مولانہ سید حسین احمد مدنی رح ایک عظیم دانشور اور انقلابی رہنماء ..
انیسویں صدی کے نصفِ آخر اور بیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے سیاسی، علمی، تہذیبی وفکری منظرنامے پر جن قدآور شخصیات نے اپنے فکرونظر، جہدِ مسلسل اور اخلاق وکردار کے تابناک نقوش مرتسم کیے اورہم عصر ہندوستان سے اپنی گونا گوں خوبیوں، امتیازات اور خصوصیات کا لوہا منوایا، ان میں ایک انتہائی باعظمت نام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کا بھی ہے، جنھیں ان کے قدردانوں نے بہ جا طور پر ”شیخ الاسلام“ اور ”شیخ العرب والعجم“ جیسے وقیع القاب سے نوازا، کہ اسلامی علوم میں ان کی گہرائی وگیرائی، بہ طورِ خاص علومِ حدیث میں ان کی متخصصانہ شان اور اس حوالے سے عرب وعجم کے وسیع تر دائرے میں ان کی خدمت وشہرت، ملکی وعالمی سیاست وتاریخ کے مدوجزر سے ان کی بصیرت مندانہ واقفیت، اسرار ورموزِ دینی کے معاملے میں ان کی تہ رسی ودروں بینی، ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ان کی بے پناہ قربانیاں اوراس راہ میں ان کی ضرب المثل جاں فروشی، بے خوفی اور جرأت وبے باکی، کسرِ نفسی، خلوصِ کامل اور ایثار جیسے نبوی صفات میں ان کی یکتائی و انفرادیت اسی کی متقاضی تھیں۔
بلاشبہ حضرت شیخ الاسلام نہ صرف اپنی اُس عظیم الشان درس گاہ کے علمی فیضانات کے حسین پرتوتھے، جو اپنے قیام سے لے کر آج تک عالمِ اسلام میں دینی علوم کی ترویج واشاعت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ممتاز شناخت رکھتی ہے؛ بلکہ وہ اس تحریکِ جہدوجہاد کے بھی جاں سپار رکن تھے، جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کی اولاد واحفاد سے شروع ہوئی اور سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی، حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور بلند فکر مردم ساز، عبقری شاین کے مالک شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کے راستے ان تک پہنچی تھی، وہ اپنے وقت میں عظیم الشان عالمِ دین اور محرمِ اسرارِ نبوت بھی تھے، بے باک اور سربہ کف مجاہد بھی، تصوف وسلوک کے امام بھی اوراخلاق واقدارِ اسلامی کے عظیم ترین قدردان اور ان کا پیکرِ محسوس بھی۔
ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یا تو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی سرگرمیوں میں گزرا یا دارالعلوم دیوبند کی مسندِتدریس سے تشنگانِ علومِ نبوت کو سیراب کرنے میں یا پھر اپنے منتسبین ومعتقدین کی روحانی واخلاقی تربیت میں؛ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں کے باوصف ان کی تصنیفی خدمات بہت کم ہیں، ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع ہی کب میسر آیا؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے قلم سے جو بھی تحریریں معرضِ وجود میں آئیں، وہ نہ صرف علمی وتاریخی نکتہ طرازیوں کا اعلیٰ نمونہ ہیں؛ بلکہ وہ ادبی ولسانی خوبیوں کے حسین شہ پارے بھی ہیں۔
مولانا کے رشحاتِ قلم میں خود نوشت سوانح ”نقشِ حیات“ کے علاوہ ”اسیرِ مالٹا“، ”متحدہ قومیت اوراسلام“، ”مکتوباتِ شیخ الاسلام“، ”مودودی دستور وعقائد کی حقیقت“، ”ایمان وعمل“ اور ”سلاسلِ طیبہ“ ہیں؛ جب کہ جمعیت علمائے ہند کے مختلف اجلاس میں پیش کیے گئے صدارتی خطبات کا مجموعہ ”خطباتِ صدارت“۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