الزامات اور تدارک
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
میں یہ نہیں کہتا کہ کچھ مذہبی مولوی حضرات اور مدارس بدفعلی کے مرتکب پائے گئے ہیں تو کیا ہوا؟ اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، جیلیں اور اسپتال وغیرہ تو اس سے کہیں زیادہ جنسی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اس طرح کے یا اس سے بھی سنگین جرائم دنیا بھر میں عام ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ دوسرے مذہبی اداروں جیسے چرچ، مندر، پگوڈا وغیرہ میں بھی اس طرح کے جرائم کی شرح مدارس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ یہ علماء کو بدنام کرنے کیلئے کفار کی فقط سازشیں ہی ہیں۔
جرم ہر حال میں جرم ہی ہے۔ اور مجرم کو قرار واقعی سزا ملنی ہی چاہئے اگرچہ وہ مدارس کا منتظم یا مذہبی مولوی ہی کیوں نہ ہو۔
دنیا بھر میں ان جرائم کے تدارک کا حل پیش کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے اس لئے میں صرف مدارس اور مذہبی مولوی حضرات کے معاملات کے تجزیے تک ہی خود کو محدود رکھتا ہوں۔
اللہ تعالی نے جب اپنے دین کو انبیاء کرام کے توسط سے دنیا میں متعارف کرایا تو تبلیغ دین کا پہلا اصول ہی یہ طے کیا تھا کہ دین کی تبلیغ، تعلیم، تلقین یا تدریس وغیرہ میں سے کسی بھی کام کے عوض اجرت نہیں لی جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ انبیاء کرام، ان کے پیروکاروں اور طویل ادوار تک انبیاء کرام کے دین کو آگے پہنچانے والوں میں سے کسی نے بھی کبھی اجرت نہیں لی۔ یہ اجرت نہ لینے کا معاملہ ایک بہت ہی زبردست حکمت عملی کے تحت اختیار کیا گیا تھا۔
عام طور پر جب کسی کام کی اجرت لی جاتی ہے تو وہ کام آپ کی مجبوری، ضرورت، معاش یا جو بھی ہو لیکن اکثر اس میں ذوق و شوق، لگن اور دلچسپی کا عمل دخل نہیں ہوتا (استثنیٰ اپنی جگہ)۔ اور جو کام اپنے ذوق و شوق، لگن، دلچسپی اور رضاکارانہ طور پر کیا جاتا ہے اسکی کبھی بھی اجرت نہیں لی جاتی۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ انسان دین کے کام کو انہماک، توجہ، ذوق و شوق، دلچسپی، لگن اور رضاکارانہ طور پر کرے نہ کہ اس کو روزگار ہی بنا لے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کل کے لاکھوں پیشہ ور مولوی صاحبان وہ معاشرتی اثرات پیدا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے جو چند سو صحابہ کرام نے عملی طور پر پیدا کرکے دکھا دئے تھے۔ دین کو پیشہ بنا لئے جانے کے بہت سارے نقصانات میں سے چند نقصان یہ ہوئے کہ مولوی صاحبان ذرا سی اجرت کی وجہ سے حق بات کہنے سے محروم رہ گئے، انہیں امیر آجروں کی باتیں ماننا پڑ گئیں، ان میں دین پر عمل کا ذوق و شوق باقی نہ رہا جس کی وجہ سے ان کا کردار انتہائی خراب ہو گیا، ان پر کئی جرائم خصوصاً بدفعلی کے سنگین الزامات ثابت ہو گئے، انکی معاشرتی وقعت بہت کم ہوگئی، ان کا سیاسی اثر و رسوخ ناپید ہوتا چلا گیا۔
کبھی پندرہ گھنٹے کی جاب کے بعد درس نظامی کی کلاسز اٹینڈ کرنے والے کو نظر اٹھا کر تو دیکھئے۔ کبھی تجارت کی مصروفیت میں سے وقت نکال کر نماز پڑھانے والے کو تو دھیان میں لائیے۔ کبھی کیمیا لیب میں ریسرچ کرنے والے پروفیسر کا آذان دینے کیلئے جلدی جلدی مسجد پہنچنے کو تو تصور کیجئے۔ کبھی سرجری کرنے والے سرجن کا وقت نکال کر تفہیم قرآن پر درس دینے کا خیال تو دل میں لائیے۔ کبھی میرین انجینئر کا سمندری سفر کے دوران لکھے جانے والے فتاویٰ کی کتاب خریدنے کیلئے دھوپ میں لمبی لائن لگانے پر تو غور کیجئے۔ کبھی ملازمت کی سخت مصروفیت کے دوران ملحدوں کے اعتراضات کے جوابات لکھنے والے عام سے شخص کے مضامین اور تحریروں کو سمجھنے کی کوشش تو کیجئے۔
