ان کا نام محمد انوار الدین تھاوہ 4دسمبر1928کو سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے قصبہ میانی میں پیدا ہوئے تھے اردو ادب کی اس باکمال شخصیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دراصل وہ سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ ہولڈر تھے مگر بعد ازاں انہوں نے ایم اے اردو کیا اور اس امتحان میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیااور اس کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی بھی اسی یونیورسٹی سے کی اور اس میں ان کے مقالہ کا عنوان،اردو ادب کی تحریکیں ،تھاوہ محکمہ آبپاشی سے ،ایگزیکٹو انجینئر، کی پوسٹ پر ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے اور پھر کل وقتی ادیب بن گئے۔انہوں نے اردو ادب کی ہر صنف کی طرف پوری دیانتداری سے توجہ کی اور اس بارے اپنے خیالات کی وجہ سے اہل ِ ادب کو چونکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مرحوم محمد انوارالدین جنہیں دنیا ،ڈاکٹر انور سدید کے نام سے جانتی ہے نے تنقید،افسانہ،انشائیہ،شاعری،خاکہ،کالم نگاری،جائزہ نویسی،شخصیت نگاری،ادارت،ادبی صحافت غرض ہر میدان میں جھنڈے گاڑے اور اہلِ ادب سے داد پائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 20مارچ2016کو وہ اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر خالقِ کائنات سے جا ملے۔۔۔۔وحید احمد زمان نے شاید انور سدید ہی کے لئے کہا ہے کہ
جہانِ نو کی فضا میں اترنے والا ہوں
میں زندگی کے لئے پھر سے مرنے والا ہوں
میں اک جہاں کے لئے ڈوب جاؤں گا لیکن
میں اک جہاں کی نظر میں ابھرنے والا ہوں
اس نابغہ عصر انسان کے بارے میں کوئی کیا کہے۔۔؟خاکسار جب ،روزنامہ خبریں لاہور، میں ،سب ایڈیٹر، تھا تو انور سدید صاحب وہیں ہوتے تھے اور ،خبریں ، کے چیف ایڈیٹر جناب ضیا شاہد سمیت سب ہی لوگ ان کا بہت احترام کیا کرتے تھے مرحوم صرف اردو ہی نہیں انگلش کی بھی ،ڈکشنری، کہلاتے تھے کوئی بھی مشکل سے مشکل لفظ ہوتا اس کا مطلب سیکنڈوں میں بتا دیتے تھے لیکن ان کی احمد ندیم قاسمی سے ،دشمنی ،کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی ایک بار انہوں نے اپنی تحریر میں ایسا جملہ لکھ دیا جو خاصا متنازع سا تھا اور اس کی اشاعت سے احمد ندیم قاسمی کے چاہنے والے اور خود احمد ندیم قاسمی ناراض ہو سکتے تھے اس بات کی خبر جب ،خبریں ، کے میگزین ایڈیٹر ممتاز شفیع(جنہیں سب ،میم شین، کہا کرتے تھے) نے ضیا شاہد کو بتائی تو وہ غصے میں آگئے اور کہا کہ ۔۔۔۔یہ قصہ ہی ختم کرو۔۔۔بٹھاؤ قاسمی اور آغا کو آمنے سامنے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھر بعد ازاں وہ جملے شائع نہ کیے گئے اور مجھے علم ہوا کہ پہلے بھی ایک بار جناب انور سدید کے کسی ایسے جملے پر تنازع سا پیدا ہو گیا تھا۔۔۔۔خیرانورسدید وہ آ دمی ہیں جن کی ادبی خدمات کو سراہنے والوں میں جناب مشفق خواجہ،ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی،ڈاکٹر سہیل بخاری،،مرزا ادیب،غلام الثقلین نقوی،حنیف باوا،جوگند پال،بلراج کومل،ڈاکٹر سلیم اختر(جو علیل ہیں اور ان کے لئے بھی دعائے صحت کی گزارش ہے)،ڈاکٹر وزیر آغا،شمس الرحمن فاروقی،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور اس طرح کی بہت سی دوسری اہم ہستیاں شامل ہیں یہاں ڈاکٹر وزیر آغا کے جناب انور سدید کے بارے میں خیالات سنتے جائیں ذرا۔
