قصہ ایک صدی کا۔
آج سے پچاس سال قبل 16 نومبر 1971 ء کے آغاز پر شب ایک بجے کے چند منٹ بعد مولانا غلام رسول مہر نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔ اس سے نصف صدی پیشتر، یعنی 18 نومبر 1921 ء کو ان کا پہلا اداریہ ”طلوع صبح امید“ کے عنوان سے روزنامہ ”زمیندار“ لاہور کی زینت بنا تھا۔ اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ اخبار پر دو دن بعد کی تاریخ لکھی جاتی تھی اور اخبار دوپہر کے بعد بازار میں آتا تھا، یعنی جس اخبار کی پیشانی پر 18 نومبر 1921 ء کی تاریخ ثبت تھی، وہ 16 نومبر 1921 کی دوپہر کو لاہور کی سڑکوں پر فروخت ہو رہا تھا جس میں مولانا مہر کی اولین نثری تحریر چھپی تھی۔
اس سے پہلے ان کی نظمیں تو چھپتی رہیں، ایک نظم جون 1911 کے پنجاب ریویو میں چھپی، ایک نظم 1912 ء میں زمیندار کے ہی صفحہ ء اول پر شائع ہوئی، اس وقت مولانا مہر اسلامیہ کاج لاہور میں ایف اے کے طالب علم تھے، نیز ایک نظم پنڈی بہا الدین کے معروف رسالے ”صوفی“ میں شائع ہوئی۔ اپریل 1912 ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجتماع میں مولانا مہر نے سولہ بندوں پر مشتمل ایک طویل نعتیہ نظم پڑھی تھی جو مکمل نظم انجمن کی سالانہ روداد میں چھپ گئی تھی لیکن اداریے کی شکل میں پہلی نثری تحریر آج سے سو سال پہلے زمیندار میں چھپی۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا مہر کو چند خاص مہربانیوں سے بھی نوازا تھا۔ پیدائش 13 اپریل 1893 ء کو ہوئی۔ اس دن اسلامی تاریخ 25 رمضان 1310 ہجری تھی۔ انتقال 16 نومبر 1971 کو ہوا، اسلامی تاریخ 26 رمضان 1390 ہجری تھی۔ یہ یقیناً اتفاق ہی ہے لیکن حسین اتفاق ہے۔
آپ ایک ایسے گاؤں اور ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں تعلیم کی طرف خاص رجحان نہیں تھا۔ زمیندار خاندان میں پڑھائی کی اہمیت کا احساس بھی نہیں تھا لیکن یہ بھی اللہ کی رحمت تھی کہ مولانا مہر کے والد کو شوق تھا کہ میرا بڑا بیٹا پڑھے اور میں اسے ولایت تک تعلیم دلواؤں۔ میرے دادا کا انتقال ہوا تو مولانا مہر سکول میں غالباً چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ مرتے وقت بھی والد نے ایک ہی وصیت کی کہ میری زمین میرے بیٹے کی تعلیم کا بار اٹھا سکتی ہے، اس کی تعلیم میں خلل نہیں آنا چاہیے۔ یہی وصیت اس اہتمام کا موجب بنی کہ جب والد کی وفات کے بعد مولانا مہر دل برداشتہ ہو کر تعلیم چھوڑ کر زمینداری پر توجہ دینا چاہتے تھے، والدہ اور ماموں نے سختی سے اصرار کیا اور تعلیم پر دھیان دینے پر راغب کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ اس وقت تعلیمی یا علمی معاملات میں رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اپنے مستقبل کے فیصلے خود مولانا نے ہی کیے اور اللہ کی رحمت نے ہاتھ تھامے رکھا، بھٹکنے نہیں دیا اور درست فیصلے ہی کیے۔
میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اساتذہ باکمال ملے، جیسے مولانا اصغر علی روحیؒ جو عربی اور فارسی کے اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ خواجہ دل محمد ریاضی دان تو تھے ہی، باکمال شاعر بھی تھے۔ پروفیسر ہنری مارٹن جیسے پرنسپل جو انگریزی پڑھاتے تھے اور انگریزی نظم کو اس انداز میں پڑھتے تھے کہ لہجے کے زیر و بم سے مفہوم طلبا کے ذہن نشین ہو جاتا تھا اور وضاحت کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ طلبا میں ایسے ساتھی ملے جنھوں نے عملی زندگی میں بہت نام کمایا۔ پاکستان کے سٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسن اسلامیہ کالج میں مولانا کے ساتھی تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور رسائل کے ایڈیٹر فضل کریم خان درانی، علامہ اقبال کے معتمد خاص چودھری محمد حسین بھی اسلامیہ کالج کے دوستوں میں سے تھے۔ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کر کے ملازمت کی غرض سے حیدرآباد دکن کا انتخاب کیا کہ وہ ”بظاہر“ آزاد مسلمان ریاست تھی۔ حیدرآباد میں بھی مولانا مہر کو علمی محفلیں میسر آئیں۔ مولانا عبدالسلام عالم فاضل شخصیت تھے، ان سے مولانا مہر نے بہت فیض حاصل کیا اور ہی کی شخصیت کا مولانا کے ذہن پر اتنا اثر تھا کہ جب 1921 میں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام اپنے استاد کے نام پر عبدالسلام رکھا۔
حیدرآباد کی علمی فضا نے مولانا کے ذوق کو نکھارا، وہیں لکھنے کی مشق شروع کی۔ تین چار کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں نے ایک کا مسودہ لاہور میں ہے۔ تیس کی دہائی میں ایک رسالے نے (غالباً ”عالمگیر“ نے ) انقلاب نمبر شائع کیا۔ اس نے مضمون کا تقاضا کیا تو اپنی حیدرآباد میں ترجمہ و تالیف کی گئی کتاب ”روسی انقلابیوں کی سرگزشت“ کا ایک باب اس رسالے کو بھیج دیا۔ امکان ہے اسی سلسلے میں اس کتاب کا مسودہ گاؤں پھول پور سے لاہور لایا گیا تھا۔ مولانا کے حیدرآباد کے ایک روزنامچے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ضخیم کتاب ”تاریخ قرطاجنہ“ کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ یہ سارے مسودات تقریباً تین ہزار کتابوں کے ساتھ مولانا کے گاؤں پھول پور میں پارٹیشن کے وقت رہ گئے۔ حیدرآباد میں ایک روزنامہ ”سلطنت“ کے ڈیکلریشن کی درخواست داخل کی۔ تب مولانا مہر کے ”کردار“ کی پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا موصوف کا تعلق مولانا ابوالکلام آزاد کی تنظیم ”حزب اللہ“ سے ہے۔ اس اطلاع کے بعد فوراً حیدرآباد سے نکالے گئے۔
1919 میں حیدرآباد سے واپس گاؤں آئے تو جالندھر کی خلافت تحریک کی تنظیم سے وابستہ ہو گئے۔ نومبر 1921 میں زمیندار میں پہلا اداریہ لکھا اور اس کے بعد پچاس سال تک مسلسل لکھتے ہی رہے۔ اداریے لکھے، نظمیں کہیں، کتابیں تصنیف کیں، مضامین لکھے، تراجم کیے۔ پچاس سال میں سو سے زیادہ کتابیں اپنی یاد کے طور پر چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ اس کے علاوہ جو تحریریں چھوڑ گئے، ان کا بھی شمار نہیں۔ ایک بار اندازے سے کسی کو لکھا کہ میرے اداریوں کو جمع کیا جائے تو متوسط سائز کی پانچ پانچ سو صفحوں کی اسی جلدیں بن جائیں گی۔ 1921 سے 1949 سال تک مولانا مہر کی عملی صحافت کا دور اٹھائیس سال پر مشتمل ہے۔
مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ نے راجا اسد علی خان کی سیکرٹری شپ میں زمیندار کے اداریوں کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا اور پروفیسر احمد سعید مرحوم نے 1923 اور 1924، دو سالوں کے مرتب کیے تھے۔ کیا آپ یقین کریں گے یہ اداریے ساڑھے پانچ سو صفحوں سے زائد ضخامت میں بڑے سائز کی چھ جلدوں میں سمائے ہیں۔ اسی سے مولانا مہر کے اندازے کی درستی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ساتھ مجموعے مکاتیب کے آ چکے ہیں۔ پانچ سو سے زائد مقالات مختلف رسائل کے لیے لکھے جن میں سے سو کے لگ بھگ مقالوں پر مشتمل تین ضخیم کتابیں چھپ چکی ہیں۔
مولانا مہر کے 1956 سے 1971 تک کے روزنامچے بھی اشاعت کے منتظر ہیں، مولانا کے اپنے مکاتیب سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں مختلف شخصیات کے پاس موجود ہوں گے۔ سب سے اہم مکاتیب کا وہ ذخیرہ ہے جو ہماری تاریخ کے اہم دور میں مولانا مہر کے نام آئے۔ ان میں سے چند مجموعے، مثلاً نقش آزاد، برق بنام مہر شائع ہو چکے ہیں۔ چند مشاہیر کے مکاتیب نقوش کے مکاتیب نمر اور خطوط نمبر میں بھی چھپ چکے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مولانا مہر پچاس سال کی بھرپور علمی و ادبی زندگی گزار کر رخصت ہوئے اور رخصت ہو جانے کے بعد کے پچاس سال میں بھی ان کی تحریریں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ جو کچھ ابھی محفوظ پڑا ہے، اس کو چھپتے چھپتے بھی پچاس سال لگیں گے۔ کسی ایک شخصیت کا ایسا طویل علمی و ادبی دور بھی شاید ایک منفرد واقعہ ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...