شبنم ایک روز اپنے بیٹے کے ساتھ میرے گھر آئی ۔ مہران ابھی نو ، دس سال کا ہوگا ، مگر بہت ذہین اور شرارتی بھی ۔ ایک اور عادت اس کی یہ بھی ہے کہ ہر بات کو جاننے کا تجسس۔ سوالات کرتے ہی رہتا ہے ۔
سلام دعا کے بعد میں نے شبنم سے پوچھا ۔’’ باتیں تو ہوتی رہیں گی ، یہ بتاؤ کیا لوگی ؟ چائے یا حلوۂ سیال ؟ ‘‘ میرے سوال پر شبنم نے مسکرا کر کہا ۔’’ تمہارے یہاں تو چائے ہی پئیں گے ، حلوۂ سیال تو ہم روزانہ گھر پر پیتے ہی ہیں ۔ ‘‘ یہ سن کر مہران نے فوراً اپنا تجسس ظاہر کیا ۔’’ یہ حلوۂ سیال کیا ہوتا ہے ؟ اور ہم کب روز پیتے ہیں ؟ ‘ ‘ مہران کے سوال کا جواب دینا لازم تھا ۔ میں نے کہا ۔’’ بیٹا سب کے گھروں میں عام طور سے جو چائے بنتی ہے ، جس میں شکر چائے کی پتی کے ساتھ دودھ ملا یا جاتا ہے ، اسے مولانا ابوالکلام آزاد حلوۂ سیال کہا کرتے تھے ، یعنی بہتا ہوا حلوہ ، سیال اس چیز کو کہتے ہیں ، جو پانی کی طرح ہو بہنے والا ، اس میں وہ تمام چیزیں آتی ہیں ، دودھ ، چائے ، شربت وغیرہ سب سیال ہیں ۔‘‘ مہران نے پھر سوال داغ دیا ، مطلب سب لوگ چائے پیتے ہیں ، اصل میں وہ چائے نہیں ہے اور آپ بناتی ہیں ، وہ چائے ہے؟‘‘ میں نے مزید وضاحت کی ’’ چائے کا مطلب چائے ہوتا ہے ، یعنی اس میں کسی چیز کی آمیزش نہ ہو ، پانی میں شکر اور چائے کی پتی ملا کر جو چیز تیار ہوتی ہے ، وہ دراصل چائے ہے ، کچھ لوگ اس میں لیموں کے دو قطرے ڈال دیتے ہیں ، تو چائے سنہری ہو جاتی ہے اور ( گولڈن ٹی) کہلاتی ہے ۔ پانی میں پتی کے ساتھ ہلکا سا زعفران ملا کر اس میں شہد گھول دی جائے ، تو یہ زعفرانی چائے بن جاتی ہے ۔ اسی طرح شکر اور پتی کے ساتھ تھوڑی سی ادرک ملا دی جائے ، تو یہ ادرک کی چائے بن جاتی ہے ، لیمن گراس ملانے سے بننے والی چائے بہت خوش شکل ، خوش ذائقہ ہوتی ہے ، اس طرح دودھ شامل کیے بنا جو بنتی ہے ، وہ چائے ہوتی ہے ۔ ‘‘
مہران غور سے میری باتیں سن رہا تھا ، پھر پوچھا ۔ جب چائے ایسے بن سکتی ہے ، تو دودھ کیوں ملاتے ہیں ؟ ‘‘ مہران کا یہ سوال مجھے اچھا لگا ، میں نے اسے تفصیل بتا ئی ۔ ’’ ہمارے ملک میں پہلے پہل چائے کا تعارف انگریزوں نے اس طرح کروایا کہ شکر پتی اور دودھ ملائی ہوئی چائے ، لوگوں کو مفت پلائی جانے لگی اور یہ چائے لوگ پسند بھی کرنے لگے ، اس طرح یہ چائے جسے مولانا ابوالکلام آزاد حلوۂ سیال کہا کرتے تھے ، ہماری تہذیب میں شامل ہو گئی ۔ اس دور میں بھی مولانا ابوالکلام آزاد جو چائے پیا کرتے تھے وہ ہلکے سنہرے رنگ کی ہوتی تھی اور اس میں دودھ نہیں ملایا جاتا تھا ۔ ‘‘
دراصل چائے وہی ہوتی ہے ، جس میں چائے کی پتی اور شکر ہو، دودھ ملانے سے واقعی حلوۂ سیال بن جاتی ہے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...