مولانا روشن سے ملاقات کا وقت طے تھا۔ پہنچے تو بیٹھک میں انتظار کرنے کو کہا گیا۔ پوچھا کیا کررہے ہیں۔ بتایا گیا کہ ٹیلیویژن کا مصری چینل دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد ترکی کا چینل دیکھیں گے اور پھر افغانستان کا۔ دو اڑھائی گھنٹے انتظار کرتے رہے۔ بالآخر وہ تشریف لائے۔ ساتھ ہی چائے بھی آگئی۔ چائے کے ساتھ چینی کے بجائے مصری کی ڈلیاں تھیں۔ گفتگو شروع ہوئی۔
’’حضرت! آج کل آپ کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے؟‘‘
’’پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ، ظاہر ہے مصر کی صورت حال ہے۔ سینکڑوں مصری مسلمانوں کو وہاں کی فوج شہید کر چکی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس پر شدید ترین ردعمل کامظاہرہ کریں۔ ہمیں مصر سے سفارتی تعلقات پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔
’’حال ہی میں شامی فوج نے سینکڑوں افراد کو کیمیائی ہتھیاروں سے قتل کیا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔ اس ظلم پر آپ کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔‘‘
’’آپ یہ سوال ایک سازش کے تحت کررہے تاکہ ہماری توجہ مصری عوام سے ہٹائی جائے۔ آپ کی اس سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’آپ نے فرمایا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مصر کی صورت حال ہے۔ اس کے بعد آپ کے خیال میں اس ملک کے کون کون سے مسئلے توجہ مانگتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں ترکی کے حالات پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور افغانستان کے حالات پر بھی۔‘‘
’’جو لوگ اس سارے تناظر میں بار بار پاکستان کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں وہ امت کے دشمن ہیں۔ وہ مسلمانوں کے عالمی اتحاد کو ریزہ ریزہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مسلسل ان کے لیے بددعائیں کررہے ہیں۔‘‘
’’آپ نے افغانستان کی بات ہے۔ مغربی افواج کے انخلا کے بعد ، وہاں امن و امان کا آپ کے نزدیک کیا امکان ہے؟
’’انشاء اللہ العزیز، وسیع امکان ہے۔ طالبان کی حکومت قائم ہوتے ہی افغانستان کے حالات میں مثبت تبدیلی آئے گی۔‘‘
’’طالبان، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پختون قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا وہ حکومت میں ازبکوں، تاجکوں، ہزارہ اور دوسرے نسلی گروہوں کو شریک کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟‘‘
’’کون سے ازبک اور کون سے تاجک؟ ازبک ازبکستان میں رہتے ہیں اور تاجک تاجکستان میں۔ آپ غیر منطقی سوال پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’مولانا! گزارش ہے کہ شمالی افغانستان میں پختونوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ شمالی افغانستان کوترکستان صغیر بھی کہا جاتا ہے۔ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی تاجک تھے، رشید دوستم ازبک تھا۔ وسطی افغانستان میں ہزارہ کا غلبہ ہے۔‘‘
’’آپ کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں۔ ویسے میری معلومات کی رو سے افغانستان میں صرف طالبان ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’آپ کی پارٹی الیکشن میں بھی حصہ لیتی رہی ہے۔ پارٹی کا اس ضمن میں منشور بھی ہوگا۔ یہ جو بڑے بڑے مسئلے ہیں۔ مثلاً فیوڈلزم، ناخواندگی، متعدد ذریعہ ہائے تعلیم، ایک طرف مدارس اور دوسری طرف کالج اور یونیورسٹیاں‘ ان مسائل کے ضمن میں آپ کے خیالات کیا ہے؟‘‘
’’بہت اچھا سوال ہے۔ میں چاہتا تھا کہ آپ یہ سوال ضرور پوچھیں۔ دیکھیے! ہم نے اس سلسلے میں ایک بنیادی پالیسی طے کی ہے۔ اس پالیسی کے نفاذ سے یہ سارے مسائل خود بخود یوں حل ہونا شروع ہوں گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔‘‘
’’وہ بنیادی پالیسی کیا ہے؟ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے‘‘