یہ سب آج کے دور کے لحاظ سے آئیڈیل ہی سہی لیکن ماضی میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ امام ابوحنیفہ پیشہ ور امام نہیں بلکہ کپڑے کے مصروف تاجر تھے جو اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر اجتہاد کرنا سکھایا کرتے تھے۔
آج کل کی تبلیغی جماعت اپنے کارکنوں کو یہ کہہ دیں کہ نفل پڑھنا ضروری نہیں تو کارکن صاحبان دھڑلے سے فرض نمازوں کے نفل پڑھنے کے حصے میں فالتو بیٹھ کر وقت ضائع کردیں گے لیکن نفل نہیں پڑھیں گے۔ جبکہ پہلے کے لوگ تو تلواروں کے سائے میں بھی نفل پڑھنے سے رک نہیں پاتے تھے۔ یہ فرق ہوتا ہے مجبوری میں دین اپنانے اور ذوق و شوق سے دین اپنانے میں۔ اب ایسے پیشہ ور مذہبی لوگ ذرا سی اشتہاء پر گناہ میں ملوث نہیں ہوں گے تو اور کیا کریں گے؟ بد فعلی کے مرتکب نہیں ہوں گے تو اور کیا کریں؟ اگر انہی لوگوں نے غیر پیشہ وارانہ طور پر جذبے کے تحت دین کو اپنایا ہوتا تو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی بھی ان کو ترغیب اور تحریص دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی ناکام ہوجاتی۔ الغرض پیشہ ورانہ طور پر دین کو اپنانے میں بہت سے نقصانات اور مسائل ہیں جبکہ غیر پیشہ ورانہ طور پر دین کو اپنانا بہت سارے فوائد اور غیرمعمولی ایڈوانٹیجز رکھتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس معاملے کو ذکر کیا ہے کہ دین کے معاملے میں اجرت لینا ناپسندیدہ عمل ہے۔
اب ذرا دین کے معاملے میں اجرت نہ لینے کے فوائد اور حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
١) جب دین کو غیر پیشہ وارانہ طور پر دلی انہماک کے ساتھ اپنایا جاتا ہے تو ہر طرح کے غیر مذہبی جرائم، اخلاقی اور معاشرتی بداخلاقیاں، یہاں تک انسانی رویوں میں نارمل سمجھے جانے والی برائیاں بھی، اس مذہبی شخص کے قریب نہیں آتیں۔
٢) جب دین کو غیر پیشہ وارانہ طور پر اختیار کیا جائے گا تو دین میں فرقہ وارانہ اختلافات اصولی طور پر پیدا ہی نہیں ہو سکیں گے۔ فرقے پیدا ہونے کے تین عمومی اسباب ہوتے ہیں، یا تو (الف)سازش کے تحت پیدا کیے جاتے ہیں یا پھر لوگوں کی (ب)غیر ذمہ داری اور (پ)نالائقی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ جب انہماک سے دین کو قبول کریں گے تو وہ کبھی بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور صرف اپنی لیاقت کے مطابق فیصلہ کریں گے جس کی وجہ سے نالائقی کا در بند ہو جائے گا۔ رہی بات سازشوں کی تو وہ یا تو وقت گزرنے پر اپنی موت آپ مر جائیں گی یا اگر وہ سازشی فرقے امت میں باقی رہے بھی تو انتہائی غیرموثر ہو کر رہ جائیں گے البتہ بعض حالات کی استثناء اپنی جگہ ہے۔ میں ان تینوں فرقہ وارانہ معاملات کی امت مسلمہ کے ماضی کے تناظر میں مثال پیش کرتا ہوں۔
(الف) سازش عناصر کی بیخ کنی کی مثال۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ذوالخویصرہ نے ایک فرقہ پیدا کردیا تھا۔ پہلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے مکالمے کے لیے کئی صحابہ کرام کو بھیجا، بعد ازاں خارجیوں کی ہٹ دھرمی بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انکے خلاف جنگ کرکے ان کو بری طرح پسپا کردیا۔
