آج – 15؍جنوری 1996
قطعہ نگار، مرثیہ نگار، غزل اور نظموں کے مقبول پاکستانی شاعر” محسنؔ نقوی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد غلام عباس اور محسنؔ تخلص تھا۔ ۵؍مئی۱۹۴۷ء کو ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول، ڈیرہ غازی خاں میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خاں(موجودہ نام ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ) میں تعلیم پائی۔ بعد ازاں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری میں شفقت کاظمیؔ اور عبدالحمید عدمؔ سے رہنمائی حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ ’’ہلال‘‘ میں باقاعدہ ہفتہ وار قطعہ اور کالم لکھنا شروع کیا۔ اسی سال ملتان کے روزنامہ ’’امروز‘‘ میں ہفتے وار کالم لکھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۹۶ء کو لاہور میں کسی نامعلوم شخص کی گولی سے جاں بحق ہوگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’گنبدِ قبا‘، ’برگِ صحرا‘، ’ریزہ حرف‘، ’موجِ ادراک‘، ’ادائے خواب‘، ’عذابِ دید‘، ’طلوعِ اشک‘،حق ایلیا، ’رختِ شب‘، ’خیمہ جاں‘، ’فرات فکر‘، ’میرا نوحہ انھی گلیوں کی ہوا لکھے گی‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:386
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
مقبول شاعر محسنؔ نقوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
پلٹ کے آ گئی خیمے کی سمت پیاس مری
پھٹے ہوئے تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے
—
چنتی ہیں میرے اشک رتوں کی بھکارنیں
محسنؔ لٹا رہا ہوں سر عام چاندنی
—
دشتِ ہستی میں شبِ غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رختِ سفر سناٹا
—
اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا ، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
—
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
—
سفر تو خیر کٹ گیا
میں کرچیوں میں بٹ گیا
—
شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
—
گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ
چھینٹے اڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے
—
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
—
وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی
ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی
—
کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے مرا موضوعِ سخن جانتے ہیں
—
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
—
کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
—
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے
—
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں
—
اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا
—
کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ڈھل جائے تو محسنؔ تم بھی گھر جایا کرو
—
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
—
میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی
مجھے خود سے بھی وحشت ہو رہی تھی
—
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
—
عذابِ دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
—
عمر اتنی عطا کرمیرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
—
کسی کو دیکھ کے چپ چپ سے کیوں ہوئے محسنؔ
کہاں گئے وہ ارادے سخن وروں والے
—
میں نے جب یاد کیا یاد وہ آیا محسنؔ
اس سے زیاده اُسے پابندِ وفا کیا کرنا
—
اس شخص سے میرا ملنا ممکن ہی نہیں تھا
میں پیاس کا صحرا وہ برسات کی مانند
—
ھم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارہ محسنؔ
—
بس ایک تُو ہی سبب تو نہیں اداسی کا
طرح طرح کے دلوں کو ملال ہوتے ہیں
—
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ! ﺗُﻮ ﻧﮯ ﺟﺴﮯ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﮐﯽ
ﺗِﺮﮮ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ،، ﮈﮬﻞ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ
—
ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﺎﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﭩﺘﺎ
ﺑﮭﯿﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
—
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
—
محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
—
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
●•●┄─┅━━━★•••★━━━┅─●•●
محسنؔ نقوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