معجزے بِکتے نہیں
تحریر: ڈورِس لیسِنگ (برطانیہ)
اردو ترجمہ: نجم الدین احمد (بہاولنگر، پاکستان)
جب ننّھا ٹیڈی پیدا ہوا تو فارقؤار خاندان کئی برسوں سے بے اولاد تھا۔ اُن کے ملازم بھی اُن کی خُوشیوں میں شریک ہوے۔ جب وہ بچّے کی پیدائش پر مسرت کے اظہار کے لیے آئے تو اپنے ساتھ حلال پرندے، انڈے اور پھُول لائے۔ وہ اُس کے سُنہرے سر اور نیلی آنکھیں دیکھ کر خُوشی سے چِلّا اُٹھتے۔ وہ بیگم فارقؤار کو یُوں مبارک باد دیتے جیسے اُس نے بہت بڑا معرکہ سرانجام دیا ہو۔۔۔ اور اُسے بھی یہی لگتا۔۔۔ مقامی لوگوں کے لیے اُس کی مُسکراہٹ گرم جوش اور متشکرانہ ہوتی۔
بعد میں جب ٹیڈی کی جھنڈ اُتروائی گئی تو باورچی گِڈیون نے زمین سے بالوں کے سُنہرے نرم گچھے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا لیے۔ پھر وہ ننّھے ٹیڈی کی طرف دیکھ کر مُسکرایا اور بولا۔ ’’ننّھے سُنہرے سر۔‘‘ یہ بچّے کا پیار کا نام پڑ گیا۔ گِڈیون اور ٹیڈی پہلے ہی روز سے ایک دُوسرے سے خُوب مانوس ہو گئے۔ گِڈیون جیسے ہی اپنے کام سے فرصت پاتا وہ ٹیڈی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر بڑے درخت تلے لے جاتا اور اُس کے ساتھ کھیلنے لگتا۔ وہ اُس کے لیے ننّھی ٹہنیوں، پتّوں اور گھاس کے کھلونے بناتا یا پھر گارے سے جانوروں کی شبیہیں گُوندھتا۔ جب ٹیڈی نے چلنا سیکھا تو یہ گِڈیون ہی تھا جو گھٹنوں کے بَل جھک کر اُس کے آگے آگے چلتا، اُس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مختلف آوازیں نکالتا اور جب وہ گِرنے لگتا تو آگے بڑھ کر اُسے تھام لیتا۔ اُسے تب تک ہَوا میں اُچھالتا رہتا جب تک کھلکھلاتے کھلکھلاتے دونوں کا سانس نہ پھُول جاتا۔ بیگم فارقؤار اپنے بچّے سے پیار کرنے کی وجہ سے بُوڑھے باورچی کو بہت پسند کرتی تھی۔
دُوسرا بچّہ نہ ہوا تو ایک روز گِڈیون بولا۔ ’’بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ، اُوپر بیٹھے مالک نے اِسے دیا ہے۔ ننّھا سُنہرا سر ہمارے گھر کی سب سے انمول شے ہے۔‘‘ اُس ’’ہمارے‘‘ کی وجہ سے بیگم فارقؤار کو اپنے باورچی کے لیے نسوانی تحرّک محسوس ہوا۔ اُسے اب اُس کے پاس برسوں بِیت گئے تھے۔ وہ اُن مقامی نوکروں میں سے تھا جن کے بیوی بچّے وہیں احاطے ہی میں رہائش پذیر تھے لیکن اُس نے کبھی اپنے گاؤں اپنے گھر جانے کی بھی خواہش نہیں کی، جو وہاں سے چند سو میِل کے فاصلے پر تھا۔ کبھی کبھی ایک چھوٹا سیاہ فام بچّہ، جو اُنھی ایّام میں پیدا ہوا تھا جب ٹیڈی نے جنم لیا تھا، جھاڑیوں کی اَوٹ سے جھانکتا ہوا دِکھائی دیتا۔ وہ غیرمعمولی صاف ستھرے بالوں اور شمالی نیلی آنکھوں والے چھوٹے سفید لڑکے کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھتا۔ دونوں بچّے ایک دُوسرے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دِلچسپی سے دیکھتے رہتے اور ایک بار ٹیڈی نے متجسس ہو کر اپنے ہاتھ سے اُس سیاہ فام بچّے کے گال اور بالوں کو چھُو لیا۔