’’ شرفا دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کی شرافت ان کی داخلی کمزوری یا بزدلی کا نتیجہ ہے ۔دوسرے وہ جو اپنی داخلی قوت اور کر گزرنے کی صلاحیت کے باوصف شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،انور سدید کی شائستگی موخر الذکر نوع سے تعلق رکھتی ہے۔یہ شائستگی ایک طرف تو ان کی سنبھلی ہوئی شخصیت میں خود کو اجاگر کرتی ہے اور دوسری طرف ان کے شائستہ ادبی اسلوب میں۔مگر ان کی داخلی توانائی اس شائستہ اسلوب کو ایک انوکھا تیقن،اعتماد،کاٹ اور چبھن عطا کرتی ہے جوایک بالکل نئی بات ہے۔
آئیے اب آخر میں ان کی ادبی خدمات کا سرسری سا جائز ہ لیتے ہیں
تنقیدی کتب:
فکر و خیال،اختلافات،کھردرے مضامین،نئے ادبی جائزے،شمع اردو کا سفر،برسبیلِ تنقید،موضوعات،اردو افسانے کی کروٹیں،اردو نظم کے اربابِ اربعہ،خطوط کے آئینے میں،مشفق خواجہ۔ایک کتاب
اقبالیات:
ْٓؓٓؒ اقبال کے کلاسیکی نقوش،اقبال شناسی اور ادبی دنیا،اقبال شناسی اور اوراق
تحقیق:
اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش،اردو ادب میں انشائیہ،اردو ادب میں سفرنامہ
شخصیت نگاری:
مولاناصلاح الدین احمد۔ایک مطالعہ(بہ اشتراک ڈاکٹر وزیر آغا)،مولانا صلاح الدین احمد۔فن اور شخصیت،وزیر آغا۔ایک مطالعہ،شام کا سورج،پاکستان کا ایک بطلِ جلیل۔حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدری،بانو قدسیہ۔شخصیت اور فن،پروفیسر غلام جیلانی اصغر۔شخصیت اور فن،فرخندہ لودھی ۔شخصیت اور فن
انشائیے:
ذکر اس پری وش کا،آسمان میں پتنگیں
کلاسیکی شعراء پر کتب:
میر انیس کی اقلیمِ سخن،غالب کا جہاں اور،میر انیس کی قلمرو
تاریخِ ادب کی کتب:
ارود ادب کی تحریکیں(مرحوم کی سب سے زیادہ پڑھی جانی والی کتاب۔ہجرہ ایوارڈ یافتہ)،اردو ادب کی مختصر تاریخ،پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ
طنزو مزاح:
غالب کے نئے خطوط،(پیروڈی)،دلاورفگاریاں
خاکہ نگاری:
محترم چہرے،قلم کے لوگ،ادیبانِ رفتہ،زندہ لوگ
سفرنامہ:
اپنے وطن میں،دلی دور نہیں
تراجم:
زلفی بھٹو آف پاکستان،کشمیر سرد جہنم،شہزادی ڈیانا کی محبت،فریب کار،مائی فیوڈل لارڈ،ایک بے عنوان کتاب،مون اسٹون
جائزے:
نئے ادبی جائزے،ادب کہانی،کچھ وقت کتابوں کے ساتھ،جائزہ اردو ادب
اردوکالم نگاری:
روزنامہ مشرق،لاہور،روزنامہ جسارت،لاہور،ہفت روزہ زندگی،لاہور،روزنامہ حریت،کراچی،ماہنامہ قومی زبان،کراچی،روزنامہ خبریں ،لاہور،روزنامہ نوائے وقت،لاہور
انگریزی کالم نگاری:
ُٓپاکستان ٹائمز،لاہور،دی اسٹیٹسمین،کراچی
تالیفات:
ٓآخری نظمیں،راجہ مہدی علی خان،بہترین ادب،رادھے شیام کے نام،بہترین نظمیں،جدید اردو شاعری(بہ اشتراک ڈاکٹر وزیر آغا)،وزیر آغا کے خطوط(انور سدید کے نام)،مکالمات(انٹرویوز۔ڈاکٹر وزیر آغا)،اردو افسانہ۔عہد بہ عہد،سخن ہائے گسترانہ(مشفق خواجہ کے کالم)،سن تو سہی(مشفق خواجہ کے کالم بہ اشتراک خواجہ عبدالرحمان طارق)
کتابوں پر تبصرے:
نوائے وقت ۔سنڈے ایڈیشن میں
ٓادارت:
ماہنامہ قومی زبان،سرگودھا،ماہنامہ اوراق،لاہور،ماہنامہ قومی ڈائجسٹ،لاہور،روزنامہ خبریں لاہور،روزنامہ نوائے وقت ،لاہور
اور آج اس قدراعلیٰ اور شاندار ادبی سرمایہ کا حامل ایک عظیم انسان ہم میں نہیں رہا ہے طاہر نظامی نے ڈاکٹر انور سدید بارے کیا خوب شعر کہا ہے ذرا دیکھئے تو
۔
بانٹتے ہیں جو پیار لوگوں میں
مثلِ انور سدید ہوتے ہیں
ڈاکٹر انور سدید کی ایک حمدباری تعالیٰ کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
اے خدا کربِ نا صبوری دے
درد بھی دے تو لا شعوری دی
رب کعبہ مری گزارش ہے
مجھ کو دیدارِ آنحضوریﷺ دے
مجھ کو کچھ خواہشِ دوام نہیں
زندگی دے مگر ادھوری دے
ہے یہ انور سدید کی عرضی
اس کو منظوری ضروری دے
اور اب آخر میں ڈاکٹر انور سدیدمرحوم کا ایک خوبصورت شعر
ڈھونڈ اپنا آشیانہ آسمانوں سے پرے
یہ زمیں تو ہو گئی نا مہرباں انور سدید