آج – ٢٢؍ستمبر ٢٠١٠
پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز شاعر” محسنؔ احسان صاحب “ کا یومِ وفات…
نام احسان علی اور تخلص محسنؔ ہے۔ کسی زمانے میں یہ احسان نیر تھے ، پھر احسان محسن ہوئے اور اب محسن احسان ہیں۔ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو پشاور کے خوش حال گھرانے میں پید ا ہوئے۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا اور اسلامیہ کالج پشاور کے شعبہ انگریزی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔محسن احسان کی محبوب صنف غزل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’ناتمام‘، ’ناگزیر‘، ’نارسیدہ‘، ’اجمل و اکمل ‘ (نعتیہ کلام)، ’مٹی کی مہکار‘(قومی نظموں کا مجموعہ)، ’اضافہ‘۔ انگریزی کے تین ڈراموں کے اردو تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:279
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر محسنؔ احسان کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اب دعاؤں کے لیے اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ بھی
بے یقینی کا تو عالم تھا مگر ایسا نہ تھا
—
صبح سے شام ہوئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں
کوئی ایسا نہیں آ کر جو منا لے مجھ کو
—
میں منقش ہوں تری روح کی دیواروں پر
تو مٹا سکتا نہیں بھولنے والے مجھ کو
—
میں خرچ کار زمانہ میں ہو چکا اتنا
کہ آخرت کے لیے پاس کچھ بچا ہی نہیں
—
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے
—
مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا
اگر وہ ابر کرم ہے تو کھل کے برسے گا
—
آنکھ تشنہ بھی نہیں ہونٹ سوالی بھی نہیں
یہ صراحی کہ بھری بھی نہیں خالی بھی نہیں
—
ہوا میں اٹھتے رہے ہاتھ بے سبب محسنؔ
چمک دعاؤں کی تاثیر تک نہیں پہنچی
—
مجھے تلاش ہمیشہ نئے چراغوں کی تھی
کہ آسمانوں کے شمس و قمر پرانے تھے
—
لباس تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملک خدا داد کے سوالی ہیں
—
خود ہم نے کاٹ کاٹ دی زنجیر سانس کی
خود ہم نے زندگی کا سفر مختصر کیا
—
گزر کچھ اور بھی آہستہ اے نگارِ وصال
کہ ایک عمر سے میں تیرے انتظار میں تھا
—
موت سے یاری نہ تھی ہستی سے بے زاری نہ تھی
اس سفر پر چل دیئے ہم جس کی تیاری نہ تھی
—
خلوص ہو تو دعا میں اثر بھی آتا ہے
شجر ہرا ہو تو اس میں ثمر بھی آتا ہے
—
گم اس قدر ہوئے آئینۂ جمال میں ہم
اسی کو ڈھونڈتے ہیں اس کے خد و خال میں ہم
—
بہت دنوں سے تھی مدھم چراغ درد کی لو
خود اپنی آنچ سے شعلہ بجاں ہوا ہے یہ دل
—
کسی کے سامنے اظہار دردِ جاں نہ کروں
ادھر ادھر کی کہوں زخمِ دل عیاں نہ کروں
—
بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی
مگر چراغ میں کچھ روشنی انا کی تھی
—
سبک روان رہ غم نے زندگی محسنؔ
مسافرانہ گزاری قیام سے پہلے
—
ہم بھی زندہ ہیں عجب کاوش اظہار کے ساتھ
گفتگو کرتے ہیں گھر کے در و دیوار کے ساتھ
—
صوفیٔ شہر مرے حق میں دعا کیا کرتا
خود تھا محتاج عطا مجھ کو عطا کیا کرتا
—
اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا
دل پہ ہوتا ہے گماں شہر ہے دریاؤں کا
—
محسنؔ احساں کا ہے انداز جنوں سب سے الگ
یہ جلالی بھی نہیں ہے یہ جمالی بھی نہیں
┅┈•✿ ͜✯ ━━━ ✿ ❀ ✿ ━━━ ✯͜ ✿•┄┅
محسنؔ احسان
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