ملا کا مذہب تو آپ یقیناً پہلے سے دیکھتے آئے ہیں جس نے دین اسلام کو ایم کیو ایم جیسی دہشتگرد جماعت بنا رکھا ھے کہ جو چھوڑے ٹھوک دو۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اصلی اسلام کیا ھے اور قرآن اس باب میں کیا کہتا ھے۔
موضوع کی طوالت اور الفاظ کی کمی کے باعث کوشش یہی ھے کہ قرآنی آیات کے ساتھ جتنا مختصر ھو سکے اتنا ھی لکھوں۔
انسانی اختیار و ارادہ :-
جہاں تک ضابطہ زندگی کا تعلق ھے انسان کو بھی اسی طرح قانون ہدایت دے دیا گیا جس طرح دیگر اشیائے کائنات کو لیکن ساتھ ھی انسان کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ چاھے تو قرآن کے مطابق زندگی بسر کرے اور چاھے تو اسے چھوڑ کر کوئی اور سسٹم اپنا لے۔ آدم یعنی انسان کو زمین سے اگانے کے ساتھ ھی یہ کہہ دیا گیا کہ
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّىْ هُدًى فَمَنْ تَبِــعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ (2/38)
جب میری طرف سے تمہارے پاس ضابطہ ہدایت آئے تو جو اس قانون کا اتباع کرے گا اسے نہ خوف ہوگا نہ حزن۔
اس کے برعکس :-
وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَآ اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (2/39)
اور جو لوگ اس ضابطہ ہدایت کا انکار کریں گے انکا ٹھکانہ جہنم ہوگا جس میں وہ رہیں گے ( پاکستان بہترین مثال ہے)
یہ دونوں راہیں بلکل واضح ہیں۔ اس کے بعد انسان پہ کوئی جبر نہیں کہ وہ کونسا سسٹم اختیار کرے وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (90/10) اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھائے۔ فَجَعَلْنَاهُ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا (76/2) ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا. اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ (76/3) اسے راستہ دکھا دیا۔ اس کے بعد اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا (76/3) وہ چاھے تو اسے اختیار کر لے چاھے اس کا انکار کر دے۔
اس باب میں کوئی زبردستی نہیں۔ جور و استبداد نہیں۔ جبر نہیں۔ انسان کو یہ پورا پورا اختیار حاصل ھے کہ وہ قرآنی نظام کے تحت زندگی گذارنا چاہتا ہے یا کفر یعنی غیر قرآنی سسٹم کے تحت۔ قرآن کا واضح اور غیر مبہم فیصلہ ھے۔ وہ کہتا ھے
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْـفُرْ (18/28)
ان سے کہہ دو کہ تمہارے رب کی طرف سے حق آگیا اب جس کا جی چاھے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاھے انکار کر دے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ سے کہہ دیا کہ تو اگر یہ چاہتا ھے کہ تمام لوگ زبردستی مسلمان بنا دئیے جائیں تو یہ چیز قانون خداوندی کے خلاف ھے۔ اگر یہی مطلوب ہوتا تو وہ انسان کو اختیار و ارادہ عطا ھی نہ کرتا
وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِى الْاَرْضِ كُلُّهُـمْ جَـمِيْعًا ۚ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّـٰى يَكُـوْنُـوْا مُؤْمِنِيْنَ (10/99)
اور اگر تیرا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے، پھر کیا تو لوگوں پر زبردستی کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں ؟؟
کفر و ایمان میں قطعاً زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ کسی صورت میں بھی نہیں۔ اسلام میں جور و استبداد ھے ھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں عطا کردیں اور باہر سورج کی روشنی پھیلا دی۔ اب جس کا جی چاھے آنکھیں کھلی رکھ کر دیکھ بھال کر چلے اور جس کا جی چاھے آنکھیں بند کرکے کنویں میں گر جائے
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ عَمِىَ فَعَلَيْـهَا ۚ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ (6/104)
تحقیق تمہارے ہاں تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں آ چکی ہیں، پھر جس نے دیکھ لیا تو خود ہی نفع اٹھایا اور جو اندھا رہا سو اپنا نقصان کیا اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔
اس سے زرا آگے چل کر فرمایا
وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَآ اَشْرَكُوْا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْـهِـمْ حَفِيْظًا ۖ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْـهِـمْ بِوَكِيْلٍ (6/107)
اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے، اور ہم نے تجھے ان پر نگہبان نہیں بنایا اور نہ تو انکا وکیل ھے۔
معجزات کا انکار:-
ظلم و جبر تو بہت دور کی بات قرآن معجزات کا انکار کرتے ہوئے کہتا ھے کہ ہر بات دلیل و برہان اور بصیرت و فراست کی رو سے تسلیم کروائی جائے گی۔ چنانچہ رسول اللہ ص سے ارشاد ھے
لَعَلَّكَ بَاخِـعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُـوْنُـوْا مُؤْمِنِيْنَ (26/3)