گِڈیون جو یہ تمام ماجرا دیکھ رہا تھا، بولا۔ ’’بیگم صاحبہ، یہ دونوں بچّے ہیں لیکن ایک بڑا ہو کر آقا بنے گا اور دُوسرا غلام۔‘‘ بیگم فارقؤار اُداسی سے مُسکرائی اور کہنے لگی۔ ’’ہاں گِڈیون، میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔‘‘ اُس نے آہ بھری۔ گِڈیون نے، جو ایک مذہبی شخص تھا، کہا۔ ’’یہ خدا کی مرضی ہے۔‘‘ ۔ فارقؤار مذہبی لوگ تھے اور خدا پر ایمان کے اُن مشترکہ جذبات نے مالکہ اور ملازم کو ایک دُوسرے کے اَور قریب کر دیا۔
ٹیڈی تقریباً چھے برس کا تھا جب اُسے سکوٹر دیا گیا تو اُسے تیز رفتاری کے نشے کا ادراک ہوا۔ وہ سارا دِن گھر کے اِردگرد پھُولوں کی کیاریوں کو روندتا، زور زور سے کُٹ کُٹ کُٹاک کرتی مُرغیوں کو دوڑاتا اور کتوں کو زِچ کرتا سکوٹر اُڑائے پھرتا۔ اُس کا بڑا سا ڈگمگاتا اور پُررفتار چکّر باورچی خانے کے دروازے پر ختم ہوتا۔ وہاں پہنچ کر وہ چِلّاتا۔ ’’گِڈیون، اِدھر مجھے دیکھو!‘‘ اور گِڈیون قہقہہ لگاتے ہوے کہتا۔ ’’بہت خُوب، ننّھے سُنہرے سر۔‘‘ گِڈیون کا سب سے چھوٹا بیٹا، جو اَب ایک چرواہا بن چکا تھا، احاطے سے خاص طور پر سکوٹر دیکھنے آیا۔ وہ اُس کے نزدیک آنے سے ڈر رہا تھا لیکن ٹیڈی سکوٹر اُس کے عین سامنے لے آیا۔ ’’حبشی۔‘‘ ٹیڈی چیخ کر بولا۔ ’’میرے راستے سے ہٹ جاؤ!‘‘ پھر وہ سیاہ فام بچّے کے چکّر لگانے لگا۔ یہاں تک کہ وہ سہم کر واپس جھاڑیوں میں بھاگ گیا۔
’’تم نے اُسے کیوں ڈرایا؟‘‘ گِڈیون نے دِھیمے لیکن سخت لہجے میں ناراضگی سے پُوچھا۔
ٹیڈی بدتمیزی سے بولا۔ ’’وہ صرف ایک کالا لڑکا ہی تو ہے۔‘‘ اور ہنسنے لگا۔ پھر جب گِڈیون کچھ کہے بغیر پلٹا تو اُس کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ وہ فوراً گھر کے اندر گیا اور ایک سنگترہ گِڈیون کے پاس لا کر بولا۔ ’’یہ تمھارے لیے ہے۔‘‘ اُس نے معذرت کا ایک لفظ تک نہیں کہا لیکن وہ گِڈیون کی شفقت کھونا بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ گِڈیون نے بددِلی سے سنگترہ لے کر آہ بھری۔ ’’تم جلد ہی سکول جانے لگو گے، ننّھے سُنہرے سر۔‘‘ اُس نے حیرانی سے کہا۔ ’’اور پھر تم بڑے ہو جاؤ گے۔‘‘ اُس نے اپنا سر نرمی سے نفی میں ہِلایا اور بولا۔ ’’اور ہماری زندگیاں اِسی طرح بسر ہوتی ہیں۔‘‘ لگتا تھا جیسے وہ اپنے اور ٹیڈی کے درمیان فاصلہ قائم کر رہا ہو، غصّے کی وجہ سے نہیں بل کہ ایسے جیسے کوئی شخص ناگزیر امر کو قبول کر لے۔ اب گِڈیون اپنا بدن سفید فام بچّے کے بدن سے چُھونے نہیں دیتا تھا۔ وہ مہربان تھا لیکن اُس کے لہجہ بہت زیادہ رسمی ہوتا جس نے ٹیڈی کو خفا اور آزردہ کردیا۔ اِس چیز نے اُسے مرد میں بھی بدل دیا۔ وہ گِڈیون کے ساتھ شائستہ رہتا اور اپنے آپ کو لیے دیے رکھتا کہ اگر باورچی خانے میں کسی چیز کے بارے میں کہنے جاتا تو اُس کا انداز ویسا ہوتا جیسا ایک مالک کا اپنے نوکر کے ساتھ ہوتا ہے اور اُسے توقع ہوتی ہے کہ اُس کا حکم مانا جائے گا۔
لیکن ایک روز ٹیڈی لڑکھڑاتا ہوا باورچی خانے میں داخل ہوا تو اُس کی بھِنچی ہوئی مُٹھّیاں آنکھوں پر تھیں اور وہ درد سے چِلّا رہا تھا۔ گِڈیون کے ہاتھ میں پکڑا یخنی سے بھرا برتن گِر گیا۔ وہ بچّے کی طرف دوڑا اَور اُس نے زور لگا کر اُس کی اُنگلیاں ہٹائیں۔ ’’سانپ۔‘‘ وہ چیخا۔ ٹیڈی اپنا سکوٹر چلا رہا تھا کہ وہ سانس لینے کے لیے پودوں کے ایک جھنڈ کے قریب اپنا ایک پیر زمین پر ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔ چھت سے دُم کے بَل لٹکے درختوں پر بسنے والے ایک سانپ نے اپنا سارا زہر اُس کی آنکھوں میں تھُوک دیا تھا۔ بیگم فارقؤار شور سُن کر دوڑی آئی۔ ’’یہ اندھا ہو جائے گا۔‘‘ وہ ٹیڈی کو گلے سے لگا کر روتی ہوئی بولی۔ ’’گِڈیون، یہ اندھا ہو جائے گا۔‘‘ اُس کی آنکھیں کم و بیش پہلے ہی دوگھنٹوں میں اپنی نصف بینائی کھو کے سُوج کر مُٹھّی جتنی موٹی ہو چکی تھیں۔ ٹیڈی کا چھوٹا سا سفید چہرہ گہرے بنفشی مواد کے دائرے سے خراب ہو گیا تھا۔ گِڈیون بولا۔ ’’بیگم صاحبہ، ایک مِنّٹ انتظار کریں۔ میں دوا لاتا ہوں۔‘‘ وہ جھاڑیوں میں بھاگ گیا۔
بیگم فارقؤار بچّے کو اُٹھا کر گھر میں لے گئیں اور پرمینگنیٹ سے اُس کی آنکھیں دھوئیں۔ اُس نے گِڈیون کی بات نہیں سُنی تھی لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اُس کے علاج سے کوئی افاقہ نہیں ہوا تو اُسے یاد آنے لگا کہ اُس نے سانپ کے زہر تھُوکنے سے مقامی لوگوں کو نابینا ہوا دیکھا ہے۔ وہ اپنے باورچی کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔ اُسے یاد آرہا تھا کہ اُس نے مقامی جڑی بُوٹیوں کے مؤثر ہونے کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا ہے۔ وہ سہمے اور رَوتے ہوے بچّے کو تھامے کھڑکی کے پاس کھڑی بے بسی سے جھاڑیوں میں دیکھتی رہی۔ چند مِنّٹ بھی نہیں گُزرے تھے کہ گِڈیون اپنے ہاتھ میں ایک پودا پکڑے لوٹ آیا۔
