موئینجودڑو سے پاکستان تک
میرا ذاتی طور پر کبھی بھی کسی سیاسی جماعت سے کوئ تعلق نہیں ھے اور ناں ھی کبھی تھا، عرصہ ھوا اب تو شخصیت پرستی بھی چھوڑے ھوے، آج جب لوگ خدا کے وجودیت و ھستی پر سوال اٹھا رھے ھیں تو جناب کجا بندے کی وقعت و اہمیت؟ سب انسان ھیں اور سبھی اپنی اپنی انانیت اور خودی کے محور کے گرد گھوم رھے ھیں بس اسی گردش کا نام " میں " ھوں، وہ الگ بات ھے اس گردش ناقص کو ھم ازلی و حقیقی سمجھتے ھیں۔ جبکہ یہ وہ لٹو ھے جسے ایک ناں ایک دن تو لڑھکنا ھی ھوتا ھے۔
سماجی علوم میں افراد اور قوموں کی اجتماعی نفسیات سمجھنے کے لئے ھم ایک ٹول استمعال کرتے ھیں جسے تجزیہ مواد کہتے ھیں(Content analysis). اس میں کسی بھی قوم یا ملک کے لوگوں کے سماجی اور نفسیاتی رجحان اور رویوں کی پیمائش، ان ھی لوگوں کے ادب۔۔۔افسانوں ۔۔۔تاریخی رجحانات ۔۔روزمرہ کی گفتگو میں بولے جانے والے اجتماعی الفاظ سے لگائ جاتی ھے۔۔
چند دن ھوے میری بیٹی جو کہ میڈیکل پڑھ رھی۔ ٹریننگ پر کینیڈا گئی۔ حالانکہ برطانوی پاسپورٹ ھونے کے باوجود جب انہیں پتہ چلا کہ پاکستانی پیدائش ھے لائن سے باھر نکال کر ایک گھنٹہ تک مختلف سوال و جواب ھوے اور ایک ایک چیز کی تلاشی لی گئی۔ جبکہ ساتھ سفر کرنے والی لڑکی مسلمان تھی مگر برطانوی پیدائش تھی اس لئے کوئ سوال جواب نہیں۔۔۔ دنیا ھمیں کیوں دھشت کی علامت سمجھتی ھے؟
ڈاکٹر سے سوال تھا کہ کون کون سا اسلحہ تمھارے پاس ھے؟ بیٹی کو غصہ تو بہت آیا مگر خاموش رھی ۔
کیوں ایک لگا بندہ دنیا کا رویہ (stereotype) ھمارے مطلق قائم ھو چکا ھے؟ اگر دنیا ھمھارے اجتماعی متشدد رویہ کی وجہ سے ھمیں جانتی ھے تو کیوں؟ اس paranoid کے ھم ذمے دار ھیں یا پوری دنیا ھی پاگل ھو چکی ھے؟
آج دنیا بھر کے تاریخ دان اور ماھر سماجیات و نفسیات و آرکیالوجیسٹ بھی ھماری وجہ سے حیران و پریشان ھیں جب آج سے چار ھزار سال قبل دنیا کا ھر گروپ اور قبیلہ بغیر اسلحے کے زندہ رھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا دنیا میں ایک قوم اور ملک ایسا بھی تھا جنہیں پتہ ھی نہیں تھا کہ تلوار اور بھالا کلہاڑی بھی کوئ چیز ھوتی ھے وہ قوم اسقدر پر امن تھی کہ انہیں اسلحے کی کبھی ضرورت ھی محسوس نہیں ھوئ تھی، جی ھاں جناب میں بات کر رھا ھوں آج سے چار ھزار سال قبل والے پاکستان کی، پورے موئینجودڑو اور ھڑپہ کے کھنڈرات سے ایک بھی تلوار۔۔بھالا یا کلہاڑی جنگی سامان برآمد نہیں ھوا مزے کی بات تو یہ ھے یہ لوگ گھوڑے سے بھی ناآشنا تھے یاد رھے گھوڑا سواری کے علاوہ سماجی زندگی میں بادشاہت اور تکبر کی علامت بھی ھے۔ آریہ چار ھزار سال قبل وسط ایشیاء سے تلواروں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ھو کر پہاڑوں سے نیچے اترے تھے۔ چنانچہ آریوں سے لے کر یونانیوں۔۔۔ترکوں۔۔۔ عربوں ۔۔۔مغلوں اور پرتگیز ۔۔۔انگریزوں تک ھم نے تلوار اور اور تشدد اور خونریزی ھی دیکھی اور بھگتی ھے۔ لہذا تشدد اور خونریزی اب ھماری رگوں میں دوڑنے لگا ھے۔ لہذا 1947 کی آزادی کا جشن بھی ھم نے دو ڈھائی لاکھ انسان قتل کرکے منایا تھا یاد رھے پہلا خون اور بلوہ راولپنڈی میں ھوا تھا۔