شاید تو اپنی جان ہلاک کرنے والا ہے اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْـهِـمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُـهُـمْ لَـهَا خَاضِعِيْنَ (26/4)
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانی نازل کریں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔
لیکن یہ ذہنی جبر ہوتا اسی لیے نبی کریم ص کو کوئی حسی معجزہ عطا نہیں ہوا۔ ہر بات بغیرت کی بنیاد پہ ھوگی
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِـىٓ اَدْعُوٓا اِلَى اللّـٰهِ ۚ عَلٰى بَصِيْـرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ ۖ وَسُبْحَانَ اللّـٰهِ وَمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (12/108)
کہہ دو یہ راستہ ہے میرا اور میرے تابعداروں کا کہ میں لوگوں کو بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلا رہا ہوں۔
قرآن کفر و ایمان کے معاملے میں طبعی قوت یعنی استبداد کے استعمال کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دیتا ھے۔ چنانچہ فرعون کے خلاف جو فرد جرم اس نے مرتب کی ھے اس میں واضح طور پر بتا دیا ھے کہ وہ کفر و ایمان کے معاملے میں جبر و استبداد سے کام لیتا تھا۔ یہ فرد جرم قوم شعیب پہ بھی عائد کی۔
قرآن نے امم سابقہ کی فہرست جرائم میں اس جرم کو نمایاں حیثیت دے کر واضح کر دیا کہ کفر و ایمان کے معاملے میں جور و استبداد انسانیت کے خلاف بدترین جرم ھے۔ انسان کے اختیار و ارادہ کو سلب کر لینا اللہ کے خلاف کھلی بغاوت ھے۔ اس باب میں یہاں تک تاکید کر دی کہ
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّـٰى يَسْـمَعَ كَلَامَ اللّـٰهِ ثُـمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهُ ۚ ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ (9/6)
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ بے سمجھ ہیں۔
حتی کہ جو لوگ مسلمانوں کی فتوحات سے متاثر ہو کر جماعت میں شامل ہوئے انہیں بھی کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ اپنے آپ کو مومن مت کہو يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ (49/14) اس لیے کہ ہنوز ایمان تمہارے قلوب میں داخل ھی نہیں ہوا۔
کفر ہو یا ایمان اس کا تعلق اطمینان قلب سے ھے۔ یہ اقرا جب تک تحقیق و دلائل کے نتیجے میں دماغ سے نہیں پھوٹتا اقرار کہلا ھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ھے کہ ان سے کہدیا کہ اگر کسی شخص سے زبردستی کفر کا اقرار کروا لیا جائے جبکہ اسکا ذہن ایمان پہ مطمئن ہو تو اس قسم کا اقرار اسے کافر نہیں بنا دیتا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٝ مُطْمَئِنٌّ (16/106)
لہذا قرآن نے واضح طور پر بتا دیا کہ لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ ۖ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (2/256) دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔
اگر کفر و ایمان کے بارے میں قرآن میں صرف وھی آیات ہوتیں جنہیں میں اوپر درج کر چکا ہوں زیر نظر مسلہ سمجھنے کے لیے کافی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ دین میں ملاوٹ (زانی) اور انکی ہم خیال جماعتوں (الزانیہ) جیسے فتنے اٹھیں گےاس لیے اس نے اس مسلے کو یہی نہیں چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہو جانے والوں کے متعلق بھی ایک نہیں متعدد مقامات پر صراحت سے ذکر کر دیا۔ مولوی اس موضوع پر غیر قرآنی خرافات بکتے ہوئے ان مقامات کو چھوتے تک نہیں اس لیے کہ لَايَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ جنکی دماغ عجمیت کی کثافتوں سے آلودہ ہو چکے ہوں وہ قرآن کو کس طرح چھو سکتے ہیں۔
سورۃ آل عمران میں ھے
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْـرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُۚ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (3/85)
اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین چاہے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ مستقبل میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
یہ تو ہوئے وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو بطور نظام حیات قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر ھے جو اسلام لانے کے بعد پھر کفر اختیار کر گئے
كَيْفَ يَـهْدِى اللّـٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِـهِـمْ وَشَهِدُوٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُـمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (3/86)
اللہ ایسے لوگوں کو کیونکر راہ دکھائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور گواہی دے چکے ہیں کہ بے شک یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں آئی ہیں، اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا.