’’بیگم صاحبہ، ڈریں مت۔‘‘ گِڈیون نے کہا۔ ’’ننّھے سُنہرے سر کی آنکھوں کو آرام آجائے گا۔‘‘ اُس نے پودے کے پتّے اُتار کر ایک چھوٹی سی سفید نرم جڑ نکالی جسے دھوئے بغیر ہی اپنے مُنھ میں ڈال کر خُوب چبایا اور پھر اپنے مُنھ میں پتلے تھُوک کو جمع کرتے ہوے اُس نے بچّے کو زبردستی بیگم فارقؤار سے لیا۔ اُس نے ٹیڈی کو اپنے گھٹنوں میں دبوچا اور اپنے انگوٹھوں کی پوروں سے اُس کی سُوجی ہوئی آنکھوں کو دبایا جس سے بچّہ چیخنے چِلّانے لگا اور بیگم فارقؤار احتجاجاً چِلّا اُٹھی۔ ’’گِڈیون، گِڈیون!‘‘ لیکن گِڈیون نے کوئی توّجہ نہیں دی۔ اُس نے بَل کھاتے ہوے بچّے پر جھک کے پھُولی ہوئی پلکوں کو پیچھے کی طرف اِتنا موڑا کہ آنکھوں کی پتلیاں دِکھائی دینے لگیں اور پھر وہ باری باری دونوں آنکھوں میں اچھی طرح تھُوکنے لگا۔ آخر کار اُس نے ٹیڈی کو نرمی سے اُس کی ماں کے بازوؤں میں تھمایا اور بولا۔ ’’اِس کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘ لیکن بیگم فارقؤار ڈر کے مارے رو رہی تھی اور اُس کے لیے اُس کا شکریہ بھی ادا کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ ناقابلِ یقین تھا کہ ٹیڈی کی بصارت بچ جائے گی۔ دو گھنٹے بعد سوجن اُتر گئی، آنکھوں میں جلن اور دُکھن تو تھی لیکن ٹیڈی دیکھ سکتا تھا۔ بیگم و فارقؤار صاحب باورچی خانے میں گِڈیون کے پاس گئے اور اُس کا بار بار شکریہ ادا کیا۔ وہ احسان کے بوجھ تلے دبے بے بسی محسوس کر رہے تھے۔ لگتا تھا کہ اُن کے پاس اظہارِ تشکر کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ اُنھوں نے گِڈیون کو اُس کی بیوی اور بچّوں کے لیے تحائف دیے اور اُس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا لیکن یہ چیزیں ٹیڈی کی ٹھیک بینائی کے سامنے حقیر تھیں۔ بیگم فارقؤار نے کہا۔ ’’گِڈیون، خدا نے تمھیں اپنی رحمت کا وسیلہ بنایا ہے۔‘‘ اور گِڈیون بولا۔ ’’جی بیگم صاحبہ، خدا نہایت مہربان ہے۔‘‘
اب جب بھی ایسا کوئی واقعہ کھیتوں میں پیش آتا تو فوراً ہی ہر ایک کو یہ قِصّہ سُنایا جاتا۔ بیگم و فارقؤار نے اِسے اپنے ہمسائیوں کو بتایا اور قِصّہ علاقے کے ایک کونے سے دُوسرے تک زبانِ زدِعام ہو گیا۔ جھاڑیاں اَسراروں سے بھری ہیں۔ کوئی شخص افریقا یا کم از کم لمبی گھاس والے میدان میں زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔ جب تک کہ وہ جلد ہی یہ نہ جان لے کہ وہاں مٹّی اور موسم کی اپنی ایک قدیمی دانش ہے۔۔۔ اور شاید سب سے اہم یہ کہ انسانی دماغ کے چھپے ہوے پہلو ہیں۔۔۔ جو سیاہ فام لوگوں کا ورثہ ہیں۔ علاقے کے ہر حِصّے میں لوگ روایات بیان کرتے اور ایک دُوسرے سے اپنے اپنے تجربات دہراتے رہتے ہیں۔
’’لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ میں نے خُود دیکھا ہے۔ وہ ایک سانس پی جانے والا ناگ تھا۔ حبشی کا بازو خُوب چمکیلے مثانے کی مانند کُہنی تک سُوج گیا تھا۔ ایک ہی مِنّٹ میں وہ نڈھال ہو گیا۔ وہ مر رہا تھا۔ پھر اچانک ایک اَور حبشی جھاڑیوں سے اپنے ہاتھ میں کافی سارا سبزہ لیے برآمد ہوا۔ اُس نے سانپ کے کاٹے والی جگہ پر کسی چیز کا لیپ کیا اور اگلے ہی روز میرا بیٹا اپنے کام پر پہنچ گیا۔ آپ سب خُود اُس کی جِلد میں دو سوراخ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
