موجودہ جدید سانپ، ڈائنو سارز کو مارنے والا شہاب ثاقب کے بعد کے چند زندہ بچ جانے والے ریپٹائلز سے ارتقاء پذیر ہوئے۔
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آج کےپائے جانے والے تمام زندہ سانپ، دراصل ان مٹھی بھر ریپٹائلز کی انواع سے تیار ہوئے جو اس دیوہیکل شہاب ثاقب کے اثرات سے بچ گئے تھے، جس نے کریٹایشیش عہد Cretaceous کے آخر میں ڈائنوسار اور دیگر جاندار چیزوں کا صفایا کر دیا تھا۔ تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ناپید ہونے کا یہ تباہ کن واقعہ ‘تخلیقی تباہی’ کی ایک شکل تھی جس نے سانپوں کو ان نئے علاقوں میں متنوع ہونے کی اجازت دی، جو پہلے ان کے حریفوں نے بھرے تھے اور وہاں آباد تھے۔
یاد رہے کہ ساڑھے چھ کڑوڑ سال پہلے کی ہونے والی شہاب ثاقب کی تباہی میں بڑے بڑے ڈائنو تو فنا ہوگئے، لیکن چھوٹے جانداروں جیسے مختلف ریپٹائلز اور میملز نے خوب ارتقاء پایا اور بہت پھلےپھولے۔ یعنی ایک طرف تو اس شہاب ثاقب نے زمین پر تباہی مچائی اور بہت سی انواع کا ہمیشہ کے لیے صفایا بھی کیا تو دوسری طرف زندگی مکمل فنا نہیں ہوئی ،میملز اور بالاخر پرائیمیٹ اور دیگر جانوروں کی بقا کے لیے سہولیات بھی فراہم کیں ۔ یعنی اگر مرزا غالب کے اس شعر میں اسکو بتایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
سائنسی جریدہ ، نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سانپ، جن میں آج تقریباً 4000 جاندار انواع شامل ہیں، نے اس وقت کے ارد گرد تنوع پیدا کرنا شروع کیا جب ایک ماورائے زمینی اثر نے کرہ ارض پر ڈائنوسار اور دیگر انواع کا صفایا کر دیا۔یعنی میملز کے ساتھ ساتھ و لگ بھگ ہی آج کے جدید سانپوں کا ارتقاء بھی شروع ہوگیا تھا۔
یونیورسٹی آف باتھ University of Bath انگلینڈ کے سائنسدانوں کی سربراہی میں اور برسٹل، کیمبرج اور جرمنی کے ساتھی محققین سمیت ایک ٹیم نے اس مطالعہ میں سانپ کے ارتقاء کو دوبارہ تشکیل دینے کے لیے انکے فوسلز کا استعمال کیا اور جدید سانپوں کے درمیان جینیاتی اختلافات کا تجزیہ کیا۔ تجزیوں نے اس وقت کی نشاندہی کرنے میں مدد کی جب جدید سانپ ارتقاء پذیر ہوئے۔
ان سائنسدانوں کی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تمام زندہ سانپ صرف چند مٹھی انواع کے خاندانوں سے ملتے ہیں جو 66 ملین سال قبل شہاب ثاقب کے اثرات سے بچ گئے تھے، وہی معدومیت جس نے ڈایناسور کا صفایا کر دیا تھا۔
ان مصنفین کا کہنا ہے کہ سانپوں کی زیر زمین پناہ گاہ اور بغیر خوراک کے طویل عرصے تک جانے کی صلاحیت نے انہیں اس دھماکے کے تباہ کن اثرات سے بچنے میں مدد کی جو شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ سے پیدا ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں، ان کے حریفوں انواع کے معدوم ہونے سے بشمول کریٹاشیشس سانپ اور خود ڈائنوسار کے فنا ہوجانے نے سانپوں کو نئے علاقوں ، نئی رہائش گاہوں اور نئے براعظموں میں جانے کی اجازت دی۔ اور یوں ماڈرن سانپ دنیا کے گوشے گوشےمیں آباد ہونے لگے۔
اس کے بعد سانپوں نے مزید متنوع ہونا شروع کیا، انکی نسلوں جیسے وائپرز vipers ، کوبرا cobras ، گارٹر garter سانپ، ازگر pythons اور بواس boas پیدا کیے، اپنے لیے انہوں نے نئی رہائش گاہوں استعمال اور نئے شکار کا استحصال کیا۔ موجودہ سانپوں کا جدید تنوع ، بشمول درختوں کے سانپ، سمندری سانپ، زہریلے وائپر اور کوبرا، اور بواس اور ازگر جیسے بڑے کنسٹریکٹر constrictors (دم گھوٹ کر ماردینے والے سانپ) ان ڈائنوسار کے معدوم ہونے کے بعد ہی ابھرے۔
