آج – ٢٩؍ستمبر ١٩٣٢
ایک نئی صنف سخن نظمانے کے موجد اور اردو کے مقبول شاعر” محسنؔ بھوپالی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام عبدالرحمن، تخلص محسنؔ بھوپالی ٢٩؍ستمبر١٩٣٢ء کو بھوپال مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔ محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز ١٩٤٨ءسے ہوا اور وہ کم و بیش ساٹھ سال تک ادب کے میدان میں فعال رہے۔ اس دوران ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں
”میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیئے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن“ شامل ہیں۔ محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ ١٩٦١ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اردو میں لکھی جانے والی کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔
محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔
تلقین اعتماد وہ فرمارہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسنؔ بھوپالی کا انتقال ١٧؍جنوری ٢٠٠٧ءکو کراچی میں ہوا۔ وہ پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مقبول شاعر محسنؔ بھوپالی کے یومِ پیدائش پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
اب کے موسم میں یہ معیارِ جنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے
—
ایک مدت کی رفاقت کا ہو کچھ تو انعام
جاتے جاتے کوئی الزام لگاتے جاؤ
—
اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح
آج خود اپنے طلب گار ہیں ہم
—
زندگی گل ہے نغمہ ہے مہتاب ہے
زندگی کو فقط امتحاں مت سمجھ
—
بدن کو روندنے والو ضمیر زندہ ہے
جو حق کی پوچھ رہے ہو تو حق ادا نہ ہوا
—
لفظوں کے احتیاط نے معنی بدل دیئے
اس اہتمامِ شوق میں حسن اثر گیا
—
کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہوگا
تو نہیں ہوگا تری بزم میں آنا ہوگا
—
کس قدر نادم ہوا ہوں میں برا کہہ کر اسے
کیا خبر تھی جاتے جاتے وہ دعا دے جائے گا
—
ابلاغ کے لئے نہ تم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا
—
لفظوں کو اعتماد کا لہجہ بھی چاہئے
ذکرِ سحر بجا ہے یقینِ سحر بھی ہے
—
سورج چڑھا تو پھر بھی وہی لوگ زد میں تھے
شب بھر جو انتظار سحر دیکھتے رہے
—
یہ میرے چاروں طرف کس لیے اجالا ہے
ترا خیال ہے یا دن نکلنے والا ہے
—
خندۂ لب میں نہاں زخمِ ہنر دیکھے گا کون
بزم میں ہیں سب کے سب اہلِ نظر دیکھے گا کون
—
سوچا تھا کہ اس بزم میں خاموش رہیں گے
موضوعِ سخن بن کے رہی کم سخنی بھی
—
بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن
ہیں تیرے خواب کی راتیں ترے خیال کے دن
—
اے مسیحاؤ اگر چارہ گری ہے دشوار
ہو سکے تم سے نیا زخم لگاتے جاؤ
—
روشنی ہیں سفر میں رہتے ہیں
وقت کی رہِ گزر میں رہتے ہیں
—
صدائے وقت کی گر باز گشت سن پاؤ
مرے خیال کو تم شاعرانہ کہہ دینا
—
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
—
اے نازشِ صد رنگ نہ کر ان سے تغافل
ہے خاک نشینوں سے تری گل بدنی بھی
—
خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کر دے گا
—
بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
—
وہ زندگی کو نیا موڑ دے گیا محسنؔ
یہی زوال کے دن ہیں مرے کمال کے دن
✧◉➻══════════════➻◉✧
محسنؔ بھوپالی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