(Last Updated On: )
تنقید اور تحقیق کسی بھی ادب کے لئے تقریباً بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان دونوں اصطلاحات کے عمل میں آئے بغیر کوئی ادبی تحریر وجود میں نہیں آتی۔گویا تنقید اور تحقیق کا چولی دامن کا ساتھ ہے یا یوں سمجھئے کہ تنقید اور تحقیق سیڑھی کے دو کنارے ہیں جو ایک محدود فاصلے سے ساتھ ساتھ چلتے تو ہیں پر جدا جدا ہیں اور آپس میں ملتے نہیں۔تحقیق کیا ہے؟ یہی کہ کسی سربستہ راز کو عیاں کرنا۔تحقیق کے ذریعے اصناف ادب میں نئے راستے تلاش کئے جاتے ہیں اور اصناف ادب میں طبع آزمائی کرنے والوں کے سر بستہ راز کھولے جاتے ہیں؛جب کہ تنقید میں کسی بھی صنف کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے۔تنقید اور تحقیق دونوں ہنر ہیں۔ان دونوں کا کام مغالطے کو دور کرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ حقیقت کی تلاش یا کھوج ہے اور ادبی تحقیق کا مقصد بھی یہی ہے۔تحقیقی میں استنباط نتائج بغیر تنقید ممکن نہیں اور تنقید انھیں نتائج کی قدروں کا تعین کرتی ہے۔زبان اور طریقہ کار کے اعتبار سے دونوں کے برتنے کے طریقے فرق ہیں ۔ان سب کے باوجود دونوں کے باہمی رشتے اٹوٹ ، مضبوط اور پائیدار ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی بنیادوں اور دلیلوں کو معتبر بناتے ہیں۔ تحقیق اور تنقید دونوں ہی عربی زبان کے لفظ ہیں۔تحقیق کسی زبان کی اصلیت و حقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا ہے یا کسی منتخب موضوع کے لئے چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی و نقلی مواد میں امتیاز کرنا ، تحقیقی قواعد کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ہے۔تنقید سے عموماً اعتراض مراد لی جاتی ہے مگر یہ درست نہیں ہے۔تنقید یعنی چھان پھٹک کر اچھے کو برے سے الگ کرنا ہے۔تنقیدی عمل کے میدان اور نظرئے الگ الگ ہیں اور ان کے مطابق تنقید کی اصطلاحیں وضع کی گئی ہیں۔تحقیقی کی مانند تنقید بھی دنیائے ادب میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔یہ کسی شخص ،چیز یا صنف ادب کے مثبت یا منفی پہلوؤں کو الگ الگ کر دینے کا عمل ہے۔اس عمل کے دوران اگر صرف خامیاں گنوائی جائیں گی تو وہ تنقید نہ ہو کر تنقیص ہو جائے گی جب کہ تنقید کھرا کھوٹا دونوں پہلوؤں کو برتتی ہے۔تنقید کسی تہذیب ، معاشرے اور اس کے ادب میں نہاں شعور کو علمی سطح پر دریافت کرتی ہے، اس کو معیار بندی اور تعیین قدر کے مرحلے سے گذارتی ہے اور تخلیق کار اور قاری کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔تنقید علمی تخلیقات کو پرکھنے اور تولنے کا ایک ایسا بیش قیمت فن ہے جس کی بدولت قارئین اور ناظرین میں ذوق سلیم پیدا ہوتا ہے۔ اصطلاحی طور پر تنقید اس فن کو کہتے ہیں جس میں تخلیق کار ،ادیب، شاعر، مسنف، مرتب، آرٹسٹ وغیرہ کی تخلیق پر ذاتی تعصبات ، نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے علم کے عصری تقاضوں ، اصول و ضوابط اور قواعد کی روشنی مین حق و انصاف کے ساتھ بے لاگ علمی تجزیہ اس طرح پیش کیا جائے کہ جس سے اس فن پارے کا علمی مقام اور افادیت واضح ہو۔ تنقید کو تنقیح یعنی investigationتحقیق یعنی researchتجزیہ یعنیanalysis قوت بخشتے ہیں۔ وہیں اس سے ملحق اعتراض اور نکتہ چینی جیسے الفاظ اسے ناقابل التفات بنا دیتے ہیں۔ تنقید تو فقط علمی اظہار خیال کا نام ہے۔تنقیص کی طرح ہی تعریف کا بھی غلو کی حد تک استعمال ادبی تنقید کے اعتبار کو کم کرتا ہے۔تحقیق کسی بھی موضوع میں علم کے حصول کے علاوہ مسائل کے حل میں بھی معاون ہوتی اور کسی بھی معاشرے کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔تحقیق فقط اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ موضوع کی گہرائی میں جا کر کچھ ایسے نتائج بر آمد کئے جاتے ہیں جو دوسروں کے لئے بھی سودمند ہوںاور آئندہ نسل اس تحقیق کو مزید جاری رکھے۔اس طرح تحقیق کرنے والے کی کاوش اور محنت دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہے جب کہ تنقید بھلے برے اور صحیح غلط کی تمیز کرا دیتی ہے۔تنقید وضاحت ہے ، تجزیہ ہے، تنقید قدریں متعین کرتی ہے، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ عطا کرتی ہے، تنقید انصاف کرتی ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ ، جھوٹ اور سچ ، پست اور بلند کے معیار کو قائم کرتی ہے۔
