21 اپریل کی شب لگ بھگ سوا گیارہ بجے مجھے یہ خبر موصول ہوئی کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ یہ خبر انتہائی افسوس ناک تھی کیونکہ مولانا عصرِ حاضر کی وہ شخصیت تھی جس کی نظیر فی الحال تو کیا پچھلے سیکڑوں سالوں میں بھی نہیں ملتی ۔ مولانا کی شخصیت پر اقبال کے یہ مصرع حقیقت معلوم ہوتے ہیں کہ…
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل سے ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عزیزانِ گرامی! مولانا کی شخصیت خود میں ایک زمانہ سمائے ہوئے تھی اور مولانا کی قلم نے اس دنیا کو علم کے ان دریچوں سے آگاہ کروایا جن دریچوں میں جھانکنے کی شاید ہی کسی نے کوشش کی ہو ۔
مولانا کی پیدائش 1 جنوری 1925, اعظم گڑھ، اتر پردیش میں ہوئی ۔ ایک انٹرویو میں مولانا نے بتایا تھا کہ جب ان کی پیدائش ہوئی اس رات ان کی ماں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ پیدا ہوئے ہے اور ایک بہت بڑا ہاتھی آیا ہے اور وہ ہاتھی مولانا کو اپنی سونڈ سے اٹھا کر جنگل کی طرف چل دیا ہے ۔ مولانا کہتے ہیں کہ شاید اس خواب کی تعبیر یہی ہو کہ میرا بچپن قدرتی ماحول اور گاؤں کی تازہ ہواؤں کے درمیان گزرا ہے ۔
مولانا کی شخصیت سے رومانیت ، انسانیت اور خدا کی بندگی جھلکتی ہے ۔ یہ وہ ذات تھی جس نے ڈپریشن کے مارے لوگوں کو امن و چین کا راستہ بتایا ۔ جب مولانا کی عمر صرف 6 سال تھی تب ان کے والدِ محترم کا انتقال ہوگیا تھا ۔ اس کمسن عمر میں جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تب مولانا بتاتے تھے کہ میں کافی گہری چپ میں رہتا تھا مگر ایسی حالت میں بھی کبھی منفیت کی طرف متوجہ نہیں ہوا ۔ مولانا کے چچا صوفی عبد الملک کی خواہش تھی کہ مولانا مولوی بنے اور دینِ اسلام کی خدمت کرے ۔ ان کے چچا یہ سوچتے تھے کہ گھر میں کوئی ایک شخص ایسا ضرور ہونا چاہیے جس کا تعلق مکمل طور پر دین سے وابستہ ہو۔ اور بفضلِ تعالیٰ اس کے لیے مولانا کو چنا گیا۔
مولانا نے مدرسے کی تعلیم خوب دل لگا کر حاصل کی اور ایک اہم واقعہ جو مدرسے میں پیش آیا اور جس نے مولانا کی زندگی میں تغیر برپا کردیا اور تدبر کی کئی راہیں ہموار کی وہ یہ تھا کہ ایک دن معمول کے مطابق مولانا اپنی کلاس میں تعلیم حاصل کررہے تھے اور کوئی کتاب پڑھی جارہی تھی تبھی قرآنِ حکیم کی سورہ الغاشیہ آیت نمبر 17 پڑھی گئی ۔۔۔
القرآن – سورۃ نمبر 88 الغاشية
آیت نمبر 17
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَفَلَا يَنۡظُرُوۡنَ اِلَى الۡاِ بِلِ كَيۡفَ خُلِقَتۡ ۞
ترجمہ:
(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟
اس آیت پر ان کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے سوال کیا اس وقت کلاس میں کل 25 بچے موجود تھے ۔ انھوں نے پوچھا کہ "اونٹ کے صُم پھٹے ہوتے ہیں یا جڑے ہوتے ہیں "؟ کلاس میں کسی نے بھی اس کا یقین کے ساتھ جواب نہیں دیا تب ان کے استاد نے بہت قیمتی بات بتائی کہ عربی کا ایک مثل ہے " میں نہیں جانتا یہ آدھا علم ہے " ۔ تم نے کبھی اونٹ پر غور نہیں کیا ، اگر تم جانتے ، کہ تم نہیں جانتے ، تو تم اسے بہت غور سے دیکھتے ۔ بس یہی وہ جملہ تھا جس نے مولانا کی زندگی میں تغیر و تدبر کی روح پھونک دی ۔ اس کے بعد سے لے کر تاحیات مولانا کا معمول رہا کہ وہ ہر نئی چیز پر غور و تدبر کرتے اور اس کی اصل جڑ تک پہنچنے کے لیے حتیٰ الامکان کوشش کرتے ۔ مولانا کا ماننا تھا کہ یہی وہ چیز ہے جو آپ کو اصل معنوں میں زندہ رکھتی ہے ۔
