مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر وہمہ جہت صلاحیتوں کا جن شعبہ حیات میں مظاہرہ ہوا، ان میں ایک اہم تعلیم کا میدان ہے. مولانا نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے گیارہ برس تک خدمات انجام دیں اور ہندوستان میں تعلیم کی ترقی، جدید علوم کی اشاعت بالخصوص سائنسی بصیرت پیدا کرنے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو ایک آزاد ہونے والے ملک کے لئے ضروری تھے. مولانا ایک جامع صفات شخصیت کے مالک اور جدید وقدیم دونوں دنیاؤں سے پوری طرح باخبر تھے. آپ نے علامہ شبلی نعمانی جیسے معمارِ تعلیم کی صحبت سے استفادہ حاصل کیا۔ جن کے مشورہ پر ندوۃ العلماء کا جدید ترین نصابِ تعلیم مرتب ہوا اور عصری تقاضوں پر کھرا اترا۔
مولانا آزاد کا یقین تھا کہ انسان قدرت کا ایک حصہ ضرور ہے لیکن سماجی شعور رکھتا ہے اور اس کی اپنی فطرت بھی ہے لہٰذا سائنٹفک دلائل کے ساتھ انسان کو شعور کی نفاست اور روح کی پاکیزگی بھی درکار ہے۔ ’’غبارِ خاطر‘‘ کے ایک خط میں مولانا نے اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ:
’’فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کرسکے گا، سائنس ثبوت دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دیتا ہے اگرچہ ثبوت نہیں دیتا اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے۔ ہم صرف انہی باتوں پر قناعت نہیں کرسکتے، جنہیں ثابت کرسکتے ہیں اور اس لئے مان لیتے ہیں کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بھی چاہئیں جنہیں ثابت نہیں کرسکتے لیکن مان لینا پڑتا ہے۔‘‘
وزارتِ تعلیم سنبھالنےکے بعد ۱۸ فروری ۱۹۴۷ء کی پریس کانفرنس میں مولانا آزاد نے تعلیم کے تعلق سے اپنے بنیادی نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔‘‘ چنانچہ تعلیم وثقافت کے ضمن میں مولانا نے جو کام کئے ان میں سب سے اہم کوشش لکھنؤ میں دینی مدارس ، مکاتب اور دارالعلوم کے سربراہوں کی کانفرنس تھی. اس کانفرنس میں انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید معلومات اور ترقی یافتہ صورت کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا تھا. مولاناچاہتے تھے کہ مشرقی ومغربی علوم میں ہم آہنگی پیدا ہو. یہ ترقی پذیر ہندوستان کے لئے ان کا ایک پرخلوص جذبہ وکوشش تھی. انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’تعلیم کا واحد مقصد روزی اور روٹی کمانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی نظریات کی بنیاد چار امور پر استوار ہے۔ ایک ذہنی بیداری، دوسرا اتحاد وترقی، تیسرا مذہبی رواداری اور چوتھا عالمی اخوت. مولانا کے خیال میں آزاد ہندوستان میں تعلیم کا سب سے اہم مقصد نئی نسل میں ذہنی بیداری پیدا کرنا ہونا چاہئے، کیونکہ انگریزوں کے طریقۂ تعلیم نے نوجوان نسل کے لئے دو زہریلے نظریات پیدا کردیئے تھے ایک غلامی دوسرے علیحدگی پسندی. انگریزوں کے تعلیمی نظام کا مقصد حکومت کے لئے ایسے کارندے پیدا کرنا تھا جو ان کے کام آئیں. اسی مقصد سے انہوں نے علیحدگی پسند نظریات کا بیج بویا اور طریقۂ تعلیم کو اس کے لئے سب سے مؤثر وسیلہ بنایا. لہذا سب سے پہلے اس زہرکو نئی نسل کے اذہان سے نکالنا چاہئے اس کے بعد آزاد ہندوستان کے تعلیمی مقاصد میں غلامی کی جگہ آزادی اور تعصب کی جگہ مذہبی رواداری کو ملنا چاہئے جس کے نتیجہ میں ہم