(Last Updated On: )
مولا علی نے فرمایا کہ جب کسی پر احسان کرو تو اس کے شر سے پناہ مانگو۔کون نہیں جانتا کہ 2018 کے انتخابی نتائج کو محنت کرکے کپتان کے لیئے قابل قبول بنایا گیا۔انتخابات سے قبل لاڈلے کی ہرفرمائش کو پورا کیا گیا۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو شدید دباو میں رکھا گیا ۔بلیک لیبل شہد لانے والے کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو شکست دلا کر کس طرح اپنی انا کی تسکین کی گئی ۔اویس لغاری اور دوست محمد کھوسہ کو ایک ایسی خاتون کے ہاتھوں شکست ہوئی جس کو اپنے حلقہ کا بھی پوری طرح علم نہیں تھا۔نوٹنکی کا کھیل عروج پرتھا ، نیا پاکستان بنانا تھا اس لیئے محبت اور جنگ کی طرح ہر حربہ آزمایاگیا۔کون نہیں جانتا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے مضبوط امیدواروں کو دباو ڈال کر آخری رات پارٹی ٹکٹ واپس کرائے گئے ۔
کہیں دھونس ، کہیں دباو ، کہیں دھاندلی مدعا یہ کہ ہر ناجائز عمل کو ان انتخابی ایام کے دوران جائز کردیا گیا۔ایک ہیجان برپا کیا گیا کہ کپتان آئے گا تو ملک وقوم کے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ اسمبلی میں سکون چاہیے لہذا چھوٹی بڑی جماعتوں کی ٹاپ لیڈر شب کو اسمبلی سے ہی باہر رکھا گیا ۔پیپلزپارٹی سندھ کی بدولت بچ گئی اور وہ جیسے تیسے اسمبلی میں پہنچ گئے ۔عوام پرمقبولیت کا تاثر قائم کرنے کے لیے لاڈلے کو پانچ حلقوں سے کامیاب کرایا گیا۔یہ الگ بات کہ باقی ماندہ چار نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات نے اس مہاتما کی کامیابی کا پول کھول دیا۔
پوری گھن گرج اور شور وغوغا میں کپتان وزیر اعظم ہاوس منتقل ہوگئے ۔بس یہی وہ لمحہ تھا جس کپتان نے اپنے محسن سے منہ موڑنا شروع کیا۔کابینہ کی تشکیل کا وقت آیا تو کپتان نے اپنے محسنوں کی ایک نا سنی اور کہا کہ کابینہ اپنی مرضی سے تشکیل دیں گے ۔نتیجہ یہ کہ مراد سعید ، زرتاج گل ،علی امین گنڈا پور اور اس طرح کے بے شمار ہیروں کو چن چن کر وزارتیں دی گئیں۔کپتان کے محسن خاموشی سے دیکھتے رہے کہ ہوکیا رہا ہے ۔
پنجاب کی بات ہوئی تو کپتان نے کہا کہ وہ پنجاب کو خود دیکھیں گے اور انہوں نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا کر پنجاب کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھ لیئے۔وٹس ایپ پر ٹرانسفر پوسٹنگ کی ہدایات دیتےہوئے کپتان نے پنجاب پر بھی حکمرانی شروع کردی۔متعدد بار بار آئی جی اور چیف سیکرٹری بدلے مگر پھر بھی پنجاب کے حالات نہیں بدلے ۔ایک بار کپتان پنجاب کی حکمرانی سے دستبردار ہوجاتے تو پنجاب کے حالات شائد بہتر ہوجاتے ۔مگر کیا کریں بوئےسلطانی نہیں گئی سر سے اور پنجاب رُل گیا۔منتوں مرادوں سے ایک طویل جدوجہد سے لایا گیا تھا لاڈلے کو لہذا محسن خاموشی سے دیکھتے رہے اور برداشت کرتے رہے ۔
