دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر
رات کو چادر مہتاب تنی ہوتی ہے
ـــــ
حفیظ جونپوری کایہ حسب حال شعربے طرح یاد آیا جب میانی صاحب کےایک خاموش گوشے میں چاردیواری کے اوپرسے جھانکتے ایک کتبے کی پشت پرکھدے حروف میں ایک نام نظرپڑا حسرتؔ
دل نے فوراً گواہی دی یہ گورغریباں یقیناً چراغ حسن حسرتؔ کی ہے امروز کے مالک میاں افتخارالدین کے کان کسی نے بھرے تو حسرتؔ کے سامنے ان کے منہ سے نکل گیا ’آپ مذہبی اردو لکھتے ہیں‘
ملاحظہ فرمائیے اخبار کے مدیرکا مالک کوجواب ’معاف کیجیے میاں صاحب زبان ہرایرے غیرےپچ کلیان کے بس کاروگ نہیں۔ آپ نے اردو میں کتنی کتابیں پڑھی ہیں؟
سکول کالج میں تو آپ انگریزی پڑھتے رہے اور صاحب کچھ دیر گذرتی ہے کہ پورے دفتر میں حسرتؔ کی آواز گونج رہی ہے
اجی چھوڑیے۔میاں افتخارالدین تو دولت کا حادثہ ہیں۔ ان سے شالامار کے آموں کی فصل کا حال پوچھیے۔ یہ کیا جانیں کہ زبان کیا ہے! ادب کسے کہتے ہیں! شعرکس باغ کی مولی ہیں!
پورا دفتر سنتا اور حسب توفیق و استظاعت میاں افتخارکے گوش گزار کر دیتا کچھ عرصہ ریڈیو پر کام کیا تو زیڈ اے بخاری کا فنی تعصب مولانا چراغ حسن جیسے جوہر کامل کی قدرنہ کرسکا۔ ممتاز مفتی کو بھی کہنا پڑا
بخاری برادران اگرچہ اعلیٰ درجے کے دانشورتھےلیکن ان میں طوائف کا عنصربہت زیادہ تھا۔ اس وجہ سے ریڈیو میں دربارداری کی رسم رائج ہوئی اور ادبی بھڑوے تخلیق ہوئے۔۔۔
اپنی اسی بے حجاب فطرت اور بے باک عادت کے سبب حسرتؔ نے آخری دنوں میں عسرت اور تنگدستی بھی دیکھی مگر اس مردِ قلندرنے سرکاری مدد نہ لی کہ روکھی سوکھی اچھی چل رہی تھی
26 جون 1955 کو یہ آفتاب ادب و صحافت ڈوب گیا اوراہالیان لاہور مولانا چراغ حسن کو میانی صاحب کے قطعے میں کھدی ایک لحد کے حوالے کر آئے ہم نے مولانا چراغ حسن حسرتؔ کو انکی برسی پر یاد کیا۔ اللہ ان کے ساتھ رحمت والا معاملہ فرمائے۔ آمین
ــــــ
مضمون کے مآخذ
اڑتے خاکے، سید ضمؔیرجعفری
لاہورکی باتیں، اے حمید
دل بھٹکے گا، احمد بشیر
چراغ حسن حسرتؔ احوال و آثار، ڈاکٹرطیّب منیر
“