مولا یا صل ِ وسلم دائماً ابداً
علىٰ حبيبك خير الخلق ِکلهم
یہ شعر شہرہء آفاق قصیدہء بردہ شریف کی آن بان شان اور پہچان ہےلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت شرف الدین امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے قصیدے میں یہ کہیں نظرنہیں آتا اور نظرآئے بھی تو کیسے؟ کہ شاعر نے قصیدہ ء بردہ شریف نہیں ، بلکہ اسے اس کے دیباچے کی زینت بنایا ہے۔ اس شہرہ ء آفاق قصیدہء بردہ شریف میں معانی کے جو آفاق اور مطالب کے جو جہان آباد ہیں ، انہیں خانوادہء چشت کے ایک سپوت سید عارف معین بلے نے دریافت کرکے شعری پیرائے میں بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ اجاگر کیاہے۔اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے قصیدہء بردہ شریف کی زمین ہی میں تخلیقی گلکاریاں کی ہیں ۔انہوں نےقصیدہء بردہ شریف کے مقبول و معروف ترین شعر کےمفاہیم و مطالب کو بطور ِ خاص موضوع ِ سُخن بنایا ہے جوقصیدہ ء بردہ شریف کی پہچان بناہے۔ قصیدہ ء بردہ شریف کے اس قصیدے میں نئے نکات اور نئے مفاہیم آپ کے دامن ِ دل و نگاہ کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس ہوں گے۔یہ اپنی نوعیت کا مختلف تحقیقی اور تخلیقی کام ہے ، جسے قارئین کرام کےذوق ِ مطالعے کی نذر کیا جارہا ہے۔ یہ بتانا غیر ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ سید عارف معین بلے نے قصیدہ ء بردہ شریف کا اردو میں منظوم ترجمہ بھی قصیدہ ء بردہ شریف کے رنگ و آہنگ میں کیا ہے اور اس کے حواشی بھی منظوم لکھے ہیں
مولا یا صل ِ وسلم ۔ قصیدہ ء بردہ شریف کاقصیدہ
قصیدہ نگار: سیدعارف معین بلے
کیا لکھی ہے نعت بوصیری نے اے شاہ امم
ایسا لگتا ہے کہ دل کے ساتھ رویا ہے قلم
چاپ قدموں کی سنائی دے رہی ہے عرش پر
مرحبا صل ِ علیٰ، شانِ رسولِ محترم
پر فرشتوں کے جہاں پرواز کر سکتے نہیں
رفعتیں ساری مرے سرکار کے زیرِ قدم
اے مرے مولا حبیبِ پاک پر پیہم درود
بھیج رحمت اور سلام اپنا تو اِن پر دم بہ دم
تا ابد برسیں تری رحمت حبیبِ پاک پر
ہیں جو مخلوقاتِ گُل میں سب سے اعلیٰ، محترم
سچ تو یہ ہے اس قصیدے میں نہیں شامل یہ شعر
ہاں، مگر اس کے دیباچے میں ہوا ہے یہ رقم
شعر یہ سارے قصیدے کا یقیناً ہے نچوڑ
شعر کیا ہے؟ حاصلِ نعتِ رسولِ محترم
سوچئے تو شعر کے کوزے میں دریا بند ہے
بیج میں ہے پورا نخلستان اے شاہِ اُمم
غور کیجے تو معانی کا جہاں آباد ہے
منزلت سرکارِ دو عالم کی ہے اس میں رقم
کیا پروئے ہیں لڑی میں دیکھئے مدحت کے پھول
ایک مصرعے میں دُعا ہے، ایک مصرعے میں ہے دم
ایک مصرعے میں سلامی بھی، درودِ پاک بھی
دوسرا ہے پرتو ِ شانِ نبی ء محتشم
آبرو شعر و سخن کی ہے، ادب کا افتخار
ڈوب کر لکھا گیا ہے، پڑھئے تو آنکھیں ہوں نم
باقی ساری نعت میں اس شعر کی تشریح ہے
یہ خیال و فکر کی معراج، توقیرِ قلم
یہ محبت کا بیاں ہے، معرفت کا ترجماں
دھڑکنیں دل کی اگر چاہیں تو سُن سکتے ہیں ہم
سچ اگر پوچھو قصیدے کی یہی بنیاد ہے
ہے یہی بنیاد تو اس نعت کی شانِ ا َتم
گونج دنیا میں سنائی دے رہی ہے آج بھی
