مولانا کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، نظریات و عقائد پر بحث کی جا سکتی ہے، سیاسی کردار پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے مگر انکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مختصر جمیعت کیساتھ ہر حکومت کا نفس ناطقہ بننے پر جگتیں تو کسی جا سکتی ہیں مگر یہ عشق نہیں آسان، آگ کا دریا عبور کرنا پڑتا ہے۔ کوئی مانے، نہ مانے مولانا پاکستانی سیاست کے سب سے بڑے نباض ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی دکھتی رگ، سیکولر جماعتوں کا اختلاج، مذھبی جماعتوں کا فشار خون، عوامی جذبات کی دھڑکنیں، نوکر شاہی کی بدہضمی اور کرکٹ سے بھلے کتنے ہی ناواقف کیوں نہ ہوں مگر ایمپائر کی بے خوابی سمیت جملہ امراض رئیسہ سے انکی انگشت شہادت ایسی ہی شناسا ہے جیسے تسبیح کے دانوں سے
مولانا تو انتخابات کے فوری بعد ہی شدید احتجاج کے موڈ میں تھے، پارلیمان سے استعفوں کی بات کر رہے تھے، نہ ن لیگ اس حد تک جانا چاہتی تھی نہ پیپلز پارٹی مذھبی کارڈ استعمال کرنے کی حامی تھی۔ دو بڑی جماعتوں کے انکار کے باعث مولانا کو سیاسی تنہائی کے طعنے بھی سہنے پڑے مگر پائے استقامت میں جنبش نہ آئی اور اب ایک سال دو ماہ بعد یہی دونوں جماعتیں مولانا کی امامت میں جانب منزل کاررواں کی صورت نظر آتی ہیں۔ یقین جانیئے شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی ناواقف ہونگے کہ مولانا کیا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مولانا کرنا کیا چاہتے ہیں یہ صرف مولانا ہی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کیساتھ حکومتی صفیں گرد آلود جھکڑوں کی لپیٹ میں ہیں، سانس پھولی اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان دھرنے کیلئے کنٹینر اور بریانی فراہم کرنے کا اعلان کر رہے تھے اور ان کے دائیں اور بائیں کھڑے طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ تالیاں پیٹ رہے تھے مگر اب فشار خون بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم بھی طعنہ زن ہیں اور وزرا کا تو کیا ہی کہنا، پروقار محافل میں ڈیزل کے نعرے بھی گونجتے نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کی سمجھ نہیں آ رہا کہ مذاکرات کریں یا گالیاں دیں شاید اسی کشمکش میں دونوں کام ایک ساتھ کر رہی ہے، نئے نویلے وزرا نو مسلموں جیسے جوش و خروش میں معاملات سنبھالنے کے بجائے بگاڑ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب دو چار وزرا مولانا اور دھرنے کو کوس نہ رہے ہوں، ن لیگ میں پڑنے والی دراڑوں، پیپلز پارٹی میں بغاوت، علما کرام کا اختلاف، یہ سب تحریک انصاف روز دن میں کئی کئی بار بتاتی ہے مگر مولانا کی خاموشی چیختی چنگھاڑتی پریس کانفرنسز پر حاوی نظر آتی ہے۔
سیاسی میدان میں صرف اور صرف مولانا کی خامشی چیخ رہی ہے، کچھ تو خود کم گو ہیں، بولتے بھی ہیں تو تول تال کر ٹھوک ٹھاک کر، کچھ اظہار آزادی کا سوگ بھی جاری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کہیں نہ ہوتے ہوئے بھی ہر کہیں ہیں۔ عمران خان دھرنے کیلئے نکلے تھے تو پورا پاکستان شیڈول بمعہ تفصیلات سے واقف تھا، جو کمی رہ جاتی علامہ طاہر القادری اپنی شعلہ بیانی سے پوری کر دیتے مگر کیا کوئی جانتا ہے مولانا کی حکمت عملی کیا ہے؟ انہوں نے تو اب تک یہ بھی نہیں بتایا کہ آزادی مارچ کب اور کہاں سے نکلے گا، نکلے گا بھی یا یکلخت نمودار ہو گا، یہ مارچ ہے یا دھرنا، بحری ہے یا بری، حلوہ پوری پکے گا، آلو والی بریانی ہو گی یا دیگی قورمہ، دارالحکومت میں کب اور کتنا قیام رہیگا، پولیس کو سلیوٹ کیا جائیگا یا سڑک پر لٹا کر دھلائی، کون کون سے کپڑے کہاں کہاں سکھائے جائینگے، پی ٹی وی پر نعتیں چلیں گی یا ملی ترانے، کاررواں خالی ہاتھ ہو گا یا لٹھ بردار، پارلیمان اور حکام کا احترام کیا جائیگا یا ابے، تبے اور اوئے، مزے کی بات یہ ہے کہ دھرنے کے بارے میں ساری خفیہ معلومات ہمیں حکومتی صفوں سے مل رہی ہے۔ بات سیاسی دائوں پیچ کی ہو تو مولانا سے مقابلہ آسان نہیں، آپ یوٹرن لے سکتے ہیں تو مولانا ابائوٹ ٹرن لینگے، آپ دنیا کے سبز باغ دکھا سکتے ہیں تو مولانا جنت وہ بھی بمع حوران و غلمان، اگر پھر بھی کوئی نہ سمجھے تو پشتو کا تڑکہ لگا قائل کر سکتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز مولانا کے سامنے کھلی کتاب ہیں، کہہ نہیں سکتا دھرنا ہو گا یا نہیں، ہو گا تو کتنا کامیاب، نتیجہ خیز یا بے نتیجہ مگر جب تک مولانا میدان میں ہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مولانا کی بھید بھری شخصیت ہر کسی کو حیران کر دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، بقول رئیس فروغ
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے