ہر سال یوم جمہوریہ کے موقع پر زندگی کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو پدم ایوارڈ پیش کیے جاتے ہیں۔یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔عام طورپر فنون لطیفہ، فلم، ادب، ثقافت اورتعلیم وتدریس کے میدان کی نمایاں شخصیات کوہی ان ایوارڈوں کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ان ایوارڈوں کے لیے مذہبی شخصیات کو منتخب کیا جائے اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ لیکن اس مرتبہ اعلیٰ شہری ایوارڈ کے لیے دوایسی مذہبی شخصیات کا انتخاب کیا گیا ہے جنھوں نے رواداری اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی قایم کرنے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ یہ دو شخصیات ہیں مولانا وحیدالدین خاں اور مولانا کلب صادق۔ مولانا کلب صادق کو یہ اعزازبعدازمرگ دیا گیا ہے۔ان کا گزشتہ 24 نومبر کو طویل علالت کے بعدلکھنؤ میں انتقال ہوگیا تھا جبکہ مولانا وحیدالدین خاں کی عمر اس وقت 96 سال ہے اور وہ آج بھی تصنیف وتالیف کے کام میں مصروف ہیں۔حالانکہ علماء کا ایک طبقہ ان کی فکر سے اختلاف رکھتا ہے مگر یہ دونوں ہی سربرآوردہ شخصیات ہیں اور انھوں نے اپنی علمی اور سماجی خدمات سے معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔مولاناوحیدالدین خاں نے جہاں ایک طرف اہم علمی اور دینی کارنامے انجام دئیے ہیں تو وہیں مولانا کلب صادق نے قوم کی تعلیمی زبوں حالی دور کرنے اور اصلاح سماج کی راہ میں بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ دونوں ہی شخصیات کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کبھی کسی ایوارڈ یا اعزاز کے متمنی نہیں رہے بلکہ خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہے۔وحیدالدین خاں نے جہاں اپنے قارئین میں حالات کے جبر سے نکلنے اورانھیں سرگرم عمل ہونے کی تلقین کی ہے تو وہیں مولانا کلب صادق نے غریبوں اوریتیموں کی تعلیم اور صحت کی راہ میں عملی جدوجہد کی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے درمیان مسلکی اتحاد واتفاق پیدا کرنے کے علاوہ فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے مسلسل کام کیا۔ہم اس مضمون میں ان دونوں ہی شخصیات کی زندگی اور کارناموں کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔
مولاناوحیدالدین خاں
اسلامی مرکز کے چیئرمین اور ماہنامہ ’الرسالہ‘ کے ایڈیٹرمولانا وحیدالدین خاں کواس برس ’پدم وبھوشن‘کے اعزاز سے سرفراز کیا گیاہے، جو بھارت رتن کے بعد دوسرا بڑا ایوارڈ ہے۔ انھیں اپنے گاندھیائی خیالات کی وجہ سے ایک امن پسند روحانی لیڈر کہا جاتا ہے۔انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر’تذکیر القرآن‘ لکھنے کے علاوہ ایسی سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں جو عصری موضوعات پر ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ موجودہ عہد میں شاید وہ ایسے اکلوتے اسکالر ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ تصنیفی کام کیے ہیں۔مولانا وحید الدین خاں نے حال ہی میں اپنی عمر کے 95 برس مکمل کیے ہیں۔ اس عمر میں اگرچہ ان کا جسم جواب دے چکاہے، لیکن ذہن پوری طرح چاق وچوبند ہے۔ وہ یکم جنوری 1925 کواترپردیش کے مردم خیز خطہ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور مدرستہ الاصلاح سے فراغت حاصل کی۔ان کی عمر کا بیشتر حصہ دہلی میں گزرا۔ وہ 1967 سے 1974 تک ہفتہ وار ’الجمعیۃ‘ کے مدیر بھی رہے۔انھیں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ ان کی تحریروں کی سب سے بڑے خوبی یہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ان کی متعدد کتابیں انگریزی، ترکی، عربی اور فارسی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔’الرسالہ‘ بھی اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔انھیں صلح کل کاعلمبردار مانا جاتا ہے اوردانشور طبقہ میں ان کی بہت پذیرائی ہوتی ہے۔ان کا بنیادی مشن مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اسلام سے متعلق برادران وطن کے ذہنوں میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا تدارک کرنا ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں کی خودنوشت تحریروں پر مبنی ان کی سوانح عمری”اوراق حیات“ شائع ہوچکی ہے۔انھوں نے جدید اسلوب اور آسان زبان میں زندگی کی بنیادی حقیقتوں کے راز کھولے ہیں۔ وہ صبروتحمل وبردباری اور اخلاقی قدروں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کے روحانی شاگردوں میں غیرمسلموں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