یہ فوسلز سانپوں کے ریڑھ کی ہڈی اور ملحقہ ڈھانچے کی شکل میں تبدیلی کو بھی ظاہر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں کریٹاشیسش نسلوں کے معدوم ہونے اور 10 میٹر تک لمبے بڑے سمندری سانپوں سمیت نئے گروہوں کی شکل ظاہر ہوتی ہے۔
“یہ ایک قابل ذکر بات ہے، کیونکہ وہ نہ صرف ایک عظیم معدومیت سے بچ گئے تھے جو بہت سے دوسرے جانوروں کا صفایا کر چکا تھا، بلکہ چند ملین سالوں میں وہ جدید اختراع بھی کر رہے ہیں اور اپنی رہائش گاہوں کو نئے طریقوں سے استعمال کر رہے ہیں،” یہ بات اس ریسرچ پیپر کی لیڈ مصنف اور حال ہی میں باتھ سے فارغ التحصیل ڈاکٹر کیتھرین کلین Catherine Klein نے کہی جو اب جرمنی میں Friedrich-Alexander-Universität Erlangen-Nürnberg (FAU) میں کام کرتی ہیں ۔
حالیہ مطالعہ یہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت کے آس پاس ، یہ سانپ پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے۔ اگرچہ زندہ سانپوں کے آباؤ اجداد شاید جنوبی نصف کرہ میں کہیں رہتے تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ناپید ہونے کے بعد اب سانپ پہلے ایشیا میں پھیلے تھے ۔پھر تمام کرہ ارض پر پھیلتےچلے گئے۔
یونیورسٹی آف باتھ کے ملنر سنٹر فار ایوولوشن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نک لونگریچ Nick Longrich اور متعلقہ تحقیقی مصنف نے کہا: “ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی ناپید ہونے کا عمل ‘تخلیقی تباہی’ کی ایک شکل کے طور پر کام کرتا ہے- پرانی نسلوں کو مٹا کر، اس نے زندہ بچ جانے والوں کو پھلنے پھولنے کی اجازت دی۔ ساتھ ہی تباہی کے ماحول کے بعد نئے ماحولیاتی نظام میں بننے والے خلا ء کو بھرنے ، نئے طرز زندگی اور رہائش گاہوں کے ساتھ تجربہ کرنا ، اور نئی طرز حیات کی داغ بیل ڈالنے میں اہم کردار اد ا کیا۔
“یہ ارتقاء کی ایک عمومی خصوصیت معلوم ہوتی ہے – یہ بڑی معدومیت کے فوراً بعد کے ادوار ہیں جہاں ہم ارتقاء کو اس کی انتہائی وحشیانہ، بے رحم، تجرباتی اور اختراعی طور پر دیکھتے ہیں۔” کسی حیاتیاتی تنوع کی تباہی، نئی چیزوں کے ابھرنے اور نئی زمینوں کو نوآبادیاتی بنانے کے لیے جگہ بناتی ہے۔ بالآخر زندگی پہلے سے کہیں زیادہ متنوع ہو جاتی ہے۔” زندگی کبھی رکتی نہیں اور نہ ہی کہیں ٹہر جاتی ہے۔
اس تحقیق میں اس وقت کے ارد گرد ایک دوسرے بڑے تنوع کے واقعے کے ثبوت بھی ملے کہ دنیا گرم ‘گرین ہاؤس ارتھ’ سے سرد ‘آئس ہاؤس’ آب و ہوا میں منتقل ہوئی تھی ، جس میں قطبی برف کی تہوں کی تشکیل اور برفانی دور کا آغاز ہوا۔ یعنی ایک نئے آئس ایج کا آغاز ہوا تھا۔
ان سانپوں میں نظر آنے والے نمونے ، اس تباہیوں کے لیے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو زمانہ قدیم میں ہمارے کرہ ارض پر ہوئی۔ شدید، تیز رفتار، اور عالمی ماحولیاتی رکاوٹیں ، ارتقائی تبدیلی کو مزید آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ جاندار مشکل سے مشکل حالات میں ارتقاء پزیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اوریجنل آرٹیکل لنک
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...