مولوی اسلم اور ان کی انقلابی شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔
یقینا! یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی ۔۔۔!
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے
مولوی اسلم وڑائچ سرگودھا کے معروف سینئر شاعر ہیں ان کی شاعری ہر طبقے کے لوگوں میں اور خاص طور پر نوجوان طبقے میں بیحد مقبول ہے کرتہ تہمند پہنے جب یہ بزرگ شاعر گونج دار آواز میں مشاعروں میں اپنا کلام سناتے ہیں تو نوجوانوں کا جذبہ اور داد دینے کا انداز دیکھنے کے قابل ہوتا ھے ۔ بدقسمتی سے انہیں ادب میں وہ مقام نہیں مل پایا جس کے وہ حقدار ہیں ان کے بہت سے اشعار اور غزلیں کئی مقبول شعراء کے ناموں سے منسوب ہیں خاص طور پر ان کا مندرجہ بالا شعر محسن نقوی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے
اسی طرح ان کے اور بھی بہت سے اشعار دوسرے شعراء سے منسوب ہیں ۔مولوی اسلم کی ایک کتاب " آئیے شام ہونے والی ہے " کے نام سے شائع ہو چکی ہے ۔ یونیورسٹی آف سرگودھا سے حماد نیازی کی زیرِ نگرانی فیصل شہزاد نے ایک مقالہ " مولوی اسلم کے غیر مطبوعہ کلام کی ترتیب و مطالعہ " کے عنوان سے لکھا ہے ۔ ادب دوستوں کیلئے ان کے کلام سے کچھ انتخاب پیشِ خدمت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب بھی بات کرتا ہوں وہ مجھ کوٹوک دیتا ہے
مرا بیٹا ہی مجھ کومعتبر ہونے نہیں دیتا ۔۔۔۔۔۔۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کردے گی ۔۔۔ !!
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔ْ
اپاہج اور بھی کر دیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو
سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہنے کے یہ جہان اب قابل نہیں رہا
تعمیر اس کی بارِ دگر ہونی چاہیے ۔۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے ہاتھ میں کاسہ کسی کے ہاتھ میں جھاڑو
کھلونے ہاتھ میں لے کر کوئی بچہ نہیں نکلا
خدائی بانٹ دی تو نے ہے جن آدم کے بیٹوں میں
خدایا ان میں تیرا ایک بھی بندہ نہیں نکلا ۔۔۔۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانجھ رہتی سدا زمیں ہے وہ
جس کی مٹی میں نم نہیں ہوتا
ایسے لوگوں سے ہم نہیں ملتے
جن کی گردن میں خم نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔
جن پرندوں کے پر نہیں ہوتے
ان کے پیڑوں پہ گھر نہیں ہوتے
لوگ ان کو پہاڑ کہتے ہیں۔۔!!
جو ادھر سے ادھر نہیں ہوتے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم ستارے تھے جل نہیں پائے
ظلمتوں سے نکل نہیں پائے
لڑکھڑائے تھے ایک بار قدم
عمر بھر پھر سنبھل نہیں پائے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو مظلوم کے ساتھی ہیں دل وجان کے ساتھ
بن نہ آئے گی ہماری کسی سلطان کے ساتھ
ہم نہیں ان میں اندھیرے میں کرے وار کوئی
جنگ ہم تجھ سے لڑیں گے مگر اعلان کے ساتھ
کس کے حق میں کوئی بخشش کی دعا مانگیں ہم
کوئی مرتا ہی نہیں شہر میں ایمان کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہوجائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے۔!!
۔
توکیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو۔۔!!
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
۔
اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے۔۔!!
گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے
۔
جھکا دے گا تری گردن کو یہ خیرات کا پتھر ۔ !!
جہاں میں مانگنے والوں کے سر اونچے نہیں رہتے
۔
وہ میرا ہمسفر ہوتا تو اس کو بھی خبر ہوتی۔۔۔۔۔!!
جو گزرے آگ کی بستی سے ان کے پر نہیں رہتے
۔
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کردے گی ۔۔۔ !!
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اندر کا وحشی معتبر ہونے نہیں دیتا ۔!!
جدھر انسانیت ہے یہ ادھر ہونے نہیں دیتا
نموکی ساری خاصیت پنہاں ہے میرے سینے میں
زمیں کا شور ہی مجھ کو شجر ہونے نہیں دیتا ۔۔!!
اچانک ٹوٹ پڑتیں بجلیاں ہیں میرے خرمن پر
برا دن اپنے آنے کی خبر ہونے نہیں دیتا ۔۔۔!!
میں جب بھی بات کرتا ہوں وہ مجھ کو ٹوک دیتا ہے
مرا بیٹا ہی مجھ کومعتبر ہونے نہیں دیتا ۔۔۔۔۔۔۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد آئے گا بہت دھوپ میں سایا ان کا
اپنے آنگن میں ہی یہ بوڑھا شجر رہنے دو
.
غیر کے ہاتھوں میں کیوں دیتے ہو اپنی پگڑی
بات گھر کی ہے تو پھر بات کو گھر رہنے دو
.
آنے جانے سے ہی قائم ہیں جہاں کے رشتے
آنا جانا ہے تو دیوار میں در رہنے دو ….. !!
.
کون مانے گا زمانے میں معزز مجھ کو
فیصلہ میرا ہی تم جان پدر رہنے دو
.
ہم فقیروں کو ضرورت ہی نہیں ہے اسکی
دنیا والوں کے لئے دنیا کا زر رہنے دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو آگ کو گلزار کرے کوئی نہیں ھے
حق بات سر دار کرے کوئی نہیں ھے
۔
منسوب تو سورج سے کئی نام یہاں ہیں
جو تیرگی کو تار کرے کوئی نہیں ھے
۔
آباد جہاں صورت انساں ہیں درندے
ان محلوں کو مسمار کرے کوئی نہیں ھے
۔
سب گنگ زبانیں ہیں یہاں شاہ کے آگے
جو رائے کا اظہار کرے کوئی نہیں ھے
۔
قاتل کو ہی شاباش دیئےجاتےہیں سب لوگ
جو اسکو نگوں سار کرے کوئی نہیں ھے
۔
سب نیند کی گولی ہی کهلاتے ہیں مسیحا
جو نیند سے بیدار کرے کوئی نہیں ھے
۔
مجرم تو مرے دیس کا ہر شخص ہے اسلم
جو جرم کا اقرار کرے کوئی نہیں ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“