مغربیت کے بجائے اپنے شاندار ماضی پر فخر کرسکیں گے. مولانا تعلیم کو صرف ملازمتوں کے حصول کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اس کے وسیلہ سے ذہنوں میں بیداری لانے اورانہیں آئندہ زندگی میں خودکفیل بنانے پر زور دیتے تھے. تقریباً دو صدیوں تک مغربی اور انگریزی طرزِ تعلیم نے نئی نسل کو جس غلامانہ ذہنیت اور تنگ نظری کا شکار بنادیا تھا، لوگ انگلستان جاکر تعلیم حاصل کرنا باعثِ فخر سمجھتے اور ملک کے علمی سرمایہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے. اس صورتِ حال میں تبدیلی لانا ضروری تھا. پٹنہ یونیورسٹی کے جلسۂ تقسیمِ اسناد میں اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے فرمایا تھا:
’’سوال یہ ہے کہ اب تک تعلیم پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا اس پر غیر ملکی حکومت کا قبضہ تھا. جو کچھ انہوں نے پڑھایا، ممکن ہے صحیح ہو۔جس طرح پڑھایا اس نے ہمارے ذہنوں کو بجائے کھولنے کے بند کردیا‘‘۔
مولانا نے ہر موقع اور ہر فکر وعمل میں درمیان کی راہ اپنانے کی تلقین کی. ان کے خیال میں آزاد ہندوستان کیلئے مغربی طرزِ تعلیم اور مشرقی طرزِ تعلیم کے درمیان کی راہ ہی مفید ہوگی اس لئے آئندہ ہمارا طریقۂ تعلیم ایسا ہو کہ دل و دماغ اور عقلیت وروحانیت میں توازن قائم رہے. نصاب اور طریقۂ تعلیم کے بارے میں بھی ان کی رائے بڑی معتدل اور معقول تھی. وہ نصاب و درس کے تعلق سے جدیدیت کے اور طریقۂ تعلیم کے لحاظ سے قدیم طرز کے قائل تھے۔ مولانا کے تعلیمی فلسفہ کی بنیاد مشرقی افکار اور مغربی نظریات میں ہم آہنگی وتوازن پر مشتمل تھی تاکہ نئی نسل میں جہاں سائنس کا صحیح استعمال آجائے، وہیں ا س کے ذریعہ ان مقاصد کا حصول بھی ممکن ہو جو انسانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ایک عالم دین اور مشرقی اقدار کے علمبردار ہونے کے باوجود مولانا نے سائنس اور مغربی ٹیکنالوجی کی تعلیم کو ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر سمجھا. ان کے خیال میں جو اچھا ہے، جہاں سے ملے لے لو اور جو خراب ہے، جہاں بھی ہو اسے چھوڑ دو. یہی مولانا آزاد کا لائحہ عمل تھا اور زندگی بھر وہ اس پر کاربند رہے۔
مولانا آزاد کے تعلیمی نظریے کا ایک اور پہلو ’’سیکولرازم اور قومی اتحاد‘‘ تھا، جس کی شدیدضرورت آزادی کے بعد اور آج بھی ہندوستان کو ہے. انگریزوں نے اس کو زبردست نقصان پہنچایا، ان کی حکمت عملی قوم کو تقسیم کرکے حکومت کرنے کی رہی. اسی لئے انہوں نے مذہبی شدت پسندی کی ہمت افزائی کرکے قومی اتحاد اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچایا. اسی مقصد کے حصول کیلئے انگریزوں نے جدید تعلیم کے نام سے جس نظامِ تعلیم کی داغ بیل ڈالی وہ فرقہ واریت پر مبنی تھا، جس کو انگریزوں نے عربی وفارسی اسکول اور سنسکرت اسکولوں کا نام دیا. جس طرح ہندوپانی، مسلم پانی، ہندوتہوار، مسلم تہوار کو انہوں نے فروغ دیا، اسی طرح علیحدہ علیحدہ تعلیمی ادارے بھی قائم کئے تاکہ قوم ہندو تعلیم اور مسلم تعلیم کے خانوں میں تقسیم ہوجائے۔
