ہندوستان میں ان دنوں آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے۔اس اتسو کو منانے کا خاص مقصد آزادی کے ان جانبازوں کو یاد کرنا ہے جنھوں نے دامے درمے قدمے سخنے کسی بھی صورت ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ان دنوں قوم کی تعلیمی ابتری کی جانب بھی دانشوروں کی نگاہ گئی اور انھیں محسوس ہوا کہ تعلیم حاصل کئے بغیر زمانے کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا ۔اس لئے ان لوگوں نے ابنائے قوم کے درمیان تعلیم کے انتشار کو اپنا مقصد بنایا اور مختلف صورتوں میں اس میدان میں اپنی شراکت درج کرائی۔قوم و ملت کی بہبود کی خاطر فکر مند ایک نام مولوی سمیع اللہ خان کا ہے جنھوں نے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی بنیادی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے شہر الٰہ آباد میں ایک ہاسٹل قائم کیا جسے ہم مسلم بورڈنگ ہائوس کے نام سے جانتے ہیں۔تعلیمی میدان میں مولوی سمیع اللہ خان کا یہ ایک منفرد کارنامہ ہے جسے سنہری حروف میں لکھا جانا چاہئے۔
مسلم بورڈنگ ہائوس الہ آباد یونیورسٹی کا ایک ہاسٹل ہے جو عموماًایم بی ہائوس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس کا قیام ۱۸۹۲ء میں عمل میں آیااور جنگ بہادر مولوی سمیع اللہ خان ، سب جج علی گڑھ اس کے بانی ہیں۔ یوں تو الٰہ آباد یونیورسٹی نے ایک اسپیشل ایکٹ کے تحت ۱۹۲۱ء سے آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کیا مگر یہاں تک پہنچنے کے لئے اسے تقریباً نصف صدی کا سفر طے کرنا پڑا۔ شہر الٰہ آباد کو انگریزوں کے وقت میں مرکزی حیثیت حاصل رہی لہٰذا انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے یہاںاسکول قائم کر لئے تھے۔بوایز ہائی اسکول ۱۸۶۴ء میں اور سینٹ جوزف اسکول ۱۸۸۴ء میں شروع کئے جا چکے تھے۔ میورآباد نام سے ایک بستی بسا دی گئی تھی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کا مسئلہ درپیش تھا۔محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ، علی گڑھ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔کلکتہ ،بامبے اور مدراس یونیورسٹیز اپنے وجود کا لوہا منوا رہی تھیں۔پنجاب یونیورسٹی اور اس کے اورینٹل ڈپارٹمنٹ کا شہرہ چاروں طرف تھا۔ایک بڑی دقت جو سامنے تھی وہ یہ تھی کہ کلکتہ اور پنجاب کے درمیان لمبا فاصلہ تھا اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز کا فقدان تھا۔ مشہور مؤرخ آوریل پاول کے مطابق سر سید احمد خاں اور لفٹننٹ گورنر سر ولیم میور کے درمیان اس سلسلے میں تبادلئہ خیال ہواجس کے مدّ نظر سر ولیم میور ( ۲۷ اپریل۱۸۱۹ء تا ۱۱ جولائی ۱۹۰۵ء ، لفٹننٹ گورنر، نارتھ وسٹ پراونس) نے ۱۸۷۲ء میں ایک سنٹرل کالج کی شروعات کی جو بعد میں میور سنٹرل کالج کہلایا۔ جولائی ۱۸۷۲ء میں اس کا پہلا سیشن انڈین پریس کی بلڈنگ میں شروع ہوا۔مولوی ذکاء اللہ کا تقرر ورناکیولر سائنس اور لٹریچر کے پروفیسر کی حیثیت سے ہوا جو عربی فارسی اور ریاضی پڑھاتے تھے۔ پنڈت آدتیہ رام بھٹاچاریہ سنسکرت اور مسٹر ڈبلیو ایچ رائٹ انگلش کے پروفیسر بنائے گئے۔ ۱۸۸۰ء تک اس کالج نے شمالی ہندوستان کے سب سے اچھے ادارے کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔ولیم میور نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی تھی۔ مولوی سمیع اللہ سے بھی ان کے مراسم تھے جو بعد میں مسلم بورڈنگ ہائوس کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔
انیسویں صدی اپنے آغاز سے ہی مسلمانوں کے لئے مذہبی ،فکری اور قومی سطح پر انتہائی کشمکش کی صدی رہی۔سیاسی تنزل بھی پوری طرح اسی صدی میں رونما ہوا۔ مگر ابتری کی انتہا سے ہی بہتری کی ابتدا بھی ہوئی۔ شیخ محمد اکرا م مؤ لف موج کوثر کے مطابق مذہبی احیاء، سیاسی ارتقاء، ملی نشو ونما اور معاشرتی اصلاح کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ انتہائی نامساعد حالات میں تعمیری کام ہوئے۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ندوۃ العلماء، دارالمصنفین جیسے اداروں کا قائم ہونااس کی مثال ہے۔شاہ ولی اللہؒ ایک فکر لے کر نمودار ہوئے تو اقبال نے ان کی فکر کو آگے بڑھایا۔در اصل ساری کشمکش قدیم و جدید رویوں کو لے کر تھی ۔ جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ معتدل فکر و نظر اپنایا جاتا ۔ مغربی تمدن کی تمام خوبیاں اسلام کی خالص روح کو نقصان پہنچائے بغیر اپنائی جا سکتی تھیں۔ اپنے ماضی سے جڑ کر کشادہ ذہنی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کی جا سکتی تھیں۔ مسلمانوں کی پریشانی اقتصادی تو تھی ہی ساتھ ہی ذہنی پستی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔اس پر طرہ یہ کہ اب ان کے اظہار کا محکم وسیلہ یعنی ان کی زبان بھی کمزور پڑ گئی تھی۔ اب تک ان کی ادبی زبان فارسی تھی لیکن اس کا مستقبل تاریک ہو چکا تھا۔اردو میں شعر تو کہے جا رہے تھے مگر نثر کی سطح پر زبان مستحکم نہیں ہوئی تھی۔اس میں علمی مسائل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں آئی تھی۔ یہ مسئلہ سنگین تھا ۔ معاملات انگریزوں سے تھے۔ ان کی زبان کو سیکھے بغیر ان کی منشاء کو جاننا دشوار تھا۔ مگر مسلمان دشمن کی زبان سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے۔ جس کی جانب توجہ دینا ضروری تھا۔ وقت کا تقاضہ تھا کہ وہ انگریزی سیکھتے ساتھ ہی اپنی زبان کی حفاظت بھی کرتے۔اس کے پیش نظرسر سید کی علی گڑھ تحریک نہ فقط مسلمانوں کی تعلیمی اصلاح کا زمانہ ہے بلکہ اردو زبان و ادب کے ارتقاء کا بھی شاندار عہد ہے۔ حالی ،شبلی، نذیر احمد اور سر سید اس تحریک کے روح رواں رہے۔ سر سید نے ملازمت کی ابتدا صدر امین کے طور پر کی ۔۱۸۴۱ء میں منصفی کا امتحان پاس کیا اور پھر بحیثیت منصف ان کا تقرر دہلی ، بجنور، مرادآباد، غازی پور، علی گڑھ اور بنارس ہوا۔ آپ جہاں بھی رہے تصنیف اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اشاعت تعلیم میں مشغول رہے۔ سب سے پہلے ۱۸۵۹ء میںمرادآباد میں فارسی مدرسہ قائم کیا۔جب غازی پور پہنچے تو ۱۸۶۴ء میں ایسے اسکول کی بناء ڈالی جہاں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ قیام غازی پور کے دوران ہی آپ نے ۱۸۶۳ء میںسائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس کا اولین مقصد مغربی علوم کو ہندوستانیوں میں رائج کرنا تھا۔ ڈیوک آف آرگائل جو ممالک شمال مغربی اور پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر اور نائب مربی تھے، وہ اس سوسائٹی کے مربی بنائے گئے۔ سر سید کا تبادلہ جب علی گڑھ ہو گیا تو وہاں اس سوسائٹی کے زیر اہتمام مختلف علمی مضامین پر تقریریں ہوا کرتی تھیں۔اس کے تحت کئی انگریزی کتابوں کے اردو میں ترجمے بھی ہوئے۔ایک اخبار جاری کیا گیاجس کا ایک کالم انگریزی اور ایک اردو میں ہوتا تھا۔ اخبار کا بیشتر حصہ ہندو مسلم دونوں کی معاشرتی اصلاح پر مبنی ہوتا تھا۔جب تک سر سید علی گڑھ میں رہے ، اخبار اور سوسائٹی کا انتظام ان کے ہاتھ رہا۔۱۸۶۷ء میں ان کا تبادلہ بنارس ہو گیا۔اب راجہ جے کشن داس نے اخبار اور سوسائٹی کی ذمہ داری سنبھالی۔ بنارس کے قیام کے دوران بھی سر سید کی دلچسپی سوسائٹی اور اخبار سے برقرار رہی۔ اب تک سر سید نے اشاعت تعلیم کے لئے جو بھی کوششیں کی تھیں،ان سے ہندو مسلمان سب مستفید ہو رہے تھے۔ خواہ وہ مرادآباد کا مدرسہ ہو، غازی پور اسکول یا پھر اخبار یا سائنٹیفک سوسائٹی، سب میں ابنائے وطن برابر کے شریک تھے۔ مگر سر سید کے قیام بنارس کے دوران چند ایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے نہ فقط سر سید کے زاویہ نگاہ کو بدلا بلکہ پورے ملک اور بالخصوص مسلمانوں کی فکر پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا۔ ۱۸۶۷ء میں بنارس کے کچھ سر بر آوردہ ہندوئوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اردو کو موقوف کرانے کی کوشش کی جائے اور بھاشا دیوناگری خط میں متعارف کرائی جائے۔ یہاں سر سید ایک نئی حقیقت سے آشنا ہوئے۔۱یک اپریل ۱۸۶۹ء کو سرسید انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں سے وہ اکتوبر ۱۸۷۰ء میں بنارس لوٹے۔ انگلستان کے قیام کے دوران انھوں نے انگریزوں کی خوبیوں اور ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کیا۔وہاں سے لوٹ کر انھوں نے تہذیب الاخلاق کا خاکہ بنایا اور اس کا پہلا شمارہ ۲۴ دسمبر ۱۸۷۴ء کو جاری ہوا۔اس رسالے کی بدولت اردو کو بہت فروغ ملا۔ جولائی ۱۸۷۶ء میں سر سید ملازمت سے سبکدوش ہو کر علی گڑھ لوٹے ۔ اس وقت مولوی سمیع اللہ پوری لگن کے ساتھ ایم اے او کالج کا ابتدائی مدرسہ چلا رہے تھے۔ چنانچہ سر ولیم میور نے ۲۴ مئی ۱۸۷۵ء کو اسکول کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ مولوی سمیع اللہ خان سب آرڈینیٹ جج نے دل و جان سے اس اسکول کے لئے محنت کی ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں جو نمایاں ترقی اس اسکول نے کی وہ بہت حد تک انھی کی وجہ سے ہے۔ولیم میور نے اس اسکول کی مالی اعانت بھی کی۔
مولوی سمیع اللہ خان منشی محمد عزیز اللہ خان کے صاحبزادے تھے ۔ اس خاندان کا شمار دہلی کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ آپ نے مولانا مملوک علی نانوتوی اور دہلی کے دیگر علماء کبار سے تعلیم حاصل کی ۔ سر سید ، مولانا محمد قاسم اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی انھیں اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ ۱۸۵۸ء میں آپ منصف مقرر ہوئے اور ۱۸۷۳ء میں آپ سب جج ہوئے۔ اسی دوران آپ نے اینگلو اورینٹل اسکول کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ۱۸۸۴ء میں لارڈ نارتھ بروک ایک مشن لے کر مصر گئے تو آپ بطور مشیر اور عربی دان ساتھ گئے۔ وہاں سے واپسی پر آپ کو خطاب سے نوازا گیا۔اس کے بعد آپ ڈسٹرکٹ جج اور پھر سیشن جج ہوئے۔ نومبر ۱۸۹۲ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ۱۹۰۱ء میں حج کیا ۔ سات اپریل ۱۹۰۸ء کو بمقام علی گڑھ انتقال کیا اور دہلی کے اطراف میں دفن ہوئے۔
مولوی سمیع اللہ نے عمر کا ایک بڑا حصہ سر سید کی معیت میں گذارا مگر یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ سر سید کی ہر بات سے اتفاق کرتے ہوں۔ مثلاً جب سر سید نے الفنسٹن کی کتاب تاریخ ہند کا ترجمہ کیا تو حضور ﷺ کی شان میں جو گستاخانہ لفظ الفنسٹن نے استعمال کیا تھا، وہی لفظ سر سید نے استعمال کر دیا ۔ اس پر مولوی سمیع اللہ نے شدید اعتراض کیا۔ دوسرا موقعہ تب آیا جب علی گڑھ کالج کا انتظام بورڈ آف ٹرسٹیز کے ہاتھوں میں جانا تھا۔ ابھی تک کالج کا انتظام مینیجنگ کمیٹی کرتی تھی۔ جس کے سکریٹری سر سید تھے۔ ۱۸۸۹ء سر سید نے ایک ٹرسٹی بل کی تجویز رکھی۔اس بل کی ایک دفعہ یہ تھی کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکریٹری سر سید ہوں اور جوائنٹ سیکریٹری ان کے صاحبزادے سید محمود ہوں، تاکہ سر سید کے بعد وہ سیکریٹری ہو سکیں۔ مولوی سمیع اللہ خان نے اس دفعہ کی مخالفت کی کیونکہ سر سید کی غیر موجودگی میں انھوں نے بڑی جاں فشانی سے اس ادارے کو چلایا تھا دوسرے سید محمود سے زیادہ تر لوگ ناخوش تھے۔ ان سب کے باوجود جب بل پاس ہو گیا تو سمیع اللہ خان رنجیدہ خاطر ہوئے۔ قوم کی حالت ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ اسی اثنا ایک منفرد خیال ان کے ذہن میں انگڑائی لینے لگا اور وہ الٰہ آباد چلے آئے۔ یہاں ۱۸۹۲ء میں انھوں نے مسلم بورڈنگ ہائوس کی بنیاد ڈالی۔مولانا سمیع اللہ خان کشادہ ذہن کے مالک تھے۔مسلمانوں کی تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج کے معاملات سے واقف تھے۔الٰہ آباد میں میور کالج بڑی عمدگی سے چل رہا تھا۔ ولیم میور سے ان کی واقفیت تو تھی ہی، لہٰذا انھوں نے قومی تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کا ایک جداگانہ طریقہ نکالا۔انھیں محسوس ہوا کہ جو ادارے خاص مسلمانوں کے لئے قائم ہیں ان کا تعلیمی معیار پست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کا ملنا جلنا دوسری قوم کے بچوں سے نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا مقابلہ ان سے ہو پاتا ہے۔ ان کے سامنے سر فضل حسنین کی کارکردگیاں بھی تھیںجو پندرہ سال انجمن حمایت اسلام لاہور کے سیکریٹری رہے اور اسلامیہ کالج لاہور کے روح رواں تھے۔ جب وہ پنجاب میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو انھوں نے اسلامیہ اسکولوں کی مدد کرنے کی بجائے گورنمنٹ کالج لاہور، میڈیکل کالج لاہور اور دوسرے سرکاری اداروں میں مسلم طلباء کے داخلے کا خاطر خواہ انتظام کیا اور ان کی تعداد مقرر کر دی تاکہ ان کا داخلہ آسانی سے ہو جائے اور وہ دوسری قوم کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ مولوی سمیع اللہ خان نے بھی مسلم بورڈنگ ہائوس کی صورت میں ایک حل نکالا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم طلباء ایک جگہ رہیں گے تو اس سے ان کی قومی روایات محفوظ رہیں گی مگر وہ تعلیم دوسرے اداروں میں جا کر حاصل کریں گے۔ ان کے ساتھ کلاس روم میں ہوں گے اور ساتھ بیٹھ کر امتحان دیں گے۔ انھیں یہ حل قومی کالج قائم کرنے سے بہتر نظر آیا۔ مولوی سمیع اللہ کے اس اقدام کی سب سے زیادہ مخالفت شبلی نے کی ۔ ٹرسٹی بل کے پاس ہونے کے وقت بھی شبلی سید محمود کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے۔حالانکہ یہ مولوی سمیع اللہ تھے جن کی مردم شناس آنکھوں نے شبلی کو پہچانا اور ایم اے او کالج کے فارسی کے استاد کے لئے سر سید سے ان کی سفارش کی۔ شبلی نے مولانا سمیع اللہ کے خلاف بہت زہر افشانی کی۔ مسلم بورڈنگ کو انھوں نے مسجد ضرار کا نام دے دیا تھا۔ حالانکہ کافی عرصہ بعد شبلی نے مولانا سمیع اللہ کی دور اندیشی کا اعتراف کیا اور اپنے ۱۹۱۳ء کے ایک خط میں لکھا کہ اسلامی بورڈنگ بنانا زیادہ مفید ہے جس میں اخلاقی اور مذہبی تربیت ہو۔ باقی تعلیم تو کسی بھی اسکول میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج مولوی سمیع اللہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کے وژن کا ثمرہ ہمارے سامنے ہے کہ مسلم بورڈنگ ہائوس کے طلباء ہندوستان کی کسی بھی قوم کے طلباء کے شانہ بہ شانہ قدم بہ قدم چل رہے ہیں۔ الغرض مولوی سمیع اللہ خان نے آزادی کی جنگ تیر و تفنگ سے تو نہیں لڑی مگر تعلیم کے بنیادی مسائل اور قوم کے بچوں کی ذہنی نشو نما کے لئے انھوں نے جس نہج پر کام کیا وہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...