وہ اِس قسم کا قِصّہ ہمیشہ نہایت پُرجوش انداز میں سناتے تھے کیوں کہ اُن سب کو علم تھا کہ افریقا کی جھاڑیوں کے تنوں، عام دِکھائی دینے والے پتّوں اور جڑوں میں انمول ادویات چھپی ہیں۔ لیکن اُن کے بارے میں مقامی لوگوں سے معلومات لینا ناممکن امر تھا۔
کہانی قصبے تک پہنچ گئی اور شاید شام گئے کی وہ کوئی تقریب یا کوئی ایسی ہی محفل تھی جس میں ایک ڈاکٹر بھی موجود تھا۔ اُس نے اِسے للکار دیا۔ ’’نری حماقت۔‘‘ وہ کہنے لگا۔ ’’یہ مبالغہ آمیز کہانیاں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ایسی کہانیوں کی تصدیق کی ہے اور ہر بار اُنھیں جھوٹ ہی پایا ہے۔‘‘
خیر ایک روز ایک اجنبی کار کھیتوں میں واقع ڈیرے پر آکر رُکی جس سے قصبے کی لیبارٹری کا ایک کارکن ٹیسٹ ٹیوبوں اور کیمیکلوں سے بھرے تھیلے لیے اُترا۔
بیگم و فارقؤار گھبرائے بھی اور خُوش بھی ہوے۔ اُنھوں نے اُس کی آؤبھگت کی۔ اُنھوں نے سائنس دان کو دوپہر کے کھانے کے بارے میں پُوچھا اور ایک بار پھر سوویں مرتبہ تمام کہانی سُنائی۔ ننّھا ٹیڈی بھی اپنی صحت مند نیلی آنکھیں جھپکاتے ہوے وہاں موجود تھا، جو کہانی کی صداقت بیان کر رہی تھیں۔ سائنس دان نے بتایا کہ اگر اِس نئی دوا کو فروخت کے لیے پیش کر دیا جائے تو اِس سے انسانیت کو بے حد فائدہ ہو سکتا ہے۔ اِس پر فارقؤار خاندان اَور زیادہ خُوش ہوا۔ وہ مہربان اور سادہ لوگ تھے جو اپنی وجہ سے ہو جانے والی بھلائی کو نیک خیال کرتے تھے۔ لیکن جب سائنس دان نے حاصل ہونے والی رقم کا تذکرہ شروع کیا تو اُن کے جذبات سرد پڑ گئے۔ اُس معجزے پر اُن کے احساسات (جو اُس کے بارے میں اُن کے تھے) اِس قدر پختہ، گہرے اور مذہبی تھے کہ رقم کے بارے میں سوچنا ہی اُن کے لیے تکلیف دہ تھا۔ اُن کے چہروں کے تأثرات کا جائزہ لیتے ہوے سائنس دان اپنے سابقہ مؤقف پر پلٹا کہ اِس سے انسانیت کو کتنا فائدہ ہو گا۔ وہ شاید ایک معمولی کارکن تھا اور یہ اُس کا پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ جنگل کا عظیم الشّان راز خریدنے آیا تھا۔
بالآخر جب کھانا ختم ہو گیا تو فارقؤار خاندان نے گِڈیون کو نشست گاہ میں بلایا اور اُسے بتایا کہ وہ گورا ’’بڑے شہر‘ ‘کا ’’بڑا ڈاکٹر‘ ‘ہے اور گِڈیون سے ملنےآیا ہے۔ اِس پر گِڈیون سہم گیا اور صورتِ حال سمجھ نہیں پایا تو بیگم فارقؤار نے جلدی سے وضاحت کی کہ وہ’ ’بڑا صاحب‘‘ اُس حیرت انگیز کارنامے کی وجہ سے آیا ہے جو اُس نے ٹیڈی کی آنکھوں کے ساتھ کیا ہے۔
