آج سے بہت سال پہلے جب میں میٹرک کا طالبِ علم تھا ۔ محسن نقوی کے ساتھ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ہم جب کسی بارونق علاقے سے گزرے تو وہاں موجود مرد و زن نے محسن صاحب کو پہچانتے ہوئے کہا وہ دیکھو محسن نقوی، کار کے شیشے بند ہونے کی وجہ سے ان کا اشارے نے ہی آواز کا روپ دھار لیا تھا۔ محسن صاحب نے تجاہلِ عارفانہ فرماتے ہوئے پوچھا شاہد یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟میں نے جواب دیا یہی کہ آج شاہد کے ساتھ یہ دوسرا کون ہے؟ زندگی سے بھر پور قہقہہ لگایا اور کہا چلیں آپ کی وجہ سے کوئ ہماری جانب متوجہ تو ہوا۔
ایک مرتبہ عارف والا میں منعقدہ مشاعرے میں تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ تھا۔ عارف والا پہنچ تو گئے لیکن یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ مشاعرہ گاہ کہاں ہے؟ مجھ سے کہا کہ کسی پڑھے لکھےسے پوچھو ، میں نے ایک پولیس والے کو عام لوگوں کی نسبت زیادہ پڑھا لکھا سمجھتے ہوئے پوچھا جناب مشاعرہ کہاں ہے؟اُس سادہ لوح نے ہماری خاطربڑی تابعداری دو چار آدمیوں سے پوچھا اور واپس آکر جواب دیا سر! ایتھے اِس ناں دا کوئ بندہ نیں رہندا۔(یہاں اس نام کا کوئی آدمی نہیں رہتا)
ایسی ڈھیروں باتیں ، یادیں اور سوالات ہیں جو وہ مجھ سے ملاقاتوں میں یا دوران سفر پوچھتے رہتے۔
ایک بار انہوں نے مجھ سے پو چھا تمہاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟جواب دیا کہ غالب کی طرح ہزاروں نہیں بس یہی ایک ہے کہ کاش میں بطور استاد آپ کی غزل ” آوارگی” اپنے طالب علموں کو پڑھاوں۔ اور پھر میں نے عرض کی کہ میں “آوارگی” پڑھاوں گا کیسے؟ میری سمجھ سے تو یہ بالاتر ہے۔ کاش اس وقت ریکارڈنگ کا شعور ہوتا ، کیونکہ وہ اپنی اس مشہورِ زمانہ غزل کی تشریح و تو ضیح کرتے ہوئے بہت دیر تک مجھے سمجھاتے رہے۔ اور اس طرح ” آوارگی” کے کئی معانی مجھ پہ کھلتے چلے گئے۔
محسن نقوی کا تیسرا شعری مجموعہ “برگِ صحرا” کے نام سے شائع ہوا تو اُس کے چھپتے ہی محسن کا نام نہ صرف اردو غزل کے بڑے شعرا میں شمار ہونے لگا بلکہ کتاب کے پیش لفظ” پسِ غبارِ سفر” کی وجہ سے انہیں بطور نثر نگار بھی بے حد پزیرائی نصیب ہوئ۔ اس کا پہلا جملہ ہی دیکھیے۔
“مجھے ظاہر کے انبساط سے باطن کا دکھ زیادہ پسند ہے” اس منافقت پسند معاشرے میں بناوٹ سے نفرت کا واشگاف اظہار کون کرسکتا ہے؟
“برگِ صحرا ” میں موجود محسن کی اس غزل” یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی” کو جب غلام علی کے ہونٹوں نے چھوا تو واقعتاً یہ کلام امر ہوگیا۔ اردو غزل کا کوئی اچھا انتخاب اس غزل کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔
محسن نقوی کی اِس غزل کا تخلیقی زمانہ وہی ہے جب دن ڈھلنے سے پہلے گھر لوٹ آنے کی روایت ہوا کرتی تھی۔ ایسے میں ہمارے شاعر کا انجمن قاتلانِ شب کا حصہ بننا اور دوستوں کے ساتھ راتیں بتا دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن محسن کی طبعیت گھر سے دور بھاگتی تھی۔
*ہم سے مت پوچھ راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
اور اس کا انتظار کرنے والی آنکھیں آج بھی اُس کا راستہ دیکھ رہی ہیں ۔
تمام شب یونہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
تم بھی گھر میں رہا کرو محسن
گھر بناتے ہیں لوگ رہنے کو
