی اور آئل ریفائنری کے درمیان موجود میدان میں گرے۔ دھماکوں کی شدت سے لوگ وقتی طور پر بہرے ہوگئے لیکن شکر خدا کا کہ نہ کوئ جانی نقصان ہوا اور نہ ریفائنری کو کوئ نقصان پہنچا۔
ان کوارٹرز کے سرمئی رنگ کے پینٹ شدہ لکڑی کے دروازے۔ کوارٹرز کے دونوں جانب چوڑی اور کھلی کھلی گلیاں۔ ایسی تیز ہوا سارا دن چلتی تھی کہ پنکھوں کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ سارا دن دروازے دھاڑ دھاڑ بجتے تھے۔ اس کے لئے ہر دروازے کے ساتھ ایک سیمنٹ کا بھاری بلاک رکھا جاتا تھا۔ ہر گھر کے صحن میں اور گلی میں پھولوں پودوں کی بہتات۔ کیلا، شریفہ، امرود، کٹھل، ناریل، آم، کے پتے سارا دن تیز ہوا میں لہراتے اور تالیاں بجاتے تھے۔ مضافاتی علاقہ ہونے کی وجہ سے مچھروں کی بہتات۔ جس کے لئے سر شام مغرب کے فورا” بعد چائنا کی مور یا ٹائگر مارکہ سبز جلیبی نما کوائل محلے کی چھوٹی موٹی دکان سے خرید کر ہر گھر میں جلادی جاتی تھی۔ جس کی عجیب سی مخصوص مہک ہر گھر میں رچ بس گئ تھی۔ گیس موجود نہ تھی۔ کھانا پکانا مٹی کے تیل کے چولہوں یا اسٹووز پر ہوتا تھا۔ شام مغرب کے بعد جب گھر گھر یہ چولہے جلتے اور ان پر پتیلی چڑھا کر کوئ دال سبزی بنائ جاتی اور پھر توے پر گندم کے پھلکے بنائے جاتے تو مٹی کے تیل کے چولہوں کی مخصوص بو کے ساتھ بگھاری پیاز، گوشت کے بھنتے مصالحے یا دال کے بگھار کے لئے فرائنگ پین میں تیل میں کڑکتے زیرے لال مرچ اور پیاز کی مہک کے ساتھ توے پر پکتی روٹی کی مہک مل جل کر ایک زندگی سے بھرپور احساس دلاتی تھیں۔
بہت چھٹپن کی یاد ہے کہ کورنگی ایک نمبر کے ایک پرانے کوارٹر میں ایک نئ فیملی آئ۔ مرد کی عمر کوئ پینتیس برس، شریف صورت، اکہرا جسم، خاتون خانہ برقع میں ملبوس سروقد، چھریرے جسم کی اور ساتھ ان کے دو سے دس برس تک کی عمر کے چار بچے۔ تین لڑکیاں ایک لڑکا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس دن یہ فیملی محلے میں آئ اس دن خاتون خانہ دو سال کے بچے کو گود میں اٹھائے دوسرے ہاتھ میں ایک کانچ کی شفاف بوتل میں ننھی سی چار پتوں والی منی پلانٹ سنبھالی ہوئ تھی۔ جس کوارٹر میں یہ آئے تھے وہ بالکل کھنڈر نما تھا کہ اس میں کسی گوالے نے اپنی چار بھینسوں کے ساتھ رہائش اختیار کررکھی تھی ۔ پورا کوارٹر ایک باڑے کی شکل اختیار کرچکا تھا جس میں چارے بھوسے کے ساتھ گوبر کی باس رچ بس چکی تھی۔ اس فیملی کے شفٹ ہونے کے بعد ایک ہی ماہ میں گھر کی شکل بدل گئ۔ ہر طرف سے صاف ستھرا۔ اب اس گھر سے چارے بھوسے کے بجائے دال کے بگھار اور گوشت کا مصالحہ بھننے کی خوشبو آنے لگی۔ لیکن اس خوشبو میں کچھ ایسا انوکھا پن ہوتا کہ پوری گلی مہک جاتی۔ بچے سستے گھٹیا کپڑے کے لباس میں ہوتے لیکن بہت صاف ستھرے اور تمیز دار۔ ان کے لباس سے موتیا کے عطر اور تبت پاؤڈر کی خوشبو آتی تھی۔ تین بچوں کا گورنمنٹ اسکول میں داخلہ کروادیا گیا۔ گھر کا مرد شاید کورنگی انڈسٹریل ایریا میں کسی کپڑا مل میں نوکری کرتا تھا۔ صبح گھر سے نکلتا تو شام ڈھلے آتا۔
ابھی چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ گھر کے صحن کے ساتھ موجود کمرے کی چھت پر منی پلانٹ چڑھتی نظر آئ جس نے کچھ ہی عرصے میں چھت اور دیوار کو ڈھانپ لیا۔ منظر ہی بدل گیا۔ بھینسوں کے باڑے کی جگہ سرسبز منی پلانٹ سے ڈھکی چھت عجب خوشگوار نظارہ دینے لگی۔ پھر رفتہ رفتہ اس گھر کے صحن سے کٹھل، شریفہ، امرود اور ناریل کے پیڑ سر ابھار کر دیواروں سے اونچے نکلنے لگے۔ رات کے وقت چنبیلی اور رات کی رانی کی مہک اس گھر سے نکل کر آس پاس کے گھروں کو مہکانے لگی۔ گھر کے بیرونی دروازے کے ساتھ ڈم ڈم کی باڑھ لگادی گئ ۔جس پر سارا دن ھیلی کاپٹر نما ٹڈے اڑتے پھرتے۔ ڈم ڈم کے ساتھ سفید اور پرپل سدا بہار کے پودوں کے ساتھ رنگ برنگی گل دوپہری کے پھول دھنک رنگ بکھیرنے لگے۔ جن پر رنگ برنگی تتلیاں منڈلاتیں۔ سرخ گلابی اور زرد بوگن ویلیا کی شاخیں گھر کی چھت تک پہنچ کر اس کو بھی رنگ برنگے پھولوں سے سجا دیتیں۔ سکھ چین کا درخت۔ چمپا کا پودا۔ منی پلانٹ کے گملے ، کوچیا بُش ، اریکا پام، اور نہ جانے کون کون سے خوبصورت آرائشی پودے جن کو اس گھر کی خاتون خانہ نے ہزار دقتوں اور مشکلات کے باوجود سینچا تھا۔ پرندوں اور درخت سبزے کا تو ہمیشہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ صبح صبح گلگُچیاں چہکتیں تو دوپہر میں چڑیاں اور بلبلیں چہچہاتیں۔ کوے کٹھل کی سب سے اونچی پھننگ پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرتے۔ وہی دو کمروں کا کوارٹر ان ہرے بھرے پودوں سے لدا پھندا لٹل ریڈ رائڈنگ ھُڈ کی ھٹ جیسا خوبصورت لگنے لگا۔ وقت گزرتا گیا ۔ اس دوران اس گھرانے میں ایک نئے بچے کی آمد بھی ہوگئ۔ ابھی اس گھر کی سرسبزی اور شادابی میں اضافہ جاری تھا کہ بھٹو حکومت نے صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کردیا۔ مل مالکان بیرون ملک چلے گئے۔ شروع کے کچھ دن اس گھر کے مرد کی ملازمت جاری رہی اور پھر مل بند ہوگئ۔ مرد بیروزگار ہوگیا۔ ادھر ادھر ہاتھ مارے لیکن مِلیں اور کارخانے دھڑا دھڑ بند ہورہے تھے۔ ایک میڈیکل اسٹور میں سیلز مین کی جاب مل گئ۔ لیکن زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قرض ادھار پر نوبت آگئ۔ اب اس گھر سے دال کے بگھار اور گوشت کا مصالحہ بھننے کی خوشبو آنا بند ہوگئ تھی۔