مولانا جب مدرسے سے پڑھ کر آئے تو ان کی فیملی میں انگریزی تعلیم کا رواج تھا ۔ ان کے ایک فیملی دوست تھے عتیق احمد انصاری صاحب ۔ انھوں نے لکھنؤ کالج سے ایم-اے- انگریزی کیا ہوا تھا ۔ ان کی انگریزی نہایت بہترین تھی تب مولانا کو بھی انگریزی سیکھنے کا ذوق ہوا ۔ مولانا نے سوچا کہ اگر دنیا کو حقیقی معنوں میں مخاطب کرنا ہے تو انگریزی سیکھنا نہایت ضروری ہے ۔ یہاں سے مولانا نے انگریزی سیکھنے کی شروعات کی اور اس مقام کو پہنچے کہ مولانا جب اردو لکھا کرتے تو اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے ہوا کرتے تھے ۔
مولانا کہتے تھے کہ ان کی اصل زندگی 1967 دہلی میں شروع ہوئی ۔ اس سے پہلے کی زندگی گویا ایک ٹریننگ تھی اور اب اس ٹریننگ سے اصل زندگی میں کام کرنا تھا ۔ ان دنو مارکیٹ میں بیشتر اخبار و رسائل ہونے کے باوجود مولانا نے خود اپنا رسالہ 'الرسالہ' کے نام سے شروع کیا جو آج بھی قارئین کی اولین پسند ہے ۔
کچھ کتابیں ایسی تھیں جن سے مولانا بہت زیادہ متاثر ہوئے ۔ پہلی کتاب Sir James Jeans کی The Mysterious Universe تھی جس نے مولانا کے اندر ایک نئی سوچ کو ابھارا ۔ اسی طرح John .F.West کی کتاب The Great Intellectual Revolution اور Jillian Huxley کی کتاب Man Stands Alone نے مولانا کی زندگی پر خاصہ اثر ڈالا ۔ مولانا کہتے ہیں کہ میں نے انگریزی کتابوں کو حد سے زیادہ پڑھا مگر کبھی راہ سے بھٹکا نہیں اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ میری مذہبی تعلیم نے مجھے راہِ راست پر رکھا ۔ اگر یہ تعلیم نہ ہوتی اور میں صرف انگریزی پڑھتا تو بھٹک سکتا تھا ۔ مولانا کا ماننا تھا کہ انگریزی کتابیں پڑھنے سے انھیں آبجیکٹیو سوچ ملی جو انھیں مدرسے سے نہیں ملی تھی ۔مولانا کا مقصد اسلام کو ایسے پیش کرنا تھا جو آج ماڈرن ریشنل مائنڈس کو اپیل کرے ۔
یہاں میں مولانا کی تین نہایت قیمتی کتابوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ سب سے پہلے 96 صفحات پر لکھی گئی کتاب 'مذہب اور سائنس' ۔ اس کتاب میں مولانا نے تمام منکرینِ خداؤں کو منہ توڑ اور علمی جواب دیا ہے ۔ یہ بات کسی مبالغہ سے کم نہیں ہوگی کہ 'رسل' جو آج دورِ حاضر میں تمام منکرینِ خدا کا امام مانا جاتا ہے اگر مولانا کی یہ کتاب پڑھتا تو کم ازکم خدا کا اقرار کرتا ۔ دوسری اہم کتاب کے 'مذہب اور چیلینج' ۔ یہ ان کی تمام کتابوں کا مجموعہ سمجھیے ۔ تیسری کتاب ہے 'اسلام دورِ جدید کا خالق' اور اس کے علاوہ انگریزی کی ایک کتاب ہے 'The God Arises ' 'خدا ابھرتا ہے ' ۔ میں قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ ضرور بہ ضرور ان کتابوں کا مطالعہ کیجیے کیونکہ جدید دور میں چونکہ سائنس و ٹیکنالوجی اور منکرینِ خدا اپنے عروج کو ہے ایسے میں واحد اللّٰہ کے وجود کو پیش کرنا ، خدا کی حقانیت سے دنیا کو آگاہ کرنا ہم مومنین کی ذمہ داری ہے ۔ اصل میں اسلام تو دنیا کے عروج کی وجہ ہے ۔ جب تک اسلام نے دنیا کو ان چیزوں سے آگاہ نہیں کیا تھا دنیا اپنی پستیوں کو کھنگال رہی تھیں ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اتنی تیزی سے ترقی اسلام کے آنے سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ جب تک اسلام نے رومن اور پرشین امپائر کو اکھاڑ کر نہیں پھینکا تھا یہ لوگ اپنے بادشاہوں کی عبادت کرتے تھے ۔ خیر فی الحال یہ موقع نہیں کہ میں اس کی تفصیل میں جاؤں ۔
مولانا کی کئی خدمات کے عِوَض مولانا کو بھارت سرکار کی جانب سے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا نیز راجیو گاندھی راشٹریہ سد بھاونا ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا ۔ سن 2001 میں مولانا نے Center For Peace And Spirituality (CPM) کی بنیاد ڈالی ۔ مولانا کہتے تھے کہ میں صرف مسلم مائنڈیڈ یا ملی مائنڈیڈ بن کر نہیں رہنا چاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میری سوچ خالص اسلامی ہو اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والی ہو اور اسی سوچ کو پھیلانے کے لیے میں نے (CPM) کی بنیاد ڈالی ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مکہ میں نہایت اذیت دی گئی اس کے باوجود آپ ایک واقعہ ایسا نہیں بتا سکتے جب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ والو کو کوسا ہو یا ان کی زبان سے مکہ والو کے لیے منفی سوچ والے الفاظ نکلے ہو ۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ خاصہ رہا ہے کہ آپ نے ہمیشہ مثبت سوچ کو فروغ دیا ، مایوسی و کم نظری کو اپنی ذات سے کوسو دور رکھا کیونکہ اسلام مثبت سوچ کا حامل دین ہے جو کبھی بھی منفیت کی دلدل کو گوارہ نہیں کرتا ۔
ایک انٹرویو میں مولانا نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ مدرسے کے بعد جب انھوں نے قرآن کو دوبارا کھلے دماغ سے پڑھا تو یہ محسوس کیا کہ قرآن نے انسانوں کو ہمیشہ اپنا مخاطب رکھا ہے اور کبھی کوئی فرق نہیں کیا ۔ قرآن میں بیشتر مقامات پر النَّاسُ اور اِنۡسَانُ جیسے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہیں ۔
ایک اور اہم بات جو مولانا نے کہی تھی وہ یہ کہ " غیر مسلموں کو اسلام کو دریافت کرنا ہے اور مسلموں کو اسلام کو دوبارہ دریافت کرنا ہے " ۔
مولانا نے اپنی پوری زندگی صرف ایک بات پر زور دیا اور وہ یہ کہ کبھی اپنے آپ کو مایوسی کا شکار مت ہونے دینا ، کبھی اپنے دماغ کو منفیت کی سمت مت جانے دینا ، کبھی اپنے خیالات کو پستی کا شکار مت ہونے دینا ، ہمیشہ مثبت ، پر عظم ، حوصلے سے بھرپور رہنا کیونکہ یہی مومنین کا خاصہ رہا ہے ۔ ہم مولانا کے لیے دعائے مغفرت کرے کہ اللّٰہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے ، انھیں جنت کے اعلیٰ مقام سے نوازے ، ان کی قبر کو نور سے بھر دے ، اور ان کی فکرِ مثبت کو باقی رکھے ۔ آمین ۔ آخر میں مولانا کی اس نصیحت پر آنکھیں نم و حوصلے بلند ہوجاتے ہیں کہ
'جو اپنے سے آغاز کرے وہی دوسروں تک پہنچے گا '۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...