لیکن محسن کو دربدر رہنا اچھا لگتا تھا۔ اُس کا راستہ ہی اُس کی منزل تھا۔ کسی کی جستجو، تلاش اوراُمنگ اُسے قریہ بہ قریہ ، کوبکو سر گرداں رکھتی تھی ۔اسے ایسا کون پکارتا تھا جس کی آواز صرف اسی کو سنائی دیتی۔
یہ کس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کس نے آواز دی کہ آوٴ ، اداس لوگو
اور پھر محسن اُس آواز کے پیچھے دوڑ پڑتا۔ وہ رات کو کچھ دیر کے لیے شاید سوتا بھی اسی لیے تھا کہ خواب میں ہی کچھ اور سفر طے کر لے کیونکہ رائیگاں اور خالی نیند اُس کے نزدیک موت تھی۔ وہ زندگی کو خواہشوں، خراشوں ،خیالوں اور خوابوں سے عبارت کرتا تھا ۔اُسے صحرا میں بہتی چاندنی کا سکوت اچھا لگتا تھا ۔
شامِ تنہائی غم نہ کر کہ ترا
کوئی بھی ہم سفر نہیں ، ہم ہیں
بات ہو رہی تھی محسن نقوی کی مشہورِ زمانہ غزل ” آوارگی” کی، آوارہ کا اسمِ کیفیت ، فارسی کے لفظ آوارگی کو بطور ردیف غزل میں اس طرح برتنا کہ ہر شعر میں یہ لفظ نئے معانی و مفاہیم کے ساتھ سامنے آئے، محسن کی شاعرانہ خداداد صلاحیت کا واضح ثبوت ہے۔ سامعین کی اکثریت کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ ہم گائی جانے والی شاعری کے لفظوں پہ اتنا دھیان نہیں دیتے بلکہ دھن، ساز اور گلوکار کی آواز
میں ڈوب جاتے ہیں ۔
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا ،آوارگی
اب پہلے مصرعے میں ہی دل کے بجھنے کا سبب آوارگی ہے یا پھر اپنی اس کیفیت کے بارے میں آوارگی کو اپنا ہمدم دیرینہ جانتے ہوئے اُسے دل کا حال دیا جارہا ہے۔
اِس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا، آوارگی
یہ شکست و ریخت، دم توڑتے اقدار ،اور معدوم ہوتی ہوئی تہذیبِ کا نوحہ ہے۔ایک اور جگہ اسی مضمون کو کچھ یوں باندھتے ہیں ۔
مری وستعوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو
مرا گاؤں شہر کے پاس تھا ،سو نہیں رہا
محسن نقوی کو اپنے شہر سے، اپنے شہر کے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی۔ جہاں جینے کے لیے اس نے لاہور کا انتخاب کیا وہاں مرنے کے لیے اُسے ڈیرہ غازی خان پسند تھا۔ لیکن وہاں کی تنگ نظری، گھٹن، تشددسے لبریز قبائلی اور جاگیردارانہ
نظام نے اسے وہاں سے دور زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیا۔
محسن بھلا اس شہر میں کیسے جیئں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا، آوارگی
ایسے حالات میں جہاں کھل کے زندگی کرنا دشوار ہو وہاں جینے سے زیادہ خواہشِ مرگ دل میں گھر کر جاتی ہے۔ اور پھر شاعر پکار اٹھتا ہے۔
حال مت پوچھ عشق کرنے کا
عمر جینے کی شوق مرنے کا
خودکشی کو بھی رائیگاں نہ سمجھ
کام یہ بھی ہے کر گزرنے کا
ایسی گٹھن کہ ایک زندان کی سی کیفیت۔
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آکر دیکھا
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے؟ اُس نے کہا، آوارگی
محسن بے شکل چہروں سے دور بھاگتا تھا چاہے وہ آمریت کی صورت میں ہوں یا جاگیردارانہ نظام کی، وہ شاعر تھا سچا اور کھرا شاعر اُسے ریشمی زلفیں اور نیلم آنکھیں پسند تھیں ۔اس لیے اس نے آوارگی کی ردا اوڑھی، اس نے اپنی فکر کو صرف ایک شہر، ایک علاقے تک محدود نہ رکھا۔ اس نے بے گھری کے عذاب تو جھیلے لیکن اس مسافت سے مشاہدات و تجربات کے کئی ان چھوئے مضامین اپنی شاعری میں پروئے،یوں اُس کا فن ہر باذوق کے دل کی دھڑکن بن گیا ۔ اور جسے ہم سب گنگنا رہے ہیں ۔
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا ، آوارگی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...