دو سال سے قرض پر گزارا کرتے کرتے رفتہ رفتہ قرض اتنا چڑھ گیا کہ قرض خواہ گھر پر تقاضے کو آنے لگے۔ یہ قرض خواہوں سے مختلف حیلوں بہانوں سے مزید مہلت مانگتے یا پھر چھپتے پھرتے۔ اور پھر نوبت یہ آگئ کہ یہ سارا دن گھر سے باہر رہتے کام تلاش کرتے اور رات گئے منہ لپیٹے قرض خواہوں سے چھپتے گھر آکر پڑ جاتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ یہ رات گئے منہ لپیٹے گھر آرہے تھے۔ جانے کہاں سے چھ تنوری نان ایک اخبار میں لپیٹے اور ایک نہاری کی تھیلی ھاتھ میں قیمتی متاع کی طرح دبی تھی کہ ایک قرض خواہ نے ان کو پہچان کر دھر لیا۔ سخت بے عزت کرنے لگا۔ یہ اس سے یہی کہتے رہے کہ بخدا ہم آپ کا قرض بالکل چکائیں گے لیکن ابھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ جب قرض خواہ زیادہ ذلیل کرنے لگا تو اپنی پھٹی ٹوٹی جوتی اتار کر اس کے ھاتھ میں دی اور خود سر جھکا کر اس کے سامنے بیٹھ گئے کہ لیجئے مار لیجئے۔ اگر اس طرح آپ کا قرض اداہوجائے اور آپ کو تسکین ہوجائے تو یہ بھی کرلیجئے۔ قرض خواہ جوتی پٹخ کر بکتا جھکتا چلا گیا۔
اب گھر میں فاقے ہونے لگے۔ایسے میں ان کے کسی دوست نے جو اس زمانے میں ھاوس بلڈنگ فائنانس کارپوریشن میں ملازم تھے مشورہ دیا کہ تم اپنے گھر کی نئ تعمیر کے بہانے بینک سے قرضہ لے لو۔ جب قرضے کی رقم ملے تو اس سے قرضہ اتارنا اور باقی سے کوئ چھوٹا موٹا کام شروع کردینا۔
بہرحال دوست کی مدد سے قرضہ پاس ہوگیا۔ مکان کے کاغذات بینک کو گروی رکھوا کر بینک نے قرضے کی پہلی قسط جاری کردی۔ لیکن بینک بھی بڑا کائیاں تھا، بینک نے شرط لگائ کہ اس پہلی قسط سے مکان کی بنیاد ڈلوائیے۔ جب بنیاد ڈل جائے تو بینک کا سرویئر چیک کرنے آئے گا۔ اگر کام دی گئ رقم کے مطابق ہوا تو دوسری قسط جاری کر دی جائے گی۔ اب یہ پھنس گئے۔ خیر جیسے تیسے کر کے گھر کے پچھلے کمرے میں سارا سامان اور بچے خاتون خانہ کو شفٹ کرکے باقی پورے گھر کو گرا کر کھدائ کرکے بینک کو دکھانے کے واسطے مکان کی بنیاد ڈالی۔ سارے ہرے بھرے پودے بیلیں پھول سب ملیا میٹ ہوگئے۔ پہلے اس گھر سے بگھار اور بھنتے مصالحے کی خوشبو آنا بند ہوئ تھی لیکن اب رات کی رانی اور چنبیلی کی مہک آنا بھی بند ہوگئ۔
