دھند ہے ، دھند میں ہاتھوں کا پتا چلتا نہیں
لمس کوئی مرے کاندھے پہ دھرا رہتا ہے
سر گراں پھرتی ہے ،چکراتی ہے
ایک انجان مہک
میرے ہر خواب کی راہداری میں
گنگناہٹ سی کوئی
ساتھ اپنے لیے پھرتی ہے مجھے
کتنی راتوں سے گزرتا ہوں
اس اک رات کی سرشاری میں
جس نے مجھ پر کبھی
اسرار طلب کھولنا ہے
تیر کوئی مرے پہلو میں اترنا ہے کہیں
اک پرندہ ہے جسے
میرے ہونٹوں پہ کبھی بولنا ہے
ایک بادل ہےجسے ، میری جلتی ہوئی مٹی پہ
برسنا ہے کہیں
ایک دیوار ہے جس سے میں نے
اپنے اس گھومتے سر کو
کبھی ٹکرانا ہے
تو تکلّم میرا ، لکنت میری
تو میری تشنہ لبی میری لگن
تو زمیں پر مرے ہونے کا سبب میرا گمان
تو وہ اک نغمہ نو …
جس کو ترستی ہے سماعت میری
تو وہ لمحہ جو مرے بس میں نہیں
میں جو رنجیدہ ہوں ،تو رنج میرا
تو مرے دل کی دکھن ،میری تھکن
میں تیری سمت ہما وقت رواں
دھند ہے
دھند میں رستے کا پتا چلتا نہیں
آنکھ بھرتی ہے ،چھلک جاتی ہے
ڈھونڈتا ہوں تجھے اس بے سر و سامانی میں
ڈوبتا اور ابھرتا چلا جاتا ہوں
میں دن رات کی طغیانی میں
تو مرے پاس نہیں ،دور نہیں
تو وہ معلوم جو معلوم نہیں
اے کہ وہ تو !
کسی موہوم ستارے کی طرح
کہیں موجود اگر ہے بھی
تو موجود نہیں