یاد رھے جہاں اسلحہ نہیں ھوگا وھاں فوج بھی نہیں ھوگی اور جہاں فوج نہیں ھوگی وھاں کوئ جرنیل بھی نہیں ھوگا۔ ھماری بدقسمتی ھے کہ ھم آزاد ھونے سے پہلے ھی مفاد پرست نوابین ۔۔۔پیروں اور گڈی نشینوں اور سیاست دانوں کے ھاتھوں غلام بن چکے تھے۔ رھی سہی کسر انڈین ایجنٹ جرنیل علی شیر ( نواب آف پٹودی کا کزن اور اداکار سیف علی خان کا چاچا) نے پوری کر دی تھی۔موصوف آزادی کے کئی سال بعد پاک فوج میں شامل ھوے تھے۔ فوج کو حکومت میں پاوں پھنسانے کے گر سیکھانے لگے اور ان کے کرتوتوں کی مکمل داستان حسین حقانی صاحب نے اپنی کتاب "مولوی مسجد اور فوج" میں پوری طرح بیان کی ھے۔
اسے پاکستانیوں کی بدقسمتی ھی کہا جا سکتا ھے کہ کچھ چیزیں ھمارے اجتماعی لاشعور (collective unconscious ) میں رچ بس چکی ھے کہ جیسے کوئ نجات دھندہ آکر ھمیں دنیا کی عظیم قوم بناے گا. لہذا پچھلے ستر سال سے نجات دھندے ھی تلاش کیے جا رھے ھیں ۔ اور پھر جسے ایک دفعہ اپنا نجات دھندہ سمجھ لیا تو پھر خدا اور رسول کے بعد سب کچھ ویہی ھے مگر خود دنیا کا ھر فراڈ دھوکہ غلط کام کر چکے ہیں جو سوچا اور کیا جاسکتا ھے یا یوں کہ لیں جو جس کی دسترس میں ھے وہ کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
ھم انتہائی توھم پرست اور بہت بہت حد تک افواہ پرست لوگ ھیں۔ (یاد رھے یہ سماجی نفسیات پورے برصغیر پر لاگو ھوتی ھے) خود کو ھر علم کا ماھر سمجھتے ھیں(سواے اس کام کے جس کی تنخواہ سرکار ھمیں دیتی ھے)
اس متکبرانہ سوچ کو جو ذھنی امراض میں(Grandiosity) کہتے ھیں۔ ھر شارٹ کٹ اور غلط کام کو اپنے لئے جائز سمجھتے ھیں دوسرے کے بڑے سے بڑے نقصان کو اپنے چھوٹے سے چھوٹے مفاد پر مقدم سمجھتے ھیں
ساری دنیا ھماری دشمن ھے (collective Paranoia ) ساری دنیا ھماری دشمن کیوں ھے اس بات کا ھم جواب کبھی بھی تسلی بخش نہیں دے سکے ھیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ھے ھمارے عقیدے اور مذھب کی وجہ سے۔ تو جناب آپ مذھب اور عقیدے پر عمل کتنا کرتے ھیں یہ ھماری روز مرہ کی زندگی سے عیاں ھے۔
اب آتے ھیں اصل موضوع کی طرف مندرجہ بالا خوبیاں جو ھم ۔۔۔ عوام میں پائ جاتی ھیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ھمارے خواص نے یعنی ان مٹھی بھر خاص لوگوں نے جنہوں نے ھم پر ھمیشہ حکومت کرنی ھوتی ھے۔
یہ تین چار چہروں والے ھوتے سب سے آگے اصطبلشمنٹ اور جرنیل ھے اس کے بعد جاگیردار ھوتا ھے جو اب جدید ماڈرن ھو کر سیاست دان صنعتکار اور آخیر میں مولوی ھوتا ھے (پیر ۔۔مرشد۔۔گڈی نشین اور بہت ساری قسمیں ھوتی ھیں) یاد رھے پچھلے ستر سال سے جمہوریت نام کی رقاصہ جو ٹھمکے لگا رھی ھے سب ان کے اشاروں پر ھی ناچتی ھے۔