آدھی سے زیادہ رقم کچھ قرض نبٹانے اور کچھ گھر کے خرچوں میں نکل گئ۔ جیسے تیسے گھر کے دروازے پر چار پلرز کھڑے کرکے اس میں سرئے باہر نکال دئے۔ لینٹر کی بنیاد بنوا کر اس میں روڑی پتھر بھر دئے۔ اب یہ ایک کھنڈر نما زیر تعمیر مکان بن گیا تھا جس کی منی پلانٹ سے ڈھکی سرسبز چھت کی جگہ بدنما لینٹر کے پلرز اور لوہے کے سرئے کھڑے نظر آتے تھے۔ اس کھنڈر کے آخری حصے کے ایک کمرے میں سات نفوس رہائش پذیر تھے۔ بے پردگی سے بچنے کے لئے پلرز کے فولادی سریوں پر ٹاٹ اور ترپال لٹکا دی گئ۔ اب جب بینک کا سروئیر سروے کرنے آیا تو اس نے صفائ سے کہہ دیا کہ یہ تو تعمیر کے نام پر لیپا پوتی کی گئ ہے۔ آپ کو دوسری قسط تو نہیں ملے گی۔
انہوں نے بڑی منت سماجت کی تو وہ مطلب کی بات پر آیا اور کچھ رشوت طلب کی۔ باقی کی بچی کھچی رقم تھی وہ رشوت کی مد میں دے دی۔ اب نہ تو گھر ہی بن رہا تھا۔ نہ قرضہ مکمل ادا ہوا تھا اور بنا بنایا گھر بھی ختم ہوگیا تھا۔ جب بینک نے دوسری قسط جاری کی تو اس مرتبہ قرضخواہ پہلے سے زیادہ برہم اور طیش میں تھے کہ ہمارا قرض نہیں چکاتا لیکن مکان بنوا رہا ہے۔ بات گالم گلوچ اور گریبان پکڑنے تک آگئ۔ جب گھر کے دروازے پر ایسا ہوتا تو ٹاٹ کے پردے کے پیچھے سے ایک نازک نسوانی ہاتھ اور ڈری سہمی چیخ کے ساتھ ایک خاتون کی روتی ہوئ آواز آتی کہ اللہ! آپ انہیں کچھ نہ کہئے۔ ہم آپ کی پائ پائ ادا کردیں گے۔ آپ کو اللہ رسول کا واسطہ، آپ کو پنجتن کا واسطہ۔ ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ ہمارا اعتبار کیجئے۔ اور پھر یہی ہوا۔ اس بار کی قسط کی رقم تقریبا” ساری قرض خواہوں کا قرض چکانے میں چلی گئ۔ یہ پھر سے ٹھن ٹھن گوپال۔۔۔۔۔ اسی طرح دو سال بیت گئے۔ سریوں پر پڑی ٹاٹ اور ترپال لیرا لیرا ہوگئے جیسے اس گھر کے مکینوں کی غربت و لاچاری کا تمثیلی منظر پیش کررہے ہوں۔
بینک نے قرضے کی تیسری قسط منظور نہیں کی۔ بلکہ اب تو بینک کی طرف سے قرض شدہ رقم کی اقساط کی ادائیگی کے نوٹس بھی ملنے لگے۔ قرض ادا کرو ورنہ بینک قرقی کردے گا۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ان کو بینک کی طرف سے مکان خالی کرنے کا نوٹس مل گیا۔ ایک دن یہ فیملی جس طرح اس محلے میں آئ تھی ویسے ہی چلی گئ۔ سنا تھا کہ کسی کچی بستی میں ایک کمرے کا مکان جیسے تیسے کرائے پر لیا ہے۔
ھاں ایک بات یاد آئ ، جس دن وہ لوگ محلے سے گھر چھوڑ کر جارہے تھے تو برقع پوش خاتون خانہ نے چار سال کے سوتے چھوٹے بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا اور ان کے برقعے میں چھپے ھاتھ میں ایک کانچ کی شفاف بوتل دبی تھی جس میں ایک چھوٹی سی منی پلانٹ کے چار پتے لہرا رہے تھے۔ 🌿
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...