آزادی کے بعد مولانا آزادکے پیش نظر اس اندازِ فکر اور طریقۂ عمل کو ختم کرکے ماڈرن تعلیم کا نظام رائج کرنا تھا، جس کے مقاصد میں متحدہ قومیت کا فروغ، سیکولرازم اور قومی ترقی شامل تھے. انہوں نے مذکورہ تینوں مقاصد کو پورا کرنے کیلئے نہ صرف لائحہ عمل طے کیا بلکہ متعدد کمیشن قائم کرکے اور کانفرنس وسیمینار منعقد کرکے یہ بتایا کہ ’’ہم اپنی مادی دولت اور سازوسامان کو جغرافیائی یا طبقاتی حد بندیوں میں قید کرسکتے ہیں لیکن علم اور تہذیب کی دولت پر مہر نہیں لگا سکتے. وہ تمام انسانوں کی میراث ہے اور اس میں تنگ نظری سے بڑھ کر دوسرا کوئی جرم نہیں ہوسکتا، یہی قوموں کی ترقی میں رکاوٹ بھی بنتا ہے”۔
مولانا آزاد کی ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۲ء تک کی ان تقاریر کا جو انہوں نے تعلیمی پروگراموں میں کی تھیں، اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مولانا کے ذہن میں تعلیم کا نہایت وسیع اور کافی گہرا مفہوم تھا. انہوں نے انفرادی تعلیم کے بجائے قومی تعلیم کا تصور پیش کیا. ان کے نقطۂ نظر سے مذہبی تعلیم تو ہر ہندوستانی بچے کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ اخلاقی و روحانی صفات سے آراستہ ہوسکے، لیکن تعلیمی نظام کو فرقہ واریت سے پاک رکھ کر تعلیم کی بنیاد قومی مصالح اور اتحاد پر استوار ہونی چاہئے. وہ تعلیمِ نسواں کے بھی زبردست حامی تھے. ان کا یہ کہنا تھا کہ اس سے ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ وہ سیکنڈری سطح کی تعلیم کو مفت رکھنا چاہتے تھے، جس پر آزادی کے پچاس برس بعد عمل شروع ہوا. اسی طرح انہوں نے تعلیم کے لئے مخصوص بجٹ کے ایک فیصد کو بڑھاکر دس فیصد کرنے کی تجویز رکھی اور تعلیم کے بارے میں پانچ پروگرام پیش کئے۔ (۱) اسکول جانے والے تمام بچوں کے لئے بنیادی تعلیم کی فراہمی (۲) ناخواندہ بالغوں کیلئے سماجی تعلیم (۳) سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے سہولتوں کی فراہمی (۴) قومی ضروریات کے حصول کیلئے فنی اور سائنسی تعلیم (۵) فنونِ لطیفہ کے فروغ اور دیگر تفریحات کی فراہمی کیلئے ثقافتی سرگرمیوں میں اضافہ.
ان کے زمانے میں وزارتِ تعلیم نے مختلف شعبوں میں رہنمائی کی اور بتایا کہ تعلیم صرف کتابی علم کا نام نہیں. اس زمانہ میں سائنٹیفک اور ٹیکنیکل ایجوکیشن، ٹیچر ٹریننگ، زبان کو پڑھانے کی ٹریننگ، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کیلئے اسکالر شپ کا آغاز ہوا۔ ملک کے پسماندہ طبقات کی ترقی کی اسکیمیں شروع ہوئیں۔ فروغِ انسانی وسائل کے نام کی اصطلاح کا اگرچہ استعمال نہیں ہوا لیکن وزارتِ تعلیم کی اس طرح تنظیم کی گئی کہ تعلیم کو انسانی وسائل کے فروغ کا ذریعہ بنانے کی سمت میں وزارتِ تعلیم کی توجہ مبذول ہوئی. ملک کی تعلیمی و سائنسی ترقی کے لئے بھی مولانا آزاد کی قیادت میں اس وزارت نے گرانقدر کام کیا، جس میں فنی تعلیم کی کُل ہند مجلس کی تنظیمِ جدید، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا قیام، کونسل فار سائنٹفیک اینڈ ریسرچ اور اس کے ماتحت سائنسی تحقیقات کے قومی اداروں کا قیام جیسے ہمہ جہت کام انجام پائے. خاص طور پر یو جی سی (UGC)کی تشکیل سے ملک میں تعلیم کا جال سا بچھ گیا اور تعلیمی اداروں کو فراغ دلی کے ساتھ مالی امداد فراہم ہونے لگی. ان کی رفتارِ ترقی سے سمت و معیار کو سمجھنے میں مدد ملی. حقیقت یہ ہے کہ آج ہندوستان میں تعلیم کا جو غلغلہ نظر آتا ہے، دوسو کے قریب یونیورسٹیاں، آئی آئی ٹی، سائنسی انسٹیٹیوٹ، فنونِ لطیفہ کی اکادمیاں قائم ہیں وہ روشن دماغ اور وسیع النظر وزیرِ تعلیم مولانا ابوالکلام کی ہی دین ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