دُھن رہے ہیں جس پہ سر اہلِ عرب، اہلِ عجم
اِس کلی کے ہی چٹکنے سے مہک اٹھی فضا
کیا بہارِ جاوداں کی یہ بشارت سے ہے کم
یہ قصیدہ ہے اگر سورج تو یہ پہلی کرن
پہلا قطرہ اس کو بارش کا بھی کہہ سکتے ہیں ہم
گونج ہے صدیوں سے اس کی، سُن رہے ہیں اب بھی لوگ
تار دل کے بھی ہلا دیتے ہیں اس کے زیر و بم
مولا یا صلِ وسلم میں ہیں بارہ ہی حروف
لفظ بارہ دونوں مصرعوں میں، زیادہ ہیں نہ کم
دیکھئے ، مالا میں بارہ گوہر ِ نایاب ہیں
بارہ لفظوں میں دبستاں کردیا ہے یہ رقم
ٹانک کر بارہ ستارے دونوں مصرعوں میں حضور
روشنی پہنچائی ہے رُشدو ہدایت کی بہم
بارہ رنگوں کایہ گلدستہ بہاروں کا امیں
لاکھ رُت بدلے مگر خوشبو کہاں ہوتی ہے کم
برج بارہ،ماہ بارہ، بارہ ہی اپنے امام
جلوہ فرما آسمان ِ شعر میں بارہ عَلَم
بارہ گھڑیاں دِن کی ہیں ،بارہ ہی گھڑیاں رات کی
اس لئے بھی روز و شب ہے ورد اس کادم بہ دم
درحقیقت ہے یہ قصر ِ نعت کی بارہ دری
در ہو کوئی اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جھانکتے ہیں اس کے ہر دَر سے معانی کے جہاں
اللہ اللہ ، کیا لکھی ہے، مدحت ِ شاہ ِ اُمم
خشت ِ اول ہے یہ قصر ِ مدحت ِ سرکار کی
اِس کو کہہ سکتے ہیں منزل کی طرف پہلا قدم
فصل ِ گُل کے رنگ ہیں چاروں طرف پھیلے ہوئے
پھولا ہے گلزار ِ مدحت، کیا لگائی ہے قَلَم
کُھل گئے دوشیزہ ء الفاظ کے بند ِ قبا
دیکھو لیلی ء معانی کیا قیامت سے ہے کم
اِس میں رعنائی غضب کی ہے، بَلا کاحسن ہے
مرمِٹے ہیں اس لئے بھی سچ اگر پوچھو ،تو ہم
عشق میں ڈوبا ہوا ہے ،مولا اس کاحرف حرف
بحر میں اس کی مچارکھا ہے موجوں نے اُدھم
سوز ہے ہرجزم میں ،ہے درد مولا پیش پیش
اِس کے ہر زیر و زَبر میں زمزمہ خواں زیر و بم
درد میں ڈوبی ہوئی آواز یہ اندر کی ہے
دھڑکنوں سے دل کی ہم آہنگ ہے ساز ِ اَلم
اس کے ہر شوشے میں ہیں ارض و سما کی وسعتیں
نکتے ہر نقطے میں ، انگشت ِ بدنداں ہے قلم
سچ اگر پوچھو قصیدے کادیباچہ ہے یہ شعر
شعر ہے آئینہ ء شان ِ نبی ء محتشم
مولا یا صل ِ وسلم ہے یقیناً اِک دُعا
اِک دُعا ایسی جو رہتی ہے لبوں پر دَم بہ دَم
یہ وظیفہ وہ ہے ،جس کورَد نہیں کرتا خُدا
ہاں ،اسی دستک سے کھل جاتے ہیں ابواب ِ کرم
یہ دُعاہے یا کلید ِ باب ِ جنت ہے حضور
لب پہ آجائے تودُنیا کاجہنم بھی اِرم
مرحبا، صل ِ علیٰ ، صل ِ علیٰ ، کہتی رہی
اللہ اللہ ، دل کی ہر دھڑکن رسول ِ محترم
مولا یا صل ِ وسلم لب پہ آجائے حضور
کرنا چاہیں ، اس قصیدے کی اگر تلخیص ہم
اس اثاثے پر بھی ہے مدحت سرائی کی اساس
چل رہے ہیں لے کے سارے نعت خواں بھی یہ عَلم
صوفیاء کا یہ وظیفہ، اولیاء کا ورد ہے
جھوم اٹھے ہیں جسے سُن کر رسولِ محترم
دل یہ کہتا ہے کہ بابِ مغفرت کی ہے کلید
کھلتے ہیں اسرار جب یہ شعر دہراتے ہیں ہم
دل گواہی دے رہا ہے ورد گر جاری رہے
رحمتیں برسیں گی، ہو گا ہم پہ مولا کا کرم
ہے غذا یہ روح کی، بیماریوں کا ہے علاج
ہیں اگر غافل تو خود پر توڑتے ہیں ہم ستم
اللہ اللہ کچھ نہ کہہ کر بھی سبھی کچھ کہہ دیا
مرحبا! مدحِ صفاتِ صاحبِ لوح و قلم
دیکھئے تو ہے دُرِ نایاب اس کا حرف حرف
ہے زباں گوہر فشاں، بے شک قلم معجز رقم