مگر حالات تھے کہ نہیں سنبھل سکے اور آئے روز معاملات تنزلی کا شکار ہونے لگے۔ایسے میں مختلف نشستوں پر ضمنی انتخابات بھی ہوئے جس میں محسنوں کو علم ہوا کہ کپتان اپنی مقبولیت کھو چکا ہے۔ہر ضمنی الیکشن میں کپتان کی مقبولیت کا گراف نیچے جانے لگا اور اپوزیشن فتح یاب ہوتی گئی ۔اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کپتان کے محسنوں کے کےلیے منتشراور پریشان حال اپوزیشن کے مقابلے میں کپتان کامیاب نہیں ہوسکا۔مگر ضد اور انا تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔محسن پھر بھی ساتھ رہے کہ شائد کہیں کچھ بہتری ہوجائے ۔مگر ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
بہترین ایک سو معاشی ماہرین کی ٹٰیم کے دعویدار کپتان نے پے در پے وزیرخزانہ تبدیل کرکے رہی سہی معیشت کا جنازہ نکال دیا۔نا قرضہ کم ہوا، نا روپیہ مستحکم ہوا اور نا ہی روزمرہ کی اشیا سستی ہوئیں۔کشکول توڑنے کے دعویدار کپتان نے ایسا کشکول تھاما کہ الامان الحفیظ ۔کہاں گئے خود کشی کے اعلان اور کہاں گئی پھانسی کے پھندے کی رسی اب تو عالم یہ ہےکہ کشکول تھامے آئی ایم ایف کےدروازے پر بیٹھے ہیں ۔اور وہ سننےکے لیے تیار نہیں کچھ دینےکو تیار نہیں ۔
اور کیا اب دیکھنے کو باقی ہے آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا کے مصادق جب کچھ نہیں بن پڑا تو آرمی چیف نے نجی محفل میں دل کی بات کہہ ڈالی کے نواز شریف محبت وطن ہے اور ڈان لیکس والا مس ہینڈل ہوا۔یہ وہ لمحہ تھا جب معاملات نے دوسرا رخ اختیار کرنا شروع کیا۔کپتان اتنا تو سمجھ دار تھا دیکھا کہ کسی بھی وقت حالات بدل سکتے ہیں الیکڑانک ووٹنگ مشین پر کام شروع ہوا۔سوچا کہ اس مشین کو منظور کراکے قبل از وقت انتخابات کرا کے اگلے پانچ سال کی باری لے لوں گا ۔مگر ایسا نا ہوسکا اب توشائد دوبارہ 2018 جیسے انتخابات ہوں گے اور اس بار لاڈلا کوئی اور ہوگا ۔پھر میرے عظیم کپتان اور اس کی ٹیم کا کیا ہوگا یہ سوچنے والی بات ہے۔
بدترین معاشی کارکردگی ، الیکڑانک ووٹنگ مشین کی منظوری نا ہونا اور اپوزیشن کے خلاف مقدمات سے کچھ نا نکلنے پر کپتان کی جھنجھلاہٹ قابل فہم ہے ۔لہذا کپتان نے فیس سیونگ کے لیے جو راستہ چنا وہی راستہ راجہ پورس کی فوج کے ہاتھیوں نے چنا تھا۔کپتان اگلے الیکشن کی انتخابی مہم کی تقاریر کے لیے جس میں وہ خود کو ایک جمہوری لیڈر ثابت کرسکیں اپنے ہی محسنوں پر چڑھ دوڑا ہے ۔مقام حیرت ہےکہ دھرنے کے دوران ایمپائر کی انگلی کا منتظر خود کو چی گوئیرا ثابت کرنا چاہتا ہے
آرمی چیف کی ایکسٹیشن سے لےکر ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹی فیکشن تک جس طرح کپتان نے اپنے محسنوں کو خراب کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔لیکن کپتان کو علم ہونا چاہیے کہ اس کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہیں دیا جائے گا ۔مدت پوری کرائی جائے گی اور اگلے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹٰی ، جے یو آئی سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے سامنے بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے گا۔مہنگائی سے تنگ عوام کو کپتان کس طرح مطمئن کرئے گا اس پر کپتان ابھی سے سوچنا شروع کردے ۔رہی بات کپتان کے محسنوں کی تو ان کو مولا علی کا فرمان نہیں بھولنا چاہیے کہ جس پر احسان کرو اس کےشر سے پناہ مانگو۔
تحریر:ملک سراج احمد