(ب) ذمہ داری کی مثال۔
جب امت مسلمہ کو قرآن کریم فراہم کیا گیا تھا تو اس پر اعراب، نقطے، علامتیں اور وقوفات نہیں تھے۔ صحابہ کرام اور تابعین نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے قرآن کریم پر اعراب، نقطے، علامتیں اور وقوفات ڈال دیئے تاکہ قرآن کریم کو پڑھنے میں ادنیٰ سی غلطی بھی نہ کی جا سکے۔
(پ) صرف اپنی لیاقت تک محدود رہنے کی مثال۔
ماضی کے علماء کا یہ ایک عمومی وطیرہ تھا کہ جس مسئلہ پر انہیں معلومات نہیں ہوتی تھی وہ اس مسئلہ کا حل معلوم کرنے کے لیے لوگوں کو دوسرے علماء کی طرف بھیج دیا کرتے تھے۔ جیسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک مسئلہ معلوم کروانے کے لیے ایک شخص کو حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تھا۔
٣) غیر پیشہ ورانہ انداز سے دین کو اپنانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دین کی غیر معمولی باتیں اور حکمتیں مختلف زاویوں سے سمجھ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلا جب ایک ڈاکٹر عالم دین بھی ہو تو وہ قرآن کریم کی تفسیر لکھتے وقت قرآن کریم میں موجود میڈیکل کے انکشافات کو زیادہ بہتر اور نمایاں طور پر واضح کر سکے گا۔ بالکل اسی طرح ایک انجینئر جب عالم دین بھی ہو تو وہ بھی تفسیر لکھنے کے دوران انجینئرنگ سے متعلق قرآن کریم کی باتوں کو زیادہ وضاحت سے بیان کر سکے گا۔ اسی طرح کوسموس، جغرافیہ، ایمبریالوجی اور دوسرے ماہرین بھی قرآن و حدیث کی وہ حکمتیں جو عام لوگوں کی نظروں سے چھپ جاتی ہیں، نمایاں کر کے لوگوں کو سامنے پیش کر دیں گے۔
۴) وقت گزرنے کے ساتھ ادیان میں فرقے، سازشی نظریات اور غیر دینی اختلافات کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر لوگوں نے غیر پیشہ وارانہ طور پر دین کو اپنایا ہوتا ہے تو وہ ایسے معاملات کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں لیکن فرقوں، سازشوں اور غیر دینی اختلافات کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ مثال کے طور پر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو چار دانگ پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت کے خلیفہ نے ایک مخصوص فرقہ وارانہ فتوی حاصل کرنے کے لئے بہت مجبور کیا، برسوں تک انہیں قید و بند کی سختیوں میں رکھا گیا، برسوں تک انہیں مسلسل کوڑے مارے گئے لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے وہ فتویٰ نہیں دیا۔
۵) وقت گزرنے کے ساتھ ادیان میں کچھ ایسے تینیکی مسائل اور معاملات پیدا ہوتے ہیں کہ جن کیلئے اجتہاد اور فقیہی استنباط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ غیر پیشہ ور عالم تو اس صورتحال کا ادراک کرکے اجتہاد اور استنباط کی ضرورت کو کماحقہ پورا کر دیتا ہے لیکن پیشہ ور عالم اس صورتحال کا ادراک نہ کرتے ہوئے بعض اوقات غیر ضروری جمود پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے جس کی وجہ سے دین کی روح کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے۔
اگرچہ اس کے فوائد تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن طول کلام کی وجہ سے ان ہی پوائنٹس پر اکتفا کیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...