’’جی ضرور! وہ پالیسی ہے گو امریکہ گو۔‘‘
’’بس امریکہ کے جانے کی دیر ہے۔ اس کے بعد دیکھیے، اس ملک کی حالت ہی بدل جائے گی!‘‘
’’جب آپ گو امریکہ گو فرماتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
’’آپ کو یقیناً معلوم ہے کہ امریکہ کی موجودگی پورے کرہ ٔارض پر ہے۔ بحر ہند میں اس کے جہاز موجود ہیں۔ مشرق اوسط کے مسلمان ممالک میں اس کی افواج موجود ہیں۔ چین اور جاپان کے سمندروں پر بھی اس کا غلبہ ہے۔ اس تمام برتری کا سبب سائنس اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی حیرت انگیز ترقی ہے۔ آپ کے گو امریکہ گو کہنے سے امریکہ کہیں سے نہیں جائے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کریں اور امریکہ کو چیلنج کرنے کے قابل ہوجائیں۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟‘‘
’’مجھے آپ کے اس نکتے سے سازش کی بو آرہی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا سوال نہیں! آپ اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جب ہم نے کہہ دیا کہ گو امریکہ گو۔ تو بات ختم ہوگئی۔ اصل میں آپ کا ایمان کمزور ہے۔ آپ اگر صدق دل سے گو امریکہ گو کہیں اور یہ فقرہ دن میں بارہ پندرہ بار دہرائیں اور جب بھی موقع ملے، شاہراہوں پر اس کا نعرہ لگائیں تو امریکہ ضرور گو ہوجائے گا اور اس کے بعد ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔‘‘
دہشت گردوں نے پاکستان میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا ہے۔ دھماکے اور خودکش حملے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ مسجدیں محفوظ ہیں نہ مزار۔ تاہم تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ نے کبھی اس تباہی و بربادی کی مذمت نہیں کی۔ کیا آپ کو اپنے پاکستانی بھائیوں کا غم نہیں؟
’’دیکھیے، ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ یہ دہشت پسندانہ کارروائیاں ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں۔ آپ ڈرون حملے رکوا دیں دہشت پسندانہ قتل و غارت رک جائے گی؟‘‘
لیکن جو لوگ مارے جاتے ہیں، وہ تو ڈرون حملوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہ تو بے گناہ اور معصوم شہری ہیں اور بے قصور مارے جارہے ہیں۔
’’آپ پھر سازش کی طرف جارہے ہیں۔ یہ دہشت پسندانہ کارروائیاں بلیک واٹر کے ذریعے کی جارہی ہیں۔ آپ امریکہ کے حامی لگتے ہیں۔ گو امریکہ گو۔ گو امریکہ۔ گو امریکہ گو۔‘‘
’’حضرت! معافی کا خواستگار ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ دھماکے اور خودکش حملے کرانے والے خود ان اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ جو لوگ پکڑے گئے وہ سب پاکستانی ہیں۔ طالبان کبھی بھی امریکہ کے ایجنٹ نہیں بن سکتے۔‘‘
’’بالکل غلط! جب ہم نے کہہ دیا کہ یہ بلیک واٹر کے کارنامے ہیں تو بات ختم ہوگئی۔ اگر آپ نہیں مانتے تو ہمارے پاس دوسرے طریقے بھی ہیں۔‘‘
کسی کیا طلبا تنظیم کا کسی تعلیمی ادارے پر تسلط قائم کرنا ، وہاں کے نظم و ضبط کو اجاڑنا، اساتذہ اور انتظامیہ پر حملے کرنا جائز ہے؟
’’اگر اسی طلبا تنظیم کا تعلق ہماری پارٹی سے ہے تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔‘‘
’’لیکن یہ قرین انصاف نہیں! اگر ناجائز ہے تو سب کے لیے ناجائز ہونا چاہیے۔‘‘
’’آپ امریکی ایجنٹ ہیں اس لیے ایسی باتیں کررہے ہیں۔‘‘
ابھی انٹرویو جاری تھا کہ مولانا روشن کے سیکرٹری کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مولانا کو یاد دلایا کہ احتجاجی جلوس کا وقت نزدیک آرہا ہے اور یہ کہ مولانا نے اس کی قیادت فرمانا ہے۔ ہم نے آخری سوال پوچھا کہ کیا یہ جلوس مہنگائی کے خلاف نکل رہا ہے یا دہشت گردی کے خلاف۔ مولانا یکدم بھڑک اٹھے۔ ’’جاہل ہیں آپ! یہ جلوس مصر کی فوجی حکومت کے خلاف نکالا جارہا ہے‘‘۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...