مولانا وحیدالدین خاں نے اپنی تحریروں کے بارے میں رقم طراز ہیں:
”میری پوری زندگی پڑھنے، سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گزری ہے۔فطرت کا بھی اور انسانی تاریخ کا بھی۔ مجھے کوئی شخص تفکیری حیوان کہہ سکتا ہے۔ میری ا س تفکیری زندگی کا ایک حصہ وہ ہے جو ’الرسالہ‘ یا کتب میں شائع ہوتا رہا ہے۔ اس کا نسبتاًغیرمنظم حصہ ڈائریوں کے صفحات میں اکھٹا ہوتا رہا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ میری تمام تحریریں حقیقتاً میری ڈائری کے صفحات ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ لمبی تحریروں نے مضمون یا کتاب کی صورت اختیار کرلی اور چھوٹی تحریریں ڈائریوں کا جز بن گئیں۔“
مولاناوحیدالدین خاں کی بعض تحریروں اور نظریات سے اہل علم کو اختلاف ہے اوران کے رد میں بھی بعض لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ بہت سی باتوں میں وہ جمہور کے علمائے اسلام سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہیں کہیں یہ اختلاف شدید بھی ہوجاتا ہے۔ تاہم مولانا وحیدالدین خاں نے جو علمی اور تحقیقی کام کیے ہیں، ان میں ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔’پدم و بھوشن‘سے قبل انھیں 2000 میں ’پدم بھوشن‘کے اعزازسے بھی سرفراز کیا جاچکا ہے۔1989 میں حکومت پاکستان نے ان کی شہرہ آفاق کتاب’پیغمبرانقلاب‘ پرانھیں پہلا بین الاقوامی ایوارڈ دیا تھا۔’علم جدید کا چیلنج‘اور’تعبیر کی غلطی‘ان کی اہم تصنیفات میں شامل ہیں۔
مولانا سید کلب صادق
معروف عالم دین اور مفکر مولانا کلب صادق کو اس باربعدازمرگ ’پدم بھوشن‘کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا ہے۔وہ اپنی روشن خیالی اور رواداری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ طویل عرصہ تک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے نائب صدررہے اور انھوں نے شیعہ سنی اتحاد کے لیے اہم کوششیں کیں۔دنیا بھر میں ایک شیعہ عالم کی حیثیت سے اپنی منفرد پہچان بنانے والے مولانا کلب صادق کی پوری زندگی تعلیم کے فروغ اور مسلم معاشرے سے فرسودہ روایات اور سوچ کے خاتمے کی جدوجہد میں گزری۔انھوں نے 1982 میں توحید المسلمین ٹرسٹ قایم کیا اور اس کے تحت غریبوں کی تعلیم اور علاج کا بندوبست کیا اور کئی فلاحی اداروں کی بنیاد ڈالی۔ان کی مقبولیت کا اندزہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوماہ قبل لکھنؤمیں جب ان کا انتقال ہوا توجنازے میں پورا شہر امڈآیا تھا جس میں ہر فرقہ اور مسلک کے لوگ موجود تھے۔ انھوں نے پوری زندگی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا۔ یونٹی کالج اور ایرا کالج جیسے تعلیمی ادارے ان کی یادگار ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا کلب صادق نے اپنی وصیت میں بھی تعلیم کے فروغ پر زور دیاہے۔ انھوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے حالات کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کی تلقین کی۔انھوں نے دینی تعلیم دینے والوں سے کہا کہ ہم جو نہیں کرسکے، اسے رضائے الٰہی کے لیے بے خوف ہوکر انجام دیں۔ انھوں نے وصیت کی کہ دنیا ئے انسانیت میں دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں تاکہ آپسی بھائی چارے کی فضا کو قایم رکھتے ہوئے آگے بڑھا جاسکے۔موجودہ حالات میں ان کا یہ پیغام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا کلب صادق کو قدرت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان میں سب سے بڑی خوبی ان کے کلام میں وہ تاثیر تھی، جس سے ان کے سامعین متاثر ہوتے تھے۔ وہ اسلامی تعلیمات کو بہت موثر انداز میں بیان کرتے تھے۔ انھوں نے گزشتہ برس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک کی حمایت کی تھی تاہم بابری مسجد پر ان کے موقف سے لوگوں کو اختلاف تھا۔
مولانا کلب صادق کی پیدائش 1939 میں لکھنؤ میں ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سلطان المدارس میں حاصل کی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پہلے ایسے مولانا تھے جنھوں نے شیعہ سنی دونوں فرقوں کو ایک ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب دی اور ان کی امامت بھی کی۔وہ شیعہ سنی اتحاد کے ساتھ ساتھ ہندومسلم بھائی چارے کے لیے بھی کوشاں رہے۔ وہ اپنی ہر تقریر میں اس بات پر زور دیتے تھے کہ مسلمان بھوک برداشت کریں مگر اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دلوائیں کیونکہ تعلیم وہ واحد ذریعہ ہے جو قوم کو تاریکی سے نکال کرروشنی میں کھڑا کرسکتی ہے۔