تنقید اور تحقیق دونوں کے لئے خلوص نیت ، دیانتداری ، جاں فشانی اور عرق ریزی درکار ہے۔ وسیع مطالعے کے بغیر تحقیق اور تنقید دونوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔دونوں ہی تاریخی اور سماجی روابط کے بغیر پیش رفت نہیں کر سکتے ۔ژرف نگاہی بھی محقق اور تنقید نگار دونوں کا لازمی وصف ہے۔ان دونوں ہی حضرات کو اپنا کام انجام دینے کے لئے بہت سے علوم سے مدد لینی پڑتی ہے۔اس لئے انھیں مختلف علوم اور اہل علم سے آگاہی ہونی چاہئے۔کم علم اور کم تجربہ محقق یا تنقید نگار تحقیق اور تنقید دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ تنقید اور تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے والوں کو اپنی ذہنی صلاحیت ایک عام انسان سے کئی گنا زیادہ بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان دونوں کا میدان بہت وسیع ہے۔اردو میں تنقید و تحقیق کے قواعد و ضوابط ابھی متفقہ طور پر طے نہیں کئے جا سکے ہیں جب کہ دوسری زبانوں میں یہ موجود ہیں۔اسی لئے جب کوئی محقق یا نقاد انگریزی یا دوسری زبانوں کے اصول وضوابط کا اطلاق اردو زبان پر کرتا ہے تو اکثر اس پر سرقہ کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس کی زبردست خردہ گیری ہوتی ہے۔یہ محض اس لئے کہ اپنی غفلت و سہل انگاری کی وجہ سے دوسری زبانوں کے ادبی سرمائے یعنی تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی مواد پر نگاہ نہیں ڈالی گئی اور اردو زبان کے ایسے تنقیدی و تحقیقی قواعد و ضوابط وضع نہیں کئے گئے جو دوسری زبانوں کے ہم پلہ ہوں ۔ایسی صورت میں اگر ادب کا معیار مجروح ہوا ہے تو حیرانی کی بات نہیں۔اسی وجہ سے ادب کا عام قاری اور غیر اردو دان طبقہ اس شیریں زبان کی جانب کم متوجہ ہو رہا ہے۔آج تحقیقی عمل سست اور نکتہ چینی اور خردہ گیری کا عمل عروج پر ہے۔اصل تحقیقی اور تنقید شدہ متن قاری کے درمیان کم ہی پہنچ پا رہا ہے۔اس کی وجہ سے صارفیت کے اس دور میں غیر معیاری مسخ شدہ متن ناقص متن رواج دیا ہے۔تکنیکی سہولتوں جیسے گوگل اور کاپی پیسٹ نے تحقیقی عمل کو اثر انداز کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ تکنیک نے تحقیق کے جعلی پن کو پرکھنے کی سہولت بھی فراہم کی ہے جس سے تحقیقی متن کے اصل اور نقل کا فی صدمعلوم کیا جا سکتا ہے۔مگر یہاں بھی دشواری یہ ہے کہ عربی، فارسی اور اردو کا تخلیقی، تحریری، تحقیقی اور تنقیدی سرمایہ بہت کم ڈیجٹالایز ہو پایا ہے۔اس کا ایک بڑا حصہ آج بھی دست نوشت کی شکل میں شخصی لائیبریریوں کی میراث ہے۔اسی طرح پرانی چاپ شدہ کتابیں شخصی لائیبریریوں میں تو محفوظ ہیں مگر عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔جس شخص کا یہ اثا ثہ ہیں وہ ان سے جذباتی طور پر اس حد تک وابستہ ہے کہ اسے مفید عام نہیں کرنا چاہتا ۔ ظاہر ہے صحت مند تحقیق کی پیش رفت میں یہ نظریہ مانع ثابت ہوتا ہے۔ دوسری جانب تنقید میں شخص پرستی، تملق و خوش آمد کا زبردست دخل ہو گیا ہے۔اس کی وجہ سے تنقیدی عمل میں کھرے کو نقصان پہنچا ہے اور کھوٹے کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ اس بنا پر تحقیق خود بخود رو بزوال ہو گئی ہے ۔ بسسب آنکہ اس کو فروغ دینے والے محرکات خود نقص پذیر ہو چکے ہیں۔ اس طرح تنقید اور تحقیق کے رشتے جنھیں ہم چولی دامن کا ساتھ کہتے آئے ہیں ، آج ٹوٹتے بکھرتے نظر آ رہے ہیں۔اس انتشار سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس رشتے کو خلوص نیت ، مشاہدات، مکاشفات، ژرف نگاہی، کثرت مطالعہ، فکری وسعت اور نظریاتی اعتدال وغیرہ کو بروئے کار لا کر ٹوٹنے بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