اُولٰٓئِكَ جَزَآؤُهُـمْ اَنَّ عَلَيْـهِـمْ لَعْنَـةَ اللّـٰهِ وَالْمَلَآئِكَـةِ وَالنَّاسِ اَجْـمَعِيْنَ (3/87)
ایسے لوگوں کی یہ سزا ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔(۔ لعنت کا مطلب ھے محروم کرنا یہاں اللہ سمیت اسکی مخلوق کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ھے کہ سورۃ حج آیت 41 کی روشنی میں انہیں تمام سامان نشوونما جو کہ ریاست کی زمہ داری ھے سے محروم کر دیا جائے کہ جناب اب مومنین آپکی زمہ داری سے بری ہوئے جائیے جہاں آپکو تمام سامان نشوونما مفت ملتا ہے چلے جائیے ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں)
خَالِـدِيْنَ فِـيْهَاۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْـهُـمُ الْعَذَابُ وَلَا هُـمْ يُنْظَرُوْنَ (3/88)
اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، ان سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ وہ مہلت دیے جائیں گے۔
اِلَّا الَّـذِيْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْاۖ فَاِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (3/89)
مگر جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اعمال صالح کیے تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( یعنی اگر مرتد توبہ کر لے تو اسکا سٹیٹس بحال کر دیا جائے اور ریاست اس کے حقوق سے متعلق تمام ضروریات کا از سر نو زمہ لے اور فراہم کرے)
یہ ھے ان لوگوں کا ذکر جو اسلام لانے کے بعد پھر غیر قرآنی سسٹم اختیار کر لیں۔ غور سے پڑھیں کہیں نہیں لکھا کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ انکے متعلق صرف اتنا لکھا ھے کہ ان تمام برکات و ثمرات سے محروم کر دئیے جائیں گے جو مومنین کو حاصل ہیں۔
اگلی آیات میں ایسے لوگوں کے طبعی موت مر جانے کا ذکر ھے
اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِـهِـمْ ثُـمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْۚ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الضَّآلُّوْنَ (3/90)
بے شک جو لوگ ایمان لانے کے بعد منکر ہو گئے پھر انکار میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اور وہی گمراہ ہیں
اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَهُـمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِـمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ ۗ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِـيْـمٌ وَّّمَا لَـهُـمْ مِّنْ نَّاصِرِيْنَ (3/91)
بے شک جو لوگ کافر ہوئے اور کفر کی حالت میں مر گئے تو کسی ایسے سے زمین بھر کر سونا بھی قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اس قدر سونا بدلے میں دے، ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
دیکھئے ! یہاں انکے طبعی موت مرنے کا ذکر صاف طور پر موجود ھے۔ اگر مرتد کی سزا موت ھوتی تو نہ تو انکے کفر میں بڑھتے جانے کا ذکر ہوتا اور نہ ھی یہ لکھا ہوتا کہ وہ بحالت کفر مر جائیں گے۔ اب اور آگے بڑھئے
اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا ثُـمَّ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا ثُـمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّـٰهُ لِيَغْفِرَ لَـهُـمْ وَلَا لِيَـهْدِيَـهُـمْ سَبِيْلًا (4/137)
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے رہے تو اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا۔
یعنی یہاں صرف ایک بار مرتد ھو جانے کا ذکر نہیں دو بار ارتداد کا ذکر ھے۔ اسلام لائے پھر مرتد ہوگئے پھر اسلام قبول کیا پھر مرتد ہوگئے اور اس کے بعد اسلام نہیں لائے بلکہ کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ آپ نے غور کیا کہ قرآن کی رو سے اسلام اور کفر کے دروازے کس طرح آمد و رفت کے کھلے رہتے ہیں۔ یہ اللہ کا فیصلہ ھے لیکن اس کے برعکس مودودی جیسے مولویوں کا فرمان ہے کہ جو اسلام چھوڑے اسے قتل کر دو۔
ایک اور آیت دیکھئے جس میں ارتداد کا خصوصی ذکر ھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِى اللّـٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّـهُـمْ وَيُحِبُّوْنَهٝ ۙ اَذِلَّـةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِـرِيْنَۖ يُجَاهِدُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِـمٍ ۚ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ وَاسِـعٌ عَلِيْـمٌ (54)
اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے مرتد ہو جائے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم کو لائے گا کہ جن کو اللہ چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں، مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست، اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔
اوپر لکھی تو دوبارہ غور پڑھیں کہ بات کس قدر صاف ھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کوئی مرتد ہو جائے تو اسے جانے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس آیت میں کہیں نہیں لکھا کہ مرتد کو قتل کر دو
اور آخر میں دو آیات لکھنا مناسب سمجھتا ھوں
مَّنْ يُّطِــعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّـٰهَ ۖ وَمَنْ تَوَلّـٰى فَمَآ اَرْسَلْنَاكَ عَلَيْـهِـمْ حَفِيْظًا (4/80)
جس نے رسول کا حکم مانا اس نے اللہ کا حکم مانا، اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
جو ما انزل اللہ یعنی قرآن کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں ظالم ہیں فاسق ہیں المائدہ آیت 44 45 47
وما علینا الا البلاغ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...