کیا سلامی دوں میں گل افشانی ء گفتار پر
ہے قلم سجدے میں میرا، احتراماً سر ہے خم
کملی ء شاہِ دو عالم میں ہے یہ لپٹا ہوا
پھیلنے سے، اس کی خوشبو ہو نہیں سکتی ہے کم
آپ نے یہ شعر کہہ کر خود کو ثابت کر دیا
اللہ اللہ! خسروِ اقلیمِ قرطاس و قلم
آخرت کا ہے یہ توشہ، ہے یہ زادِ راہ بھی
دنیا و دیں کے بھی یوں سامان پہنچائے بہم
آپ کے اس شعر میں ذکرِ حبیبِ پاک ہے
اس لیے لازم ہے اس پر بھی اٹھاؤں میں قلم
سوچئے تو کون ہے ؟ آخر حبیبِ کبریا
یہ فقط ہے آپ کا اعزاز اے شاہِ امم
آپ کے سر پر حبیبِ کبریائی کا ہے تاج
یہ ہے شانِ پاسبانِ حُرمتِ بیت الحرم
حسنِ یوسف اور دم عیسیٰ، یدبیضا ہی کیا
سب صفاتِ انبیاء ہیں آپ کی ہستی میں ضم
ایک چہرے میں سبھی نبیوں کے چہروں کی جھلک
یکجا ہیں اوصاف سارے، وہ بھی با درجہ اتم
اللہ اللہ! اے مرے اللہ وہ تیرا حبیب
ہر اذاں میں لیں خدا کے ساتھ جس کا نام ہم
جن کے چہرے سے نظر ہٹتی نہیں اللہ کی
والضحیٰ کہہ کر بھی جن کے رخ کی کھائی ہے قسم
جن کا کملی اوڑھنا اللہ کو پیارا لگا
یا مزمل کہہ دیا جب دیکھا پیروں پہ ورم
چادرِ تطہیر میں لپٹے نظر آئے اگر
تو مدثر ہو گئے رب کے حبیبِ محترم
چہرہ ہو، زلفیں ہوں، ان کا شہر یا عمرِ عزیز
کھائی ہے اللہ نے کن کن حوالوں سے قسم
اِس حبیبِ پاک کی عظمت کے کیا کہنے حضور
بے زبانوں پر بھی رحمت، دشمنوں پر بھی کرم
اس حبیبِ پاک کو ہے فخر اپنے فقر پر
ہے چٹائی پر بھی ان کا دیدنی جاہ و حشم
بوریا بستر ہے، تکیہ اینٹ کا، سچ یہ بھی ہے
نعمتیں سب بانٹتے ہیں صاحبِ جو دو کرم
عہد نبیوں سے لیا ایمان ان پر لائیں گے
ہیں امام المرسلیں بے شک رسولِ مختتم
وہ حبیبِ پاک جس کی چاہتا ہے رب رضا
جاری ہے دن رات ان پر بارشِ لطف و کرم
صرف اس دنیا نہیں، دونوں جہاں کی بات ہے
چل رہا ہے آپ ہی کا حکم، سکہ اور قلم
جو بھی دیں لے لو، وہ جس سے روک دیں، رُک جاؤ تم
حکم ہے منصب رسالت کا سمجھ سکتے ہیں ہم
جب بلائیں تم چلے آؤ توقّف کے بغیر
دھیمے لہجے میں کرو تم، گفتگو بھی کم سے کم
اُن کا ہر فرمان ہے، فرمانِ رب ذوالجلال
ہے خدا کا قول، ہر قولِ رسولِ محترم
ہے یقینا ان کی طاعت، طاعتِ ربِ کریم
ہے خدا کا ہاتھ بے شک آپ کا دستِ کرم
کوئی خطبہ ہو یا کلمہ ہو، اذانیں یا نماز
ذکرِ خیرِ سیدِ لولاک بھی کرتے ہیں ہم
٭
سچ ہے یہ قرآن کی تعلیم کا بھی ہے نچوڑ
حاصلِ دنیا و دیں، حُبِ رسولِ ذی حَشم
بندگی مدحِ رسالت سے کوئی خالی نہیں
یہ ہے منشائے مشیت، شرک کب کرتے ہیں ہم
روح کو بالیدگی، جاں کو ملی آسودگی
میں ہی کیا، ایمان میرا ہو گیا ہے تازہ دم
یوں بھی رکھی ہیں خدا نے آپ کی مخفی صفات
ذہن ہیں محدود، لامحدود کو سمجھیں گے کم
آپ کے اس شعر پر لاکھوں قصیدے وار دوں
اس پہ ہے قربان میری، جان، میرا دل، قلم
سرورِ کونین نے بردہ عطا فرما دیا
ہو مبارک حضرت ِ بوصیری دامانِ کرم
سچ اگر پوچھو قصیدے کا ہے یہ عنوان بھی
ثبت فرما دی گئی مہرِ نبوت، والقلم
مل گئی ہے، جس کو دربارِ رسالت سے سند
سوچئے تو اس کی کیا توصیف کر سکتے ہیں ہم
مولا یا صل ِ وسلم ۔ قصیدہ ء بردہ شریف کا قصیدہ
قصیدہ نگار: سید عارف معین بلے