گِڈیون نے بیگم فارقؤار سے صاحب کی طرف دیکھا اور پھر چھوٹے لڑکے کو، جو موقع کی مناسبت سے اہمیت اختیار کیے ہوے تھا۔ بالآخر وہ تلخی سے بولا۔ ’’بڑا صاحب‘‘ یہ جاننا چاہتا ہے کہ میں نے کون سی دوا اِستعمال کی ہے؟‘‘ اُس نے اِس طرح بے یقینی سے کہا جیسے اُسے یقین نہ ہو کہ اُس کے پُرانے دوست اُس سے یُوں بھی دغا کر سکتے تھے۔ فارقؤار نے وضاحت کرنا شروع کی کہ اُس جڑی سے کس قدر مفید دوا تیار ہو سکے گی جسے کس طرح فروخت کیا جائے گا اور کیسے برِّاعظم افریقا کے سانپ کے تھُوکے زہر سے بھری آنکھوں والے ہزاروں سیاہ اور سفید فام لوگوں کو بچایا جا سکے گا۔ گِڈیون زمین پر نظریں جھکائے سنتا رہا۔ اُس کے ماتھے پر اُلجھن کی سلوٹیں پڑی تھیں۔ فارقؤار کی بات ختم ہونے پر اُس نے جواب نہیں دیا۔ سائنس دان نے، جو اِس تمام وقفے کے دوران بڑی سی کُرسی کی پشت سے ٹیک لگائے کافی کی چسکیاں لیتا اور مشکوک خُوش خلقی سے مُسکراتا رہا تھا، گفتگو میں حِصّہ لیا اور ایک بار پھر ادویات کی تیاری اور مختلف الفاظ استعمال کرتے ہوے سائنس کی ترقی کے بارے میں تمام بات کی وضاحت کی۔ اُس نے گِڈیون کو ایک تحفہ بھی پیش کیا۔
اِس مزید وضاحت کے بعد خاموشی چھا گئی اور پھر گِڈیون نے لاپروائی سے بتایا کہ اُسے وہ جڑ ی یاد نہیں ہے۔ حتّٰی کہ جب اُس نے فارقؤار کی، جس سے وہ عام طور پر پُرانے دوستوں کا سا روّیہ رکھتا تھا، طرف بھی دیکھا تو اُس کے چہرے سے بیزاری اور خفگی عیاں تھی۔ اُنھیں اب برہمی محسوس ہونے لگی اور اِس احساس نے گِڈیون کے شکایتی روّیے سے پیدا ہونے والے اُس احساس کو ختم کر دیا کہ زندگی میں اُن سے غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اُنھیں محسوس ہونے لگا کہ وہ ایک نامعقول شخص ہے۔ لیکن اُسی لمحے اُنھیں یہ بھی ادراک ہوا کہ وہ نہیں جھکے گا۔ طلسماتی دوا جہاں ہے وہیں نادریافت اور غیر مفید رہے گی سوائے اُن چھوٹے بکھرے ہوے افریقیوں کے جنھیں اُس کا علم ہے اور اُن مقامیوں کے جو پھٹی پُرانی قمیصوں اور چیتھڑے لگے کچھوں میں بلدیہ کے گڑھے کھودتے ہیں لیکن وہ علاج کرنے کے لیے پیدا ہوے ہیں۔ وہ پیدائشی معالج ہیں کیوں کہ وہ اُن بڑے بُوڑھے عطائیوں کے بھتیجے، بھانجے اور بیٹے ہیں جن کے بھدّے نقاب، ہڈّیوں کے ٹکڑے اور جادو کی جاہلانہ املاک حقیقی طاقت اور دانش کی ظاہری علامتیں ہیں۔
فارقؤار گھر سے باغ اور مویشیوں کے باڑے سے مکئی کے کھیت کی طرف جاتے ہوے اُس پودے کے قریب سے دِن میں پچاس بار گُزرتے ہوں گے لیکن وہ اُسے کبھی نہیں پہچان سکتے تھے۔