پاکستان کے معاملات میں فوج کی مداخلت یوں سمجئے اسی دن سے ھی شروع ھو گئی تھی جب فوج نے بانی پاکستان اور گورنر جرنل پاکستان محمد علی جناح کو مطلع کئے بغیر اور پاکستان کے پہلے اور غیر مسلم چیف آف آرمی اسٹاف جنرل گریسی کے منع کرنے کے باوجود " نامعلوم " لوگوں کی شہ پر کشمیر پر حملہ کر دیا تھا۔ اور قبائلی اسے ویہی صدیوں پرانا جہاد اور لوٹ مار کا وسیلہ سمجھ کر چڑھ دوڑے اور خوب لوٹ مار قتل وغارت اور بلا امتیاز ھندو مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی۔ اور یہ فیصلہ آج تک عوام کے لئے معمہ بنا ھوا ھے کہ قبائلیوں کو جہاد اور حملے کی شہ کس نے دی تھی ۔اس کے مضمرات یہ ھوے کہ انڈیا نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور تربیت یافتہ آرمی نے قبائلیوں کا ویہی حشر کیا جو آجکل ھماری فوج دھشت گردوں کا کر رھی ھے۔
پاکستانی فوج میں جنرل ایوب خان سب سے خوش قسمت آفیسر تھا۔ اگر پاکستان چند سال اور ناں بنتا تو کبھی جنرل ناں بنتا۔ بلکہ شاید میجر بھی ناں بن پاتا۔ موصوف دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر عین اس وقت جب لڑائی اپنے عروج پر تھی محاذ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ھوا تھا اس کا کورٹ مارشل ھوا تھا اور اس کی فائل پر سرخ پین کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ اسے کبھی بھی کلیدی پوسٹ پر تعینات ناں کیا جاے۔ ( راقم نے پوری رپورٹ اور فائل کا عکس بی بی سی پر چند سال ھوے دیکھا اور پڑھا تھا)۔ مگر فوج کاعمل بڑھانے میں انتہائی خود غرض بیروکریٹ اور لالچی نوابین سیاستدانوں کا بہت بہت ھاتھ تھا۔ فوج کبھی بھی اس قدر ملوث ناں ھوتی اگر عوام خود اس ملک کو دیمک کی طرح ناں چاٹنے شروع کرتی۔ ھندووں اور سکھوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضے۔ اس میں عوام اور سیاستدان دونوں شامل تھے۔ ذخیرہ اندوزی ۔۔۔سیاست دانوں کا دست و گریباں ھونا۔جب فوج نے ملک پر قبضہ جمانا شروع کیا تو اس نے عوام کی اسی نفسیات سے کھیلنا شروع کردیا جس کا اوپر کیا گیا تھا۔اس فارمولے کو ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ تک سب نے استعمال کیا۔سواے جنرل یحیی خان کے وہ موصوف لبرل ازم کے نام پر شراب اور عورتوں سے ھی کھیلتے رھے۔نتیجہ ملک دوٹکڑے ھو گیا۔
ایوب کے الیکشن 1962 (تاریخ غلط ھو تو اصلاح فرمائیں )
سے لے کر 2018 تک قومی اسمبلی کے الیکشن سے لے کر ریفرنڈم اور بلدیاتی الیکشن تک میں یہ بات یقینی دعوی کے ساتھ کہ سکتا ھوں کوئ ایسا الیکشن نہیں ھوا جو سوفیصد فیئر اور شفاف ھوے ھوں۔ ھر طاقتور نے جس کا بس چلا ھے اس نے بےایمانی اور دھاندلی ۔۔دھونس کی ھے۔ جہاں فوج کے مفادات تھے فوج نے دھاندلی کی اور جہاں عوام اور پارٹیوں کے بس چلے انہوں نے دھاندلی کی ھے بس اس حمام میں سب ننگے ھیں البتہ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن سے باقاعدہ ھمارے نامعلوم فرشتے روحانی فرائض انجام دینے لگے ھیں۔ 1988 اسلم بیگ کی مجبوری تھی مگر انہوں نے پیسہ اور مولوی کو آگے کردیا۔۔اس کے بعد اگلے الیکشن حمید گل اور اسامہ بن لادن فرشتے بن گئے تھے۔ اور پھر نامعلوم فرشتوں کے پر اتنے مضبوط ھوگئے کہ جس حکومت کو چاھیں اڑا کر رکھ دیں۔ لہذا نوازشریف کی موجودہ حکومت کو اڑانے اور اس الیکشن میں جس طرح فرشتے کھل کر سامنے آگئے ھیں اس سے اندازہ لگ رھا کہ آئندہ مارشل لاء نہیں لگے گا بلکہ اب مارشل لاء ھمیشہ رھے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“