تاہم اُنھوں نے منانے اور دلائل دینے کا سلسلہ بھرپُور جوش اور جذبے سے جاری رکھا اور گِڈیون نہ کرتا رہا کہ اُسے یاد نہیں یا ایسی کوئی جڑی نہیں ہے یا یہ کہ اب اُس کا موسم نہیں ہے یا وہ کوئی جڑی نہیں تھی بل کہ اُس کے اپنے لعاب سے ٹیڈی کی آنکھیں ٹھیک ہوئی ہیں۔ اُس نے یہ تمام باتیں ایک کے بعد ایک یہ خیال رکھے بغیر کہیں کہ اُن میں تضاد ہے۔ وہ گستاخ اور ہَٹ دھرم تھا۔ فارقؤار خاندان کے لیے وہ اُن کے پُرانے، شریف اور محبت کرنے والے ملازم کی بجائے اُن کے سامنے نظریں جھکائے، اپنے ہاتھوں سے اپنا باورچیوں والا ایپرن موڑتا اور اپنے ذہن میں آنے والے پہلے احمقانہ انکار پر اَڑا ہوا اَیک جاہل اور غیر اخلاقی حد تک ضدی اجنبی افریقی تھا۔
اچانک ہی اُس نے ہار مان لی۔ اُس نے اپنا سر اُٹھایا، حصار بنائے گوروں کو دیر تک خالی خالی غصّیلی نظروں سے گھورا جو اُسے چاروں سے گھیرے ہوے کُتّے لگ رہے تھے اور بولا۔ ’’میں تمھیں وہ جڑ دِکھا دوں گا۔‘‘
وہ ڈیرے سے ایک قطار بنا کر چارے والے کھیت کی پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ وہ چندھیا دینے والے دسمبر کی ایک سہ پہر تھی اور آسمان حبس زدہ بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔ سر پر سُورج کانسی کے تھال کی طرح گھوم رہا تھا۔ کھیتوں پر دھوپ چمک اور پیروں تلے زمین جھلس رہی تھی۔ دُھول بھری ہَوا سے ریت کے موٹے اور گرم ریزے اُن کے چہروں سے ٹکرا رہے تھے۔ وہ ایک خوف ناک دِن تھا جو صرف برآمدے میں تکیوں سے ٹیک لگا کر ٹھنڈے مشروبات پینے کے لیے مناسب تھا اور جہاں عام حالات میں اُنھیں اُس وقت ہونا چاہیے تھا۔
بار بار یہ یاد کرتے ہوے کہ سانپ کے زہر تھُوکنے والے روز جڑی لانے میں دس مِنّٹ لگے تھے، کوئی پُوچھتا ’’کیا زیادہ دُور نہیں آگئے، گِڈیون؟‘‘ اور گِڈیون اپنے کندھے اُچکاتے ہوے تلخی بھری شائستگی سے جواب دیتا۔ ’’ میں جڑ ڈھونڈ رہا ہوں، جناب۔‘‘ بلا شبہ اُس نے کئی بار راستے کے کناروں پر جھک کر اپنے ہاتھ سے گھاس میں بے توجہی سے اہانت آمیز انداز میں ٹٹولا۔ اُس بھیجا پگھلا ڈالنے والی دھوپ میں وہ اُنھیں اپنے ساتھ لیے دو گھنٹوں تک نامعلوم راستوں پر پھرتا رہا۔ یہاں تک کہ اُن کے بدن پر نیچے تک ٹھنڈا پسینہ بہنے لگا اور سر درد کرنے لگے۔ وہ سب چُپ چاپ تھے۔ فارقؤار اِس لیے کہ وہ طیش میں تھے اور سائنس دان اِس لیے کہ وہ ایک بار پھر سچا ثابت ہو رہا تھا کہ ایسا کوئی پودا نہیں ہے۔ اُس کی خاموشی عیارانہ تھی۔
آخرش، گھر سے چھے مِیل دُور، گِڈیون نے اچانک فیصلہ کہ اُنھیں بہت سزا مل چکی ہے یا شاید اُس لمحے اُس کا غصّہ کافور ہو گیا تھا۔ اُس نے بِلا تردّدسرسری نظر ڈالتے ہوے گھاس سے مُٹھّی بھر نیلے پھُول توڑے۔ وہ پھُول جو اُن راستوں پر جا بہ جا بہ کثرت اُگے ہوے تھے جن پر وہ چل کر آئے تھے۔
اُس نے سائنس دان کی طرف دیکھے بغیر اُنھیں اُسے تھما دیا اور خُود گھر جانے والے راستے پر ہو لیا کہ اگر وہ چاہیں تو اُس کے پیچھے چلے آئیں۔
جب وہ گھر لوٹے تو سائنس دان گِڈیون کا شکریہ ادا کرنے باورچی خانے میں گیا۔ اگرچہ اُس کی آنکھوں میں عجیب پن اُترا ہوا تھا لیکن وہ بہت شائستہ ہو رہا تھا۔ گِڈیون وہاں موجود نہیں تھا۔ بے توجہی سے پھُول اپنی کار کی عقبی نشست پر پھینک کر وہ ممتاز ملاقاتی اپنی لیبارٹری کی طرف روانہ ہو گیا۔
گِڈیون رات کا کھانا تیار کرنے کے لیے بروقت باورچی خانے میں پہنچ گیا لیکن وہ آزردہ تھا۔ اُس نے فارقؤار سے ایک رُوٹھے ہوے نوکر کی مانند بات چیت کی۔ بہت دِنوں بعد جا کر اُن کی آپس میں صلح ہو سکی۔
فارقؤار خاندان نے اپنے مزدوروں سے جڑی کے بارے میں پُوچھ گچھ کی۔ بعض اوقات وہ بے اعتبار نگاہوں سے جواب دیتے۔ بعض اوقات مقامی لوگ کہتے: ’’ہمیں نہیں پتا۔ ہم نے ایسی جڑی کے بارے میں کبھی نہیں سُنا۔‘‘ اُن کے پاس بہت عرصے سے موجود مویشی چرانے والے ایک لڑکے نے، جس کو اُن پر کچھ اعتبار ہو گیا تھا، بتایا۔ ’’اپنے باورچی کے لڑکے سے پُوچھیں۔ اب تو آپ کا اپنا ڈاکٹر ہے۔ وہ ایک معروف طبیب کا بیٹا ہے جو یہاں رہا کرتا تھا اور ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا وہ علاج نہیں کر سکتا۔‘‘ پھر اُس نے شائستگی سے اضافہ کیا۔ ’’بلا شبہ، ہم جانتے ہیں کہ وہ گوروں کے ڈاکٹر جتنا اچھا ڈاکٹر نہیں لیکن وہ ہمارے لیے اچھا ہے۔‘‘
جب کچھ عرصے کے بعد فارقؤار خاندان اور گِڈیون کے بیچ تلخی جاتی رہی تو وہ مذاق کرنے لگے: ’’گِڈیون، تم ہمیں سانپ والی جڑی دِکھانے کب چل رہے ہو؟‘‘ اور وہ قہقہہ لگا کر اپنا سر نفی میں ہِلا کر قدرے مضطرب ہو کر کہتا: ’’لیکن وہ تو میں دِکھا چکا ہوں، بیگم صاحبہ۔ کیا آپ بھُول گئیں؟‘‘
بہت بعد میں جب ٹیڈی سکول میں پڑھنے لگا تھا، وہ باورچی خانے میں آکر کہتا: ’’ اے بُوڑھے بدمعاش، گِڈیون! تمھیں وہ وقت یاد ہے جب تم ہمیں بِلا وجہ گھاس کے میدان میں مِیلوں تک پھراتے رہے تھے؟ میرے والد مجھے کتنی دُور اُٹھا کر لے گئے تھے!‘‘
گِڈیون خُوش خلقی سے ہنستے ہنستے دوہرا ہو جاتا۔ بہت دیر تک ہنسنے کے بعد وہ اچانک سیدھا کھڑا ہو کر اپنی بُوڑھی آنکھیں صاف کرتا اور افسردگی سے ٹیڈی کی طرف دیکھتا جو باورچی خانے میں ایک طرف کھڑا شریر انداز میں ہنس رہا ہوتا۔ ’’اے ننّھے سنہرے سر والے، تم کتنے بڑے ہو گئے ہو! جلد ہی تم اَور بڑے ہو کر اپنے کھیت کے مالک بن جاؤ گے۔۔۔!‘‘
Original Title: No Witchcraft for Sale
Written by:
Doris Lessing (22 October, 1919 – 17 November, 2013)
–a British novelist, poet, playwright, librettist, biographer and short story writer
–Winner of Nobel Prize in Literature
2007
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